اسلامی ترکش کا آخری تیر یعنی اورنگ زیب عالم گیررحمہ اللہ رحمة واسعة!

دوسری قسط:

عبد المتین اشاعتی کانڑگاوٴں

            (گزشتہ قسط میں ہندو راجہ ”جے سنگھ“ پر عالم گیر کی خصوصی نوازش کا ذکر کیا گیا، مزید ہندو راجاوٴں پر حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ کی نوازشات کے ذکر سے پہلے عہد عالم گیر میں ہندوٴوں اور مسلموں کی طرف سے بغاوت اور اس کے واضح اسباب ، نیز اورنگ زیب عالم گیر کی دینی غیرت وحمیت جاننے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاکہ یہ پتہ چلے کہ آپ نے بغیر کسی جبر وتشدد کے مسلموں اور غیر مسلموں کے ساتھ وہی سلوک کیا، جو آپ کے اسلام پسند ہونے کا تقاضا تھا، کوئی انصاف پسند آپ کی شخصیت کاموازنہ کسی غیر معتبرشخص ،حکومتِ مغلیہ کے باغی”سیواجی“ سے بالکل بھی نہیں کرسکتا!…ع۔م)

عہدِ عالم گیر میں مسلمانوں اور ہندوٴوں کی بغاوت:

عہدِ عالم گیر فتنہ، آشوب، ہنگامہ وشورش، سرکشی وبغاوت کے طوفان بدوش واقعات سے لبریز ہے، لیکن ان حادثات وواقعات نے عالم گیر کے عزم واستِقلال میں ذرا جُنبش نہ آنے دی۔

عالم گیر کی حکومت صرف دہلی تک محدود نہ تھی، بلکہ بنگال، دکن، آسام، تری پورہ کے دور دست علاقے، دو آبہ گنگ وجمن، مالوہ، وسطِ ہند ان تمام محکوم علاقوں کا وہ بذاتِ خود انتظام کرتا تھا، ملک کے بعید ترین علاقے میں بھی اگر کوئی حادثہ رونما ہوجاتا، تو عالم گیر اُٹھ کھڑا ہوتا، اور جب تک نظم وامن قائم نہ ہوجاتا چین سے نہ بیٹھتا تھا۔

شورش پسند اور باغی مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ مسلمان اس لیے کہ وہ مرکزی حکومت کی (شرعی) پابندیوں سے خوف زدہ تھے، آزاد رہنے کی انہیں عادت سی ہوگئی تھی، اس میں خلل پڑنے کا ڈر تھا، اس لیے چھوٹی سے چھوٹی ریاست مرکز کی مخالفت پر آمادہ ہوجاتی تھی۔اور ہندو اس لیے (باغی تھے) کہ وہ گزشتہ سلاطین (اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں) کی رواداریوں اور عنایتوں کے باعث کافی طاقت ور ہوچکے تھے، اندازِ حکم رانی سمجھ چکے تھے، فوج کے افسر تھے، صوبوں کے گورنر تھے، وزیرِ مالیات تھے، بڑی بڑی مہمات میں مسلم بادشاہوں کے ماتحتی میں جنگیں لڑچکے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ ہم اتنے طاقت ور ہیں پھر خود کی حکومت کیوں نہ بنالیں۔ ہندو حکومت کیوں نہیں ہے، ہونی چاہیے۔ اس طرح کا خیال ”سیواجی“ کے دل میں بھی آیا، اور اس نے اورنگ زیب رحمہ اللہ کے خلاف نکلنے کی ہمت کرلی، اس لیے ملک کے ہر کونے وگوشے سے اس کو مدد ملنے لگی۔ اس کے باوجود غدار ”سیواجی“ نے کھلے میدان کے بجائے گوریلا جنگیں لڑنا پسند کیا، شب خون مارنا اُسے پسند تھا، پُر امن شہریوں پر حملے کرکے اُن کا مال واسباب لوٹ لینااُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

سیواجی اور والیانِ ریاست:

سیواجی والیانِ ریاست (ریاستِ دکن،ریاستِ بیجاپور وغیرہ) کا آلہٴ کار تھا، جو اس کی مدد کررہے تھے۔ کچھ علاقوں پر قبضہ ملنے کے بعد اُس کی ہمت بڑھ گئی، اور وہ مرہٹوں کی ہندوستان پر حکومت کے خواب دیکھنے لگا۔

سیواجی کی پُر فریب کامیابی دیکھ کر اُس کے حامی وطرف دار سوچنے لگے کہ اگر سیواجی کو حکومت مل گئی، تو مسلمانوں سے نجات مل جائے گی، جب کہ وہ ان مسلمانوں سے نجات کی سوچ رہے تھے جنہوں نے یہ ملک فتح کیا تھا، لیکن مفتوح قوم کو کبھی بھی اپنی رواداری اور عالی ظرفی کے باعث یہ محسوس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ مفتوح ہے۔ مفتوح قوم کو اعلیٰ عہدوں اور منصبوں پر فائز کیا۔ کلیدی عہدوں پر مامور کیا۔فوج کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں دی۔ خزانہ اُن کے سپرد کیا۔ دربار کے بلند ترین اَشراف واَعیان کے زمرے میں شامل کیا۔ اُن سے ایسے گھُل مل گئے کہ …” تو من شدی، من تو شدم“ … کا معاملہ ہوگیا۔اتنے کارناموں کے باوجود (غیر مسلم؛ ہندو) مسلمانوں سے اتنے نالاں ہوگئے تھے کہ اُن سے نجات پانے کی تدبیریں کرنے لگے تھے۔

شورش اور بغاوت اڈے:

عالم گیر کو شورش وبغاوت کا احساس ہوچلا تھا، شورش پسندوں اور باغیوں نے متعدد مقامات پر مندروں کو سازش کدہ بنا رکھا تھا، کیوں کہ انہیں اس بات کا اطمینان تھا کہ مسلم حکومت مذہبی معاملات ومذہبی مقامات میں مداخلت نہیں کرتی، وہ مندر میں بیٹھ کر پوجا کریں یا سازش، حکومت کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی۔

جب اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ کو مندروں کی یہ سازشیں معلوم ہوئیں، تو بغاوت وسازش کو کچلنے کا ارادہ کیا۔

متھُرا کا مندر بھی باغیوں اور شورش پسندوں کا بڑا مرکز تھا، چنانچہ اُسے منہدم کردیا گیا، اور جو مندر سازش کدے نہ تھے بلکہ حقیقی معنی میں پرستش گاہ تھے اُن کے ساتھ رواداری کا سلوک برتا گیا۔

بنارس کے جو مندر سازشوں کا گہوارہ تھے منہدم کردیئے گئے، اور جہاں صرف حقیقی پوجا ہوتی تھی، اُن مندروں کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ انہیں بیش بہا آمدنی کی جاگیریں بھی دیں اور پروانے عطا کیے گئے۔

عالم گیررحمہ اللہ کی دینی غیرت وحمیت :

حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ ایک دن دربارِ خاص میں ”خان جہاں“ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

”خان جہاں! اس ملک میں مسلمان تو نظر آتے ہیں مگر اسلام کہیں دکھائی نہیں دیتا ہے۔یہی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ہم نے رواداری کا مفہوم یہ لیا ہے کہ خود بھی اسلام سے بیگانہ ہوجائیں۔ مسلمان اپنی انفرادیت گم کرچکے ہیں۔ وہ غیر مسلموں کے رسم ورَواج اور شعائر سے متأثر ہوچکے ۔ بے داغ اسلامی تہذیب پر ہندو تہذیب سے اثر پذیری کے دھبے اور داغ پڑچکے ہیں، مثلاً:

(۱) جشنِ نو روز۔(اہلِ فارس کا سب سے بڑا تہوار، ایرانی شمسی سال کا پہلا دن، جو کہ عیسوی سن کے مطابق مارچ کا ۲۱/ واں دن ہے)۔(#)

(۲) دربارِ شاہی کے آداب (جس میں مکمل جھُک کر سجدہ کیا جاتا تھا) جب کہ بادشاہ خدا نہیں ہوتا، انسان ہوتا ہے، اُس کے سامنے رکوع کرنے کے بجائے سلام ”السلام علیکم“ کیا جاسکتا ہے۔ اگر لوگ شہنشاہِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے سر بسجود نہ ہوئے، تو کم ترین محی الدین عالم گیر کے سامنے ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے؟!“

(۳)سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال۔

(۴) سونے چاندی کے قلم ودوات۔

یہ سب شرعِ اسلامی میں ممنوع الاستعمال ہیں، پھر دربار میں کیوں ہیں؟!

پھر خان جہاں کو کو مخاطب کرکے فرمایا:

”ہم حکم دیتے ہیں کہ تمام غیر اسلامی آداب فی الفور ختم کردیئے جائیں۔“

عالم گیر مذہبی آدمی تو شروع سے ہی تھا، مگر وہ بادشاہ بھی تھا، آج اُس کا رنگ بدلا ہوا تھا، چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی، دفعةً سر اُٹھایا اور کہا:

”خان جہاں! تم اور نہ صرف تم بلکہ جملہ حاضرینِ دربار سن لیں اور اچھی طرح گرہ باندھ لیں، کہ اگر اس ملک میں عزت، وقار اور شان وشوکت کی زندگی ہمیں بسر کرنا ہے، تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ اپنے اسلام کی ندامت کا اظہار نہ کریں، بلکہ گردن اُونچی کرکے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا اعتراف کریں!“

(سبحان اللہ! جزاہ اللہ خیرا عنا وعن جمیع المسلمین!)

پھر فرمایا:

”ہم مفتوح اور زیر دست قوم کے ساتھ انصاف، رواداری اور عالی ظرفی کا برتاوٴ کرتے رہیں گے۔ اب تک ہر مذہب کے ساتھ روادارانہ اور فیاضانہ برتاوٴ کیا گیا، یہ سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ بے شک جاری رہے گا۔ مفتوح اور زیر دست قوم کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اُبھرنے کا موقع دیا جائے گا۔ درباری مناصب اورسرکاری ملازمتوں میں شامل کیا جائے گا۔…راجہ جے سنگھ دربارِ شاہی کا سب سے بڑا منصب دار ہے، ہمیں اس پر بہت زیادہ اعتماد ہے، یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ”جے سنگھ“ کی وفاداری، جاں نثاری اور خلوصِ بے ریا کی ہمارے دل میں عظمت ہے۔ ہمیں اس پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا خود اپنی ذات پر۔اعلیٰ سرکاری ملازمتیں اور کلیدی عہدے بھی ہم نے غیر مسلموں کو دینے میں کبھی تأمل نہیں کیا۔ اگر وہ حکومت کے وفادار ہیں تو حکومت ان کی عزت افزائی اور قدر شناسی پر مجبور ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہمارا یہ فیصلہ اٹل ہے کہ اب ہندوستان پر حکومت ”محی الدین اورنگ زیب عالم گیر“ کی نہیں”اسلام“ کی ہوگی۔“

(اس لیے کہ ) یہ (ہندو) لوگ مسلمان کا وجود کسی طرح بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ نہ جلال الدین اکبر کے روپ میں۔ نہ محی الدین عالم گیر کی صورت میں۔ اکبر کے زمانے میں اُن کی تیاریاں مکمل نہیں ہوئی تھیں، عالم گیر کے زمانے میں وہ تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ سیواجی کی بغاوت فردِ واحد کی نہیں بلکہ اُس کے پشت پناہ بہت سے لوگ ہیں۔ (مآثر عالم گیری)(۱)

(#)(المعجم الوسیط عربی اردو)

(۱) ملخص، مقتبس ومستفاد از: اورنگ زیب عالم گیر …مصنف: رئیس احمد جعفری(ندوی، متوفی۱۹۶۸ء)… مطبع: مکتبہ جدید پریس لاہور… اشاعت: ۱۴/ اگست ۲۰۱۳ء… پی ڈی ایف: بشکریہ معرفت ڈاٹ کام(Marfat.com)

جاری………