”اخلاص“ یا”خلاص“؟

نگارش:شفیع احمدقاسمی#اِجرا، مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

 اخلاص کسے کہتے ہیں:

            اخلاص یہ عربی کامشہورلفظ ہے ،جس کے معنی لغت میں کسی چیزکو دوسری چیز سے علاحدہ کرنے،الگ کرنے اورچھانٹ دینے کے ہیں۔مثلاً جب بولاجاتاہے کہ” اَخلصتُ اللبنَ مِن الماءِ اَومِن غیرِہ“ تواِس کامعنی یہ ہوتاہے کہ میں نے دودھ میں کسی چیزکی ملاوٹ نہیں ہونے دی ۔ معلوم یہ ہوا کہ خالص اُسی کو کہیں گے جس میں کسی چیزکی آمیزش اورملاوٹ نہ ہو۔”وان الاخلاصَ ہوافرادُالمعبودعن غیرہ“۔

( المہذب من مدارج السالکین:ص۴۹)

            ہماری شریعت مطہرہ میں بھی تھوڑی سی تخصیص اورقیدکے ساتھ اخلاص اِسی معنی میں استعمال ہواہے ۔ چناں چہ اخلاص نام ہے سارے مامورات کے بجالانے اورمنہیات کے ترک کرنے میں رضائے الٰہی کے علاوہ ایساکوئی ارادہ نہ ہو جو اُس کی نقیض ہو،بل کہ عملِ طاعات اورترکِ معاصی سے مقصود؛صرف رضائے الٰہی ہو۔حکیم الامت حضرت تھانوی (و: ۵/ ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ ،بروز: بدھ/م:۱۵/ رجب المرجب ۱۳۶۲ھ) اپنی ایک تحقیق میں فرماتے ہیں کہ کسی طاعت میں غیر طاعت کا ارادہ نہ کرنایہ اخلاص ہے ۔

اِن کی کوئی حیثیت نہیں:

            اخلاص اورخلوص عقلاً،عرفاًاورشرعاً ہراعتبارسے مطلوب ومستحسن ہے،جوبہت سی نصوص قرآنیہ اور احادیثِ قطعیہ سے ثابت ہے۔چناں چہ اللہ رب العزت کاارشادہے :﴿وَمَااُمِرُوْااِلَّالِیَعْبُدُوْااللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾یعنی دین کے سارے احکامات اِس شرط کے ساتھ معتبرہیں کہ مکلفین اُس کے بجالانے میں مخلص ہوں،ورنہ تواعمال چاہے جتنے بھی ہوں،پہاڑوں کے جیسے ڈھیرکیوں نہ ہوں ،لیکن وہ لاشئیِ محض ہیں،خداکے حضور اُن کی کوئی حیثیت ،کوئی قیمت نہیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اخلص عملک یکفیک العملُ القلیل“یعنی اپنے اعمال میں اخلاص کی خوش بو پیدا کرو، تھوڑاعمل بھی رضائے خداوندی اور تمہاری نجات کے لیے کافی ہے ۔

اخلاص کی حقیقت:

             اِس کوایک مثال سے سمجھناضروری ہے کہ کوئی آدمی دال پکائے،مرغ ومچھلی پکائے،جودل چاہے پکائے، اُس میں تمام مسالہ جات کوبغیرکسی بخالت اورکمی بیشی کے ڈال دے، صرف ایک چیز کم کر دے اوروہ ہے ”نمک “یعنی اُس کھانے میں نمک نہ ڈالے توپھردیکھ لیں کہ کھانا کتنا مزیداربنتاہے؟کھانے والے کتنی شاباشی دیتے ہیں اور کتنی تعریف کرتے ہیں؟ساری محنت اور سارا کھانا ہی چوپٹ ہوکررہ جائے گا اور آپ خودہی یہ کہیں گے کہ” گئی بھینس پانی میں“۔اِس سے معلوم یہ ہواکہ کسی بھی عمل میں اخلاص کی وہی اہمیت اور حقیقت ہے جو کسی بھی کھانے میں نمک کو حاصل ہے،کہ اگرنمک نہ ڈالا جائے تو سارا کھاناہی بے مزہ اور بے کار ہو جاتاہے ۔

درستگیٴ باطن کی اہمیت:

            اِس لیے ہرصاحبِ ایمان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اُس کی ساری توجہ اپنے باطن کومخلص بنانے میں صَرف ہو۔کیوں کہ باطن ہی مرکزومعدن ہے؛ درستگی کی تمام شاخیں و ہیں سے پھوٹتی اورہرطرف پھیلتی ہیں ۔ اِس باطن کی حیثیت ایک پاورہاوٴس جیسی ہے، جہاں سے تمام جسم کوکرنٹ سپلائی کیا جاتا ہے۔جب پاور ہاوٴس ہی میں کسی قسم کی خرابی آجاتی ہے توساراعلاقہ ہی اندھیرے میں ڈوب جاتاہے،بستیوں اورمحلّوں میں ہرسو تاریکی کا راج ہو تا ہے اوربستی کے سارے لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ چناں چہ اِس کی صراحت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں موجودہے ”اِنَّ فِی الْجَسَدِ لَمُضْغَةٌ اِذَاصَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُکُلُّہ وَاِذَافَسَدَتْ فَسَدَالْجَسَدُکُلُّہ ۔اَ لَاوَہِیَ الْقَلْبُ“

            ترجمہ: خبردار!سن لوکہ آدمی کے بدن میں گوشت کاایک لوتھڑاہے ،جب وہ ٹھیک ہوتاہے تو سارا جسم ٹھیک رہتاہے ۔اورجب وہ بگڑتاہے توساراجسم بگڑجاتاہے ۔خوب سن لو!کہ وہ دل ہے ۔

مقصودحیات توحیدواخلاص ہے :

            ہماری اِس چارروزہ دنیوی حیات اورفصل بَہار کامقصدِعظیم توحیدواخلاص ہی ہے ۔ وحی رحمانی ، ارشادِ ربانی اورآیتِ قرآنی ہے ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ ﴾

            ترجمہ: اورمیں نے تمام جن وانس کواپنی عبادت ہی کے لیے پیداکیاہے ۔

            عبادت درحقیقت معرفتِ ربانی،توحیدِایمانی اوراخلاصِ عرفانی کے مجموعہ کانام ہے ۔اگراِن تینوں امور میں سے ایک بھی مفقود ہوجائے تووہ عبادت ،عبادت نہیں ،بل کہ غباوت یابغاوت ہوجائے گی ۔اِسی لیے تاج المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اِس آیت کی یہ تفسیرکی ”ای یَعْرِفُوْنَنِیْ وَیُوَحِّدُ ْونَنِیْ“کہ وہ مجھ کو پہچانیں اورہرلمحہ میری توحیدویکتائی کے گیت گائیں۔دوسری جگہ ارشادباری تعالیٰ یہ ہے کہ ”یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَئْیاً“ کہ وہ میری ہی عبادت کریں اورمیرے ساتھ کسی اورچیز کوہرگزشریک نہ ٹھہرائیں ۔ کیوں کہ ﴿اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾کہ شرک ظلم عظیم ہے ۔

اخلاص وللٰہیت:

            بخاری شریف کی پہلی حدیث ہے ”اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ اعمال کادارومدار نیت پرہے اورنیت کی جا ن اخلاص ہے،تومعلوم یہ ہواکہ اعمال ونیات کی مقبولیت کے لیے اخلاص ہی سنگِ بنیاد ہے ۔نیتِ فاسدہ سے اعمال غیرمقبول اورنیتِ صحیحہ سے اعمال کی مقبولیت کاوعدہ ہے اورنیت صحیحہ وہی ہے ،جس میں اخلاص کاپانی شامل ہو۔اخلاص کامطلب یہ ہے کہ عمل سے مقصودصرف رضائے الٰہی ہو،کسی اورکی خوش نودی مطلوب نہ ہو۔رضائے حق کے ساتھ رضائے خلق شامل نہ ہو، کوئی دنیوی غرض ،نفسانی تقاضا اورشہرت کی طرف ذرہ برابربھی التفات نہ ہو۔کیوں کہ یہ سب چیزیں اخلاص کے خلاف اورنیت کوفاسدکرنے والی ہیں اور فسادِنیت؛ عمل کی برکت ومقبولیت اوراُس کے اجروثواب سے محرومی کاسبب ہواکرتاہے ۔اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ عمل میں اخلاص اورحسنِ نیت کودیکھتے ہیں ۔چناں چہ سیدالکل فی الکل محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے :

            ”اِنَّ اللّٰہَ لَایَنْظُرُاِلیٰ صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلیٰ قُلُوْبِکُمْ وَ اَعْمَالِکُمْ“ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہاری صورتوں اورمالوں کونہیں دیکھتے ،لیکن وہ تمہارے دلوں(کے احوال) اورتمہارے اعمال(کی عمدگی) کو دیکھتے ہیں۔(مسلم شریف: ص۴۵۴)

دیکھنے کامطلب :

            شرفِ قبولیت سے نوازنااوررحمت واکرام کے ساتھ متوجہ ہونا ہے۔ اِس دنیا کا دستور تو یہ ہے کہ ظاہری حسن وجمال یامال ومنال کی بنیادپرمحبت کادم بھرتے ہیں۔لیکن حق تعالیٰ کی عنایت اورنظررحمت کے لیے اِن چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں،بل کہ وہ دلوں کی کیفیات واحوال پرنظرفرماتے ہیں۔اگرقلوب میں صدق واخلاص کے جذبات ہیں،تووہ ربِّ کریم کی عنایت ومحبت اورمقبولیت سے مالامال ہوں گے۔اوراگرحالت برعکس نکلی ،یعنی کفروشرک اورفاسدجذبات ہیں توپھراللہ ہی ہماراحافظ اورنگہ بان ہے ۔ایسے قلوب؛بالکل ہی لائقِ توجہ نہیں ، اِس کے ساتھ ہی یہ بھی یادرہے کہ اعمال میں اخلاصِ نیت اورنیک جذبات ہی کافی نہیں ہیں،جب تک کہ اعمال شریعت وسنت کے سانچے میں نہ ڈھلے ہوں ۔زندگی کی گاڑی قرآن و سنت کی پٹری پرنہ ہوں۔کیوں کہ بدعتی؛ بدعات کا اورکافراپنے کفر کا ارتکاب بھی بڑے اخلا ص کے ساتھ کرتاہے ۔مگرحدیث پاک میں وارد ہے کہ بدعتی کے (بدعت کی نحوست کی وجہ سے ) تمام فرائض ونوافل مردودہوجائیں گے اوراُس کوکتے کی شکل میں مسخ کرکے جہنم رسید کردیاجائے گا ۔اللٰہم احفظنا منہ!

صرف اخلاص کافی نہیں:

            اِسی سے ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ خالی اخلاص بھی کافی نہیں ہے۔یہ توزبانی جمع خرچ ہو گیا،جس کاکچھ حاصل نہیں۔کیوں کہ ہرگمراہ فرقہ اپنی گمراہی اورہربدعتی اپنی بدعات پر پورے اخلاص کے ساتھ عمل کرتاہے ، بل کہ مشرکین بھی پورے اخلاص وللٰہیت اورحضورِقلب کے ساتھ ۳۳/کروڑ کے آگے جھکتے، ماتھا ٹیکتے اور اپنی مرادیں مانگتے ہیں۔مشرکینِ عرب تویہ بات علی الاعلان ، بر سر میدان کہاکرتے تھے جیساکہ قرآن کریم خوداِس کی شہادت دے رہاہے﴿مَانَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَااِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ

            ترجمہ: ہم تو اِن بتوں کوصرف اِس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کواللہ سے قریب کردیں۔

            خودہی دیکھ لیجیے کہ اُن کی بت پرستی میں بھی کتنابڑااخلاص شامل ہے ،لیکن ایسااخلاص ؛عنداللہ مقبول اور نجات وفلاح کی کوئی گارنٹی اورضمانت نہیں دیتا۔بل کہ دربارِالٰہی میں وہی اخلاص قابل قدرہے؛ جوشریعت وسنت کے سانچے میں ڈھلاہو اوراُس کی کسوٹی پربالکل کھڑااترتاہو۔اوراگرمعاملہ اس کے خلاف نکلااوراخلاص صرف نام کا ہو گا تو پھر یہی ہمارے لیے وبال جان بھی ہوگا۔

ہماری حالت:

            یہ ہے کہ عوام الناس کوکیاروئیں اوراُن سے کیاشکوہ کریں؟وہ توکالانعام ہیں ہی۔ ہماری بے حسی کاعالم تویہ ہے کہ ہم ”اہل علم اوردین دارطبقہ “بھی جو کام کرتے ہیں اُس میں اخلاص کی بوبھی نہیں پائی جاتی۔ہماری کیفیت ہاتھی کے دانت جیسی ہوتی ہے کہ کھانے کے دانت اور، دکھانے کے اورہوتے ہیں۔ہرکام میں اورہرقدم پر محض دکھاوا،غیراللہ کی رضا،ریاکاری، لومڑی جیسی مکاری،چاپلوسی،جی حضوری،جعلی شہرت،اغراضِ دنیوی، خواہشاتِ نفسانی،نام ونمود، لالچ،جعل سازی ، دغا بازی، جھوٹ اور فریب سبھی کچھ اس میں شامل ہوتاہے ۔ اگر اِس میں کوئی چیز نہیں ملتی اور کسی چیز کا گزرنہیں ہوتا ؛ تووہ ہے ”بے چارہ اخلاص “ہم ہر اُس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کس راستے سے کب اور کیسے ناموری حاصل کی جائے؟کوئی بھی موقع ہمارے ہاتھ سے نکلنانہیں چاہیے ۔ سب کچھ ہو؛لیکن یہ بھول ہم سے کبھی بھول کربھی نہ ہو۔ہرقدم میں ہماری واہ واہ ہو ،چاہے آخرت اورحشرکے میدان میں اولین وآخرین کے سامنے آہ آہ ہو۔ خلوص سے ذرابھی کوئی مطلب نہیں ، صرف فلوس (پَیسا) سے مطلب ہونا چاہیے۔ اِس لیے اگر آج کل کی معاشرتی حالت کودیکھتے ہوئے یہ بات کہی جائے تو غلط اوربے جا نہیں ہوگی کہ ہم لوگوں کی اخلاص بغیرِ الالفِ الاول ہوتی ہے ۔ہم نے اخلاص کی اہمیت کو اتناہی سمجھا ہے جیسے کہ کسی سنسان سڑک پر پڑی ہوئی بے گوروکفن اور لاوارث لاش ہو۔

دکھلاوابھی شرک ہے :

            یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ اگرہمارے کسی بھی عمل اورعبادت میں خالص رضائے الٰہی کے علاوہ مخلوق کی خوش نودی یا کسی قسم کی دنیوی غرض بھی مطلوب اورشامل ہوتو پھرقرآن پاک میں اِس کوبھی شرک قراردیا گیاہے۔ چناں چہ ربُّ العبادکا ارشاد ہے: ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْالِقَاءَ رَبِّہ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّلَایُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہ اَحَداً﴾

            ترجمہ:یعنی جوشخص اپنے رب سے ملنے کی تمنارکھتاہے ،تووہ نیک کام کرتارہے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کوشریک نہ کرے ۔

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس کوشرک کی فہرست میں داخل کیاہے ۔ ملاحظہ کریں مسنداحمدبن حنبل کی بندآنکھیں کھولنے اوراپنے اخلاص کوناپنے والی یہ روایت ”ان اخوف مااخاف علیکم الشرک الاصغر:قالوایارسول اللّٰہ وماالشرک الاصغر قال ”الریاء“۔

(ج ۱۷/ص۶۱،حدیث نمبر: ۲۳۵۲۶)

            اِس سے مرادشرکِ اصغریاشرکِ خفی یعنی” ریاکاری “ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم امت مسلمہ کواس شرک خفی سے محفوظ اوراعمال میں اخلاص پیداکرنے کی توفیق عطافرمائے آمین!