معاشرہ میں اسلامی اخلاق زندہ کرنے کی ضرورت

مولانا محمد مرشد قاسمی/استاذجامعہ اکل کوا

            آج مسلمان بڑی ابتلاوآزمائش اورذلت ونکبت کی زندگی گزار رہے ہیں،جب کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عزت و سربلندی اورغلبہ کا اعلان موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

            ﴿انا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیوة الدنیا ویوم یقوم الاشہاد﴾(المومن)

            یقینا ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان والوں کی مدد کرتے رہیں گے، دنیوی زندگی میں بھی اور جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ایک دوسری جگہ ارشادہے:﴿وان جندنالہم الغالبون﴾(الصافات)

یقیناہماراہی لشکرغالب رہے گا۔

            یہ وعدے آج ہم نہیں دیکھ رہے ہیں ۔ ظاہراً یہی کہا جائے گا کہ یہ وعدے مشروط ہیں کہ ایمان کامل ہو۔ اورہم واقعی خدا کے لشکرہوتے ،لیکن ہم خداکے لشکرکے بجائے اعمال وکردارکے اعتبارسے خداکے باغی بنے ہوئے ہیں،کتنے وہ برے اخلاق جو غیروں میں نہیں ، لیکن آج ہمارے اندر موجود ہیں۔

            حضرت مولانا منظور صاحب نعمانی  فرماتے ہیں : کہ آج جب ہم سنتے ہیں کہ دشمن ِاسلام نے اسلام کے خلاف کوئی کتاب لکھی ، کوئی لٹریچر تیار کیا تو ہمارا خون کھول جاتا ہے ، ہم غصے میں آجاتے ہیں ، لیکن ہم سوچیں کہ کیا کسی دشمن اسلام کی کتاب نے لوگوں کو اسلام سے اتنا روکا ہے ، جتنا آج ہمارے اخلاق لوگوں کو اسلام سے روک رہے ہیں۔جان لیں کہ کتاب اور لٹریچر کو پڑھنے والے چند لوگ ہوتے ہیں ، لیکن مسلمان کے اخلاق ایک پوسٹر ہیں جس کو ہر غیر مسلم ہرجگہ دیکھتا ہے۔ آفسوں ، بازاروں ،محلوں اورگلی کوچوں میں غیر مسلم مسلمانوں کے اخلاق کو دیکھتے ہیں ، لیکن ہمارے کردار وکریکٹر کو دیکھ کر ان کے دل میں اسلام کی محبت پیدا نہیں ہورہی ہے۔

            حضرات صحابہٴ کرام  جدھر جاتے ان کی سیرت و کردار سے متاثر ہوکر لوگ اسلام قبول کرلیتے تھے، ہمارے اولیائے کرام خصوصاً خواجہ معین الدین چشتی  کی حیات ِطیبہ کو دیکھ کرکتنے غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا ؛ آج برسوں سے یہ سلسلہ بندہے۔ آج عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ وقت اور زمانے کاایک بڑاتقاضایہ ہے کہ ہم اپنے اندر اسلامی اخلاق کوزندہ کریں؛یوں تواسلامی اخلاق کادائرہ بہت وسیع ہے۔تاہم چنداہم اخلاق نمونے کے طورپرہم پیش کررہے ہیں۔

(۱)حیا اورپاک دامنی:

            آج اسلامی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عقائد وایمان اور عبادات کی پابندی کے ساتھ ہمار ا معاشرہ حیا وپاکدامنی سے آراستہ ہو ، آج اچھے اچھے گھرانوں سے حیا اور پردہ اٹھتا جارہا ہے۔جس حیا کوایمان کا شعبہ کہا گیا،معاشرہ میں خیر اور بھلائی کا ذریعہ کہا گیا ، حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو بہت شرمیلے ہونے پر نصیحت کررہا تھا،آپ نے فرمایا چھوڑو ، ایسی نصیحت نہیں کی جاتی ، اس لیے کہ حیا اور شرم اچھی صفت ہے ، اس سے معاشرہ میں خیر اور بھلائی کا وجود ہوتا ہے ۔ حیاہوتوعفت وپاکدامنی ہوگی،حیاہوتوپردہ ہوگا۔

 معاشرہ میں برائی پھیلنے کا سبب:

            جب سے حیا اور شرم ختم ہوئی ، طرح طرح کے گناہ ، ناجائز تعلقات ہمارے معاشرے میں پیدا ہورہے ہیں۔ عورت آج کسی مرد سے بات کرنے پر کوئی حیا محسوس نہیں کرتی، گھروں میں بے پردہ،کالجوں،اسکولوں میں،اسی طرح سیل فون پرکتنے ناجائز تعلقات قائم ہورہے ہیں،بازاروں میں بے پردہ پھرنے ، بے پردہ اسکول وکالج جانے میں حیا اور شرم محسوس نہیں کررہی ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات جیسی پاکیزہ ہستیوں کے بارے میں حکم دیا:

            ﴿اذا سألتموہن متاعا فسئلوہن من وراء حجاب ﴾(الاحزاب)

            جب ان سے کوئی سامان مانگنا ہوتو پردے کے پیچھے سے مانگو۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

            ﴿ولا یتبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ ﴾(الاحزاب)

            عورتیں قدیم زمانہٴ جاہلیت کی طرح بناوٴ سنگار کرکے نہ پھریں۔

            گھر کے ذمہ داروں ، والدین کی موجودگی میں بے حیائی اور بے پردگی کے مظاہرے ہورہے ہیں؛ اللہ کرے کہ ہم مزاجِ شریعت کوسمجھیں؛ورنہ ہمارے لیے سخت وعیدہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

            ﴿ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة فی الذین آمنوا لہم عذاب الیم فی الدنیا والآخرة﴾(النور)

            بے شک جو لوگ ایمان والوں میں برائی کے پھیلنے کو پسند کرتے ہیں ، ان کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔

معاشرے میں حیا پیدا کرنے کی تدبیر:

            سب سے پہلے گھروں سے ٹی وی ، انٹرنیٹ کنکشن کو ختم کریں۔ حیا اور پردے کے فوائد کو مد ِنظر رکھیں کہ اِس سے ہماری بیویوں،بہنوں اوربیٹیوں کی عزت کی حفاظت ہوگی۔غورکریں!کہ پاوٴسیرگوشت کی ہم حفاظت کرتے ہیں،کہ کتایاکوااچک نہ لے،پاوٴسیردودھ کی حفاظت کرتے ہیں کہ بلی نہ پی جائے۔عورت کی عفت وعزت بھی نہایت قیمتی چیزہے،جس کاکوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ گھروں میں کتابی تعلیم کا سلسلہ جاری کریں ، خصوصاً فکر آخرت ، حیا اور پردے سے متعلق کتابوں کی تعلیم کریں ۔ کتاب” چھ گناہ گار عورتیں“اس کو ضرور ہفتے میں ایک مرتبہ پڑھاجائے۔ حضرات ِازواج ِمطہرات اور صحابیات کے واقعات سنائے جائیں۔

(۲)تواضع پیدا کرنے کی ضرورت:

            اسلامی معاشرے کی ایک بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں تواضع پیدا کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے :

            ﴿واخفض جناحک لمن ابتعک من المومنین ﴾․

            آپ اپنے بازو کو مومنین کے لے نرم رکھیے، جنہوں نے آپ کی پیروی کی۔

             اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”من تواضع للہ رفعہ اللہ “ جو اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع عاجزی اختیار کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے بلندی نصیب فرمائیں گے۔

            حضرت جبرئیل علیہ السلام بار بار حضرت ابوذر غفاری  کو سلام بھیجتے تھے ، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ وہ اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھتے ہیں ، جس بنا پرآسمان کے تمام فرشتے ان کو پہچانتے ہیں۔ تواضع پیدا ہوجائے توہمارے معاشرے کی کئی برائیاں ختم ہوجائیں گی،آپس کے جھگڑے ختم ہوجائیں گے،صلح کے لیے جھکنا ، معاف کردینا آسان ہوجائے گا؛ چوں کہ یہ ساری برائیاں کبرکے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔

            شادی بیاہ کی فضول خرچیاں ختم ہوجائیں گی ، شادی کے سارے اسرافات ، تکبر اورنام و نمود کی بنا پر ہے۔شادی میں شرعاً دوہی خرچ ہیں اوردونوں خرچ لڑکے پرہیں،ایک مہراوردوسراولیمہ ؛لیکن آج لڑکی والوں کو کس قدرخرچ کے بوجھ میں ڈالاجاتاہے ! یاوہ خودنام ونمودکی نیت سے اپنے آپ کوبڑے خرچ میں ڈال لیتے ہیں ۔ آدمی یہی سمجھتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ! جان لیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے زیادہ قیمتی ہماری بیٹیاں نہیں ہوسکتیں، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر سادگی کے ساتھ اپنی صاحبز دایوں کا نکاح کیا۔

تکبر سے بچنے کی تدابیر :

            یہ ہمیشہ سوچیں کہ بڑائی اللہ تعالیٰ کے ذات کے ساتھ خاص ہے ، حدیث ِقدسی ہے : ” الکبریاء ردائی “ بڑائی میری چادر ہے ،میری ذات کے ساتھ خاص ہے، جو کوئی اللہ تعالیٰ کی چادر کو کھینچے گا اللہ تعالیٰ اسے ایک دن ذلیل کرکے رہیں گے۔ یہ سوچیں کہ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ کے سامنے باربار اس کی بڑا ئی کا اعلان کرتے ہیں، اللہ اکبر کہتے ہیں ،پھر ہم کیوں بڑے بنیں؟۔ اپنی ابتدائی تخلیق کو یاد کریں کہ ہم نطفہ تھے ، موجودہ حالت میں کتنی گندگی ہم لیے پھر رہے ہیں ، مرکر مٹی ہوجائیں گے ؛اسی طرح تکبرکے نتیجے میں جوجھگڑے ہوتے ہیں،اس وقت ہم اپنے جھگڑے کی نحوست کو یاد کریں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ﴿لا تنازعوا فتفشلوا وتذہب ریحکم﴾ آپس میں جھگڑو مت ، ورنہ تم ناکام ہوجاوٴگے ، تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: جو شخص حق پرہوتے ہوئے جھگڑے کو چھوڑ دے ، اللہ تعالیٰ جنت کے وسط میں اس کے لیے محل بنائیں گے۔ یہ یاد رکھیں! معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ عزت بڑھاتے ہیں۔ عالم کوعلم کی بنیاد پرتکبرہے تووہ یہ سوچے کہ ہماری معلومات سے زیادہ ہماری مجہولات ہیں ۔ دیکھیے کتنی کتابیں دنیا میں ہیں، ان کے مضامین تو درکنار ہم کو ان کتابوں کے نام بھی معلوم نہیں ، یہ ہمارے علم کا حال ہے پھر ہم کیوں تکبر کریں؟

(۳)معاشرے میں سچائی کی ضرورت:

            آج ہمارے معاشرے میں جھوٹ بہت عام ہورہاہے ،گفتگو میں جھوٹ، نیتوں میں جھوٹ اور فتور، کاروبار میں جھوٹ ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

            ” ان الکذب یہدی الی الفجور وان الفجور یہدی الی النار

(بخاری )

             جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔جھوٹ ایک دھوکہ ہے اسی طرح جھوٹی گواہی بھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ’ ’ ان من اکبر الکبائر الاشراک باللہ وعقوق الوالدین “بے شک بڑے گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی ہے ۔آپ ٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے تھے ، سیدھے ہوگئے اورپھرفرمایا : ” الا شہادة الزور “ سنو! جھوٹی گواہی بھی۔بارباریہ ارشادفرمایا۔صحابہ یہ تمناکرنے لگے کہ کاش!خاموش ہوجاتے ۔

جھوٹ سے بچنے کی تدابیر :

            یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿الا لعنة اللہ علی الکاذبین ﴾ سنو! اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔

            جب جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ، رحمت سے دوری کی بد دعا ہے ، جب کہ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے محتاج ہیں۔اسی طرح ہر جھوٹ ایک دھوکہ ہے اور جس نے کسی کو دھوکہ دیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ” من غش فلیس منا “(ترمذی) جس نے دھوکہ دیا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ۔ آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ختم ہوجائے گی اور ہم اہل ایمان کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سب سے قیمتی چیز ہے ۔نیز یہ سوچیں کہ جھوٹ سے ہمارا سامان توبک جائے گا ، لیکن مال کی برکت ختم ہوجائے گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:

             ” الحلف الکاذب منفقة للسلعة وممحقہ للبرکة “․ جھوٹی قسم سامان کو بیچوا دیتی ہے ، لیکن برکت کو ختم کردیتی ہے۔

(۴)معاشرے میں حسن ظن پیدا کرنے کی ضروت :

            اہل ایمان حسن ظن کا مزاج بنائیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ اچھا گمان رکھیں ، یہ جان لیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہربدگمانی پر دلیل مانگیں گے ، لیکن اگر ہم نے حسن ِظن رکھا ، خواہ وہ آدمی کیسا بھی برا ہو، کوئی دلیل نہیں مانگی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

             ﴿یا یہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ﴾(الحجرات)

             اے ایمان والو! بہت سے گمان سے بچو ، اس لیے بعض گمان گناہ ہے ۔

            خصوصاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی تو کفر تک پہنچا دینے والی ہے ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بد گمانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہی پریشانی اورہمارے اوپرہی حالات لاتے ہیں۔

حسن ظن کی تدابیر :

            بد ظنی کی وعیدوں پر نظرہو، اپنے عیوب پرنظر ہو۔ ایک شاعر کہتا ہے

وفیک عیوب وللناس أعین

دیکھو تمہارے اندر بھی عیب ہے اور لوگوں کے پاس آنکھیں ہیں۔

(۵)حسن معاملہ:

            حسن ظن کے ساتھ ساتھ ہمارے معاملات ، لین دین بھی درست ہوں، قرض لے کرنہ بھولیں۔وسعت ہوتے ہوئے ٹال مٹول نہ کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ” مطل الغنی ظلم “ مال دار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔

(۶)خوش کلامی اورخندہ پیشانی کی معاشرے میں ضرورت:

            ہر مومن خوش کلام ہو،شیریں زبان ہو۔ سخت کلامی ، غیبت اور چغل خوری سے پرہیز کرنے والا ہو۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوش کلامی ، نرم مزاجی کی برکت سے معتقدین اورمحبین کا ہجوم رہتا تھا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک﴾(آل عمران)

             اگر آپ بد مزاج ، سنگ دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرایک سے مسکراکر ملتے اور فرماتے : ” طلاقة الوجہ صدقة “ خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا صدقہ ہے۔خوش کلامی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی کو گالی نہ دی جائے ۔ گالی دینا سخت اور کبیرہ گناہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

             ” سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر

(بخاری )

            مسلمان کو گالی دینا گناہِ کبیرہ اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔

معاشرے میں حسن اخلاق لانے کے لیے سب سے اہم تدبیر:

            (۱) علم دین حاصل کرنا ۔

            (۲) نیکوں کو اپنا دوست بنانا ۔

            اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

            ”اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہفَلْیَنْظُرْ اَحَدُکُمْ مَّنْ یُّخَالِلْہُ

            آدمی اپنے دوست کے طریقے پر ہوتا ہے ، ہرایک سوچ لے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔

            (۳) اولیا اورمشائخ کی مجلسوں میں جانا اور ان کی طویل صحبت اختیار کرنا ، ان کے سامنے اپنے عیوب اورخامیوں کو ذکر کرکے اصلاح کی درخواست کرنا اوردعا کی گزارش کرنا ۔ ان کی نظروں کی برکت سے کیسے کیسے لوگوں کی زندگی بدل جاتی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

             ” العین حق “ نگاہ حق ہے۔

            جب لوگوں کی بری نظر لگ جاتی ہے ، حسد ونفرت کی نگاہ لگ جاتی ہے، تو کیا ان مشائخ کی اچھی نظر ہم کو نہیں لگے گی ؟ ضرور ان کی نگاہوں کی برکت سے ہماری بدخلقی ختم ہوگی۔

            یہ”اخلاقِ ستہ“چھ اخلاق جو ذکرکیے گئے ،اگرمسلمان ان اخلاق کومضبوطی سے پکڑلے ،توآج ہمارے معاشرے میں وحی کی برکتیں نظرآنے لگیں گی۔حضراتِ صحابہ کرام ،تابعین اورتبع تابعین کے دورکی روحانیت اورنورانیت جھلکنے لگیں گی،عزت وسربلندی مل جائے گی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوتوفیقِ عمل نصیب فرمائے ۔