تنگ دلی اوردریا دلی

مفتی عبد القیوم مالیگانوی

ہم سے خداکاشکوہ:           

            رب کائنات کی لامحدود اور لا متناہی نعمتوں کی بارش ؛شب و روز ہم جیسے نا اہلوں اور غافلوں پر ہورہی ہے، ان ظاہری وباطنی ، دینی ودنیاوی نعمتوں پر منعم حقیقی نے ہم سے شکر گزاری بھی طلب کی ہے ۔ارشاد فرمایا: ﴿لئن لازیدشکرتم نکم﴾ اور دیگر مقامات پر﴿ افلا یشکرون،افلا تشکرون ﴾جیسے انداز میں شکر کو مطلوب قرار دیا تو ایک جگہ پر ہماری احسان فراموشی اورعدمِ تشکر نعمت پر﴿ وقلیل من عبادی الشکور﴾ کے ذریعہ ہمیں مزید متنبہ اور شکایت سے دوچار کیا ۔ لیکن ہم ہیں ایسے بد حواس اور بدمست کہ کسی بھی اندازِ طلب کو مسلسل نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی مجرمانہ، غافلانہ اور پرانی روش پر بدستور قائم و دائم رہتے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو ذاکر کے ساتھ شاکر بھی بنائے۔

اکڑکی پکڑہوگئی:

            شکر گزاری کے طور طریق بھی جدا گانہ اور مختلف ہوتے ہیں ۔ ان نعمتوں میں ہمارے پاس مال وزر کی نعمت ہے ،جو یقینا عطیہٴ خداوندی ، انعامِ ربانی اور رزق رسانی کے محیرالعقول نظام کا مظہر ہے نہ کہ ہمارے قوتِ بازو کا کرشمہ اور نہ ہی ہماری دماغی کاوش کا ثمرہ ۔ اگر کوئی ایسا تصور کرتا ہے تو اس کی بات اور اس کا خیال ملعون ربانی قارن کے خیال و جذبات کے مترادف ہے ۔ جس نے﴿ انما اوتیتہ علی علم عندی﴾ کہہ کر قیامت تک کے لیے اپنی چالاکی اورتکبر و نخوت پر مہر ثبت کردی ہے ۔ اور اللہ کی دی ہوئی نعمت مال پر اکڑتا اور اتراتا رہا ،جس کے نتیجہ میں ایسے انجامِ عبرت ناک سے دوچار ہوا کہ جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ،جسے قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی طرف نسبت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :﴿ فخسفنا بہ وبدارہ الارض فما کان لہ من فئة وما کان من المنتصرین﴾ کہ اس ہلاکت وخسران سے نہ اس کا مال بچا سکا اور نہ ہی ہوشیاری وچالاکی کام آئی،بل کہ سب پڑی رہ گئی۔ الغرض! مال اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے اوروں کا بھی حق رکھا ہے ۔ ﴿ وفی اموالہم حق للسائل والمحروم﴾ بقول مفسرین کہ ہمارے مالوں میں فرض زکوٰة اور نفقات واجبہ کے علاوہ؛اور بھی حقوق اور مالی ذمہ داریاں ہیں ۔ جسے نبھانے سے مال برکتوں والا ہوتا ہے ۔لیکن ہم اس میدان میں کوتاہ دست ثابت ہوتے ہیں ۔ جب کہ قرآن وحدیث کی تفاصیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تربیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم دینے والے بنیں نہ کہ لینے والے ۔کیوں کہ ”الیدالعلیاخیرمن الید السفلیٰ“۔کہ دینے والاہاتھ بہترہے لینے والے ہاتھ سے۔

ایک دے کرسات سولے لو:

            آپ علیہ السلام نے اس امت کو دینے پر ابھارا ہے نہ کہ لینے پر ۔ انفاق کی ہمیشہ حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور سوال اور مانگنے کی حوصلہ شکنی ۔ اللہ فرماتے ہیں ﴿الذین ینفقون فی السراء والضراء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین ﴾کہ خوش حالی وتنگ حالی میں خرچ کرنے والے محسنین اللہ کو محبوب ہیں ۔ جن سے اللہ نے برکتوں اور اجر عظیم کے وعدے فرمائے ہیں ۔ ﴿مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مئة حبة واللہ یضاعف لمن یشاء واللہ واسع علیم ﴾کہ اس ضابطہ کے مطابق ایسے مخیرین اوراہل سخاوت کو ایک نیکی کا بھاوٴ سات سو تک بڑھا دیا جائے گا اور رابطہ کے مطابق اللہ کریم جس کے لیے جس قدر چاہے اضافہ کرے، جس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس لیے کہ بادشاہ کا کوئی بادشاہ نہیں ہوا کرتا ہے۔ ﴿لہ الملک والحکم ﴾ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت انوکھے اور پیارے انداز میں ہمیں جو د وسخاکی صفت کو اپنا نے کی بات کہی ۔ فرمایا: ” الید العلیا خیر من الید السفلی ٰ “ بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انفاق فی سبیل اللہ کی عادت اور بخل وتنگ دلی کی مذمت کے لیے حضرات صحابہ کو حالت فقر میں بھی خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا: ” اطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا والناس نیام “ جس پر صحابہ نے اپنی اپنی بساط اور قدرت کے مطابق عمل پیرا ہونے کی بھر پور کوشش کی جس کے بہت سارے واقعات اوراق حدیث کی زینت ہیں ۔

            میں یہاں صرف ایک ایسے واقعہ پرروشنی ڈالنے جارہاہوں،جوکہ سیرت صحابہ اور تاریخ اسلامی کا بہت ہی دلدوز اورعبرت آمیزی کا حامل ہے ۔

یہ بھی ایثارکااندازہے:

             حضرت ابو طلحہ انصاری  ؛جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئے ہوئے مہمان کو گھر لے آئے ۔بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کھانے کے لیے کیاہے؟ تو جواب ملاکہ اتنا ہے کہ بچوں کو کافی ہو۔ تو مہمان رسول کی ضیافت کے لیے بیوی کو ساری ترکیب سمجھائی کہ بچوں کو سمجھا کراورکسی طرح بہلاپھُسلاکر بھوکا سلادینا اور میں مہمان کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھوں گا اور تم چراغ درست کرنے کے کسی بہانے سے چراغ گل کردینا تاکہ مہمان پیٹ بھر کھالے اور میں صرف کھانے کا انداز اپناوٴں گا ۔ اللہ اکبر! یہ اندازِ ضیافت اور ایثار وقربانی کی بے مثال صورت اور ادا اللہ کو بھی ایسی پسندآئی کہ صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ انصاری  سے فرمایا کہ رات والی تمہاری ادا اور عمل اللہ کو بہت پسند آیا ۔ حقیقت یہی ہے کہ دنیا ایسے انسانوں اورایسی انسانیت کے لیے ہمیشہ ترستی ہی رہے گی۔

            یہ تواس عملی تربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام نے کس موڑ پربھی مال و زر کو نہ اہمیت دی اورنہ اس کو خرچ کرنے سے دریغ کیا۔

آج کااہم مسئلہ:

            ہم اور آپ اس وقت ملک میں بہت سارے گمبھیر اور تشویش ناک مسائل وحالات سے گزر رہے ہیں ، وہ ہم سب پرروشن ہے، جن کا تعلق عقیدہ وایمان ، روزی ومعاش؛ حتی کہ اپنے ملی وجود اور مذہبی تشخص سے بھی جڑا ہواہے ، جس کے لیے ہمیں ہوش و عمل اور تیقظ وبیداری کی سخت ضرورت ہے۔ اور اسی طرح اس وقت کاایک بڑا ہی اہم مسئلہ؛ اہل غربت اور ادنی وکم زور معاش والوں کے لیے مہنگائی کی بے نیام تلوار اور اس کی بے مروت دھار کی مارسے ہے ۔

کیاکریں گے؟:     

            وہ معمولی آمدنی والے مزدور ،بیگاری کرنے،لاری لگانے والے اور دیگر شکلوں میں صبح سے شام تک اپنے بچوں اور اہل و عیال کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے تحصیل معاش میں سرگرداں اور سرکے پسینے کو پیروں تک لاکر دم لیتے ہیں۔ اورخدانخواستہ اگر کوئی اتفاقی اوراچانک حادثہ رونما ہوجائے تو پھر پریشانی کئی گنا اضافی ہوجاتی ہے ۔جس سے نکلنا ان کے لیے بڑا دشوار؛ بل کہ بسا اوقات لوہے کہ چنے چبانے کے مترادف ہوتا ہے۔نیز اس طرح کے کمزور ،خستہ حال اور ضرورت مند دوطرح کے ہوتے ہیں ۔

بھوکاسلاتی،اجازت نہیں دیتی:

            ایک تووہ ہے جو ضرورت اورابتر حالات سے گھبراکر سوال کرنے اور بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور پھر اپنی ضرورتوں کو اسی راستہ سے پورا کرنے کے عادی بن جاتے ہیں۔اوراِسی میں ان کومزہ آتاہے۔ لیکن زیادہ قابل توجہ اور قابل امداد وہ دوسری قسم کے لوگ ہیں ۔جو ہیں تو محتاج ،پریشان حال،بے انتہا دکھی، حالات اور ستم زمانہ کے شکار ، لیکن فطرةً، باحیا اور غیور واقع ہوئے ہیں ۔ جن کی حمیت اور غیرت بھوکا اور راتوں کو بے خواب تورہنے دیتی ہیں ۔ لیکن دست سوال اور کشف احوال کی اجازت بالکل نہیں دیتی ۔ جن کے بارے میں قرآن کریم اس طرح گویا ہے: ﴿ یحسبہم الجاہل اغنیاء من التعفف ، تعرفہم بسیمٰہم لا یسئلون الناس الحافا﴾(البقرة: )کہ صفت تعفف کی بنیاد پر لوگ نادانی میں انہیں مالدار گردانتے اوردولت مندسمجھنے کی غلطی کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ باوجود اہل حاجت ہونے کے ؛لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔ لہٰذا ایسے سوالی اور غیر سوالی یعنی محروم لوگوں کو اپنی امداد سے نوازنا ، ان کے مسائل کو حل کرنا اور چھوٹی بڑی ضرورتوں میں ان کے ساتھ دست تعاون پیش کرنا وقتی اخوت کی ؛بل کہ شریعت وانسانیت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

یہ ہمارااحسان نہیں ہے:

            آج مہنگائی جس نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی ہے اور جس کے زیر دست اشیائے خوردنی اور ضروریات زندگی غربا اور کمزوروں کی قوت خرید سے باہر نکل چکی ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کے گھروں پر کس طرح چولہا جلتا ہوگا اور دو وقت کیسے پیٹ کی آگ کو بجھایا جاتا ہوگا؟ ہمیں اور آپ کو ایمان و اخوتِ اسلامی ؛بل کہ خدمت انسانیت کی بنیاد پرہی نہیں،بل کہ اس سے دوقدم آگے بڑھ کر تعلیمات قرآن وحدیث کی بنیاد پر احساس کرنا ہوگا اور آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی ، ہماری جو بھی وسعت اورمقدرت میں ہو۔ اور یہ یادرہے کہ وقتی امداد؛ ہماری طرف سے ان کی ذات پرکوئی احسان نہیں، بل کہ ان مسکینوں اور اہل حاجت کا ہمارے مالوں میں حق ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿وفی اموالہم حق للسائل والمحروم﴾ نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے مالوں میں سائل اورغیر سائل دونوں کا حق ہوتا ہے۔

آج یہ مزاج بن گیا:

            اس کے ساتھ ایک بات اور بھی توجہ کے قابل ہی نہیں،بل کہ لائق اصلاح ہے۔وہ یہ ہے کہ ہمارے مزاج میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ہم وہ چیزیں اوروں کے لیے پسند کرتے ہیں جوردی کی ٹوکری میں ڈالنے اور کوڑا دان سجانے کے قابل ہوتی ہیں۔جسے اپنے لیے فیل اور (Reject) کر دیتے ہیں،وہی غریبوں،مفلسوں، لاچاروں ، ناداروں اوربدقسمتی کے ماروں کے لیے (Select)کردیتے ہیں۔ یعنی باسی کھانا،بدبو دار غذا یا پھر ازکارِرفتہ سامان، پرانے کپڑے یا اس طرح کی کوئی اور چیز؛ جب کہ یہ بات قرآ ن وحدیث؛ بل کہ اللہ کے مزاج کی نزاکت کے بھی خلاف ہے ۔ حدیث پاک میں کہا گیا ہے : ” ان اللہ جمیل ویحب الجمال “ کہ اللہ حسین ہے ،پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیز کوہی پسند کرتے ہیں ۔

            نیز پاکیزہ اورعمدہ چیزقربان اور خرچ کیے بغیر ہم نیکی کی حقیقت اور اس کی روح کو حاصل توکیا؛ محسوس بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں ﴿لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ﴾ کہ راہ خدا میں اپنی محبوبات ومرغوبات کو قربان کیے بغیر تمہیں نیکی بالکل نہیں مل سکتی ،اِس لیے یہ خواب دیکھناہی چھوڑدو تو تمھارے لیے زیادہ بہترہے۔

آں چہ داری صرف کن درراہِ او

لن تنالوا البر حتی تنفقوا

رضائے الٰہی کے حصول کاراستہ:

            اس لیے یہ بات بے غبارہوچکی کہ آخرت کی سرخ روئی اوررضائے الٰہی کی خاطر اچھے اور پاکیزہ مالوں سے ہمیں پیش قدمی کرنا ہے۔ تاکہ معاشرہ میں اخوتِ باہمی اور مودت ومحبت کی فضا قائم ہو۔ایک دوسرے کے ساتھ خیرسگالی،ہمدردی اورغریبوں سے محبت کی راہ مزیدکھلے،جوہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات عالیہ میں ممتاز صفت رہی ہے ۔ اہل علم کہتے ہیں کہ سخی سے اللہ کو پیار ہے اگر چہ عمل میں کچھ کوتاہ ہو اور بخیل سے اللہ کو نفرت ہے اگر چہ کہ تہجد گزار ہو ۔ اسی لیے حدیث پاک میں بخل سے بچنے کی تاکید اور اس پر ہلاکت کی وعیدبھی سنائی گئی ہے ۔ بل کہ پچھلی امتوں کو ہلاک کرنے والی منجملہ اورچیزوں میں سے ایک بخل بھی ہے ۔ فرمایا : ﴿اتقوا الشح فان الشح اہلک من کان قبلکم ﴾بخل سے بڑھ کر شح اور شحیح ہوتا ہے ،جس کو آپ چاہیں تو”ابخل الناس“ کی سندعطاکردیں یاپھرآسان لفظوں میں بخیلوں کا ”دادا جان“ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کیوں کہ بخیل وہ ہے ، جو دوسروں پر خرچ نہ کرے اور شحیح جو اپنے آپ بھی خرچ نہ کرے ۔ اللہ مجھے اور آپ کو اورپوری امت کو دل درد مند اور مز ید سخاوت اور دل کی وسعتوں سے مالا مال فرمائے۔ تنگی دلی ،تنگ دستی اور سخت مزاجی سے محفوظ رکھیں ۔ آمین بجاہ سید المرسلین !