مفتی عمیر اشاعتی امراوتی(استاذ جامعہ اکل کوا)
یہ بات مسلَّم ہے کہ اسلام ایک دین ِفطرت اور ایک مکمل نظام ِحیات ہے ۔ اس کے احکامات اور ہدایات فطرتِ انسانی سے مکمل ہم آہنگ اور دنیا وآخرت میں کام یابی کے ضامن ہیں۔ اس لیے کہ اس کی ہدایات ورا ہ نمائی کام یابی کی ضمانت اور عبادات تک ہی محدود نہیں ، بل کہ معاملات ، معاشرت اور اخلاق سے متعلق بھی اسلام واضح اور مسلمہ تعلیمات رکھتا ہے۔اور ان احکامات پر عمل بجا آوری کی صورت میں یقینی کام یابی کی ضمانت پراسلام کی ثقافتی تاریخ شاہد عدل ہے؛ البتہ جب ان احکامات پر عمل درآمد کم ہوا یا بالکل ختم ہوگیا اوریہ صرف نظریہ اور تھیوری کی شکل میں ہی باقی رہے تو بھی اسلام ہی کے نام لیوا وٴں (مسلمانوں)میں وہ انتشار، انارکی ، پستی اور اور بدعملی پھیلی کہ وہ زمانے کے لیے تاز یانہٴ عبرت بن گئے۔
موجودہ دور میں اسلام کے معاشرتی احکام وہدایات میں سے نکاح اور طلاق کو لے لیجیے اور مسلم سماجی زندگی میں ازدواجی زندگی کی ناکامیوں اور کثرت ِطلاق کا بڑھتا ہوا گراف دیکھیے۔
حالاں کہ اسلام ازدواجی زندگی کے تمام مراحل (از ابتدا تا انتہا) میں مکمل راہ نمائی کرتاہے کہ دو اجنبی ، انجان افراد (زن وشو) جب نکاح کے بندھن میں بندھے تو یہ رشتہ اور بندھن مضبوط سے مضبوط تر ہو، زندگی کے نشیب و فراز اور نرم و گرم حالات اس کو کم زور نہ کرنے پائے ؛لیکن اس کے باوجود کثرت ِطلاق ، اجڑتے خاندان کا بڑھتا ہوا گراف دیکھیے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ مسلمان خوش حال ،آسودہ زندگی گزارنے کے اصول وہدایات نہیں رکھتے، جو روز بروز ناکام معاشرتی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔
چند معمولی وجوہات؛ جو غیر معمولی نتائج پرمنتج ہوتی ہیں :
طلاق یافتہ خواتین اور مرد حضرات کو کریدنے اور اصرار کے ساتھ سوالات دہرانے سے نیز مختلف واقعات ، قضیات سننے اور اخبارات وجرائد میں چھپی طلاق کی دلخراش داستانوں کو بغور پڑھنے سے کثرت ِطلاق کی بہت ساری وجوہات سامنے آتی ہیں۔
۱- بہت سے طلاقوں کے پیچھے لڑکی کے گھروالوں کی عجلت اور بے صبری کا ہاتھ تھا۔ اجنبی اور نامانوس ماحول میں جانے والی لڑکی ابتدا میں تناوٴ کا شکار ہوجاتی ہے، بے خوابی ، اجنبی لوگوں میں گھرے رہنے سے اس کے اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے ، جو جلد تناوٴ میں بدل جاتاہے۔ اسی دوران کوئی ناخوش گوار بات ہوجائے تو وہ دل پہ لے لیتی ہے ، بڑھا چڑھا کر ماں بہنوں سے بیان کرتی ہے۔خود کو مظلوم سمجھتی ہے اورمیکے والوں سے ہمدردی اوران کی توجہ سمیٹنے کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھاچڑھاکر پیش کرتی ہے ؛یہیں سے خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ ماں ، بہن اور دیگر سرگرم خواتین رشتہ دار اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تاکید کرتے ہیں یا خود بات کرنے پہنچ جاتے ہیں یا پھرلڑکی کوگھر بلاکر بٹھا لیتے ہیں۔
۲- کثرتِ طلاق کے اکثر واقعات میں جوبات سب سے بڑی وجہ بن کر سامنے آئی ،وہ ہے (Joint Family System)یعنی”مشترکہ خاندانی نظام“میں ساس اورنندوں کی تانا شاہی اور شوہر کی مظلومانہ بے بسی یا مجرمانہ بے حسی ۔
جی ہاں! موجودہ گھریلو جھگڑوں اور آباد خانوں کا ویرانیوں میں تبدیل ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ بہو کو صرف ایک نوکرانی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔
ایک لڑکی نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو بیان کرتے ہوئے کہا:کہ مجھے گلہ اس بات کا تھا کہ میرے شوہر ”تین میں تھے نہ تیرہ میں “ میری زندگی کے اصل مالک میری ساس ، میری نندیں اور میرے جیٹھ بن گئے تھے۔اگروہ کہتے رات ہے مجھے مجبوراً رات کہنا پڑتی، اگرو ہ کہتے دن ہے مجھے دن کہنا پڑتا۔ خصوصاً جیٹھ کا رویہ میرے ساتھ انتہائی نامناسب تھا، وہ ہروقت مجھے ذہنی طور پر پریشان رکھتے، اگر کبھی میں کوئی بات کرتی تومجھے کہا جاتا کہ جیٹھ نے تمہاری شادی پر دولاکھ روپے خرچ کیے ہیں ؛حالاں کہ کون سی ایسی خدمت تھی جو میں نے جیٹھ کی نہیں کی ؟اس کے علاوہ نندوں نے الگ سے زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ اگر میں بن سنور کے رہتی، وہ طنز کا نشانہ بناتیں کہ آج کس کے لیے تیار ہورہی ہو؟ اگر میں کاموں میں مصروف ہوتی اور سنورنے کا موقع نہ ملتا تو کہتی تم دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایسا کررہی ہو۔ اب ان حالات میں شوہر ہی ایک بڑا سہارا ہوتا ہے، مگرجب شوہر کی طرف دیکھتی اوران سے بات کرتی تو ان کا رویہ بالکل نامناسب ہوتا، وہ اس سلسلے میں بات کرنا ہی پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ کہتے جو یہ لوگ کہیں تمہیں اسی پر عمل کرناہے۔
۳- ایسے کیس بھی سامنے آئے ، جن میں لڑکی کے گھر والوں نے اسے کسی قسم کے کام کاج کی تربیت نہیں دی۔ لڑکی سسرال گئی اورکام سر پر پڑے تو بوکھلاگئی اور غلطیاں کردیں ، جس پر طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع ہوا اور معاملہ بگڑ گیا ۔ لڑکی نے اپنی کم زوری اوروالدین کی غلطی ماننے اور ٹھیک کرنے کے بجائے ترکی بہ ترکی جواب دیا یا اپنے میکے میں روئی گائی ، جس سے حالات بگڑنے لگے اور نوبت طلاق تک جاپہنچی ۔ اچھے خاصے دینی گھرانوں میں بھی یہ رجحان دیکھنے کو ملاکہ لڑکی کو کام مت سکھاوٴ، نہ کراوٴ ، کیوں کہ نہ کام آئے گا ، نہ سسرال میں کرے گی۔ یہ سوچ اکثر الٹے نتائج دیتی ہے۔ اورلڑکی کو انتہائی سخت حالات سے گزرنا پڑتا ہے ؛اسی بات کولے کرکئی جگہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
۴- محبت ایک سے ،شادی دوسرے سے۔جی ہاں ! تحقیق سے ایک نکتہ یہ بھی سامنے آیا کہ بعض طلاقیں اسی لیے ہوئی کہ شادی سے پہلے لڑکی کو کسی سے محبت تھی یا چکر چلا ہوا تھا، مگر شادی کہیں اوردور ہوگئی۔ تب لڑکی کی ہر ممکن کوشش یہ رہی کہ وہ سسرال سے جلدی جان چھڑائے ۔ بدتمیزی ، ترش روئی ، زبان درازی اور کام چوری، ہر گر آزمانے کے بعد وہ جلد طلاق کا پرچہ لے کر والدین کے گھر آگئی۔ اس امید پر کہ جس سے چکر تھا وہ اب شادی کرے گا اور والدین بھی ہاں کردیں گے۔ مگر حیرت انگیز طور پر اکثر واقعات میں پیار کا جھانسا دینے والا لڑکا شادی نہیں کرتا، بل کہ کہیں اور دل لگا لیتا ہے۔ یوں لڑکی گھر کی رہتی ہے نہ گھاٹ کی ۔
۵- کسی مال دار اور امیر گھرانے یا مشہور ماں باپ کی اولاد ہونے سے بھی سسرال میں(Adjust) ہونے میں مشکل ہوتی ہے۔ سروے کے دوران کم از کم تین کیس ایسے سامنے آئے ، جن کے گھر والے مالی طور پر زیادہ آسودہ تھے اور لڑکے والے نسبتاً کم یا لڑکی والے قدرے مشہور تھے اور لڑکے کے والدایک عام شخص ۔ لڑکیوں کے ذہن میں والدین کی امارت اور شہرت کا خناس !پھر کیا تھا ، جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔
۶- یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات مائیں ، بیٹی کا گھر اجاڑنے کا باعث بنتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جان بوجھ کر یہ سب کرتی ہیں، بل کہ اپنی ناسمجھی ، سادگی اور حماقت سے بربادی کا سبب بنتی ہیں۔ بیٹی کی بات پر کان دھرنے،اسے الٹے سیدھے مشورے دینے ، اس کے پیچھے چلنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے واقعات اکثر طلاق کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ لڑکی کو شہ ملتی ہے تو شیر ہوجاتی ہے اور اپنا گھر تباہ کرلیتی ہے۔
۷- اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ لڑکیوں میں تحمل اور برداشت کی کمی ہے۔ والدین کی اور خصوصاً ماوٴں کی جانب سے دی گئی تربیت ناقص ہے ۔ لڑکی کو ذہنی طور پر نئی ذمہ داریوں اور ایثار کے لیے تیار نہیں کیا جاتا۔ وہ ہر معاملے میں خود کو حق بجانب سمجھتی ہے اور میکے والے اس کی حمایت کرتے ہیں ۔بعض حالات میں صرف اس لیے طلاقیں ہوگئیں کہ لڑکی اپنے شوہر کو لے کر الگ ہونا چاہتی تھی، جب کہ لڑکا اور اس کے گھر والے تیار نہ تھے۔ یا ان کے پاس وسائل نہ تھے یا اس کی ضرورت نہیں تھی۔ عجلت ، غلط سوچ ، غیر عاقلانہ مشورے اور میکے کی غیر ضروری سرپرستی اور مداخلت بھی طلاق کا سبب بنتی ہے۔
۸- جادو ، ٹونا ایک اور اہم سبب ہے ۔ بعض اوقات تعویذ گنڈے اور جادو ٹونے کے شواہد سامنے آتے ہیں، لڑکی یا لڑکے کے اعزا یا کسی اور جاننے والے نے کالے یا سفلی عمل کے ذریعہ ایسی کوشش کیں۔
۹- طلاق کے بعض واقعات میں ایک حیرت انگیز انکشاف یہ بھی ہوا کہ کسی بات پر ناچاقی اور کدورت کا آغاز شادی سے پہلے ہوا تھا۔ مثلاً زبر دستی حق مہر منوالیا گیا، جہیز میں کچھ لینے دینے کی بات ہوئی تھی اور اسے پورا نہیں کیا گیا ، پھرشادی کے بعد چھوٹی چھوٹی بات پرسسرال والوں نے طعنے دینے شروع کردیے۔ پھر بات بڑھتی ہی چلی گئی اور یہی چیز لڑکی کے حق میں زہر بن گئی ۔ پتا چلا کہ لڑکے والوں کے دلوں میں وہی مہر یا جہیز کے بارے میں ملال تھا، جو اشتعال بن گیا۔
۱۰- ضرورت سے زیادہ تعلیم ، حدسے زیادہ خود اعتمادی ،ضد اور اڑیل پن بھی طلاق کا سبب بنی ہے۔
بعض طلاقوں کا سبب لڑکی کی زیادہ اور لڑکے کی کم یا برابر تعلیم تھی۔ لڑکی نے مشکل حالات میں ایڈجسٹ کرنے کے بجائے یہ سوچنا شروع کردیا کہ وہ سر نہیں جھکائے گی، طلاق ہوتی ہے تو ہوجائے۔ اس کے پاس اتنی تعلیم ہے کہ وہ نوکری کرکے اپنا پیٹ پال سکتی ہے ، والدین یا بھائیوں پر بوجھ نہیں بنے گی ۔ یہ شعور دینے والی تعلیم بے شعوری کا سبب بن جاتی ہے۔
کام یاب ازدواجی زندگی میں والدین کی تربیت کا کردار :
رفیق ، رفیقہٴ حیات کے انتخاب میں اسلامی معیار صرف اور صرف دین داری وسنجیدگی ہے اور اس پر کام یابی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔لہٰذا والدین کا فریضہ بنتا ہے کہ:
اولاً: وہ اولاد کی دینی تربیت کرے۔ دینی تربیت میں بھی بنیادی چیزیں؛ اخلاقی کردار ، سنجیدگی اور مشکل حالات میں قوت فیصلہ کی تربیت وغیرہ۔
ثانیاً: بچوں اور بچیوں کے لیے رفیق ، رفیقہٴ حیات کا انتخاب کرنے میں دین داری ، سمجھ داری اور حسن اخلاق کو ترجیح دے، دیگر چیزوں کو ضمنی ہی رکھے۔
ازدواجی زندگی میں سرد و گرم آندھیاں آتی ہی رہتی ہیں، ایسے مواقع پر سنجیدگی اور سمجھ داری زندگی کی مضطرب کشتی کے لیے مضبوط لنگر کا کام دیتی ہیں۔
ثالثاً : رفیق ،رفیقہٴ حیات کے انتخاب کے وقت والدین کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ لڑکا اور لڑکی کے مزاج میں ہم آہنگی کا خیال رکھے۔ دو مختلف مزاج میاں بیوی کو بہت تلخ مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رابعاً : نئی شادی شدہ لڑکی ابتدا میں سسر ال کی ناگوار باتیں بیان کرتی ہیں تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ اس کی راہ نمائی کرے؛ حالات ِزمانہ سے نمٹنے کا حل اس کے سامنے رکھے ، اسے ہمت دے کہ وہ سسرال میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کرلے۔
خامساً : اسلام اسے مشترکہ خاندانی نظام کی تائید نہیں کرتا، جس میں بہو کو غلام سمجھا جائے، اسے بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے۔بڑی بہو،بیٹے ،راجا اورباقی پرجا بنادیا جائے؛ تاہم کچھ گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں ، جس میں والدین کے کندھوں پربیٹوں بیٹیوں کے شادی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مشترکہ خاندان ہی کی صورت میں یہ ذمہ داریاں پوری ہوجائے اوربعد میں ہر ایک کو خود مختار بنادیا جائے گا۔ تو اس بہانے کو ایک حد تک قبول کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بہو کو مساویانہ طرز معاملہ سے بھی محروم کردیا جائے۔
سادساً : ایک ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ کم عمر میں ہونے والی شادیاں زیادہ کام یاب ثابت ہوتی ہیں۔ لڑکیوں کی عمرزیادہ ہوتی ہے تو مسائل زیادہ جنم لیتے ہیں ،ان کے اندر کمپر ومائز کی قوت کم زور ہوجاتی ہے؛ کیوں کہ وہ پروفیشنل لائف میں آجاتی ہیں۔ ان کی ساخت کچھ اس طرح بن جاتی ہے کہ اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہتی ہیں۔
اسی طرح جب نوجوان لڑکوں کی شادی وقت پر نہیں ہوتی تووہ دیگرراستے تلاش کرتے ہیں ۔ آپ اگر کسی کو حلال کھانا نہیں دیں گے تو وہ حرام ہی کھائے گا۔ دراصل یہی تعلیم ؛اسلام کی ہے کہ لڑکا لڑکی مناسب عمر کو پہنچے تو شادی میں دیر نہ کی جائے۔