مکاتیبِ یوسفی

(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)

مکتوب نمبر :(۶)

            ۳- ویسے تو ہر وقت قرآن پاک پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن رمضان المبارک میں بہت زیادہ اہتمام ہونا چاہیے کہ یہی وہ مہینہ ہے، جس میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآن کا نزول ہوا۔

            حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کا بیالیس سالہ معمول یہ رہا کہ رمضان المبارک میں روزانہ ایک قرآن شریف ختم فرماتے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، اگر کوشش کی جائے تو ہر مشکل آسان ہوجائے۔

مشکلے نیست کہ آسان نہ شود

مرد باید کہ ہراساں نہ شود

            کوئی مشکل ایسی نہیں جو آسان نہ ہو، لیکن باہمت ہونا چاہیے اور ساتھ ہی توفیق ِالٰہی کی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہمیں اوقات کی بالخصوص ماہ مبارک کی نگہبانی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مکتوب نمبر :(۷)

            ایک طالب حق نے غیبت کے مرض کی شکایت تحریر کی تو حضرت نے جواباً تحریر فرمایا:

            ” غیبت بطور مرض کے تو آپ میں نہیں ہے، مگر کبھی صحبت وماحول کے اثر سے ہوجاتی ہوگی۔ اس سے احتیاط لازم ہے۔ اگر کسی دن ہو جائے تو جس کی غیبت کی گئی اس سے کہہ کر معافی مانگ لی جائے۔ اور یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کے لیے کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے اور اس کے لیے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ اس مرض سے مجھ بھی محفوظ رکھے آپ کو بھی۔ آمین!

            ۱- اس مکتوب گرامی سے معلوم ہوا کہ اہل بد کی صحبت سے احتیاط کرنا چاہیے۔ بعض مرتبہ انسان میں کسی گناہ کی عادت نہیں ہوتی، لیکن صحبت کی وجہ سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے۔ صحبت بہت زیادہ موٴثر ہے۔

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح ترا طالح کند

            اچھوں کی صحبت تجھے اچھا بنادے گی اور بروں کی صحبت تجھے برا بنا دے گی۔

            ۲- مسلم شریف کی حدیث ہے۔

            ”الفخر والخیلاء فی اصحاب الابل والسکینة والوقار فی اصحاب الشاة۔“

            یعنی فخر اور دکھلاوا اونٹ والوں میں ہوتا ہے ۔ اور تواضع وانکساری بکری والوں میں ہوتی ہے۔

            اس کی وجہ یہی ہے کہ چوں کہ اونٹ کے اندر بڑائی اور تکبر کی صفت ہے، لہٰذا اس کی صحبت سے تکبر ہی پیدا ہوگا اور چوں کہ بکری کے اندر تواضع ومسکنت کی صفت ہے، لہٰذا بکری والوں میں تواضع ومسکنت پیدا ہوتی ہے۔

            ۲- اس مکتوب سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ غیبت سے احتیاط کرنا چاہیے کہ اس گناہ میں حق تعالیٰ کی تفویت کے ساتھ حق العبد بھی فوت ہوتا ہے، لیکن اکر غیبت ہوہی جائے تو اس کے ازالہ کی اورتوبہ کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو جس شخص کی غیبت کی گئی ہے، اس سے معافی مانگ لی جائے اور اگر اظہار سے اس کے ناراض ہوجانے کا خوف ہو، تو پھر توبہ کرکے ایصال ثواب کرے۔

            علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ غیبت جب تک صاحب ِغیبت کو نہ پہنچے، اس وقت تک حق العبد نہیں ہوتی۔ لہٰذا توبہ کرنے سے عفو کی امید رکھی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی اس شخص کے لیے بھی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے، اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔

            حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ”ان من کفارة الغیبة ان یستغفر لمن اغتاب بہ تقول اللہم اغفرلنا ولہ ۔“

 (بیہقی)

            یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے، اس کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرے اور یوں کہے یا اللہ ہمارے اور اس کے گناہوں کو معاف فرما۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذنب شنیع سے محفوظ رکھے۔ آمین!