مکاتیبِ یوسفی

(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)

مکتوب نمبر :(۳)

             ایک طالب علم نے ترک ِتعلیم کے متعلق لکھا تھا۔ حضرت کے جواب کے بعد الحمدللہ ترک ِتعلیم کا ارادہ ترک کردیا اور عربی تعلیم شروع کردی۔ ماشاء اللہ وہ طالب علم اتنا ذہین نکلا کہ اپنی جماعت میں اول نمبر سے کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت مد ظلہ کے جواب کا اقتباس درج ِذیل ہے:

            ” ایک بات ذہن نشین کرلو کہ یہ دنیا ،اس کی لذتیں اور اس کی ساری ضرورتیں سب فنا ہونے والی اور وقتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ جس وجہ سے دارالعلوم چھوڑنا چاہتے ہیں، وہ دنیوی ہی ہیں۔ اس کی وجہ سے آپ اتنے بڑے خسارہ اور نقصان کو مول لینے کے لیے تیار ہیں۔“

            ان دو مکتوب گرامی سے چند باتیں معلوم ہوئیں:

            ۱- دنیا کی زندگی محض ایک کھیل اور تماشہ ہے۔ حقیقی زندگی حیات ِاخروی ہے اور آخرت کی جاوید نعمتیں حق تعالیٰ کی محبت کے بغیر ہر گز حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اور حق تعالیٰ کی محبت کے ساتھ دنیا کی محبت کا جمع ہونا ایسا ہی ناممکن ہے، جس طرح ایک برتن میں آگ اور پانی کا جمع ہونا ناممکن ہے اور جب تک انسان دنیا سے منہ نہ پھیر لے گا کہ ان فانی تعلقات کو منقطع کرلے اور بقدر ضرورت پر قناعت کرلے۔ اس وقت تک حق تعالیٰ کی محبت پیدا نہ ہوگی؛لہٰذا دنیا کی محبت قلب سے نکال کر اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کی کوشش کی جائے۔

یوں تو دنیا دیکھنے میں کس قدر خوش رنگ تھی

قبر میں جاتے ہی دنیا کی حقیقت کھل گئی

            ۲- اپنی اصلاح کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیےجہاں گناہوں کے دواعی نہ ہوں اور جہاں ہر وقت برکات کا نزول ہوتا ہو اور یہ چیزیں اہل اللہ کے پاس ہی میسر آسکتی ہیں۔

مکتوب نمبر :(۴)

             ایک طالب علم حق کو تحریر فرمایا:

            ” ماہ ِمبارک کے ایام سیر و تفریح وغیرہ میں بے کار ضائع نہ ہوں، بل کہ اندرون کو تعمیر کرنے میں صرف کرے۔بالخصوص ماہ ِمبارک میں کہیں جانے ملنے جلنے سے احتراز کریں۔“

            ایک اور مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

مکتوب نمبر :(۵)

            ”اور ممکن ہو تو پورے ماہ کا ورنہ کم ازکم آخر عشرہ کا اعتکاف ضرور کرلیں، اپنے اوقات کی حفاظت کریں، زیادہ وقت تنہائی میں شغل مع اللہ میں گزاریں، نئے پرانے دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کے بجائے اپنے اوقات کو مشغول رکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کو علم وعمل کی دولت سے نوازے اور اپنی محبت سے سرشار فرمائے۔ “آمین!

مکتوب نمبر :(۶)

            ایک اور مکتوب گرامی میں تحریر فرماتے ہیں:

            ”ماہ ِمبارک میں قرآن پاک پرجتنا زور لگائیں کم ہے، بل کہ چند دن تو ضرور ایک دن رات کا ایک قرآن شریف پڑھ کر دیکھیے۔ حضرت شیخ مدظلہ نے ساری عمر رمضان میں روزانہ ایک قرآن پاک سے زیادہ ہی پڑھا ہے۔۳۵، ۴۰، سپارے روزانہ کے ہوتے تھے۔ آپ بھی اس کی مشق کرکے دیکھیں، اللہ تعالیٰ ہمت وقوت عطا فرمائے۔(آمین)

ان تین مکاتیب سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں:

            ۱- رمضان المبارک کے ایام کو بے کار ضائع نہ کیا جائے، بل کہ ہر وقت اپنے آپ کو مشغول رکھا جائے۔ اگر کوئی بھی کام نہ ہو اور تکان ہو تو سوجائے ، لیکن ادھر ادھر کی لغویات سے احتراز کیا جائے کہ یہ ایام بار بار نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔

            ۲- اعتکاف کا اہتمام کیا جائے۔ اگر پورا مہینہ نہیں تو کم ازکم آخر عشرہ کا اعتکاف ضرور کیا جائے۔ احادیث میں اس کی فضیلت کثرت سے وارد ہوئی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے یہاں اس کا بہت اہتمام ہوتا تھا۔