معار ف کا پو د روی

قرآن ِکریم کی صداقت:

            ابھی امریکہ میں کچھ سال قبل زلزلہ آیا تھا۔ سان فرانسسکو جاتے ہوئے ،جب اس جگہ سے گزر ہوا تو مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ وہ پل ہے ،جس پر سے زلزلہ آتے ہی ۴۵/ گاڑیاں فوراً نیچے گرگئی تھیں اور بی بی سی پر انٹرویو دینے والے لوگ کہتے تھے کہ ہمیں تو کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ ہم کہاں ہیں اور کیا ہور ہا ہے؟نہ ہمیں اپنے بچوں کا کچھ پتا تھانہ اپنے گھر کا کوئی پتہ تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سب کو شراب پلائی گئی ہو۔ جب اس نے انٹرویو میں یہ جملہ کہا کہ ہمیں ایسا معلوم ہور ہا تھا کہ ہم نے شراب پی ہے،تو مجھے قرآن کریم کا یہ لفظ یادآیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وتری الناس سکٰریٰ وما ہم بسکٰریٰ ولٰکن عذاب اللہ شدید﴾ تم لوگوں کو دیکھو گے کہ جیسے نشے پلائے ہوئے بھٹک رہے ہیں؛ لیکن لوگو!یادرکھو ان کو کسی نے نشہ نہیں پلایا ہے ،بل کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہی اتناسخت ہے کہ وہ لوگ مد ہوش نظر آ رہے ہیں، خدا سے ڈرنا چا ہئے۔ قرآن مجید کوغور سے پڑھو،علما کے پاس بیٹھ کر آیتوں کو سمجھو۔

            میرے دوستو! یہ کیا چیز یں ہمارے گھروں کے اندر رکھی ہیں؟یہ جز دانوں ، ریشمی رومالوں میں لپیٹ کر رکھنے کی چیزنہیں ہے۔ یہ تو کتاب ِہدایت ہے، جس میں ہمارے لیے زندگی کے نقشے بیان کیے ہیں، اپنے بچوں کو پڑھاؤ اور اپنی زندگی کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدافر مایا،اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں ہم کو دی ہیں، اس پر شکر اور اللہ کے بندوں کے اوپر خرچ کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے۔

            میرے بھائیو! ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس گھروں میں یہ دولت ہے، ہمیں اس کی قدرکرنی چاہیے۔ اگر دنیا کی دوسری قومیں غلط راستوں پر جاتی تو ان کے پاس تو کوئی عذر ہے، لیکن ہمارے پاس کیا عذ ر ہے؟ ہمارے پاس صحابہ کے روشن نمونے ہیں، ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہٴ کرام جناب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونے کے طور پر چھوڑے۔ دنیا کا کوئی معلم ایسانہیں آیا ،جس نے ایسے شاگر د پیدا کیے ہوں، اسی لیے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رئیس المعلمین ہیں۔ آپ پوری دنیا کی انسانیت کی ہسٹری دیکھتے جائیں کہ دنیا کا کوئی معلم،کوئی ٹیچر ایسانہیں ہوا کہ جس نے صحابہٴ کرام جیسے جاں نثار شاگر د تیار کیے ہوں۔

آج بھی ہوگر ابراہیم ساایماں پیدا:

            اسی لیے ہمارے بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ بقر عید کے موقع پر ہم حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا قصہ لوگوں کو سناتے رہتے ہیں کہ بھائی حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام نے اللہ کے حکم سے اپنے چہیتے بیٹے کے گلے پرچھری چلائی۔انہوں نے خواب میں دیکھا ﴿ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ﴾ کہ اے اسماعیل! میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔وہ بھی آخر پیغمبر کے بیٹے تھے اور پیغمبر ہونے والے تھے، انہوں نے کہا﴿ یٰاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ اے میرے ابا جان! آپ کر گذریئے ،جس کا آپ کو حکم کیا جار ہا ہے، ﴿سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ﴾کہ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پاؤ گے ۔تو اس پر ہم لوگ بہت تعجب کر تے ہیں اورواقعی تعجب کی بات ہی ہے، لیکن ہمارے بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ قسم کھا کر کہا جا سکتا ہے کہ جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار ایسے شاگر دتیارفر مائے، جواللہ کے راستے میں اپنے بیٹوں کوقربان کر نے کے لیے تیار تھے۔یہ تاریخ کا عجو بہ ہے، سید نا ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ ایک ایک صحابی میں موجود تھااور اس لیے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھانا کھار ہے تھے کہ ان کے صاحبزادے نے کہا :ابا جان فلاں غز و ہ میں آپ میری تلوار کی زد میں آ چکے تھے، لیکن میں نے آپ کو اس لیے نہیں مارا کہ آپ میرے والد ہیں اور میں کترا کے چلا گیا۔سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لقمہ اٹھائے ہوئے تھے،لقمہ نیچے رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قسم خدائے پاک کی اگر اس دن تم میرے سامنے آتے تو میں تمہاری گردن تن سے الگ کر کے رکھ دیتا اس لیے کہ تم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں آئے ہوئے تھے۔ جب تاریخ میں میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کہا یہ وہی جذ بہ ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا۔

آج بھی ہو گر ابراہیم سا ایماں پیدا

 آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

            ابراہیم کا جذ بہ تو پید اکرو۔ابراہیم کے ایمان سا ایمان تو پیدا کرو، جورسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ میں پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔