ملفوظا تِ وستا نوی

سبق میں غیر حاضری کا نقصان:

            اللہ کا شکر ہے تعلیمی نظام بحسن وخوبی شروع ہو چکا ہے۔ اور طلباء کی بڑی تعداد حاضر ہو چکی ہے۔ آپ سے درخواست کی جارہی ہے کہ سبق کی حاضری پابندی سے دیں،کیوں کہ غیر حاضری سے طالب علم کو ایسا نقصان ہوتاہے کہ جس کا تدارک نہیں ہو سکتا۔

            طلبا کو رخصت لینے میں بھی بہت احتیاط کرنا چاہیے۔معمولی معمولی بات کا بہانہ بناکر چھٹی لینے آتے ہیں، میری طبیعت پر اس کا بڑا بوجھ ہوتاہے۔میری طبیعت کسی کو انکار کرنے کی نہیں ہوتی۔کوئی جھوٹ بولتاہے، کوئی سچ بولتاہے،لیکن جھوٹ بولنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

سچ بولنے کا نتیجہ اور جھوٹ بولنے کا انجام:

             حالاں کہ حدیث میں آتاہے:

             ” اَلصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالْکِذْبُ یُھْلِکُ۔“

            سچائی نجات دیتی ہے، اور جھوٹ ہلاک کر دیتاہے۔

            کبھی جھوٹ مت بولو!جتنا سچ بولوگے اتنی کامیابی حاصل ہوگی،ابھی آپ کو جھوٹ کی عادت پڑ جاتی ہے، تو مولوی ہوکر بھی تم جھوٹ بولوگے، پھر تمہیں اس بری عادت پر جاہل بھی ڈانٹے گا۔

            آدمی کو سچائی سے بات کرنی چاہیے۔جو خراب عادت ابھی طالب علمی کے زمانے میں پڑ جاتی ہے وہ اخیر تک رہتی ہے۔

طالب علم کو اچھائی کی عادت ڈالنی چاہیے:

            مثال کے طور پر کسی کو اچھی عادت یہ لگی کہ اذان کی آواز سن کر سیدھے وضوخانہ پر آئیں گے، وضو سے فارغ ہوں گے، مسجد میں آئیں گے، دو رکعت نماز پڑھیں گے، سنت پڑھیں گے، قرآن کی تلاوت کریں گے، تو یہ عادت ان شاء اللہ اس کو موت تک رہے گی۔

            اور جو عادت ایسی ہے کہ اذان بھی ہوگئی اور سویا ہے،کوئی اٹھا رہا ہے تب بھی اس کی سستی نہیں جارہی ہے۔ رکعت تو گئی، جماعت بھی گئی۔ اور کتنے لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو نماز بھی نہیں پڑھتے ہیں۔

            مجھے دکھانے کے لیے نماز مت پڑھو۔اللہ کو دکھانے کے لیے نماز پڑھو۔اس فریضہ کو ادا کرنے کے لیے اپنی طبیعت بناوٴکہ نمازکے تعلق سے میرے آقا نے فرمایا:

”الصلوة قرة عینی۔“

نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔

            طالب علم اور بے نمازی ؟وہ طالب علم نہیں ہے،وہ بے وقوف ہے۔اس سے کوئی توقع نہیں کی جائے گی کہ جو مدرسہ میں رہتاہے، مدرسہ کی دال روٹی کھاتاہے، اور وہ نماز نہیں پڑھتا۔ اللہ اکبر!

            بہت بڑا گناہ ہے۔ اور جس کو ابھی گناہ کی عادت پڑ گئی، یہ گناہ کی عادت جانے والی نہیں ہے۔ جیسے ایک آدمی کو اچھی عادت پڑ گئی، جیسے کسی کو عادت یہ پڑ گئی کہ اذان ہوتے ہی وہ اٹھ جاتاہے، وضو کرکے سنت ونوافل پڑھ کر، تلاوت کلام اللہ کرتاہے، باجماعت نماز ادا کرتاہے۔ یہ عادت اس کو قبر تک لے جائے گی۔وہ جب فارغ ہوکر کسی مسجد میں امامت کے لیے مقرر ہوگا تو اس کو کوئی نہیں ٹوکے گا۔

             لیکن جو آدمی یہاں نماز نہیں پڑھتا، وہ گھر پر بھی نہیں پڑھتا؛یہاں ڈنڈا ہے، ماحول ہے، تو ڈنڈے کے زور سے بھی نماز نہیں پڑھ رہا ہے، چھپ جا رہا ہے،تو یہ سارق، چور کہلاتاہے۔نماز کا چور ہمیشہ چور ہی رہتاہے۔

میرے بچو!

”اِنَّ مِنْ اَہَمِّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِیْ الصَّلَاةُ۔“

تمہارے معاملہ میں سب سے اہم معاملہ نماز ہے۔

            جو جامعہ میں نمازی بن گیا وہ زندگی بھر نمازی رہے گا، جو جامعہ میں بے نمازی بنا، وہ زندگی بھر بے نمازی رہے گا۔اور یہ میں نے بہت دیکھا ہے، میری فراغت کو آج پچاس سال سے زائد ہوگئے، پچاس سال سے میں مدارس کے احوال دیکھ رہا ہوں،میری زندگی کے ساٹھ سال مدرسوں میں گزرے ہیں، دس سال پڑھنے کے، دس سال پڑھانے کے، اور چالیس سال جامعہ کے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جو نمازی بنا وہ نمازی رہا،جو بے نمازی رہا وہ بے نمازی ہوگیا۔

             یہ میں بالکل اللہ کے گھر میں بیٹھ کر بات کررہا ہوں، کوئی غلط بات آپ کے سامنے نہیں کروں گا؛کیوں کہ میرے اوپر بھی یہ لاگو ہوتا ہے کہ میں سچ بولوں۔ سچ آدمی کو نجات دیتاہے۔ اور جھوٹ تباہ کرتاہے۔

طلبہ دورہٴ حدیث کے لیے ۲۹/ ۳۰/ پارے کا حفظ لازمی :

            قرآن کریم کے تعلق سے ابھی دو روز قبل ہی درجہٴ تجوید کے اساتذہٴ کرام کو یہ تاکید کی گئی ہے، کہ ۲۹/۳۰/واں پارہ ہر جماعت کے طالب علم کو حفظ کرالینا ضروری ہے۔اور دورہٴ حدیث کے طلبا میں آج میں اعلان بھیج ہی رہا تھا، لیکن مشغولیت اور آمد ورفت کی کثرت کی وجہ سے رہ گیا۔

            تو طلبہٴ دورہٴ حدیث سن لیں کہ آپ کے امتحان سے پندرہ دن پہلے، انتیس، تیسواں پارہ چاہے وہ حافظ قرآن ہے، یا غیر حافظ قرآن ہے، ا ن کا بالتجوید امتحان ہوگا۔

            لہٰذا دورہٴ حدیث کے طلبہ خصوصاًاور عموماً سب ہی طلبہ،شعبہٴ تجوید میں جانے والے یا نہ جانے والے یہ دو پارے حفاظ وغیر حفاظ طلبہ کے لیے اپنے اپنے اساتذہ کو سنانا، از حد ضروری ہے۔

            بعض بچوں نے قرآن اتنا بہترین سنایا کہ جی خوش ہوگیا۔ قرآن اللہ کی مقدس کتاب ہے۔ ﴿ذلک فضل اللہ یوٴتیہ من یشاء﴾اللہ کسی کو آواز دیتاہے۔اللہ کسی کی سانس بڑھاتاہے۔ اللہ کی توفیق سے کسی کے مخارج اور صفات کی ادائیگی بہت عمدہ ہوتی ہے۔

تلاوت ِقرآن پاک سے غافل طالب علم بد نصیب ہے:

            طالب علم کو قرآن پر محنت کرنی چاہیے۔ جامعہ اور مدرسہ میںآ نے کے بعد اگر کوئی طالب علم قرآن سے غافل رہتا ہے، تو اس سے زیادہ بد نصیب کوئی نہیں ہو سکتا۔احاطہٴ جامعہ میں رہنے والا بچہ اگر قرآن کریم سے محبت نہیں کرتا، قرآن کریم یاد نہیں کرتا، قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتا، قرآن کریم نہیں سنتا، سناتا تو وہ بد نصیب ہے۔مرکز قرآن میں رہ کر آدمی قرآن سے غافل رہے؛ یہ نہیں ہو سکتا۔

حفاظ کے لیے رمضان میں بغیر کسی پریشانی کے تراویح پڑھانے کا نسخہ:

            ہم صبح جلدی اٹھیں، اپنی حاجت سے فارغ ہوکر، مسجد میں نماز پڑھیں، اور قرآن لے کر بیٹھ جائیں۔ دیکھو پھر تمہیں قرآن کیسا یاد ہوتاہے، اگر حفاظِ قرآن بچے اپنے حفظِ قرآن کی فکر پورا سال کرتے ہیں؛تو رمضان میں وہ بلا خوف وخطر تراویح پڑھائیں گے،ان کو تراویح پڑھانے میں کوئی دقت، پریشانی، تکلیف نہیں ہوگی۔

            بعض لوگ فخر کرتے ہیں کہ ہم تو سال میں ایک مرتبہ قرآن دیکھتے ہیں، ایسے بے وقوف محروم القسمت ہیں۔

            ایک صاحب مجھے ملے اور کہا:کہ مولانا ہم تو سال میں ایک مرتبہ قرآن دیکھتے ہیں، میں نے کہا:استغفر اللہ۔ میں نے کہا:ہم تو روزانہ قرآن دیکھتے ہیں۔ قرآن دیکھنے سے انسان کی نگاہ بھی تیز ہوتی ہے،دل بھی مضبوط ہوتاہے، آواز بھی اچھی ہوتی ہے؛ کبھی ایسا نہیں بولنے کا کہ ہم قرآن نہیں دیکھتے۔

            پکا حافظ ہو، یا کچا حافظ ہو، اس کو تو قرآن سے بے پناہ محبت ہونی چاہیے۔ قرآن دیکھ کرپڑھنا اور زیادہ باعثِ ثواب ہے۔

            تو قرآن کی تلاوت کے ساتھ جو طلبہ شغف رکھیں گے، وہ ان شاء اللہ آگے چل کر بہترین قاری ٴقرآن بنیں گے،وہ خادمِ قرآن بنیں گے،وہ خادم تفسیر بنیں گے۔

”نحو، صرف “پڑھنے والے طلبہ کے لیے اجرائے قواعد اور صیغے پہنچاننے اور یاد رکھنے کا نسخہ:

            صرف ونحو پڑھنے والے طلبہ قرآن میں اجراءِ قواعد کریں، دیکھو قرآن کیسے اس کو یاد رہتاہے۔ اور کیسے وہ قواعد کا استحضار کر لیتے ہیں۔قرآن کریم کے اندر صیغے تلاش کرو۔

             عربی اول کا طالب علم قرآن شریف لے کر بیٹھ جاوے۔ ھدی للمتقین،”المتقین“ کیاہے؟ فوراً آپ کا دماغ چلنا چاہیے۔قرآن سے” صرف“ سیکھو۔صرف ونحو کا قرآن میں اجراء کریں گے، تو کبھی تمہاری بھول بھی نہیں جائے گی۔

            مدرسہ میں پڑھنے والے طالب علم کو قرآن سے ایسا لگاوٴ ہونا چاہیے، جس کی انتہانہیں۔آپ ”قصص النبیین“ پڑھتے ہیں، اس میں قرآنی آیات آتی ہیں،حضرت مولانا علی میاں صاحب رحمة اللہ علیہ اس کے مصنف ہیں،ہندوستانی عالم ہیں، لیکن کتابیں آپ نے ایسی لکھی،کہ عربستان کے مدارس میں داخل ِنصاب ہیں۔

            تو بچو! بات سمجھنے کی ہے۔ آپ کوئی بھی عربی عبارت پڑھو، فوراًتمہارا دماغ ”صرف، نحو“ میں چلا جانا چاہیے۔

            لوگ کہتے ہیں صرف نحو بہت مشکل ہے، کچھ مشکل نہیں ہے۔ قرآن کے ساتھ مناسبت ہوگی، تو ان شاء اللہ خیر رہے گی۔