انوار نبوی ا
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی#
عَنْ أبِی ہُریرةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَال : جَاءَ رَجُلٌ الَی النَبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالََ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَرَأیْتَ اِنْ جَاء رَجُلٌ یُرِیْدُ اَخْذَ مَالِی؟ قَال:َ فَلَا تُعْطِہِ مَالَکَ۔ قَال اَرَأیْتَ انْ قَاتَلَنِی؟ قال: قَاتِلْہُ ۔قَالَ اَرَأیْتَ اِنْ قَتَلَنِیْ؟ قَال:َ فَاَنْتَ شَہِیْد۔ٌ قَال اَرَأیْتَ اِنْ قَتَلْتُہُ؟ قَالَ ہُوَ فِیْ النَّارِ۔ (۲) اخْبَرَنِیْ سُلَیْمَانُ الْاَحْوَلُ اَنَّ ثَابِتًا مَوْلی عُمَرَبْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَخْبَرَہُ اَنَّہُ لَمَّا کَانَ بَیْنَ عَبْدِ اللَّہِ ابْنِ عَمْرٍو، وَبَیْنَ عَنْبَسَةَ بْنِ اَبِیْ سُفُیَانَ ، مَاکَانَ تَیَسَّرُوْا لِلْقِتَالِ فَرَکِبَ خَالِدُبْنُ الْعَاصِ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو فَوَعَظَہُ خَالِدٌ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہ فَہُوَ شَہِیْدٌ ۔(مسلم شریف)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک شخص آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یار سول اللہ ! یہ بتادیں کہ اگر کوئی شخص میرا مال لینے کے ارادے سے آئے ( تو میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو اپنا مال مت دینا۔ انہوں نے کہا : آپ یہ بھی بتادیں کہ اگر وہ شخص مجھ سے لڑائی کرنے لگے تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے لڑائی کرو۔ انہوں نے کہا آپ بتائیں کہ وہ اگر مجھے مار ڈالے تو ؟ آپ نے فرمایا: تو شہید ہوگا ۔ انہوں نے کہا یہ بتائیں کہ اگرمیں اس کو مار ڈالوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جہنمی ہوگا۔
جب عبد اللہ بن عمرو اور عنبسہ بن ابی سفیان کے درمیان لڑائی کی تیاری شروع ہوئی تو خالد بن عاص عبد اللہ بن عمرو کے پاس بذریعہ سواری تشریف لے گئے اور ان کو سمجھایا تو عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے ۔
تشریحِ حدیث
اپنے مال کی حفاظت کمالِ ایمان میں سے ہے:”نفع المسلم شرح صحیح مسلم “میں اس حدیث کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ کسی کا ناحق مال دبالینے سے ایمان میں نقصان آجاتاہے اور اس میں دوسرا پہلو ، اپنے مال کی حفاظت یہ کمالِ ایمان میں سے ہے ؛یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا مال ہڑپ کرنا چاہے ، تو مالک کو چاہیے کہ اس سے مزاحمت کرے ، اگر اس مزاحمت میں اس کی جان چلی جائے تو شہید کہلائے گا ۔ یہ شہید ِاخروی ہے ۔
اپنے نفس یا مال یا اہل سے ظلم کودفع کرنے کے لیے قتال جائز ہے:
”نعمة المنعم شرح صحیح مسلم “میں حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی کچھ اس طرح اس حدیث کی تشریح کرتے ہیں:”یرید اخذ مالہ“ مال قلیل ہو یاکثیر قتال جائز ہے۔ استقبلہ اللصوص ومعہ مال لا یساوی عشرة، حل لہ ان یقاتلہم، لقولہ علیہ الصلوة والسلام: قاتِلْ دُون مالک۔ والمال یقع علی الکثیر والقلیل ۔ (بحرا الرائق )
اپنے نفس یا مال یا اہل سے ظلم کودفع کرنے کے لیے قتال جائز ہے ، خواہ ظالم جان لینے کا ارادہ رکھتا ہو یا مال یا اور کوئی ظلم کرنا چاہتا ہے؛ بشر ط کہ قتل کے سوا اس کے ظلم کو دفع کرنے کی کوئی دوسری شکل نہ ہو ۔
رای رجلا یسرق مالہ فصاح ولم یہرب او رای رجلا ینقب حائطہ او حائط غیرہ وہو معروف بالسرقة فصاح ولم یہرب ، حل لہ قتلہ ، ولا قصاص علیہ۔ قابوس بن مخارق اپنے باپ مخارق سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا: یا نبی اللہ آت اتانی یرید ان یبزنی (یسلبنی) فما اصنع بہ، قال: تناشد اللہ۔ قال ارأیت ان ناشدتہ فأبی أن ینتہی؟ قال:تستعین بالمسلمین ۔قال یا نبی اللہ أرأیت ان لم یکن أحد من المسلمین استعینہ علیہ؟ قال: استعن بالسلطان۔ قال یا نبی اللہ ارأیت ان لم یکن عندی سلطان استعینہ علیہ قال : فقاتلہ فان قتلک کنت فی شہداء الآخرة ۔ اخرجہ البیہقی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ظالم کے ظلم کو دفع کرنے کی اور کوئی صورت نہ ہو تو(قتال) جائز ہے۔ اگر لوگ موجود ہوکر مدد نہ کریں جیساکہ فی زمانہ دیکھا جاتا ہے۔ شامی نے لکھا ہے کہ بلا استمداد کے بھی قتل جائزہے : اذا لم یقدرالمسلمون والقاضی کما ہو مشاہد فی زماننا والظاہر انہ یجوز لہ قتلہ لعموم الحدیث ۔
اپنے حقوق کے لیے خود کھڑا ہونا ہوگا:
فتح الملہم میں اس حدیث کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:قولہ: (قال : قاتلہ ) الخ: وفی حدیث مخارق بن سلیم بعض ما یتقدم علی المقاتلة، فقد أخرج النسائی من حدیث ابن مخارق عن أبیہ ، قال : ”جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال : الرجل یأتینی فیرید مالی، قال : ذکرہ باللہ، قال: فإن لم یذکر؟ قال: فاستعن علیہ بمن حولک من المسلمین ، قال: فإن لم یکن حولی أحد من المسلمین ؟ قال فاستعن علیہ بالسلطان ، قال: فإن نأی: السلطان عنی؟ قال: قاتل دون مالک حتی تکون من شہداء الآخرة أو تمنع مالک “( کذا فی عمدة القاری)۔
آمدم بر سر مطلب:
حدیث بالا اور اس کی تشریح بالکل واضح ہے ۔وہ ہمیں صاف صاف اپنے مال و حقوق کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے یہاں تک کہ اگر جان دینی پڑے تو بھی پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں دے رہی؛بل کہ مرتبہٴ شہادت پر فائزکر رہی ہے۔(مال والی حدیث اس لیے لی گئی کہ جب مال کے تحفظ کا یہ حکم ہے ،توعزت وآبرو، ملک وملت،دین ومذہب کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم کس قدر اہمیت کا حامل ہے،جس سے آج ہم دو چار ہیں۔)
نعمة المنعم میں بیہقی کے حوالے سے اور فتح الملہم میں نسائی کے حوالے سے اپنے مال کے تحفظ کی جو نبوی ترتیب بتائی گئی ہے ،اسے پہلے میں ذکر کردوں پھر حالاتِ حاضرہ سے اس کی مطابقت پیش کروں گا۔
آپ ﷺ کے پاس جب ایک شخص آکر اپنے مال کے ناحق لے لینے والے شخص کے متعلق پوچھتا ہے،(کہ میں اس کے ساتھ کیا کروں)تو آپﷺ فرماتے ہیں:اسے اللہ کا واسطہ دو ۔اس پر وہ شخص کہتا ہے کہ اگر اس کا اس پر کوئی اثر نہ ہو تو؟آپ ﷺ کہتے ہیں ارد گرد کے مسلمانوں سے مدد لو۔پھر وہ کہتا ہے کہ میرے ارد گرد اگرکوئی مسلمان نہ ہو تو؟آپ نے فرمایا:تو پھر سلطان (حکمران اور قانون )سے مدد لو۔اس پر وہ شخص کہتا ہے ،اگر حکمران بھی کترا جائیں اورمنھ پھیر لیں تو؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:پھر تو خود اپنے مال کے لیے لڑ؛ یہاں تک کہ تو شہدا ئے آخرت کی فہرست میں داخل ہو جا، یا پھر اپنے مال کو بھول جا۔
موجودہ حالات ‘حدیث بالا کے تناظر میں:
میں نے آپ کے سامنے دونوں عبارتوں کی ترجمانی پیش کی۔ اب آتے ہیں ہم موجودہ حالات پر۔۶/ سال سے اس ملک ، اس کی تہذیب، اس کی شناخت،اس کی جمہوریت ،بھائی چارگی ، گنگا جمنی تہذیب،اس کے پرچم کی پہچان اور علامت کو جو پامال کیا جارہا ہے،اس کے آئین اور دستورکے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے،اس کی عوام کو جو ہر طرح سے بیوقوف بنایا جارہا ہے ؛ اپنے لوگوں کو خطیر خطیر رقم دے کر، اس ملک سے بھگا کر اسے جس طرح کنگال کیا جارہا ہے اور یہاں کی غریب عوام کا خون پسینہ چوسا جارہا ہے،وہ عیاں اور بیاں ہے۔انگریزوں نے الگ انداز میں لوٹا یہ الگ انداز میں لوٹ رہے ہیں۔ ان کو بھی اس ملک کی ایک قوم چبھتی تھی ان کو بھی بلا وجہ یہی قوم چبھتی ہے اور اسی پر یہ ظلم بالائے ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ اس ملک کی تئیں اس قوم ِمسلم کی وفاداری اور محبت کی وجہ کر اس کی ہر قسم کی خاموشی کو انہوں نے اس کی کمزوری باور کر رکھاتھااور بڑی تیزی سے ان کی سانسیں تنگ کیے جارہے تھے۔
سیاسی روٹیاں سیکنے کے لیے ہندستان کی مثالی بھائی چارگی کی بھینٹ:
ان سنگھیوں نے جاتے جاتے اپنے آقا سے سب گُر تو ورثہ میں حاصل کرلیے تھے اور نیابت کا پورا وعدہ بھی کر لیا تھا اور اسے بخوبی نبھایا اور نبھا بھی رہے ہیں؛ ہاں! مگر وہ بھول گئے تھے کہ ان کے آقاؤں کو یہ ملک کیوں چھوڑنا پڑاتھا اور کس قوم نے اپنے خونِ شہادت میں انہیں ڈبو کر ان کی سانس ان سے چھین لی تھی۔ اور پھرمادرِ وطن ہندستان اور اس کی مٹی سے محبت کرنے والے یہاں کے تمام مذہبی باشندوں کے آپسی اتحاد اور مثالی بھائی چارگی کے سیلاب نے تو انہیں انگلینڈپہنچا کر ہی دم لیا۔اور پوری دنیا نے اس ملک میں ہندو، مسلم ، سکھ اورعیسائی کی بھائی چارگی کو دیکھا اور مثالیں دیں۔مگر افسوس کی بات ہے کہ ایک دہائی سے خصوصاً سیاسی روٹیاں سیکنے کے لیے اس بھائی چارگی کو مذہب کے نام پر باٹا اور کاٹا جارہا ہے ؛لیکن باطل کا زور زیادہ دیر تک نہیں رہتا اور آنکھوں پر باندھی گئی پٹی بینائی نہیں چھین سکتی،آخر کار اس ملک کی اکثریت نے آنکھوں کا دھول صاف کر لیا ہے اور آج پھر وہ دن آگیا ہے کہ اس اتحاد نے فریبیوں کے پیر تلے زمین کھینچ لی ہے ؛اگر یہ اتحاد باقی رہا اور اس ملک کے وفادار باشندے کچھ دیر اورڈٹے رہے ،اس ملک کی خاطر قربانی دینے کے لیے کمر کسے رہے اور پیچھے نہ ہٹے ،تو ان انگریزوں کے دلالوں کو بھی منھ کی کھانی پڑے گی اور خائب وخاسر ہونا پڑے گا۔
مسلم قوم اسلامی پیغام سے کوسوں دور:
حدیث کی رو سے انہیں اللہ کے واسطے کا تو کوئی اثر ہونے کاسوال ہی نہیں ہوتا، جہاں تک بات رہی قرب وجوار کے مسلم ممالک کی توکچھ خود اپنے حالات میں ڈوبے ہیں اوراکثر ان دنیا پرستوں کے نقشے قدم پر دنیا کے حریص بنے ان کی غلامی کر رہے ہیں۔ محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی کی تاریخ بھلا بیٹھے ہیں؛ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے فرمان:
مثل المومن کمثل جسد واحد،اشتکی بعضہ تداعی کلہ بالسہر والوجع ۔”مومن کی مثال ایک جسم کی طرح ہے،کہ جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے“۔(معجم کبیر طبرانی)اسے بھی پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ آپ کے فرمان کو دیکھیے اور آج مسلم قوم اور ممالک کو دیکھیے ، کو ئی مطابقت ہی نہیں نظر آتی ،لگتا ہی نہیں کہ یہ مسلمان نبی کے فرمان پر جان لٹانے والے ہیں اور دوسروں کے یہاں اس کا بڑا اہتمام ہو رہا ہے ؛جو متفرق تھے وہ متحد ہوگئے ہیں!!
حدیث سے ایک سبقِ عبرت اور ایک اہم حکم:
قال: فاستعن علیہ بمن حولک من المسلمین ۔آپ ﷺ فرمارہے ہیں: کہ ایسی گھڑی اور ایسے وقت میں اپنے ارد گرد کے مسلمانوں سے مدد مانگو۔یہاں پر ہمیں افسوس ہے !! آج جو حالات ہیں وہ ہماری انہیں کوتاہیوں اور نافرمانیوں کا خمیازہ ہمیں بھگتار ہے ہیں۔ ملک کے کئی صوبوں میں حالات آئے؛ لیکن ہم ان کی مدد کے لیے نہیں کھڑے ہوئے، ہم نے چپی سادھے رکھی ،مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کر کے ہم سے ہمارا شرعی حق چھین لیا گیا ،ہم بت بنے رہے ،مکمل فریب اور دغا کے ذریعے ہماری مسجد ہم سے لے لی گئی اور ہمیں سانپ سونگھا رہا۔آج جو حالات ہیں اس میں ہماری اس نااتفاقی اور بے غیرتی کا بڑا دخل ہے ۔حدیث میں صحابی رسول ﷺ کا جملہ دیکھیں قال: فإن لم یکن حولی أحد من المسلمین ؟وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر میرے ارد گرد کوئی مسلمان نہ ہوتو کیاکروں؟انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر وہ مدد نہ کریں تو میں کیا کروں؟اس لیے کہ یہ تصور تھا ہی نہیں کہ ایک مظلوم مسلمان کی دوسرا مسلمان مدد نہ کرے ۔ لیکن کشمیر یوں پر ایک زمانے سے ظلم ہوتا رہا ہم خاموش رہے۔ آسامیوں پر حالات آئے ہم نے چپی سادھے رکھی ،کئی ہمارے بھائی موب لنچنگ کے شکار ہوئے ہم نے کوئی موثر اقدام نہیں کیا، ہمارے کتنے بے قصور نوجوان سلاخوں کے پیچھے گئے ہم نے قوت بھری آواز نہیں اٹھائی؛ہمیشہ نہ کیے جرم کی سزا ملتی رہی اور ہم خاموشی سے سہتے رہے،جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
ملک کی تئیں ہماری وفاداری اور تمہاری غداری:
جس ملک میں آٹھ سوسال تک ہم نے حکومت کی ،ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر کا حق دیا، کسی قسم کی کوئی حق تلفی نہیں کی، اس ملک کو سونے کی چڑیا بنایا کہ پوری دنیا سے لوگ یہاں تجارت کے لیے آتے تھے اور آج یہ حال ہوگیا کہ یہاں کے باشندوں کو روزی کے لیے پوری دنیا کی خاک چھاننی پڑتی ہے!! اُس ملک میں ایک تڑی پار ہمیں گھس پیٹھیا کہتا ہے ،جس ملک کا چپہ چپہ ہمارے آباء واجداد کی قربانیوں کا شاہد ہے، جس کی مٹی سے ہمارے اسلاف کے خون کی خوش بو آتی ہے؛ اس ملک سے یہ کاغذی ہیر پھیر کے ذریعے ہمیں نکالنے او ہمارے حقوق، ہماری جائیداد، ہماری عزت،اور ہمارا تشخص چھیننے کی بات کرتے ہیں؛ انہیں معلوم نہیں کہ مسلمان صرف اپنے خدا کا غلام ہوتا ہے ،اس کے علاوہ کسی کے آگے اسے سر جھکانا آتا ہی نہیں، وہ سر کٹا سکتا ہے لیکن جھکا سکتا نہیں ؛ایسی قوم کو یہ غلام بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں!
اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے:
ہم ان کے شکر گذار ہیں کہ ہم سوتوں کو انہوں نے جگا دیا،ہم بکھر چکے تھے انہوں نے متحد کردیا، ہم شہادت جیسی نعمت کو بھول چکے تھے انہوں نے اس کا مزہ چکھنے کا موقع دیا۔”ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر المٰکرین “۔اللہ کی تدبیر کی ان کو ہوا بھی نہیں اللہ کس طرح اپنے بندوں اور اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے، انہیں اس کی بھنک ہی نہیں۔
فرمانِ نبوی ﷺ کی روشنی میں عدلیہ کے دراوزے کو دستک:
ٌایک بار ہم پھر سے اپنے ملک کے آئین پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے نبی کے فرمان ” فاستعن علیہ بالسلطان“ کو سامنے رکھتے ہوئے قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے پر امن احتجاج کے ذریعے اپنے حکمرانوں اور عدلیہ کو جگار ہے ہیں اور اس ملک کے امن کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے تحفظ اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،جس میں بظاہر تو ہم نشانے پر ہیں ؛لیکن پس ِپردہ تمام اقلیت ،اس ملک کے پچھڑی ذاتی کے لوگ اور سیکولر ذہنیت کا حامل انصاف پسند طبقہ شامل ہے ؛ اس طرح کے ہٹلری فرمان کے ذریعے موجودہ حکومت اس ملک کو بانٹ کر،، ٹکڑے ٹکڑے کرکے، نوچ کھانے کا عمل میں کر رہی ہے؛ جسے ہم کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ہم اپنے نبی کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے’ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہ فَہُوَ شَہِیْدٌ“ جام شہادت تو نوش کر لیں گے؛ لیکن اپنی اور اس ملک کی بربادی کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔(العاقل تکفیہ الاشارة)۔کیوں کہ……
دین ،وطن، جان، مال،اہل وعیال،عزت وناموس کی حفاظت کی خاطر جام ِشہادت :
عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِینِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَہْلِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ۔
سعید بن زید کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔ (سنن الترمذی 1421)
حدیث پاکﷺ کی روشنی میں ہمارے علما ئے کرام نے دین،وطن ،عزت وناموس ،جان، مال ،اہل وعیال کے خاطر اقدام کرنے ان کے تحفظ کے لیے کھڑے ہونے اور ظالم کا پنجہ مروڑنے کی نہ صرف دعوت دی ہے ؛بل کہ اس کی خاطر جان دینے والے کو شہید قرار دیا ہے اور ہمارے بھائی یہ صرف اپنی جان ومال کے لیے نہیں ؛بل کہ پوری قوم اور اس ملکِ عزیز کی حفاظت اور اسلامی تشخص کو بر قرار رکھنے کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، اس لیے یہ شہیدِ حقیقی کے درجے سے کم نہیں۔
وطن کی حفاظت کی خاطر مرنے والا شہید ہے:
قال الدکتور شوقی علام، مفتی الجمہوریة، إن من مات فی لقاء مع أعداء ہذا الوطن فی الداخل والخارج یعتبر شہیدا، ورسول اللہ یبین لنا ہذہ الحقیقة فیقول ”من قتل دون مالہ فہو شہید ومن قتل دون عرضہ فہو شہید ومن قتل دون دمہ فہو شہید”.
أن الدفاع عن الأوطان فوق کل ذلک، فإذا کان الدفاع عن النفس والموت من أجلہا یعد شہادة فی سبیل اللہ، فالدفاع عن الوطن یعادل ہذہ الشہادة.
دکتور شوقی مفتی جمہوریہ کہتے ہیں:اپنی جان ومال کی حفاظت کے لیے قتال کاحکم اور مقتول کے لیے شہادت کامژدہ ہے تووطن کادفاع بھی اس شہادت کا معادل اور ہم سر ہے۔اس لیے اب یہ مسلم قوم کسی بھی قیمت پر اس ملک کو غداروں ،لٹیروں، چوروں ،گھس پیٹھیوں او رانگریزوں کے دم چھلوں سے پاک کرکے رہے گی۔
اب میں اس حقوق کے لیے میدان میں اترے قابلِ رشک اپنے بھائیوں اور ان کی شہادتوں کو سلام کرتے ہوئے ،شہید کسے کہتے ہیں، ان متوالوں کا اللہ کے نزدیک کیا مقام ہوتا ہے، اسے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
وضاحت:ملک کی اتنی بڑی آبادی کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اورنہ ہی خاموشی اختیار کرکے ڈیٹینشین کیمپ میں جاکر ذلت کی موت مرنا اس کا حل ہے۔برما ہمارے سامنے ہے،سیاست کا یہی تقاضہ ہے اور اپنی قوت کو بحال کرنے کا یہی راستہ؛ جب تک قوت بحال نہیں ہوتی جمہوریت میں بیان کردہ اپنے حق کو حاصل کرنے کا یہ طریقہ اضطراراً ضروری ہو جاتا ہے۔ جیسے :ووٹ کا حق کہ اسلام میں نظام شوریٰ ہے مگر فقہائے معاصرین نے جمہوری ممالک میں اپنے حق کے حصول کے لیے ووٹ کو واجب قرار دیا بالکل اسی طرح حکومت کے خلاف اپنے تشخص کو بچانے کے لیے احتجاج بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ور نہ کروڑوں کی آبادی کو محض یہ سمجھ کر کہ ہم طاقت میں نہیں ہیں خاموش رہنا اور ذلت وموت کو گلے لگا لینازیب اور مسلم قوم ہونے کے شایانِ شان نہیں ہے۔
آج ہمارے جو مسلمان بھائی قربانی دے رہے ہیں ان کے قلوب اسلام کی محبت سے سرشار ہیں یہ مشاہدہ ہے۔ اس لیے انہیں شہدا کی فہرست میں شمار نہ کرنا یہ ناانصافی ہوگی؛کیوں کہ وہ صرف اپنے لیے نہیں ؛ بل کہ پوری امت ِمسلمہ اور ایک عرصے سے مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔
شہید کی تعریف :
معرکہٴ حق و باطل کے میدان کارزار میں جو شخص مارا جائے یا ظلماً کوئی شخص مارا جائے اورزندگی سے فائدہ اٹھائے بغیر مرجائے وہ شہید کہلاتا ہے ۔
شہید کو شہید کیوں کہتے ہیں؟
” فانت شہید “ :اللہ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں :
۱- کیوں کہ اس کے لیے جنت کی شہادت (یعنی گواہی ) دے دی گئی ہے ( کہ وہ یقینا جنتی ہے )
۲- کیوں کہ ان کی روحیں جنت میں شاہد (یعنی حاضر ) رہتی ہیں ، اس لیے کہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں جب کہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی ۔ نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والا ۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہی قول صحیح ہے۔
(التذکرة للقرطبی )
۳- ابن فارس کہتے ہیں الشہید بمعنی القتیل یعنی اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا ۔
۴- کیوں کہ فرشتے اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔
۵- جب اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہدکو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کر دیا ہے اور اس کی گواہی اللہ کی گواہی کے ساتھ مل گئی۔ اللہ کے حضور اپنی جان پر گواہی (شہادت) کی وجہ سے شہید کہا جاتا ہے ۔
۶- ابن انباری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت (یعنی گواہی ) دیتے ہیں ، اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے۔
۷- اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہوجاتا ہے ، اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں ۔
۸- کیوں کہ رحمت والے فرشتے اس کی روح لینے کے لیے شاہد (یعنی حاضر ) ہوتے ہیں ۔
۹- اس کے پاس ایک شاہد (گواہ) ہے ،جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون ، کیوں کہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں میں سے خون بہہ رہا ہوگا۔
التماس:ہماری نیت اس راہ میں خالص دینی اور ملی ہواور وہی جذبہ ہو جو ہمارے اسلاف کا تھا،نام کچھ بھی ہو حقیقت وہی ہو ،عزم وحوصلہ اور نیت وہی ہو …تو ہمارے لیے یہ انعامات منتظر ہیں۔
شہدا اور ان کے اہل خانہ کی خدمت میں اس احقر کی طرف سے نہایت قیمتی نذرانہ:
اس حقیر کا دل ان شہدا کی عظمتوں سے معمور ،انہیں چومنے کو بے قرار ہے اور ان شہدا کے اہل خانہ کے لیے تعزیت کے ساتھ مبارکبادی پیش کرتا ہے اور قرآن وحدیث میں ان کے لیے بیان کردہ درجات کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ کہیں شیطان اپنے کید میں جکڑ نہ لے اور کسی قسم کے افسوس میں مبتلا نہ کردے۔
شہادت کیا ہے؟ شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ملتا ہے اوروہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں، جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے ۔ شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے ؛جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
﴿فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ (نساء: ۶۹)
”توایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یعنی انبیا اور صدیقین ، شہدا اور صالحین اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں“ ۔
ایک صحیح حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ انبیا علیہم السلام شہید سے صرف درجہٴ نبوت کی وجہ سے افضل ہیں ۔
ممکن ہے یہ حدیث کچھ مخصوص شہدا کے بارے میں ہو ؛جب کہ آیت ِکریمہ میں عام شہدا کا مقام بیان کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم
شہید کے فضائل:
شہید کے فضائل اور مقامات بے شمار ہیں ، یہاں میں ان میں سے بہت مختصر بیان کروں گا ۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآء’‘ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ o فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰئھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ لا وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْابِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ لا اَلَّا خَوْف’‘ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنo یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لا وَّاَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَالْمُوٴْمِنِیْن﴾(آل عمران: ۶۹-۱۷۱)
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو ، بل کہ وہ تو زندہ ہیں ، اپنے پرور دگار کے مقرب ہیں ۔ کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی اللہ کی نعمت اورفضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑے ہوئے تھے اور حضرت مصعب زمین پر شہید پڑے تھے، اس دن انہی کے ہاتھ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
﴿مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ رِجَال’‘ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ صلے ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً ﴾
(الاحزاب :۲۳)
ترجمہ: ایمان والوں میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھلایا۔ پھر بعض توان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپناذمہ پورا کرلیا اور بعض ان میں سے (اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کے لیے ) راہ دیکھ رہے ہیں ا ور وہ ذرہ (برابر )نہیں بدلے۔
ہم لوگ بھی ”ومنہم من ینتظر“ میں سے ہیں۔
جنتی دنیا کی صرف ایک چیز کی تمنا کرے گا:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی شخص جنت میں داخل ہونے کے بعد یہ تمنا نہیں کرے گا کہ اسے دنیا میں لوٹایا جائے یا دنیا کی کوئی چیز دی جائے، سوائے شہید کے کہ وہ تمنا کرے گاکہ وہ دنیا میں لوٹایا جائے اور دس بار شہید کیا جائے یہ تمنا وہ (یعنی شہید کی ) تعظیم (اور مقام) دیکھنے کی وجہ سے کرے گا ۔
شہدا کے گھر والوں کے لیے خوش خبری :
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہید اپنے گھر والوں میں سے ستر کی شفاعت کرے گا ۔ (ابو داوٴد، بیہقی )
شہدا کے لیے اللہ کے یہاں انعامات:
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہد اکے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سات انعامات ہیں :
(۱) خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کردی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے ۔
(۲) اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے ۔
(۳) عذابِ قبر سے اسے بچا لیا جاتا ہے ۔
(۴) قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے۔
(۵) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے ، جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
(۶)۷۲/ حور سے اس کی شادی کردی جاتی ہے ۔
(۷) اور اپنے اقارب میں ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۔ (مسند احمد)
وہ انعامات‘ جو صرف شہیدوں کے ساتھ خاص ہیں:
امام قرطبی نے سورہ ٴ آل عمران آیت نمبر:۱۷۱ کے تحت ایک بہت ہی عجیب وغریب حدیث ذکر فرمائی ہے ،وہ حدیث اس طرح ہے :
وَرُوِیَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أنہ قَالَ: (أَکْرَمَ اللَّہُ تَعَالَی الشُّہَدَاءَ بِخَمْسِ کَرَامَاتٍ لَمْ یُکْرِمْ بِہَا أَحَدًا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ وَلَا أَنَا أَحَدُہَا أَنَّ جَمِیعَ الْأَنْبِیَاءِ قَبَضَ أَرْوَاحَہُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ وَہُوَ الَّذِی سَیَقْبِضُ رُوحِی وَأَمَّا الشُّہَدَاءُ فَاللَّہُ ہُوَ الَّذِی یَقْبِضُ أَرْوَاحَہُمْ بِقُدْرَتِہِ کَیْفَ یَشَاءُ وَلَا یُسَلِّطُ عَلَی أَرْوَاحِہِمْ مَلَکَ الْمَوْتِ، وَالثَّانِی أَنَّ جَمِیعَ الْأَنْبِیَاءِ قَدْ غُسِّلُوا بَعْدَ الْمَوْتِ وَأَنَا أُغَسَّلُ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالشُّہَدَاءُ لَا یُغَسَّلُونَ وَلَا حَاجَةَ لَہُمْ إِلَی مَاءِ الدُّنْیَا، وَالثَّالِثُ أَنَّ جَمِیعَ الْأَنْبِیَاءِ قَدْ کُفِّنُوا وَأَنَا أُکَفَّنُ وَالشُّہَدَاءُ لَا یُکَفَّنُونَ بَلْ یُدْفَنُونَ فِی ثِیَابِہِمْ، وَالرَّابِعُ أَنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمَّا مَاتُوا سُمُّوا أَمْوَاتًا وَإِذَا مُتُّ یُقَالُ قَدْ مَاتَ وَالشُّہَدَاءُ لَا یُسَمَّوْنَ مَوْتَی، وَالْخَامِسُ أَنَّ الْأَنْبِیَاءَ تُعْطَی لَہُمُ الشَّفَاعَةُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَشَفَاعَتِی أَیْضًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَأَمَّا الشُّہَدَاءُ فَإِنَّہُمْ یَشْفَعُونَ فِی کُلِّ یَوْمٍ فِیمَنْ یَشْفَعُونَ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ شہدا کو ایسے پانچ اعزازات عطا فرماتا ہے، جو نہ کسی نبی کو ملے ہیں اور نہ خود مجھے ۔
(۱) ان میں سے پہلا یہ ہے کہ تمام انبیا کی ارواح کو ملک الموت نے قبض کیا ہے اور وہی میری روح کو بھی قبض کرے گا ، لیکن شہیدکی روح کو اللہ تعالیٰ خود اپنی قدرت سے جس طرح چاہتا ہے قبض فرمادیتا ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت کو مقرر نہیں فرماتا ۔
(۲) دوسرا یہ کہ تمام انبیا علیہم السلام کو موت کے بعد غسل دیا گیا اور مجھے بھی دیا جائے گا ، لیکن شہید کو غسل نہیں دیا جاتا اور انہیں دنیا کی کسی چیز کی حاجت نہیں ہوتی ۔
(۳) تیسرا یہ کہ تمام انبیا کو موت کے بعد کفن دیا گیا اور مجھے بھی دیا جائے گا ،لیکن شہد ا کو کفن نہیں دیا جاتا ، بل کہ انہیں ان کے کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے ۔
(۴) چوتھا یہ کہ انبیا علیہم السلام کو موت کے بعد انتقال کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اور میرا شمار بھی انتقال کرنے والوں میں کیا جائے گا ، لیکن شہدا کو موت کے بعد مردہ نہیں کہا جاتا ۔
(۵) اور پانچواں یہ کہ انبیا کو قیامت کے دن شفاعت کا اختیار ہوگا ، لیکن شہدا ہر دن کسی کی شفاعت کرسکتے ہیں ۔ (تفسیر القرطبی )
شہید کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کی فضیلت اور اخلاقی ذمہ داری :
ہمارے جن بھائیوں نے اس کالے قانون اور ظلم وتعصب پر مبنی فیصلے کے خاتمے کے لیے ،ہماری جان و مال کی حفاظت اور اس ملک کے دستور و آئین کے تحفظ کے خاطر ،اس ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے، اس ملک میں ہمارے تشخص اور خود داری کو باقی رکھنے کے لیے ؛جام شہادت نوش فرمائی ہے ، اپنے گھروالوں، بیوی بچوں اپنے ماں باپ اور بھائی بہن کا خیال کیے بغیر اس ملک کے مستقبل اور ہمارے مستقبل کو روشن وتابناک کرنے کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے؛ توان جیالوں کے لیے ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کے متعلقین کو وہ عزت دیں کہ وہ اپنے شہید ہونے والے پر ہر اعتبار سے فخر محسوس کریں۔اور ہماری بے اعتنائی ،ان کے اہل خانہ سے بے توجہی؛ کسی جوان کو ملک وملت کے لیے، دین ومذہب کے لیے ،ظلم وظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے میں پاوٴں کی بیڑیاں ثابت نہ ہواور نہ ان کے والدین اوربچوں کے لیے کبھی کوئی حالت اور موقع ایسا آئے کہ انہیں کف ِافسوس ملنا پڑے۔ جہاں یہ ہمارا اخلاقی فریضہ ہے، وہیں اس پر ہماری شریعت اور ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فضیلت بیان کی ہے، وہ کس قدر عظیم ہیں…!! کہ آپ اپنے اس عملِ خیر سے اپنے ان شہید بھائیوں کے صف میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو ان کا اجر ملے گا ۔
دیکھئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو لحیان کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ ہر دو مردوں میں سے ایک جہاد کے لیے نکلے اور اجر ان دونوں کو ملے گا ۔اور دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ آپ نے فرمایا ہر دو مردوں میں سے ایک جہاد کے لیے نکلے، پھر آپ نے پیچھے رہ جانے والوں سے فرمایا کہ جو شخص تم میں سے جہاد میں جانے والوں کے گھر اور مال کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کرے گا اسے ان مجاہدین کا آدھا اجرملے گا۔(مسلم شریف)
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں نکلنے والے مجاہد کو سامان فراہم کیا اس نے بھی جہاد کیا اور جس نے مجاہد کے گھر والوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال کی اس نے بھی جہاد کیا ۔ (بخاری، مسلم)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ کے راستے میں نکلنے والے کسی مجاہد کے گھر والوں کی اتنی کفالت کی اور اتنی ذمہ داری اٹھائی کہ وہ دوسرے لوگوں سے مستغنی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے فرمائے گا: خوش آمدید! اس شخص کے لیے جس نے مجھے کھلایا پلایا مجھ سے محبت کی اور مجھے عطا کیا ۔ اے میرے فرشتو! گواہ رہنا کہ میں نے اس شخص کے لیے اپنا سارا اعزاز واکرام لازم کردیا ہے ۔ پس جو شخص بھی جنت میں داخل ہوگا، وہ اس شخص کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام دیکھ کر اس پر رشک کرے گا۔
حقیر کے قلبی احساسات اور اپنے بھائیوں کی جوان مردی کو سلام!
اخیر میں آپ کا یہ بھائی اس ملک اوراس کالے قانون کے تحفظ کی خاطر ،اس وطنِ عزیزکی آن بان شان اورپہچان یعنی آپسی بھائی چارگی کے لیے پروٹیسٹ اور احتجاج کرنے والوں اورظلم کے خلاف اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر نکلنے والے سربکف لوگوں کو سلام پیش کرتا ہے۔ آئین وجمہوریت اورحقوق وناموس کے لیے جام شہادت پینے والوں کو عقیدت اور عظمت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے اور ان پر فخر کرتا ہے … یہ اس دور کے سراج الدولہ،سلطان ٹیپو،سید احمد شہید،اور اشفاق اللہ خان ہیں ، ان کے نام بھی کل کے بچوں کے زبان پر عقیدت کے پھول بن کر کھلیں گے… اور ان کے اہل خانہ بھی بڑے مبارک باد ہیں … ہم ان شہداکے لیے دعا کرتے ہیں اورہر طرح سے ان کے قدم بہ قدم کھڑے ہیں ۔ اللہ اس تحریک کو پروان چڑھائے …کامیابی سے ہم کنار کرے …اور ہر طرح کے شرور وفتن سے محفوظ رکھے… آپسی اتحاد واتفاق کو بر قرار رکھے … گندی سیاست سے بچائے …جاہ ومنصب کے خو گر لیڈروں سے محفوظ فرمائے …اور غیرت وحمیت، سیاست وشریعت سے واقف کار اور ملک وملت پر مرمٹنے والا قاید وسالار عطافرمائے…اور ہر طرح کی پست حوصلگی سے دور رکھے …کیوں کہ ان شہداکا خون ہمارے سروں پر ہے ،اگر ہم پیچھے ہٹے تو جان بھی جائے گی ،عزت بھی جائے گی اوراوراقِ تاریخ کے نامردوں اور بزدلوں میں ہمارا نام سیاہ قلم سے لکھا جائے گا …اور ہم اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لیے غلامی کا طوق خود اپنے ہاتھوں تیار کر کے جائیں گے…نہ دنیا میں ہمار احصہ ہوگا اور نہ آخرت میں۔
یادرکھنے اور بالکل گبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ظلم کا انجام کار خاتمہ ہی ہے… مجھے آج اپنے بچپن کاپڑھا ہوا یہ شعر یاد آرہا ہے #
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناوٴ کاغذ کی سدا چلتی نہیں
یہاں پر مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کاملفوظ ان کے استاذ کے حوالے سے ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ،جو نہایت مفید اور تقویت پہنچانے والا سنہرا جملہ ہے: ” حق دبتا ہے مٹتا نہیں ، باطل ابھرتا ہے قائم نہیں رہتا “
جب حسن ومحبت مل کے بہم ، سرشار وغزل خواں ہوتے ہیں
فطرت کو بھی حال آجاتا ہے ، نظار ے بھی رقصاں ہوتے ہیں
باطل کی ہوکتنی ہی طاقت ، باطل کی اطاعت کیا معنی؟
ایماں پہ فدا ہوجاتے ہیں جو صاحبِ ایماں ہوتے ہیں
تحفہ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلِیْہِ وَسَلَّمَ : ” اُمَّتِیْ ہٰذِہِ اُمَّةٌ مَرْحُوْمَةٌ لَیْسَ عَلَیْہَا عَذَابٌ فِیْ الْاٰخِرَةِ، وَعَذَابُہَا فِی الدُّنْیَا: اَلْفِتَنُ، وَالزَّلَازِلُ، وَالْقَتْلُ“ (ابوداوٴد،)
حضرت سعید بن ابو بردہ اپنے والد سے ، ان کے والد ابو موسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنایا : ” میری یہ امت ”امتِ مرحومہ “ (رحم کردہ) ہے، آخرت میں اسے (خاص )عذاب نہیں ہوگا اور اس کا دنیوی عذاب فتنوں کا آنا زلزلے اور قتل ہے ۔“