مکاتیبِ یوسفی

(حضرت اقدس مولانا شاہ یوسف متالا صاحبمہتمم دارالعلوم بری انگلینڈ)

مکتوب نمبر:(۱) ایک طالب حق نے اپنی سنگ دلی کا اظہار کرتے ہوئے رونا نہ آنے کی شکایت لکھی تھی۔ حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا :

            رونے کے لیے کبھی بھی گناہوں کا تصور نہ کریں کہ مجھ سے فلاں وقت فلاں گناہ سرزد ہوا ہے ۔ اس لیے کہ گناہ کے فعل کے تصور سے بھی دل پر ظلمت آتی ہے۔

            اجمالی طور پر اپنے آپ کو گناہ گار تصور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ تصور کریں کہ ۲۴/ گھنٹوں میں صرف نماز ہی میں نے پڑھی ۔ اس میں بھی مجھے خشوع نصیب نہ ہوسکا اور برائیاں ، حسد ، تکبر، کینہ بغض ، عداوت، حرص ، غصہ سب عیوب میرے اندر جمع ہیں۔ اس وقت تو دنیا میں الٰہی تیری ستاری کی وجہ سے کسی کو پتہ نہیں؛ لیکن کل حشر میں جہاں پر باطن عیاں ہوگا۔ وہاں میرا کیا ہوگا؟ الٰہی تو وہاں بھی میری ستاری فرمانا ۔ اس کے مسلسل تصور سے خود پسندی ، خود ستائی اور نفس کی انا کم ہوتی چلی جائے گی اور پھر ذرا سے تصور سے بھی رونا آجائے گا ، مگر اس کے لیے خلوت پسندی اور تبتل کی ضرورت ہے ۔ جتنا ممکن ہو ، اس میں زیادتی کی کوشش کریں۔

            نبوت سے قبل سالہا سال تک حضور ِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مخلوق سے بھاگ کر ایسے پہاڑ اور غار کو تنہائی کے لیے منتخب فرمایا تھا کہ وہاں اوپر چڑھنے میں کئی گھنٹے لگتے ہیں۔

            کاش کہ ہمارے طلبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں چالیس سال کی عمر تک صرف اپنی ذاتی اصلاح ہی کی کوشش میں لگنے والے بنیں ، بل کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ۴۰/ سال کی عمر تک کا زمانہ خلوت میں گزار ا تو ہمیں تو عمر ہی گزار دینی چاہیے کہ آپ کا نفس پاکیزہ تھا۔ ہمارے نفوس کی گندگیاں عمر بھر میں دور ہوں، تب بھی غنیمت ہے۔ واللہ الموفق

اس مکتوب گرامی سے حسب ذیل سبق حاصل ہوا:

            ۱- ”رونا “ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ رونا آئے اور گناہ دھلے ، حتیٰ کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت بناوٴ۔

(ابن ماجہ)

            ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات اشخاص کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔ منجملہ ان سات اشخاص میں ایک تنہائی میں رونے والا ہے۔

(بخاری شریف کتاب الصلوٰة )

            ۲- اس مکتوب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خاص گناہ کا تصور نہ کرنا چاہیے ، کیوں کہ اس سے ظلمت پیدا ہوتی ہے اور مایوسی بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو توبہ کو چھوڑ بیٹھتا ہے اور ترکِ توبہ کا نتیجہ کیا ہوگا وہ ظاہر ہے۔

            ۳- انسان کو خصوصاً امراض باطنیہ کی بہت فکر کرنی چاہیے ،مثلاً: تکبر ، حسد ، کینہ، بغض، حرص اور غصہ وغیرہ کیوں کہ اس سے انسان اللہ سے دور ہوجاتا ہے ۔ اورلوگوں کے قلوب میں اس کے لیے جگہ نہیں رہتی۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کیا کرو :

            ” اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا

             اللہ مجھے تو اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے کی توفیق عطا فرما اور لوگوں کی نظروں میں مجھے بڑا رکھ۔

 یعنی لوگوں کی نگاہ میں میری وقعت رہے اور یہ اس وقت حاصل ہوگا جب ان گندگیوں سے پاک رہا جائے۔

            ۴- اس مکتوب سے حضرت مولانا یوسف صاحب مدظلہ کے نزدیک اتباعِ سنت کا اہتمام بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہی اصل مقصد اور روح ِسلوک ہے۔

مکتوب نمبر :(۲) ایک طالبِ حق جو ریونین سے انگلینڈ بغرض تعلیم آئے ہوئے تھے، آنے کے بعد حضرت اقدس سے بیعت وارادت کا تعلق قائم کرلیا، حضرت نے ایک مکتوب میں مدینہ منورہ سے ان کو تحریر فرمایا۔

            بعد سلام مسنون مزاج شریف! آپ کا خط ملا، آپ کا دل لگ گیا اس سے بہت مسرت ہوئی، یہ دنیا اوراس کی ساری لذتیں، راحتیں سب فانی ہیں، عیش آخرت ہے۔ دارالعلوم آنے کے بعد اپنی اصلاح و تربیت مکمل کیے بغیر اور تعلیم چھوڑ کر اسی دین کی طرف چلے جانا جسے چھوڑ کر آئے تھے، اپنے کو ہلاکت کے لیے پیش کرنا ہے۔ اس لیے کہ دارالعلوم کے باہر ہلاکت کے اسبابوں اور گناہوں کے دواعی کے سوا کچھ بھی نہیں، مجھے تو ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے، جن کو چند روز کے لیے دارالعلوم کا ماحول نصیب ہوجائے۔ ان کا دارالعلوم کے باہر کیسے جی لگتا ہے، میں تو دارالعلوم واپس جاوٴں۔ جہاں ہروقت انوار ورحمتوں کی بارش برستی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت کے ساتھ لے جائے اوربعافیت واپس لائے۔ علم نافع عمل صالح عطا فرمائے۔ آمین!