مدارس اسلامیہ مسلمانوں کے آئینی حقوق کے حامل

اداریہ:

 حذیفہ مو لا نا غلام محمد صاحب وستا نوی#

          کسی بھی ملک اور اجتماعی نظام کو چلانے ،نظم و نسق کو بر قرار رکھنے اور پر امن بنانے یا اس کو فروغ دینے کے لیے مضبوط ومستحکم آئین کی ضرورت ہے ؛ یہی آئین کسی بھی مملکت کی بنیاد و اساس ہوتا ہے، جس کا تحفظ پورے نظام کو انتشار سے بچانے اور حق دار تک اس کا حق پہونچانے میں ممد و معاون بنتا ہے۔ اس کے ذریعہ بنیادی نظریات و تصورات ،اند رو نی نظم و نسق کے اہم اصول اور مختلف شعبوں کے درمیان ان کے فرائض و اختیارات کی حد بندی وتعیین ہوتی ہے۔

           شہری، سیاسی اور انسانی حقوق کے تحفظات کے لیے دستور و آئین کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی، جو مملکت اور شہریوں کے حقوق کی پاس داری کر سکے۔ ملک کے لیے جو بھی قوانین وضع کیے جائیں گے وہ اسی دستور کی روشنی اور دائرہ میں ہوں گے۔ ہمارے ملک کے دستور کا نام” بھارت کا آئین“ ہے، جیسا کہ دستور کی دفعہ 393 میں اس کا ذ کر ملتا ہے۔

           اس طے شدہ دستور کے آغاز میں جو جملے مرقوم ہیں،وہ انتہائی چشم کشا اور بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔

          ملاحظہ ہو: ”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سما ج وادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے ،جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادی ٴخیال، اظہارِ رائے، آزادی ٴعقیدہ و مذ ہب و عبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کویقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سا لمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا۔“

          دستور ہند میں 395/ دفعات (articles)،22 /ابواب (chapters)، 12 /ضمیمے (schedules)، اور 02 / تتمے (appnaux) ہیں۔

دستور ہند کی خوبیوں کے باوجود اس کے ساتھ ناروا سلوک:

           ملک کا یہ دستور اپنی بہت سی خوبیوں اور کچھ خامیوں کے باوجود دنیا کے بہترین دستور میں شمار کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ جس قدر پامالی و بے حرمتی دستور ہند کی کی گئی شاید ہی دنیا کے کسی دستور کی کی گئی ہو۔ اور جتنا اس دستور کے الفاظ و معانی مطالب و نتائج سے کھلواڑ کیا گیا دنیا کے کسی ملک کے دستور کے ساتھ نہیں کیا گیا۔

آئین کی طاقت اور اہمیت سے عدم ِواقفیت:

           حکمراں طبقہ نے عوام کو آئین کی طاقت اور اس کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہونے دیا اور عوام نے بھی دستور کے مکمل نفاذ کے بارے میں کوئی پر زور تحریک نہیں چلائی، خصوصاً مسلمانوں نے تو اس سلسلہ میں کافی کوتاہی برتی۔ بھارت میں ثقافتی فاشزم کو سیکولرزم کے سانچے میں ڈھالا گیا اور ایک مذہب کے عقائد کو ملک کے استحکام و یک جہتی کے نام پر جبراً مسلط کیا گیا۔اب تو ملک میں آرایس ایس کی سرپرستی میں ”بی۔جے۔ پی۔“ حکومت کر رہی ہے۔ این آرسی اور شہریت ترمیمی قانون کے تناظر میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں کس طرح کا دستور اور قانون نافذ کرنا چاہتی ہے۔

 آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کے باوجود بکثرت حق تلفی :

          ہمارے آئین میں انسانی حقوق کے تحفظ کی مختلف دفعات کے باوجود بڑے پیمانے پر وطنِ عزیز میں انسان کے بنیادی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، کہیں بولنے پر پابندی ہے تو کہیں کھانے اور لباس پر پابندی ہے۔ کبھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے، تو کبھی مسلمانوں سے ان کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے۔غرض وطنِ عزیز میں اقلیتوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے؛ یہاں یہ بات بھی قابل ِذکر ہے کہ کسی بھی حکومت کو جمہوری حکومت اس وقت کہا جاسکتا ہے، جب وہ انصاف، آزادی مساوات اور اخوت کے تقاضوں کو پوار کر سکے؛ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

          انصاف: اس میں سماجی، معاشی سیاسی انصاف شامل ہیں۔

          آزادی: اس ضمن میں خیالات اظہار رائے عقیدہ، ایمان اور عبادت کی آزادی شامل ہے۔

           اخوت: اس کے تحت ہر شہری کا وقار اور ملک کی سا لمیت کے لیے ممکنہ کوششیں شامل ہیں۔

          ہم ان نکات کا بغور جائزہ لیں تو یہ پتہ چلے گا کہ آزادیٴ ہند کے بعد سے آج تک حکمران جماعتوں نے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ دستوری انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کبھی ایماندارا نہ کوشش نہیں کیں۔ مسلمانوں کے سماجی انصاف کی بات کی جائے تو آج بھی تقسیم ِہند کا جواز دیتے ہوئے سب سے بڑی اقلیت کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے؛ جب کہ یہ بات عیاں ہے کہ 1857 کے غدر میں سب سے زیادہ مسلمانوں نے خون بہایا اور آزاد بھارت کے لیے اپنی جان و مال تک کو نچھاور کردیا۔ لاکھوں علمائے کرام، صحافیوں اور دانشوروں کو انگریزوں نے شہید کیا، اس کے بر عکس زعفرانی طاقتیں انگریزی حکومت کی دلالی کرتی رہیں۔

باشندگانِ وطن کے بنیادی حقوق:

           آبادی کے لحاظ سے ہندوستان، دنیا کی سب سے بڑی پارلیمانی غیر مذہبی جمہور یت ہے، اس کے دستورو آئین کے کچھ اہم امتیازات ہیں، یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کا بھر پور حق حاصل ہے اور یہاں عوام ہی کوسر چشمہٴ اقتدار واختیار مانا جاتا ہے،اس طرح تمام باشند ے بلاتفریق ِمذہب وملت ”ایک مشترکہ جمہوریت“ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔

          ذیل میں شہریوں کے چند اہم اور بنیادی حقوق قدرے تفصیل کے ساتھ درج کیے جارہے ہیں، جن کے بغور مطالعہ سے یہ بات پایہٴ ثبوت کو پہونچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاس دار اور مذہبی آزادی کا علم بردار ہے۔

حق ِمساوات:

          ملک میں رہنے والے تمام ہی افراد باعتبار انسان یکساں حقوق کے مالک ہیں اور آئینی اعتبار سے ان کے اندر کسی قسم کی اونچ نیچ،ادنیٰ واعلیٰ کی کوئی تفریق نہیں۔ حقوق و اختیارات میں کسی کوکسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے۔ اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین واضح طور پر مساویانہ حقوق کا پاسدار ہے؛ جیسا کہ آئین کی دفعہ 15،14 میں ذکر کیاگیا ہے:” مملکت کسی شخص کو ملک کے اندر قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔“ اور” مملکت محض مذہب ، نسل ،ذات، جنس، مقام پیدائش، یا ان میں سے کسی بنا پر کسی طرح کا امتیاز نہیں برتے گی۔“

           سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تمام باشندگان کو ملے ہوئے حقوق کا ذکر آئین کی دفعہ 16 میں ذکرکیا گیا ہے۔ ”تمام شہریوں کو ملک کے کسی عہدے پر ملازمت یا تقرر سے متعلق مساوی مواقع حاصل ہو گا۔“

حق ِآزادی:

          حق ِمساوات کے ساتھ ہی ایک جمہوری آئین کے لئے بھی لازمی ہے کہ وہاں کے رہنے والے مختلف قسم کی آزادی کے حامل ہوں۔ ان میں اظہار ِ رائے کی آزادی بھی ہو سکتی ہے اور مختلف جلسے، انجمنیں اور جلوس وغیر ہ منعقد کرنے،تنظیمیں اور تحریکیں بنانے اور چلانے، آزادانہ طور پر پورے ملک کا سفر کرنے، نیز سرمایہ کاری کی آزادی اور جان و مال کی آزادی بھی ہو سکتی ہے۔

          اس سلسلے میں ہمارے با وقار آئین میں کہا گیا ہے۔ دفعہ 19تا 22 میں لکھا ہے: ”مملکت کے تمام شہریوں کوحق حاصل ہوگا:

          (الف): مملکت کے ہر ایک حصہ میں تقر یر اور اظہار کی آزادی کا۔

          (ب): امن پسند طریقے سے بغیرہتھیار کے جمع ہونے کا۔

          (ج) : انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا۔

          (د): بھارت کے سارے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کا۔

          (ھ): بھارت کے کسی بھی حصے میں بودو باش اختیار کرنے اور بس جانے کا۔

          (ی) : کسی پیشے کے اختیار کرنے یا کسی کام دھندے، تجارت یا کاروبار چلانے کا۔

مذہب کی آزادی:

          انسانی فطرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے حساس مذ ہبی جذبہ ہوتا ہے، اس کے تحت ہی مختلف افراد میں جنگ و جدل کا جذبہ نظر آتا ہے۔ یہ بات ان ملکوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جہاں مختلف مذاہب کے پیرو کا ر رہتے ہوں۔ ہمارے ملک کا اس سلسلہ میں بہت نمایاں مقام ہے؛ کیوں کہ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں، اس سلسلے میں ہمارے سیاسی قائدین نے بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا کہ انھوں نے یہاں کسی مذہب کو خاص اہمیت نہ دے کرسب کو برابر اور یکساں حقوق دیئے؛ اس لئے آئینی اعتبارسے ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب پر آزادانہ عمل کرنے، اس کی تبلیغ و تشہیر کرنے اور اس کے اصولوں پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی، اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 25 میں ذکرکیا گیا ہے۔” تمام اشخاص کو آزادیٴ تعمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی کرنے کا مساوی حق حاصل ہے۔“

ثقافتی وتعلیمی حقوق:

          ہمارا ملک مختلف تہذیبوں کا امین اور مختلف تعلیمی نظریات کا گہوارہ ہے، اس وجہ سے یہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام ہی لوگوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کی حفاظت کو فروغ دینے کے حقوق حاصل ہوں۔ یہاں کے ہر ایک شہری کو حصولِ تعلیم کی آزادی اور اپنے شعائر وثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کا اختیار دیا جائے۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 29 میں ذکرکیا گیا ہے۔

          ” بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی بھی حصے میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقے کو جس کی اپنی جدا گانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کومحفوظ رکھنے کاحق حاصل ہوگا۔“ آئین کی دفعہ 30 میں یہ بھی کہا گیا ہے۔” تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذ ہب کے نام پر ہوں یا زبان کے، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کے انتظام کا حق حاصل ہوگا۔“

جائیداد کے حقوق:

          مملکت میں رہنے والوں کو آئینی اعتبار سے یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے اور اسے اپنی جائیداد فروخت کرنے یا کسی دوسرے کی جائیداد خرید نے خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہو، کا اختیار حاصل ہوگا۔ ملک کے ہر شہری کو یہ بھی حق دیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ قوانین کی رعایت رکھتے ہوئے اپنی املاک و جائیداد اور ان سے حاصل شدہ آمدنی کو کسی بھی طرح اپنے اوپر خرچ کرسکتا ہے۔ یا کسی تنظیم، تحر یک یا کسی اور کو ملک کی فلاحی ورفاہی کاموں پر خرچ کر سکتا ہے۔

 دستوری چارہ جوئی کا حق:

          ہمارے آئین کے تیسرے حصے میں ضبط کئے گئے حقوق کو بحال کرانے اور ان کی حفاظت کے لیے سپریم کورٹ و دیگر عدالتوں سے چارہ جوئی کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔ متعلقہ عدالتوں کو ان حقوق کی بحالی اور تحفظ کے لئے ہدایات یا احکام یا مختلف خصوصی فرمان جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ آئینی اعتبار سے عدالتی چارہ جوئی کے حق کو محض دستور میں بیان کی گئی متعلقہ دفعات کے تحت ہی معطل کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سے بنیادی حقوق کسی حد تک کے دیئے جائیں؛ غرض کہ آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کوکسی بھی معاملے میں دستوری چارہ جوئی کا پورا پوراحق دیا گیا ہے۔

           مندرجہ بالا تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے باوقارآئین میں، جس طرح سے عوام الناس کو بالا دستی حاصل ہے اور یہاں کے رہنے والوں کے بنیادی حقوق کا جس طرح لحاظ رکھا گیا ہے، اس بنا پر بلا خوف و تردد یہ بات پایہٴ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ ہمارا آئین پوری طرح سے انسانی حقوق کا پاس دار اور اس کا سچا علمبردار ہے۔

          ضرورت صرف اس کے غیر جانب دارانہ اور عادلانہ نفاذ کی ہے، جس کے لیے انتھک محنت و مسلسل جدو جہد کی ضرورت ہے۔