اداریہ
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی #
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کرونا کا اثر آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے۔ کورونا سے متعلق اس سے قبل شاہراہ علم میں تفصیل سے متعدد تحریریں آچکی ہیں۔ (مارچ،۲۰۲۰۔اپریل-جولائی۲۰۲۰۔مارچ،۲۰۲۱)سرِدست جوموضوع زیر تحریرہے ،وہ کبار علمائے کرام کا کورونا کے عرصہ میں بہ کثرت دار ِفانی سے دار ِباقی کی جانب کوچ کرجانے کے اسباب کوقرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کرنا ہے اور ساتھ ہی معاشرے پر اس کے رونما ہوتے بھیانک اثرات اور طلبہٴ مدارس، نوجوان علما اور امت کے عام افراد پر اس کی کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،محض توفیق ایزدی اور فضل الٰہی سے، اسے قلمبند کیا جائے گا۔
حفاظت ِدین کی ذمہ داری اور علما کا اہم کردار:
اللہ رب العزت نے اس دنیا میں انسان کو امتحان کی غرض سے وجود بخشا ہے، لہٰذا حق و باطل اور خیر و شر کو اللہ ہی نے بغرض ِآزمائش پیدا کیا اورساتھ ساتھ انسان کی مکمل رہنمائی کے لیے حضرات ِانبیائے کرام علیہم السلام کو ہر زمانہ میں مبعوث کیا؛ جس کا سلسلہ اول البشر سیدنا وابونا حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوا اور خاتم الانبیاء والمرسلین احمد مصطفی محمد مجتبیٰ حبیب ِکبریا صلی اللہ علیہ وسلم پرختم ہوااورآپ خاتم النبیین ہوئے ۔
البتہ اس دین کو چوں کہ قیامت تک باقی رکھنا تھا؛ لہٰذا امت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علما پر نبوت کی ذمہ داری ڈالی گئی اور انھیں وارثینِ انبیا بنایا گیا اور الحمدللہ آج ہم پندرہویں صدی ہجری میں جی رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو تقریباً ۱۴۳۲/ سال ہونے جارہے ہیں، یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اتنے طویل عرصے کے بعد بھی مکمل طور پر محفوظ ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک رہے گا۔
دین کی حفاظت کے لیے رجال اللہ اور کتاب اللہ دونوں ضروری :
کسی بھی دین کی حفاظت کے لیے اس کتاب کے ساتھ ہر زمانہ میں رجال اللہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے، اور وہ علما ہی ہیں، جنھوں نے اسلام کو ہر طرح کی تحریف سے بچانے میں مکمل رول ادا کیا ہے اور اس بات کی پیشن گوئی خود نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی کہ ”لاتزال طائفة من امتی ظاہرین علی الحق“(مسلم) کہ میری امت کی ایک جماعت برابر دین ِحق کی حفاظت کے لیے اپنی مکمل توانائی صرف کرتی رہے گی، جن کے ساتھ اللہ کی مدد شامل ہوگی اور بڑی سے بڑی کوئی طاقت یاخفیہ سے خفیہ کوئی سازش انھیں ناکام اور نامراد نہیں ہونے دے گی۔
حفاظت ِدین اور جماعت ِمحافظین:
الحمدللہ! آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی، اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتِ حسرت آیات کے بعد فتنہٴ ارتداد ، مانعین ِزکوٰة اور مدعیان ِنبوت نے سر اٹھایا، تو اللہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اس کی سرکوبی کروائی ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ِمسعود میں فتنوں کی جڑ یہودیوں کو جزیرة العرب سے نکل وایا ، پھر حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ کی استقامت سے داخلی فتنہٴ خوارج اور روافض کی سرکوبی کروائی، پھر متوکل باللہ نے اعتزال کی سرکوبی کروائی، اس کے بعد امام ابو الحسن اشعری اور امام ماتریدی کے ذریعہ اعتزال کو فکری میدان میں شکست ہوئی۔
اورامام غزالی کے ذریعہ باطینیت اورفلسفہ ٴمادیت کی سرکوبی عمل میں آئی۔ ابن تیمیہ کے ذریعہ تشبہ فی الدین کے فتنہ کو دبا یا گیا۔شاہ ولی اللہ کے ذریعہ جدید دور کے فتنوں کے سد ِباب کے لیے حجة اللہ البالغہ وغیرہ جیسی کتابوں کومہیا کیا گیا ۔ حجة الاسلام حضرت نانوتوی ، حضرت تھانوی رحمہما اللہ کے ذریعہ فتنہٴ نیچریت اور فلسفہٴ جدیدہ کی سرکوبی عمل میں آئی۔ لہذاآپ دیکھ سکتے ہیں جتنے بھی علمی اورفکری فتنے تھے ،ان کی سرکوبی حضرات ِعلما کے ذریعہ ہی ہوئی ، ویسے تو ایسے علما کی فہرست اگرتیار کی جائے تو ہزاروں نہیں لاکھوں میں تیار ہوگی۔ یہ تو ہم نے معدودِ چند مشاہیر کے نام ذکر کردیے۔
علما ئے مخلصین بحیثیت ِڈھال وجود رکھتے ہیں:
دین ِاسلام کی حفاظت علمائے مخلصین ہی کے ذریعہ ہوئی ہے، گویا علما ئے مخلصین کا وجود امت کے لیے بحیثیت ِڈھال ہے۔ اسباب ِظاہریہ کے درجہ میں دین اور امت کی حفاظت کا بنیادی ذریعہ علما ہی ہیں ۔ کبار ِعلما کا وجود امت کے لیے مضبوط قلعہ کے مانند ہے ،جو ہر داخلی وخارجی فتنہ سے اسلام اور امت ِمسلمہ کو بچاتے ہیں ، مگر جہاں اللہ نے انھیں دین کی حفاظت کے لیے منتخب کیا، وہیں یہ سنت بھی جاری رکھی کہ اس دنیا میں کسی کو دائمی بقا نہیں ، اگر کسی کو ہوتا تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات تھی؛ مگر جب سید الانبیاء کوبقا نہیں تو کسی وارث ِانبیا یاامت ِنبی کو بقا کہاں !لہٰذا اس دنیا میں ہر آنے والے کو ضرورجانا ہے، مگر ہرجانے والے کے جانے کا اثر اور دائرہ ٴکار الگ الگ ہوتا ہے،؛عام آدمی یا دنیوی کسی شخص کی موت سے ایک گھر یا جماعت کو نقصان ہوتا ہے اورعلما کی رحلت سے پوری امت پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص طور پر یکے بعد دیگرے پے درپے علمائے ربانیین کی رحلت امت کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے ۔ دنیا کے ایک سورج کے ڈوبنے سے ساری دنیا تاریک ہوجاتی ہے تو روحانی و علمی دنیا کے ۱۸/ ماہ کے عرصہ میں تین سوچارسو ستاروں اور سورج کے غروب ہونے سے کیسی تاریکی چھائی ہوگی ؟ میں اور آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری ، مولانا سلمان صاحب سہارن پوری، مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی، مولاناسیدواضح رشیدصاحب ندوی، قاری عثمان صاحب ،مولانا ولی رحمانی صاحب، مولانا نذر الحفیظ صاحب ، مولانا نور عالم خلیل امین صاحب ،شاہی امام پنجاب مولانا حبیب الرحمان صاحب لدھیانوی ، اسی طرح پڑوس ملک اور دیگر صوبہ جات کے چوٹی کے علماء حضرات اور عالم عرب کے مشایخ علا مہ صابونی ، علامہ محمد آدم اٹھوبی جیسے اساطین علم کی رخصت ہم اصاغر اور امت کے لیے بہت عظیم خسارہ ہے۔
(رحلت فرمانے والے کبار علماء کی ایک طویل فہرست ہے ،اگر نام ہی شمار کیا جائے تو ایک مضمون تیار ہو جائے)
علما کا مقام:
قرآن ِکریم نے بے شمار مقامات پر علما کے بلند درجات کو ذکر کیا ۔ کہیں ﴿انما یخش اللہ من عبادہ العلماء﴾کہا ،تو کہیں ﴿قل ہل یستوی الذین یعلمون و الذین لا یعلمون ﴾ کہا ؛اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی علما کے عظیم مقام کے سلسلے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
” انما مثل العلماء فی الأرض کمثل النجوم فی السماء یہتدی بہا فی ظلمات البر والبحر فإذا نطمست النجوم أو شک أن تضل الہداة“۔
(حاشیة مسند احمد بن حنبل)
علما ستاروں کے مانند ہیں ۔ ستاروں کے ذریعہ انسان خشکی اور سمندر میں راستہ پاتا ہے ، اگر ستارہ فنا ہوجائے تو لوگ راستہ بھٹک جائیں۔
اس حدیث سے علما کے بلند مقام کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے!!
علما کی رحلت در حقیقت علم کا اٹھنا ہے:
ارشاد ربانی ہے :﴿اولم یروا أنا نأتی الارض ننقصہا من اطرافہا﴾ (الرعد:۴۱)
اس کی تفسیر کرتے ہوئے ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین کا اطراف سے گھٹنا اس کا مطلب ہے ،علما اور فقہاکی وفات اور رحلت ۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں : اے لوگو! علما سے علم حاصل کرو !قبل اس کے کہ علم اٹھالیا جائے اور علم کا اٹھنا علما کی رحلت سے ہوگا۔
حسن بصری فرماتے ہیں:کہ کسی عالم کی موت سے دنیا میں جو کمی واقع ہوتی ہے، اس کی بھرپائی کسی صورت ممکن نہیں۔
سعید ابن جبیر سے دریافت کیا گیا : لوگ کب ہلاکت کے دہانے پر پہنچیں گے ؟ تو فرمایا: علما کی بہ کثرت وفات سے۔جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا : اگر کوئی دیکھنا چاہے علم دنیا سے کیسے رخصت ہوتا ہے، تووہ انھیں دیکھ لے۔
امام ابن سیرین سے کسی نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک پرندہ آسمان سے یاسمین کے درخت پر اترا، پھر اسے نوچ کر دوبارہ اڑگیا اور آسمان میں غائب ہوگیا، تو آپ نے فرمایا :کہ اس کی تعبیر علما کا رخصت ہوجاناہے۔ لکھا ہے کہ اس سال حضرت حسن بصری ، ابن سیرین ،مکحول اور عالم ِاسلام کے دیگر چھ بڑے بڑے اور چیدہ علما کی وفات ہوئی۔
علما کی موت کی تمنا کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
امام اللالکائی فرماتے ہیں :کہ محدث کبیر ایوب کہتے تھے، جو لوگ علما کی موت کی تمنا کرتے ہیں درحقیقت وہ اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں؛لہٰذا علما کے طول عمر کی دعا کرنی چاہیے۔
نا امید کون؟
اتنی کثرت اور اس رفتار سے اتنے سارے علمائے ربانیین کی رحلت بے شک بہت بڑی مصیبت ہے ؛ البتہ امت ِمحمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ اس دین کا کفیل اور محافظ ہے اور دین ِاسلام کی حفاظت کے لیے رجال اللہ یعنی علما کا وجود ضروری ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے لسانِ ِنبوت سے یہ حدیث جاری فرمائی: ” لا تزال طائفة من امتی منصورین علی الحق لا یضرہم من خذلہم ولا من خالفہم حتی یاتی امر اللہ وہم علی ذلک“ (اخرجہ مسلم)
یعنی ہر زمانے میں میری امت کی ایک جماعت حق کے لیے مدد کی جاتی رہے گی، کوئی انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، کسی کی مخالفت سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اللہ اکبر!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بالکل صحیح ثابت ہوا۔ الحمدللہ چودہ سو سال کے طویل عرصہ میں امتِ مسلمہ میں اللہ رب العزت ہر علاقہ اورزبان میں دین کی تجدید اور احیا کے لیے ایسے علما اور داعیوں کو پیدا کرتے رہے ہیں ،جو اس عظیم فریضہ کو اپنی سعادت سمجھ کر انجام دیتے آئے ہیں ۔
علما کی موت کے بعد حالات:
اہل سنت والجماعت کے ترجمان علما کا وجود، ہرزمانہ میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ محدث ِکبیر ایوب فرماتے ہیں کہ جب کسی عالم ِربانی کی وفات کی خبر مجھے دی جاتی ہے، تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میرے بدن کا ایک عضو تلف ہوگیا۔
اب ہماری ذمہ داری کیا؟
ان علما کی بہ کثرت رحلت ہم طلبہ اور علما کی ذمہ داری میں اضافہ کا باعث ہونی چاہیے ، اس لیے کہ جب وہ تھے تو ہر پیش آمدہ مسئلہ ہم ان سے دریافت کرلیتے تھے، مگر اب ان مسائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں اعتدال کے ساتھ حل کرنے کی ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے، تو آئیے طلبہ اور عوام الناس کی کیا ذمہ داری ہے اس سے واقف ہوتے ہیں۔
موجودہ کبار علما کی قدر کرنا چاہیے:
۱- سب سے پہلی ذمہ داری تو ہماری یہ ہے کہ ہمارے جو کبار علما ہمارے درمیان موجود ہیں ،ہم ان کی قدر کریں۔ مثلاً شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ، مولانا رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم، مولانا ابو القاسم بنارسی صاحب دامت برکاتہم، علامہ قمر صاحب دامت برکاتہم، مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم، مولانا رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم، مولانا سعید الرحمن اعظمی صاحب دامت برکاتہم، مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم، حضرت والد محترم مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم ، مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم، اور ہر علاقے کے کبیر السن ومقتدا علمائے کرام ۔
طلبہ ان کی صحبت ِبابرکت سے خوب استفادہ کریں، ان کو راحت پہنچانے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے بارے میں ان سے سوالات کریں ، اسی طرح ان کے وجود کو باعث ِخیرو برکت بنائیں اور عافیت کے ساتھ ان کی طول ِعمر کی دعا کریں۔
طلبہ اور مدارس دینیہ کی ذمہ داری دوہری ہونی چاہیے:
۲- جو طلبہ مدارس میں زیر ِتعلیم ہیں، وہ خوب محنت سے کام لیں، جیسے ہمارے سلف ِصالحین نے حصول ِعلم کے لیے رات دن ایک کردیے تھے، آپ بھی ہمہ تن مشغول ہوجائیں ؛تاکہ جو امت کی عظیم ذمہ داریاں مستقبل قریب میں ہمارے کاندھوں پر آنے والی ہیں، اس کے لیے ہم تیار رہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ”تعلموا قبل ان تُسَوَّدُوا “ سردار بنائے جانے سے پہلے خوب اچھی طرح علم حاصل کرلو، تاکہ اس وقت صحیح فیصلے کرسکو۔کھیل کود اور موبائل میں اپنا وقت بے سود صرف کرنے کے بجائے خوب جم کر مطالعہ میں اپنے پورے وقت کو صرف کریں۔
اپنے اندر قائدانہ صلاحیت پیدا کریں:
۳- طلبہ اور نوجوان علما کو اپنے اندر قائدانہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں ایک ذمہ دار کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے اس کو جاننا چاہیے؛ تاکہ ہماری صفوں میں اتحاد باقی رہے یا اتحاد پیدا ہوسکے۔ علما ہی امت ِمسلمہ کے حقیقی قائد ہوتے ہیں، اس لیے کہ دین ِاسلام کامل و مکمل دین ہے ، زندگی کے ہر شعبہ سے اس کا تعلق ہے؛ لہٰذا ہر میدان میں امت کی رہبری کا فریضہ علما ہی کے ذمہ ہے۔ مغرب اور مادّیت کے زیر ِاثر دین جو صرف مسجد تک محدود کردیا گیا ہے، یہ اسلامی نقطہٴ نظر سے سراسر غلط ہے۔ صبح اٹھنے سے لے کر رات کے سونے تک ،ہرقدم پر اللہ کی مرضی یعنی حلال حرام ،جائز ناجائز کا جاننا ضروری ہے۔
جدید مسائل اور چیلنجز کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھیں:
۴- طلبہ و علما کے لیے ضروری ہے کہ وہ امت کو در پیش فکری و فقہی جدید مسائل سے واقفیت حاصل کریں، مثلاً تعلیم، سیاست ،معیشت وغیرہ کے باب میں مغربی اور اسلامی نقطہٴ نظر میں کیا فرق ہے۔ ہر کرنٹ اور لیٹسٹ ایشو،تمام تر نو آمدہ مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطہٴ نظر مسلمانوں کے سامنے لانا چاہیے، لہٰذا ہمیں ہرعصری مسائل کی حقیقت تک رسائی کی کوشش کرنی چاہیے،اور اس کی صحیح صورت حال مسئلہ اور حل امت کے سامنے رکھنا اور پیش کرنا چاہیے۔
کالجز اور دنیوی تعلیم میں مشغول افراد پر دین کی محنت کریں:
۵- مسلمان نوجوانوں کو موٴثر انداز میں دین کی بنیادی تعلیمات سے کیسے آراستہ کیا جائے، اس کی فکر کرنی چاہیے؛ تاکہ مسلمان معاشرے میں بھٹکے ہوئے فکری اور علمی ارتداد کا سد باب کیا جاسکے۔
جدید ذرائع ابلاغ کو اسلام کے دفاع کے لیے استعمال کریں:
۶- حدودِ شرعیہ میں رہ کر جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ہرمسلمان تک علم دین کی رسائی کی بھر پور کوشش ہونی چاہیے۔
علما کسب حلال کے لیے بھی فکر مند ہوں:
۷- علم دین کے ساتھ ساتھ علما کو حلال کمائی کے لیے کوئی کورس یا ہنر بھی سیکھنا چاہیے؛ تاکہ”کورونا“جیسے حالات میں اپنی روزی کا انتظام خود اپنے بل بوتے پر کرسکیں اور کسی کے سہارا رہنے کی نوبت نہ آئے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی نے بڑی دور بیں نگاہوں اورفراست ِایمانی سے علما کے احوال کو بھانپ لیا تھا؛ اور کہا تھا کہ اب علما کو دنیوی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی خودکو تیاررکھنا چاہیے۔ ویسے بھی ہمارے سلف ِصالحین دین کی خدمت بلا معاوضہ کرتے تھے اور خود کسی نہ کسی پیشے سے منسلک ہوتے تھے؛ جیسا کہ ہر طبقے اور پیشے میں علم اور علما کی کتاب سے اندازہ ہوتا ہے۔
فتن معاصرہ سے واقف ہوں اور امت کو بھی واقف کریں:
۸- فتنوں کے دور میں ابواب الفتن کا تفصیلی مطالعہ بہت ضروری ہے ؛تاکہ فتنوں سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچاسکے ۔مثلاً: آج کل ہر تھوڑے دن کے وقفہ سے کوئی نہ کوئی مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ،اگر مہدی علیہ السلام کی تفصیلات معلوم ہوگی، تو آدمی فتنہ سے محفوظ رہے گا، ورنہ مبتلائے فتنہ ہوجائے گا۔ ایسے ہی دجال یاجوج ماجوج ، دابة الارض وغیرہ۔
علما ،طلبااور عوام سب تزکیہٴ نفس کی فکر کریں:
۹- سب سے زیادہ ضرورت علما اور طلبہ کو تزکیہٴ نفس کی ہے؛ آج اس باب میں بڑی غفلت برتی جارہی ہے، جب کہ نفسانی امراض سے بچنا بہت ضروری ہے۔ کسی معتبر شیخ سے بیعت ہوکر اپنے حالات سے ان کو واقف کرنا چاہیے؛ تاکہ وہ صحیح علاج کرسکے۔
خود رائی ،منصب طلبی کے بجائے ملت اور دین کے مفاد کو مقدم رکھیں:
۱۰- آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ نام و نمود اور عہدہ ومنصب طلبی کی کوشش ہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ خاموشی سے دین کی خدمت کرے اور نام و نمود اور منصب کا طالب نہ ہو ، ورنہ خود بھی فتنہ میں مبتلا ہوگا اور امت کو بھی مصیبت و آزمائش میں ڈالے گا۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
یہ چند خیالات اور درد تھے جو صفحہٴ قرطاس کردیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے اور ہم سے راضی ہوجائے۔
طلبہٴ مدارس اور عصری علوم کی ضرورت:
اس سے قبل ہم نے تعلیمی نظام میں عصری تعلیم کے اضافہ کی ضرورت پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی، جسے آپ ”شاہراہِ علم “ کے شمارہ مارچ ،اپریل ۲۰۲۱ء (ماہ طباعت ستمبر)میں پڑھ سکتے ہیں۔الحمدللہ! جامعہ نے اب جونظام بنایا ہے وہ کچھ اس طرح ہے:
سرے دست جامعہ نے یہ نظام بنایا ہے کہ جو طالب علم جامعہ سے فارغ ہو، وہ عربی دوم تک دسویں اور عربی چہارم تک بارہویں پاس ہوجائے اور پنجم سے دورہ تک کوئی گریجویٹ کورس مکمل کرے مثلاً B.A, B.ed, B.com یا D.ed کرلے۔ ساتھ میں کمپیوٹر وغیرہ میں دلچسپی ہوتو ویب سائٹ سافٹویئر یا روبوٹک یا موبائل ایپلیکیشن بنانا سیکھ لے یا کوئی بھی کمپیوٹر کورس کرنے میں کام یاب ہوجائے۔
اس نظام کا مقصد ایک تو زندگی کی ہر شعبہ میں علما کی نمائندگی ، جو دین ودنیا ہر ایک کو جامع ہو ۔ اس سے ایک تو علما دونوں علوم میں مہارت کی وجہ سے موٴثر انداز میں خطابت کے فریضہ کو انجام دیں گے، ساتھ ہی معاشرہ میں جو علما کو محتاج سمجھا جاتا ہے، وہ سوچ بدل جائے اور علما دوسروں کے دست نگر ہونے کے بجائے، خود کفیل ہو۔ صرف تنخواہ پر اکتفا نہ کرے، بل کہ دینی خدمت مفت میں کریں اور اپنے ہنر سے معاش کمائے۔
ہمارے مدارس کو ”نئی تعلیمی پالیسی “ کے نفاذ سے پہلے دوکاخم کرنے ضروری ہیں:
ایک تو علما N.I.O.S سے دسویں اور بارہویں کے سرٹیفکٹ حاصل کریں ، ساتھ ہی D.ed ،B.ed بھی کرلیں، تاکہ تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے وقت ہمارے علما تیار ہوں اور دین و دنیا کی دونوں تعلیم خود ہی دیں، جس سے معاشرہ میں ناسور بنتی مغربی تہذیب اور نئی نسل میں پھیل رہے ارتداد کو روکا جاسکے گا اور مسلمان پہلے کی طرح مکمل دین کے تحفظ کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنی خدمات پیش کریں گے اور ایک صالح معاشرہ اور پرامن نظام کی بنیاد رکھنے والے ثابت ہوں گے۔ اوراپنے طلبہ اور نوجوان اس قابل ہوں کے ٹیکنالوجی میں مغرب کو بھی ہماری تقلید کرنی پڑے۔
اہل مدارس کو ایک مشورہ:
مدارس جلد ازجلد اپنے یہاں NIOS اور اوپن یونیور سٹی کے لیٹر حاصل کریں؛تاکہ ہمارے مدارس کی جانب طلبہ کے آنے کا جو رجحان کم ہورہا ہے، وہ بجائے کم ہونے کے زیادہ ہوجائے ؛ اس لیے کہ اب والدین اپنے بچوں کو کسی قدر دینی تعلیم دینا تو چاہ رہے ہیں ،لیکن دنیوی ضروری تعلیم سے بھی کورا نہیں رکھنا چاہتے۔ اور ہمارے لیے یہ ممکن اس طرح ہے کہ ہم طلبہ کی بہترین دینی تربیت کریں اور دینی تعلیم کی پختگی کا مکمل خیال رکھتے ہوئے ضروری دینوی تعلیم سے بھی آراستہ کریں! امید ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے گی۔
جامعہ نے الحمدللہ! اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے کہ دینی تعلیم متأثر ہوئے بغیر دنیوی تعلیم بھی ہورہی ہے۔
دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم کیسے ممکن؟
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟ وقت کیسے نکلے گا؟! اس کا جواب یہ ہے کہ دن رات کے ۲۴/ گھنٹے ہوتے ہیں، ہمارے نظام ِتعلیم کے مطابق صبح ۴ / گھنٹے اور دوپہر ۱۵:۲ گھنٹے اور بعد مغرب ۳۰:۱ گھنٹے ، کل ۴۵:۷گھنٹے دینی تعلیم کے لیے مختص ہیں۔ اب اگر صبح کی تعلیم میں ۴۵ / منٹ کا اضافہ کر لیا جائے اور انگریزی تو عام طور پر ہمارے مدارس میں ۴۵/منٹ داخل ِنصاب ہے ہی۔ اسی طرح بعد مغرب ایک گھنٹہ کا اضافہ کر لیا جائے اور ان اضافہ شدہ گھنٹوں میں اسکول کے نصاب کے مضامین تاریخ ، جغرافیہ، سائنس ، ریاضی کو پڑھایا جائے،تو آسانی کے ساتھ یہ ممکن ہے،جس کا کامیاب تجربہ ہم کرچکے ہیں۔
جامعہ نے یہ نصاب اور نظام تیار کیا ہے اور الحمدللہ! کام یابی کے ساتھ جاری ہے۔ یعنی تعلیم ۴۵:۷ گھنٹے کے بجائے ۳۰:۹ گھنٹے ہوگی ۔ طلبہ پر تھوڑا سا گراں ہوگا، مگر ان کے اور امت کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے کڑوی دوا کی طرح یہ نظام بنایا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اسلام و ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
آئیے جامعہ میں طلبہٴ مدارس کے عصری تعلیم کے نظام اور اس کے نتائج پر نظر کرتے چلیں!!
طلبہٴ مدارس کے لیے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا نظام
جامعہ اکل کوا میں طلبہٴ مدارس کی ایک بڑی تعداد دسویں،بارہویں، بی،اے۔ایم،اے۔ بی ایڈ۔ڈی،ایڈ۔اور اب ”لا“(وکالت) بھی کر رہی ہے۔
الحمدللہ!اب تک دینی تعلیم کے طلبہ مندرجہ ذیل تعداد میں (عصری تعلیم) دسویں،بارہویں اور گریجویشن کرچکے ہیں:
1. SSC from NIOS )2016- to-2021:(1367
2. SSC by 17 number form )2011- to-2021: (211
3. HSC by 17 number form )2011- to-2021: (383
4. BA, BSC from MANUU&YCMOU )2005- to-2021:(1013
5. MA(ENG,HIS,URDU) from MANUU)2007- to-2018:(90
6. D.Ed. )2017- to-2020:(126
N.I.O.S جو ہندوستان کا سب سے بڑا اور کامیاب اوپن اسکولنگ ادارہ ہے،جامعہ نے بڑی تگ و دو کے بعد امسال بارہویں کا سینٹر بھی حاصل کرلیا ہے، جس میں ہر سال دینی تعلیم کے۰۰ ۳ طلبہ بارہویں کرسکیں گے۔ان شاء اللہ!۔
اس کے علاوہ (YCMOU) یشونت راو چوان اوپن یونیورسٹی اور( MANUU)مولانا آزاد اردو پونیورسٹی کے سینٹر حاصل کئے ہیں،جو جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے،جس سے جامعہ کے طلبہ سنہ 2005 سے گریجویٹ ہو رہے ہیں،گریجویشن کے بعد قابل اور متمنی طلبہ کو CET کا امتحان دلواکر جامعہ کے لا کالج میں(جس کا ابھی پہلا ہی سال ہے) داخل کروا دیاجاتا ہے،لا کالج کی پہلے بیچ میں جامعہ کے 4 فضلاء” لا ”کر رہے ہیں۔
اور جو طلبہ بارھویں کے امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں وہ D.Ed.اردو میں داخلہ لیتے ہیں،ان تمام کورسز کی با قاعدہ کلاسیں لگتی ہیں،بلکہ جامعہ کے ہر طالب علم کی دینی اور عصری تعلیم کی استعداد پختہ کرنے کی غرض سے درس نظامی کی کتابوں کے ساتھ عصری مضامین (سائنس،جغرافیہ،تاریخ،ریاضی،انگریزی) مہاراشٹرا اسٹیٹ بورڈ کی کتابوں سے روزانہ ڈھائی گھنٹہ پڑھائے جاتے ہیں۔
اسی چیز کو بنیاد بناکر جامعہ نے اپنی عالمیت کوHSCاور فضیلت کی سند کوBA کے مساوات کی منظوری کئی یونیورسٹیز سے لی ہوئی ہیں،جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد یونیورسٹی نئی دہلی، سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن، نئی دہلی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (MANUU) حیدرآباد اور نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی، جلگاؤں اور بھی مزید یونیورسٹیز سے اسناد کی منظوری کی سعی پیہم جاری ہے،جس سے طلبہ فضیلت کی تکمیل کے بعد MAاورPHD کرسکتے ہیں؛بل کہ 10فضلائے جامعہ نے فضیلت کی سند کی بنیاد پرMA کا پہلا سال مکمل کرلیا ہے،اور امسال تقریباً 30فضلا ء نے MA میں داخلہ لیا ہے، جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
مزیدطلبہٴ مدارس کے لئے اضافی وقتوں میں NCPULکے تحت MDTP -CABA کمپیوٹر کورس،یک سالہ اردو ڈپلومہ کورس،اوردو سالہ عربک ڈپلومہ کورس کروایا جاتا ہے،جس کی سرکاری سند ملتی ہے۔
نیز صنعت و حرفت کے میدان میں بھی طلبہ کو کئی کورس کروائے جاتے ہیں ،جیسے TAILORING,&BOOK BINDING OPTICAL etc. ان کورسز کو سرکاری منظوری، مل جائے اس کی بھی کوشش جاری ہے۔
مستقبل قریب میں جامعہ دینی تعلیم کے طلبہ کے لیے روبوٹک ڈرون ویب ڈیزائنگ سافٹویر وغیرہ کورس بھی شروع کرنے جارہا ہے، ان شاء اللہ!
NEET اور IPSC UPSC کے کوچنگ کلاسز، انگلش اسپیکنگ،پرسنیلٹی ڈیولپمنٹ کے ورک شاپ طلبہٴ مدارس کے لئے شروع کرنے میں جامعہ پر عزم ہے۔
متوسلین جامعہ سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ قبول فرمائے، آسانیاں پیدا فرمائے امت اور ملت اسلامیہ کے حق میں ان منصوبوں کو بہتر اور نفع بخش بنائے، اخلاص سے نوازے اور اپنی رضا مقدر فرمائے۔ آمین!