”سفر نامہٴ بھٹکل “ایک ایسے شہرکی زیارت کا شرف جو عالم اسلام کے لیے نمونہ بننے کی صلاحیت کا حامل

 

اداریہ:                                                                            پہلی قسط:

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی

یہ عنوان کیوں؟

            آپ حیران ہوں گے کہ کیا اکیسویں صدی عیسوی اور پندرہویں صدی ہجری میں بھی کوئی ایسی بستی مسلمانوں کی ہوسکتی ہے، جو اجتماعیت کے اعتبارسے نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہو!! ؟ تو میں کہوں گا کہ جی۔ میں ایک ایسی بستی دیکھ آیا ہوں اور جو عنوان میں ”عالم اسلام کے نمونہ بننے کی صلاحیت کی حامل بستی “سے میں نے اسے موسوم کیا ہے، تو یہ مبالغہ نہیں؛ بل کہ یہ الفاظ فقیہ التاریخ، خاتم الموٴرخین، مفکر اسلام، تاریخ اسلامی ماضی اور حال کے زبردست تجزیہ نگار، جنھوں نے تاریخ کو صرف معلومات یا محض تاریخی واقعات کی حیثیت سے نہیں لکھا، بل کہ ﴿ان فی ذلک لعبرة﴾کی حیثیت سے پڑھا اور لکھا، جس پر ان کے مندرجہ ذیل کتابیں شاہد عدل ہیں:

            ۱-         ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین۔            

            ۲-         الصریح بین الفکرة الغربیة والاسلامیة۔

            ۳-         تاریخ الدعوة والعزیمة۔

            ۴-         اذا ہبت ریح الایمان۔

            ایک تو آپ سید تھے اور دوسری طرف آپ موٴرخ ابن موٴرخ تھے اور تیسری جانب آپ نے بیسویں صدی کے اکابرین اسلام سے بھر پور فائدہ اٹھایا تھا، پھر اللہ نے آپ کو عالم اسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع میسر فرمایا اور ساتھ ہی طویل عمر نافعیت کے ساتھ عطافرمائی۔ علم، وقار صلاحیت اور صالحیت سے مالا مال فرمایا، جس سے آپ کی فکر میں جلا پیدا ہوا اور مفکر اسلام کے لقب سے مشہور ہوئے ،جو بالکل آپ پر صحیح صادق آتا ہے، تو آپ نے شہر ”بھٹکل“ کے بارے میں کہا:

            ” یہ خطہ اب بھی اپنی گونا گوں دینی خصوصیا ت اور اسلامی امتیازات کی وجہ سے پورے عالم اسلام کے لیے ایک نمونہ کی بستی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔“(مقدمہٴ آئینہ بھٹکل :ص ۵)

            حضرت مولانا الیاس صاحب بھٹکلی دامت برکاتہم نے یہ الفاظ اسی طرح یہ کہتے ہوئے نقل کیے ہیں: ”مخدومی ومربی حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی دامت برکاتہم کے گزشتہ سفر بھٹکل میں جامعہ آباد میں چودھویں بار آمد پر ایک تاریخی استقبالیہ جلسہ میں پیش کیا ۔(ایضاً)

            آئینہٴ بھٹکل کے موٴلف جناب انجینئر عثمان نے کتاب کے انتساب میں ایک بالکل موزوں و مناسب شعر لکھاہے #

ہاتھ میں اپنے لیکر کسی دوسرے کا ہاتھ

اتنا ملو تپاک سے آنسو نکل پڑیں

(فکر بجنوری)

            شہر کو دیکھنے اور وہاں کی اجتماعیت کو قریب سے ملاحظہ کرنے کے بعد یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ موصوف نے بالکل درست اورشہر پر منطبق ہونے والا شعر نقل کیا ہے، جس پر ان کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔

شہر ”بھٹکل“ کی زیارت:

            بھٹکل شہر کا نام تو بندہ نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ کی کتابوں میں پڑھا تھا، اس کے بعد جب ”اہل علم کی محسن کتابیں “ مولانا فضیل صاحب بھٹکلی حفظہ اللہ کی کاوش سے شائع ہوئی تو مزید یاد تازہ ہوگئی۔ پھرمولانا الیاس صاحب بھٹکلی ندوی دامت برکاتہم نے کسی موقع پر ”ارض القرآن “کے طرز پر” ارض الحدیث“ زیر تالیف ہونے کا ذکر کیا تو ان سے رابطہ کیا۔ اور مولانا ایوب صاحب بھٹکلی دامت برکاتہم کی والد صاحب (مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ العالی) کے ساتھ دوستی اور طالب علمی کے دور میں بار بار آمد پر ملاقات وزیارت سے مزید انسیت ہوئی۔ بالآخر مولانا الیاس صاحب سے میرے خوش گوار تعلقات قائم ہوئے، مولانا نے متعدد بار بھٹکل کے لیے دعوت دی اورباوجود بسیار چاہت اور کوشش کے حاضری نہ ہوسکی؛ اس لیے کہ مشہور ہے :”کل شئی مرہون بالقدر“ ہر کام کا منجانب اللہ ایک وقت مقررہ ہوتا ہے۔ بھٹکل کے لیے بھی ہمارے مقدر میں ۱۹/ نومبر ۲۰۲۰ء کا وقت مقرر تھا، جس کی وجہ یہ بنی کہ چند دنوں قبل مولانا عبد اللہ غازی ندوی اور مولانا سمعان ندوی حفظہما اللہ نے ہمارے ماموں زاد بھائی مفتی ریحان صاحب ابن مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کو فون کیا اور کہا کہ مولانا حذیفہ صاحب کو دعوت دینے کے لیے ہم کال کررہے ہیں، مگر بات نہیں ہوپارہی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں ان سے ان شاء اللہ بات کرتا ہوں اور میں اپنے دفتر چلا گیا، چند ہی منٹوں میں مولانا عبد المتین منیری بھٹکلی صاحب دامت برکاتہم کا کال آیا، تو میں نے کہا کہ میرا ۱۸/ تاریخ کو ممبئی کا سفر ہے، میں کوشش کرتا ہوں ان شاء اللہ اور فوراً مولانا عبد اللہ غازی ندوی صاحب کا بھی فون آیا، میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ایک دن کے لیے میں ان شاء اللہ آسکتا ہوں۔ مولانا عبد المتین منیری صاحب میرے خاص دوست ہیں۔

            ادب اطفال کے تحت اطفال لائبریری کے افتتاح کی غرض سے دعوت تھی، تو مولانا عبد اللہ غازی صاحب نے کہا کہ ایک دن نا کافی ہے، آپ تین دن کا پروگرام بنائیے، تو میں نے کہا کہ تین دن تو مشکل ہے! بہر حال مولانا نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ پروگرام بناکر بتائیے ، پھر دوبارہ مولانا عبد المتین منیری صاحب کا فون آیا ،تو میں نے کہا حضرت تین دن تو مشکل ہے، تو آپ نے کہا ٹھیک ہے ،کم از کم ایک رات آپ کا قیام ہو ایسا پروگرام بنائیے! میں نے کہا مناسب ہے۔ اس کے بعد مولانا سمعان نے فون کیا اور کہا کہ ۱۸/ نومبر کو مومبائی سے منگلور کی فلائٹ ہے اور ۱۹/ کی رات کو گوا سے احمد آباد کی۔ میں نے کہا یہ مناسب ہے اور مولانا نے ٹکٹ بناکر ارسال کردیا، پھر خیال آیا کہ خادم زادہ حمزہ کو بھی ساتھ لینا بہتر رہے گا، تا کہ کتاب کے مطالعہ کے ذوق کو فروغ حاصل ہو، لہٰذا ان کا بھی ٹکٹ بنایا۔

سفر کا آغاز :

            ۱۷/ تاریخ کی شام کو بندہ نے گھر پر دعوت رکھی تھی، بہنوں اور ان کے بچوں کی، بعدِ نماز مغرب کھانے سے فارغ ہوئے ، کھانے کے بعد والد صاحب اور والدہ کو بھی مطلع کیا اور اجازت طلب کی کہ بندہ ابھی سفر پر جارہا ہے؛ یہاں سے ممبئی اور وہاں کے امور کی انجام دہی کے بعد ،بھٹکل کا سفر ہے ۔الحمدللہ والدین نے اجازت اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ کرلا کہ مہمان آئے ہوئے تھے، ان سے ملاقات کی اور نماز سے فارغ ہو کر رات تقریباً ۱۲/ بجے ہم بذریعہ کار ممبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہمارے ڈرائیور سعید بھائی بلوچ نے ۱۸/ نومبر بروز بدھ صبح ۶/بجے مومبائی یونائٹیڈ مسافر خانہ پہنچادیا۔ فجر کی نماز ادا کی ، کچھ دیر آرام کر شام تک مومبائی میں بہت سارے کام تھے، وہ مکمل کیے اور رات ۲۰:۱۰ پرمنگلور کے لیے روانہ ہوئے۔

            کورونا کی وجہ سے بہت احتیاطی انتظامات تھے، ماسک کے ساتھ دیگرحفاظتی لباس بھی۔ تقریباً ۴۵:۱۱ پر قبل از وقت منگلور ہوائی اڈہ پرجہازاترا۔ ہم باہر آئے اورکچھ دیر مولانا سمعان اور ان کے ساتھ جو احباب آئے تھے ان کا انتظار کیا ۰۵:۱۲منٹ پر مولانا سمعان صاحب اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی اور گاڑی میں سورا ہوکر ہم بھٹکل کی طرف چل دیے۔

شہر بھٹکل کی تاریخ

عرب اور ہندستان:

            کرہٴ ارض جس میں دو حصہ پانی اورایک حصہ زمین ہے اور اس حصہ زمین پر سات برِ اعظم ہیں اور اس میں سب سے بڑا بر اعظم ایشیاء ہے اور اس ایشیاء میں دو بڑے ملک ایسے ہیں ،جو اپنے ساحل کی موجوں کے ذریعہ آپسی تعلقات یا نسبت رکھتے ہیں، ایک ہندستان اور دوسرا جزیرہ نما عرب ۔ عر ب اور ہندستان دو ایسے ملک ہیں، جن کا ایک دوسرے سے قدیم زمانے سے تعلق رہا ہے۔ ہندستان کے اصلی باشندے کون ہیں، اس میں اختلاف ہے ، آریہ نسل کے لوگ چند ہزار سال پہلے وسطی ایشیا سے در خبیر کے ذریعہ ہندستان آئے، پہلے پہل پنجاب میں قیام کیا، پھر گنگا جمنا کے دو آبہ میں پھیل گئے ، مگر اہل عرب کا قدیم دعویٰ ہے کہ ان کا تعلق ہندستان سے چند ہزار سال کا نہیں؛ بل کہ ابتدائے آفرینش سے یہ ہندستان ان کا ”پدری وطن“ ہے۔

            حدیثوں اور تفسیروں میں آیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام آسمانی جنت سے نکل کر زمین کی جنت جس کو ”ہندستان جنت نشان“ کہا جاتا ہے میں آگئے تھے۔ سراندیپ (سری لنکا) میں ان کا پہلا قدم پڑا جس کا نشان آج بھی اس پہاڑ پر موجود ہے، جس کو آدم ملے کہا جاتا ہے۔ ابن جریر ابن ابی حاتم اور حاکم میں اس سرزمین کا نام ”دجنا“ہے، جس کو ہندی میں دکھنا یا دکھن کہا جاتا ہے اورجو ہندستان کے جنوبی حصہ کا مشہور نام ہے۔

            عرب تاجر متعدد قسم کے مسالے اور خوشبوئیں جنوب سے لے جاتے تھے اور اس تجارت کے           ذریعہ اپنی معاشی زندگی میں آسانی فراہم کرتے تھے۔ اصل میں یہ مسالے اور خوشبوئیں حضرت آدم علیہ السلام کی یاد گار ہیں، جو حضرت آدم علیہ السلام اپنے ساتھ جنت سے لائے تھے۔ ان تحفوں میں چھوہارے (کھجور) کے پھل، لیمو اور کیلے ہندستان میں موجود ہیں۔

            روایت کے مطابق جنت سے چار دریا نکلے ہیں: نیل ، فرات، جیحون اور سیحون ۔ نیل مصر کا دریا ہے، جس پر مصرکی زراعت کا دارو مدار ہے۔ عراق کی سرزمین کی سر سبزی شادابی فرات پر منحصر ہے۔ جیحون ترکستان میں واقع ہے اور سحیون کے متعلق ہندستان کا دریا کہا گیا۔ جنت کے اس چوتھے دریا کو گنگا کہا جاتا ہے، مگر بعض لوگوں نے اس کو دریائے سندھ قرار دیا ہے۔(آئینہ بھٹکل ص: ۹-۱۰)

            ہندستان کے عرب سے تعلقات بہت قدیم ہے ، اس میں کوئی دو رائے نہیں، بندہ نے اس سے قبل گجرات کی تاریخ لکھتے وقت صحابہ کے ہندستان آمدکی تاریخ پر جب کتابوں کی ورق گردانی کی تو معلوم ہو اکہ ہندستان کے ساتھ عربوں کے تعلقات مختلف سمندری راستوں سے رہے ہیں۔ مثلاً: بحرین اور عمان سے گجرات کا ساحلی علاقہ قریب ہے، لہٰذا اس خطے کے عرب گجرات میں تجارت کی غرض سے وارد ہوتے رہے ہیں، اسی طرح کراچی سے بھی عمان قریب ہے، لہٰذا اوائل ِعرب جو اس خطے سے تعلق رکھتے تھے، وہ گجرات آتے جاتے رہے۔ سندھ سے بصرہ وغیرہ قریب پڑتا ہے، تو خلافت کے دور میں زیادہ تعلقات سندھ سے رہے ہیں۔ محمد بن قاسم الثقفی بھی اسی خطے میں تشریف لائے، ادھر کرناٹک کے بھٹکلی علاقے کے تعلقات یمن سے رہے ، اس لیے کہ ان کے قریب یمن کا علاقہ حضر موت ہے؛ لہٰذا حضارمہبغرض تجارت یہاں آتے رہے ہیں، توآئیے اب ہم اس خطے سے عرب تعلقات پرایک نظر ڈالتے ہیں۔

ہند کا سب سے پہلا نام عربوں نے دیا:

            اس ملک کا مسلمانوں کی آمد سے پہلے کوئی نام نہیں تھا، ہر ریاست یا صوبہ کا الگ الگ نام تھا، اور یہ نام راج دھانی کے نام سے مشہور تھا، مثلاً میسور شہر کا نام ریاست میسور ہوگیا۔ اہل فارس نے جب ملک کے ایک صوبہ پر قبضہ کیا تو دریا کے نام پر سندھ رکھا، جس کا عربی نام مہران ہے، ہند رکھا، پرانی فارسی اور سنسکرت میں ”س“ اور ”ھ“ آپس میں بدل سکتے تھے۔

            عربوں نے سندھ کو سندھ کہا اور پورے ملک کے دوسرے حصہ کو ہند کہنا شروع کیا اور اخیر میں یہی نام تمام دنیا میں مختلف صورتوں میں پھیل گیا۔ ”ھ“ ، ”الف“ میں بدل کر فرنچ والوں نے ”اند“ اور انگریزوں نے انڈیا کردیا اور خیبر سے آنے والوں نے اس کا نام ہندو استھان رکھا جو فارسی تلفظ میں ”ہندوستان“ بولا جانے لگا۔ یہ نام عربوں کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اپنی بچیوں کا ہندہ نام رکھنا شروع کیا؛ چناں چہ عربی شاعری میں یہ نام وہ حیثیت رکھتا ہے جو فارسی میں لیلیٰ اور شیرین کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا عرب اس نام سے کتنا محظوظ تھے۔

            اور اسی ہندستان کے جنوبی ساحل پر ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے جس کو بھٹکل کہاجاتا ہے اور اس بھٹکل سے عربوں کا تعلق کتنا گہرا ہے آگے اندازہ کیا جاسکے گا۔

سلطنت ہنور:

            جنوبی ہندستان میں عربوں کی آمد کا سلسلہ قبل ِظہور اسلام سے ہے۔ مغربی گھاٹی کی ایک چھوٹی سی باجگزار ریاست سلطنت ہنور تھی، جو بہت ہی کم مدت میں ختم ہوگئی، ہنور کو آج ہونا ور کہا جاتا ہے، جو اب صوبہ کرناٹک کے اتر کنڑا ضلع کی ایک تحصیل کا صدر مقام ہے۔ آٹھویں صدی میں ایک اہم شہر تھا اور یہ سمندر سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ایک بڑی کھاڑی کے کنارے پر واقع ہے۔ عرب تاجروں کی آمد و رفت سے وہاں بڑی رونق تھی، اس زمانے میں یہاں جمال الدین محمد بن حسن نے اپنی سلطنت قائم کی تھی، جمال الدین محمد کا باپ ناخدا ایک جہاز راں تھا۔ اس کے بیٹے نے قوت پیدا کر کے اس ریاست کی بنیاد ڈالی جو برائے نام ہند و راجہ ہری ہردوم کے ماتحت تھی۔ سلطان کے پاس چھ ہزار فوج اوربہت سے جنگی جہاز تھے، شیخ مخدوم فقیہ اسماعیل اس ریاست کے قاضی تھے اور یہاں کے باشندے زیادہ تر شافعی مسلک کے پیرو تھے۔ اس کے قریب سدا پور جس کو اب گوا کہا جاتا ہے، ہندو راجہ کی ریاست تھی۔ راجہ اور اس کے بیٹے میں کسی سبب سے اَن بَن ہوگئی اور راجہ کے بیٹے نے باپ سے مخالفت کی، بیٹے نے سلطان سے مدد طلب کی اور مسلمان ہونے کو تیار ہوگیا۔ مسلمان ہونے پر سلطان نے اپنی بہن سے اس کی شادی کرنے کا وعدہ کیا اور اس قرارداد کے بعد سلطان نے باون جنگی جہازوں سے سدا پور (گوا) پر حملہ کرکے فتح حاصل کی۔ اورراجہ نے بھاگ کروجے نگری کی حکومت میں پناہ لی اور وہاں سے چند ماہ کے اندر وجے نگری کی حکومت کے تعاون سے حملہ کردیا۔ سلطان کا لشکر بے خبر گاوٴں میں پھیلا تھا، مقابلہ نہ کرسکا اور بری طرح گھِر گیا اور اس میں فوج کے ساتھ رعایا بھی ماری گئی۔ اندازہ کے مطابق صرف بیس ہزار نوائط اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ اوریہ ریاست تباہ وبرباد ہوگئی۔

            سلطان کا بحری بیڑہ بہت طاقتور تھا، اس لیے مالا بار کے بعض راجہ اس کے باج گزار تھے۔ خاص قسم کا جنگی جہاز تیار کرایا گیا تھا، جس کے اندر فوج مسلح گھوڑے پر سوار ہوتے ہی حملہ کرسکتے تھے۔ علم کابہت چرچہ تھا، اس کے مقابلے میں ہندستان کے دوسرے شہروں میں نہ تھا۔ صرف ہونا ور میں تیرا مدرسے لڑکیوں، اورتیئس لڑکوں کے تھے۔ ابن بطوطہ اس ریاست میں کافی مدت رہا۔ اس سلطنت کی بربادی کے بعد مسلم آبادی نے یہاں سے ہجرت کرکے ہندستان کے ساحلوں کی طرف کوچ کیا، بعض قریب ہی بھٹکل میں آباد ہوگئے۔ آج بھی اس حکومت اور اس کی آبادی کے کھنڈرات دیکھے جاسکتے ہیں ، جو اس زمانہ کی شان و شوکت کی زندہ مثال ہیں۔ ہاسپٹن اس کی راج دھانی تھی اور یہاں پرزیادہ ترآبادی نوائطی تھی۔(آئینہ بھٹکل ص: ۱۱-۱۲)

بھٹکل اور نوائط تاریخ کے آئینے میں:

            بھٹکل جو ہندستان کے مغربی ساحل پر ایک خوشنما ناریل کے باغات سے گھرا ہوا شہر ہے، اس کا نام بھٹکل کب ہواشاید بتانا مشکل ہے۔ بھٹکل کے ۱۰/ ۱۸/ کیلومیٹر پر ہر ولی راجہ بھٹکلنکا نے اس شہر کو بسایا تھا۔ شاید اسی کے نام سے اس کو منسوب کرکے” بھٹکللہ“ ہوگیا۔ پرانے دستاویز اور ٹیپوسلطان کے فرامین میں بھٹکللہ لکھا گیا ہے،انگریزی دور حکومت میں بھٹکل لکھا جانے لگا۔ اور قدیم مسلمان اسے معرب بناکر باد قعلہ (بھٹکللہ) لکھنے لگے تھے۔

            قدیم زمانے میں یہاں اور اس کے اطراف میں جین مت کے ماننے والوں کی رہائش تھی یہ وردمان مہاویر کے پیرو تھے، جو مہاتما گوتم بدھ کے ہم عصر مانے جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں شمالی ہندستان مین بدھ مت اور جنوبی ہندستان میں جین مت کا دور دورہ تھا۔ بھٹکل سے مشرق کی طرف ہر دلی اور موڈبدری کے نواحی علاقوں میں جینوں کے آثارِ قدیمہ شکستہ بوسیدہ شکل میں موجود ہیں۔ بھٹکل میں قدیم موہنی بستی ہے۔ یہ جین مندر ہے اور اس کی عمر ڈیڑھ ہزارسال ہے، کسی زمانے میں یہ رانی کا محل تھا اور اب محکمہٴ آثار قدیمہ کے تحویل میں ہے۔ بھٹکل کے بازار میں انکا راج محل آج بھی نظر آتا ہے۔ راجہ شیو وھنو جو ویدک دھرم کا پیرو تھا اپنی عصبیت سے مغلوب ہوکر جین مت اور بدھ مت کے خلاف بڑی بے رحمی کے ساتھ پیش آیا اور ان کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ آثار قدیمہ اس کے شاہد ہیں۔

            بہر حال جینوں کا صفایا اس شہر سے کب ہوا کہنا بہت مشکل ہے، بھٹکل نام کب سے وجود میں آیا تاریخ خاموش ہے،اس سے پہلے یہ علاقہ” ہوناور“ تعلقہ میں تھا۔ اور اپنے بچپن میں اس کو ہوناور تعلق ہی کہا جاتا تھا۔ ابن بطوطہ مشہور اسلامی سیاح کا جب اس علاقہ سے گزر ہوا تو اس نے اپنے سفر نامہ میں ہنوّر کا ذکر کیا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے ہونور سے مراد یہ پورا علاقہ ہے۔ بھٹکل کے مشرق میں تقریباً نو ویں (۹۰) کیلو میٹر پر جوگ فال واقع ہے، جو ایشیا کا بہت ہی مشہور اوربڑا آبشار ہے اور آگے ساگر، شیموگہ کا علاقہ ہے، مغرب میں تین (۳) کیلو میٹر پربحرِعرب اور قدیم بندر گاہ ہے، شمال میں چالیس (۴۰)کیلومیٹر پر دریائے شراوتی جس کے دوسرے کنارے پر ہوناور واقع ہے۔ اور جنوب میں پچاس(۵۰) کیلومیٹر پر دریائے گنگولی اور کنداپور واقع ہے۔ بھٹکل کا کل رقبہ دو سو اسکوائر میل ہے۔ آزادی سے قبل انگریزوں کے دورِحکومت میں بھٹکل صوبہ ممبئی کا جنوبی سرا تھا، جو صوبہ مدراس سے ملحق تھا۔ آزادی کے بعد مولانا آزاد کے مشورے پر ہندستان کو انتظامی امور کے لیے لسانی بنیاد پر تقسیم کیا گیا، تو فضل علی لسانی کمیشن کے تحت ۱۹۵۶ء میں ریاست ِمیسور میں شامل کیا گیا۔ جو بعد میں اپنے قدیمی نام ریاست کرناٹک سے منسوب ہوگیا۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اس بھٹکل کو بیت کل بھی کہتے ہیں۔ یعنی مکمل گھر سے تعبیر کرتے ہیں۔

بھٹکلی اور عربوں کی آمدو رفت:

            قدیم زمانے سے یہاں عرب تاجروں کی آمد تھی، یہاں کی آبادی سے عربوں کا تعلق تھا، جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو اس کا اثر اس علاقہ پر بھی پڑا۔ ابتدا سے ہی عرب تجارت پیشہ تھے، اسلام اختیار کرنے کے بعد بھی وہ تجارت کرتے تھے اور ساتھ ساتھ تجارت کے ذریعہ تعلیمات اسلامی کو آس پاس کے علاقوں میں پہنچاتے تھے۔ خصوصاً ہندستان کے ساحلی علاقوں پر مسلمان تاجروں کے اثرات سے ہی اسلام کی روشنی پھیلی۔ ساحل کوکن، ملبار اور گجرات پر ان کی کوششوں کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ بھٹکل، مرڈیشور، منکی ، ولکی، بیندور وغیرہ مین بعض تاجروں نے مستقل یہیں سکونت اختیار کرلی۔ جب ہنور کی ریاست (ہوس پیٹن) اسلامی حکومت ختم ہوگئی اور اس کا اسلامی نظام درہم برہم ہوگیا، قومی شیرازہ بکھر گیا، تو بعض لوگوں نے امن وامان اور اطمینان کے لیے نئی پناہ گاہ تلاش کی ، ان میں بہت سے لوگ اسی علاقے میں آباد ہوگئے، جہاں پر پہلے ہی سے مسلمان تاجر سکونت اختیار کرچکے تھے، اس طرح یہ علاقہ مسلم آبادی میں تبدیل ہوگیا۔ اس وقت سے جین مت والے برائے نام ہی بھٹکل میں رہ گئے۔

نوائط:

            نوائط جمع ہے نائط کی اور یہ لفظ ”ط“ اور ”ت“ دونوں طرح سے لکھا جاتا تھا۔ قدیم موٴرخین اور تذکرہ نگار”ت “ہی سے لکھا کرتے تھے۔ ابو القاسم فرشتہ اور مولوی غلام آزاد بلگرامی نے نایت اور نایتی ہی لکھا ہے ۔ بہر حال دونوں طریقوں سے اس کے معنی ملاح ناخدا اور کشتی ران ہی کے ہوتے ہیں۔ اور ” ت“ کے ساتھ مزید ایک معنیٰ نوآمدہ، نووارد وغیرہ بھی لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ دوسری روایت میں علی بن نائط کی اولاد سے ہے۔

زبانِ نوائط:

            یہ مخصوص علاقہ میں صرف بولی جاتی ہے اور اس کا رسم الخط فارسی ہے۔ کرناٹک کے جنوبی ساحلی علاقہ کی زبان ہے۔ اصل میں جب مسلم تاجر اس علاقہ میں وارد ہوئے اس وقت یہاں پر جین حکومت کرتے تھے اور ان کی زبان مرہٹی تھی، آج بھی اس علاقہ میں گھاٹ پر جین مت کے ماننے والے ہیں۔ اور ان کی زبان مرہٹی ہے، جب آمد و رفت شروع ہوئی اور کچھ عرب تاجروں نے یہاں بود و باش اختیار کی اور لوگوں کا میل جول بڑھ گیا تو ایک مخلوط عربی فارسی اور مرہٹی کی مشترکہ زبان وجود میں آئی، جس کا لب و لہجہ بالکل مرہٹی سے الگ تھا، یہی زبان یہاں کے رہنے والے عرب تاجروں کی وجہ سے نوائطی کہلانے لگے۔ نوائطی مرہٹی کی زمین کی پیداوار ہے ، جس طرح شمالی ہندستان میں اردو ہندی کی زمین پر وجود میں آئی۔ اسی طرح نوائطی کے لیے مرہٹی بمنزلہ زمین ہے۔

قوم نوائط کی ہندستان آمد:

            جس طرح اوپرمیں نے لفظ نوائط کے بارے میں لکھا ہے، مگر اہل نوائط عربستان سے ہندستان کی طرف ہجرت کرنے کے تعلق سے مختلف روایات ہیں، مگرعام روایت یہی کہ قبیلہ نوائط کے کچھ لوگ حجاج بن یوسف ثقفی اورخلیفہ ابوجعفر منصور کے زمانے میں مدینہ سے بصرے کی طرف ہجرت کی۔ پھر اپنے سردار سید عبد الرحمن نائطی کی وفات کے بعد ۷۵۲ء میں بصرے سے سات یا آٹھ کشتیوں میں ہندستان کے جنوبی مغربی ساحل پر اترے۔ اس وقت عراق میں مشہور تاتاری بادشاہ ابو سعید خدا بند کے پھوپھی زاد بھائی شیخ حسن بن حسین بن آباقا کی حکومت تھی، تاتاری شیعہ مذہب اختیار کرچکے تھے۔ بعض شیعہ حکمرانوں نے اس قوم پر سختی کی جس کی وجہ سے ان کو ہجرت کرنی پڑی۔

            چوں کہ کشتیوں میں بیٹھ کر آئے تھے۔ اسی لیے شیخ مجد الدین فیروز آبادی نے نایت کے معنی ملاح اور ناخدا قرار دیاہے۔ بعد میں علما اہل نوائط نے ”ت“ کو ”ط“ سے بدل کر نائطی لکھنا شروع کیا اور اب تک ”ط“ کے ساتھ اس کا رواج ہے۔ اس وقت ہندستان میں سلطان علاوٴ الدین حسن گنگو بہمنی کا دور تھا۔ دہلی میں محمد تغلق کی حکومت تھی، اہل نوائط کو اپنے نسلی امتیاز پر اسی طرح فخر ہے، جس طرح عرب میں قریش کو ہے۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو قوم نائط کا تعلق قریش سے ہے اورقریش نصر بن کنانہ بن مدرکہ بن الیاس کی اولاد ہیں۔

            سمعانی نے الناعطی کا بھی تذکرہ کیا ہے جو یمن کے مشہور قبیلہ ناعط کی طرف نسبت ہے۔ مشہور عربی شاعر ابو نواس نے اس قبیلہ سے ہونے پر فخر کیا ہے۔

لست لدار عفت وغیرہ

ضربان من نو، ہا و حاصبہا

بل نحن ارباب ناعط ولنا

صنعا، والمسک فی لحاربہا

            ترجمہ:   میں اس گھر کا نہیں ہوں، جس کو بارش اور آندھی نے مٹادیا، بل کہ ہم اہل ناعط ہیں اور ہمارے لیے صنعا ہے اور اس کے محرابوں میں مشک لگا ہوا ہے۔

            یعنی ہم عدن کے مشہور بادشاہوں کی نسل ہیں، ہم بیاباں میں بدووں کی طرح زندگی بسر کرنے والے قبیلہ نزار سے نہیں ہیں۔

            کہا جاتا ہے عبد الملک مروان کے دورحکومت میں حجاج بن یوسف کا اقتدار تھا، ظلم و تشدد کی بنا پر آل مرتضوی کی زندگی تنگ ہوگئی اوروطن چھوڑنے پرمجبور کیا تو اہل وعیال ومال و اسباب کے ساتھ کشتیوں پرسفر کرکے جہاں جہاں موقع ملا ہندستانی ساحل بھروچ ، کوکن ، دابل، کھمبایت اوراطراف بندرگاہ پر پھیل گئے۔

            مولانا باقراپنی کتاب نفحة العربیہ کے قصیدہٴ غینہ کے ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نائطہ نصربن کنانہ کے لڑکے تھے۔ باقی نسب شریف معروف ہیں، آگے کے شعر میں یہ جان لو کہ نائط قریش کی ایک قوم جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نصر بن کنانہ میں جا ملتے ہیں، یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے ہیں۔ حجاج بن یوسف کے زمانہ میں ہجرت کی۔ حجاج وہ شخص ہے جس نے بہت ظلم کیا اور اپنی قوم کے بے شمار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بعض لوگ بحر ہند کے ساحل پر اترے۔ امام جعفر طبری نے اپنی تاریخ میں اور امام نووی نے اپنی فقہی کتابوں کے باب الغنی و الغنیہ میں قریش کے خاندان اورقبائل کا ذکر کیاہے۔ طبری کے قول کے مطابق سواحل بحر ہند سے مراددو نوں کوکن ہیں۔عادل شاہی کوکن تعلق بیجاپور ۔ اورنظام شاہی کوکن احمد نگر ہے۔

            بحرحال ابتدا میں جو مسلمان ِعرب ہند میں آگئے، ان کا تعلق قریشی نائطہ قبیلہ سے تھااور اسی بنا پرنایت یا نوایت سے مخاطب کیاگیا۔ ملبار کے مسلمانوں کے دو حصے ہیں، نایت اور ماپلے۔ وہ قدیم عرب مسلمان ترک وطن کرکے ہندستان میں بودو باش اختیار کی وہ نائط کہلانے لگے اور مقامی باشندے جو مسلمان ہوئے اور ان کی جو اولاد ہوئی وہ ماپلے کے نام سے مشہور ومنسوب ہوئے۔

بھٹکل واطراف کے نوائط:

            اسی طرح جو نائط بذریعہ کشتی سواحل ہند پر پھیل گئے، اس میں کچھ کشتیاں اسی ساحل کے ذریعہ دریائے شرابی کے کنارے دارنٹا پہنچ گئے اور بھٹکل میں رہائش اختیار کی۔ جس سے یہاں کی قدیم آبادی سے تعلق ہوگیااوراپنی آمد پرشاید ۲۱۲ھ میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو بعد میں جامع مسجد کے نام سے موسوم ہوگئی۔ اس وقت اس علاقہ میں جین مت کے ماننے والے تھے ،جن کی زبان بھی مرہٹی تھی ؛جب ہاسپٹن کی اسلامی حکومت ختم ہوگئی اوراس کا نظام درہم برہم ہوا، لوگ خصوصاً مسلمان امن وامان کی خاطر نئی پناہ گاہ کی تلاش میں نکلے اوراسی علاقہ بھٹکل میں آباد ہوگئے؛جہاں ان کی آمد سے پہلے مسلمان آباد تھے۔

عربوں کے حسن اخلاق کا اثر:

             مسلمانوں کی بڑھتی آبادی اور ان کے اخلاق وعادات ان کی راست بازی، سچائی، ہنر، تبلیغ دین کی وجہ سے جین مت ماننے والے آہستہ آہستہ مسلمان ہوتے گئے، ان نووارد کایہاں کی مقامی عورتوں سے قبول اسلام کے بعدنکاح وبیاہ کا معاملہ بھی ہوا اور ان کے کچھ رسم ورواج بھی شامل ہوگئے۔عبادت کی خاطر مسجدوں کا سلسلہ چلتا رہا، بہت پہلے جامع مسجد تعمیر ہوچکی تھی، دریائے شرابی کے آخر ی کنارے پر غوثیہ مسجد بھی تعمیر کی گئی۔  

            حضرت شیخ مخدوم فقیہ اسماعیل کی آمد کے بعدبہت زیادہ غیر مسلموں میں تبلیغ کا کام شروع ہوا، لوگ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ بعض جگہ پورا کاپورا گھرانہ اسلام میں داخل ہوا، محلے کے محلے مسلمان ہوگئے، مسلمانوں کی آبادی بڑھ گئی اور جین مت والے خود بخود کم ہونے لگے۔جینوں کے کچھ اثرات پائے جانے لگے اور آج بھی کچھ ان کے اندر پائے جاتے ہیں۔ لباس اورشادی بیاہ کی بعض رسمیں ہم میں سرایت کرگئی ہیں، جو آج دینی شعور اور اسلامی تعلیم و تربیت کی وجہ سے کم ہوتی جارہی ہیں۔

            گجرات بھروچ ، بیدر، بیجاپور اور بعض مقامات پرہندووٴں کی نفرت اور بے تعلقی کی وجہ سے سکون کی خاطر بعضوں نے بھٹکل کی طرف رخ کیا اور یہیں بودو باش اختیار کی۔ اوراگر دیکھا جائے تو حجاج بن یوسف کے ظلم کے باعث کچھ لوگ بغداد چلے گئے اور بغداد میں اثنا عشری حضرات پر تاتاریوں کے ظلم نے ہجرت کا موقع عطا کیا۔یہ لوگ بھی ہندستان کے ساحل پر وارد ہوئے اوران میں سے بعض کشتیاں بھٹکل کے قریب اتری جوشیعہ مسلک سے بھی وابستہ تھے اس کا اندازہ ہماری رواجوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔خصوصاً تعزیہ کا رواج بھٹکل میں تھا؛ اسی سے پیدا ہوا، جو بعدمیں ختم ہوگیا۔ عرب لوگوں میں سادات کے لیے قریشی اور ہاشمی لقب لکھا جاتا ہے۔ سادات لکھنے کا طریقہ شیعہ حضرات کی ایجاد ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو موجودہ اہل ِنوائط پورے کے پورے عربی نسل نہیں ہیں۔ اس میں نوائط کے ساتھ نومسلم کے خاندان بھی شامل ہیں، جو مسلمان ہونے کے بعد مسلمان کے طور طریقہ اختیار کیے اور اس طرح نوائطی بن گئے۔ آس پاس کے علاقوں میں بھی یہی قوم آباد ہے۔ مرڈیشور،منکی، دلکی وغیرہ وغیرہ جنوبی کنارہ میں شیرور، بیندور، گنگولی،تونسے میں بھی آباد ہیں۔(آئینہ بھٹکل ص:۱۳-۱۷)

سفر نامہٴ بھٹکل لکھنے کی غرض:

            بہر حال بھٹکل مسلمانوں کی ایک مثالی بستی ہے، جب میں نے اس کی زیارت کی تو سوچا سفر نامہ کی حیثیت سے نہیں، البتہ مسلمانوں کوایک نمونے کا شہر بتانے کی غرض سے؛ یہاں کی تاریخ اور موجودہ صورت حال سے واقف کرنا چاہیے۔ ویسے تو بندہ نے محض اللہ کی توفیق سے بہت سفرکیے اور کرتا رہتا ہوں، مگر جس جگہ سے مسلمانوں کو درس ملتا ہو، جہاں سے مسلمانوں کی روشن تاریخ وابستہ ہو،وہاں کاسفر نامہ قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

            اب تک بندے نے تین سفر نامے تحریر کیے ہیں۔ سب سے پہلا حیدر آباد کا سفر نامہ بعنوان ”غرناطہٴ ثانی حیدرآباد کے مرغزاروں میں“اس کے بعد ”جنوبی افریقہ کا سفرنامہ“جوکتابی صورت میں شائع ہوگیا اور ترکی کا سفرنامہ جوناتمام ہے اور یہ چوتھا سفر نامہ بھٹکل کا۔ اس سفر نامہ کی خاص غرض تمام مسلمانوں کو یہاں آباد مسلمانوں کے اجتماعی مسائل میں اتحاد کو بتانا ہے؛ تاکہ ہندستان کے وہ علاقے جواکثریت کے حامل ہیں، یہاں کے نظام کو دیکھ کر اسے نمونہ بنائیں اوراسی انداز میں اپنے مسائل کو حل کریں۔

            حیدرآباد کا سفر نامہ مسلمانوں کوان کی علمی دلچسپی کو بتانے کے لیے لکھا تھا، جنوبی افریقہ کا سفر نامہ اقلیت کے حامل خطوں کوکس طرح جنوبی افریقہ کے مسلمانوں سے سبق لینا چاہیے؛ اس غرض سے لکھا تھا۔ ترکی کا سفر نامہ مسلمانوں کو ان کی ماضی قریب کی شان و شوکت کو بتانے اور پھر دوبارہ ترکی کی احیائے قیادت کو قریب سے دیکھا تو اپنے سیاسی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے اور اب یہ بھٹکل کا سفر نامہ مسلمانوں کو اتحاد اور اجتماعی مسائل کے حل کو سیکھنے کی غرض سے تحریرکررہاہوں۔

            بھٹکل کے سفر کے دوران کسی صاحب نے ”آئینہ بھٹکل“ کتاب ہدیہ کی ، بیسیار جستجو کے باوجود معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کتاب کس نے ہدیہ کی ۔ موٴلف کا نام محمد عثمان انجینئر صاحب اورہدیہ دینے والے دونوں حضرات کا ممنون ومشکور ہوں اور دست بدعا ہوں کہ اللہ انہیں اجر عظیم سے نوازے۔

موجودہ بھٹکل کی اجتماعیت کے پیچھے چھپے راز:

            آئینہ بھٹکل کو پڑھ کر بندہ کا ایک تاثر قائم ہواکہ ”یہاں کاموجودہ اجتماع اور اتحاد کوئی اچانک پیش نہیں آیا یا کوئی کرشمہ نہیں ؛بل کہ بھٹکل میں وحدت جماعت اور وحدت جمعہ ۱۸۳۱ء تک تھا۔ اس کے بعد اختلاف ہوا جس میں ہٹ دھرمی سب سے بنیادی وجہ بنی، مگر قربان جائیے ذمہ دارن ِبھٹکل پر کہ وہ اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ انفرادی طور پر ۱۸۳۱ء کے بعد سے لے کر ۱۹۲۱ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد ۱۹۲۱ء سے لے کر ۱۹۵۴ء تک اجتماعی کوشش ہوتی رہی، یہاں تک کہ ۱۹۵۴ء ۲۷/ مئی کو الحمدللہ یہ اجتماعی کوشش کام یاب ہوئی۔

            ۲۴/ رمضان ۱۳۷۳ھ مطابق ۲۸/ مئی ۱۹۵۴ء کو اتحادِ جماعت وجمعہ ہوا، اس طرح ۱۲۳/ سال کے محنتوں کے بعدجو اتحاد عمل میں آیا ، آج وہ بے مثال بن گیا۔الحمدللہ ! ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان طویل تجربات سے استفادہ کریں ، ملت اور امت کے مفاد کو ہمیشہ ذاتی مفاد پر ترجیح دیں، اس مفصل تاریخ میں لکھا ہے کہ اتحاد کے خاطر کتنے بڑے لوگوں نے اپنے مناصب کی بھی قربانی دی۔ ضرورت پڑنے پر جب دیکھا کہ ملت کی اجتماعیت اور امت کا مفاد اسی میں ہے کہ میں اپنے منصب کو قربان کردوں۔ اس سے دو فائدے ہوئے ایک تو امت کے اتحاد کی طرف قدم بڑھا ؛یہاں تک کہ ان قربانیوں کی برکت سے اتحاد مثالی شکل اختیار کرگیا اور دوسرا یہ کہ آج موٴرخ ایسے افراد کا ذکرِ خیرکر رہا ہے اور جنھوں نے اپنے مفاد کو ترجیح دی، ان کے نام بھی مثال کے طور پر مذکور ہیں۔ ہمیں اس سے بحث نہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ تاریخ کسی کو نہیں بخشتی ، اچھے کو خیر کے ساتھ رقم کرتی اور برے کو شر کے ساتھ۔

مسلمانوں کے آپسی اختلاف کے خاتمے کے لیے ایک مجرب نسخہ:

             اس موقع پر حضرت تھانوی کا ایک ملفوظ یاد آرہا ہے۔ حضرت نے فرمایا: کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ اگر امت میں صفت ِتواضع عام ہوجائے تو اختلاف ختم ہوجائے گا۔ اس لیے کہ جب تواضع ہوگا تو اپنی بات پر اصرار نہیں کریں گے اور اصرارنہیں ہوگا تو انتظام اور اتحاد آئے گا اور جب اتحاد آئے گا تو خود بہ خود ترقی ہوگی۔

بھٹکل کی اجتماعیت کوفروغ دینے والے ادارے اور ان کی تاریخ:

            بھٹکل کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ آج بھی سر زمین ہند پر ایک ایسا شہر ہے جو اسلامی، علمی، معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی روایات کا امین موجود ہے، جو صفائی میں اپنی نظیر آپ ہے، جہاں عورتوں میں ۱۰۰/ فی صد پردہ ہے۔ ۱۲/ سال کی عمر کے بعد کوئی بہن مکمل پردہ کے بغیر نہیں ملے گی۔ آپسی اختلافات کے حل کے لیے جماعت المسلمین ادارہ جس کا قیام ۲۷۲ھ میں آیا یعنی ۱۲۰۰/ سال قبل جس کے ذمہ چار اجتماعی مسائل ہیں۔

            ۱- مساجد کا نظم ونسق۔ ۲- اوقاف کی نگرانی۔ ۳- نماز جمعہ اور عیدین کا انتظام۔ ۴- محاکم شرعیہ۔

            اسی طرح مسلمانوں کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے مجلس ِاصلاح وتنظیم جس کا قیام ۱۹۱۵ء میں مجلس تنظیم کے نام سے عمل میں آیا۔ اور اس کے بعد ۱۹۳۹ء میں اس کا نام مجلس اصلاح و تنظیم ہوگیا۔ سیاسی اتحاد کے ساتھ ساتھ اس کا کام غربا کی شادی، لاوارث اموات کی تجہیز وتدفین اور دینی معاشرے کو برقرار رکھنے کے لیے جلسے جلوس کروانا ، مسلمانوں کو تعلیمی ترقی دینے کے لیے انجمن اصلاح وترقی کا قیام ۱۹۱۹ء میں عمل میںآ یا۔ انجمن حامی المسلمین نے اسکول کا آغاز کیا اور ماشاء اللہ آج پرائمری سے لے کر انجینئرنگ تک تعلیم ہورہی ہے۔۱۲/ ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۲۰/ اگست ۱۹۶۲ء میں جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا، اسی طرح دینی ودنیوی دونوں تعلیم کا بہترین انتظام عمل میں آیا اوراب تو مولانا الیاس صاحب ندوی کی علی پبلک اسکولزبھی قائم ہوچکے ہیں، جو تعلیمی نصاب کو اسلامائزیشن اسلامیانے کا کام بھی کررہے ہیں، جس کی تفصیل آگے آئے گی ان شاء اللہ۔

بھٹکل ایک قابل تقلید بستی:

            بہر حال بھٹکل ایک نمونہ کا شہر ہے،جہاں مسلمانوں میں علمی ، ادبی ذوق بھی بہت عمدہ ہے۔جناب ارشاد عثمانی صاحب میر تقی میر کے لکھنوٴ کے بارے میں کہہ گئے شعر کوجناب عثمان صاحب نے جزوی ترمیم کے ساتھ آئینہ بھٹکل کے پیش لفظ میں ذکر کیا ہے، جو بھٹکل پر سو فی صد صادق آتاہے #

 بھٹکل جو ایک شہر ہے ، ساحل پہ انتخاب

ہم رہنے والے ہیں اسی ہرے بھرے دیار کے

            ایک اور شعر #

بھٹکل کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

            اور ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی صاحب نے اہل بھٹکل کے بارے میں جو منظر کشی کی ہے وہ بالکل صحیح ہے۔

            بھٹکل ایک ایسا شہر ہے، جو مغربی ساحلی علاقہ پر واقع ہے۔ اسی شہر کے لوگ قدیم عرب تجار کی اولاد ہیں اور آج بھی اپنے آبائی پیشہ پرقائم ہیں۔ خوش رو خوش پوش اورخوش حال ہیں۔ خوش اخلاقی اعلیٰ ظرفی اور مہمان نوازی میں عربوں کے مثل ہیں،شعر و شاعری کے دلدادہ اور علم وادب کے قدر داں ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہر نو وارد کو پہلی نظر میں یہ شہر بہت بھاتا ہے۔ (آئینہ بھٹکل: ص۴)

            انہیں گوناگوں خصوصیتوں کی وجہ سے یہ شہرمفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ کی خاص توجہات کا مرکز رہا اور ماشاء اللہ آج بھی ندوہ سے ان کا ربط قائم ہے اور وہاں کے نوجوان جامعہ اسلامیہ کے بعد آخری سال کے لیے ندوہ ہی جاتے ہیں۔ بہر حال طویل تعارف کے بعد اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔

منگلور سے بھٹکل کا سفر:

            اگر چہ طویل سفر کی وجہ سے کافی تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی، مگر مولانا سمعان صاحب حفظہ اللہ سے گفتگو شروع ہوئی تو بھٹکل تک ایک ہی نہیں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہا اور ہم ۱۵:۲پر بھٹکل پہنچے۔

            کچھ دیر آرام کیا ، فجر کی نماز ادا کی اس کے بعد معمولات کے مطابق یومیہ ورد کیا، اور تقریباً دس بجے ناشتہ سے فارغ ہوئے اور اس کے بعد بھٹکل کی زیارت کے لیے نکل پڑے ۔ یہ طے ہوا کہ سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی زیارت کی جائے ۔ ہمارا قافلہ جب تنگ سڑکوں سے کشادہ سڑک پر اور پھر جامعہ کے خوبصورت احاطہ میں داخل ہوا جو گرچہ پرکشش تھا مگر طلبہ کے نہ ہونے سے ویرانے اور سناٹے کا دلخراش منظر پیش کررہا تھا۔ طلبہ ہمارے اداروں کی روح ہوتے ہیں، مگر کیا کیا جائے کورونا کی وبا نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے۔ تقریباً سال کا ثلثان گزر چکا ہے، مگر اب تک ہمارے ادارے طلبہ سے آباد نہیں ہوسکے۔

            خیر جب ہماری گاڑی پرشکوہ عمارتوں سے ہوتے ہوتے دفتر ِاہتمام کے سامنے پہنچی ،تو مہتمم صاحب مولانا مقبول صاحب دامت برکاتہم استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ مولانا کے دفتر میں حاضری دی اور بس پھر کیاتھا مولانا نے تقریباً تیس چالیس منٹ میں بھٹکل کی پوری تاریخ سنادی۔ اس دوران جامعہ کے دیگر ذمہ داران آئے اور ملاقات ہوتی رہی، اس کے بعد جامعہ کی زیارت کی۔ خاص طور پر عالیشان مسجد اور اس کے بعد اسلامی لائبریری کی جس میں ماشاء اللہ بڑے سلیقے سے کتابیں رکھی ہوئی تھیں، ذمہ داران نے بتایا کہ کتابوں کے حسن ِانتخاب میں مولانا عبد المتین منیری صاحب کا اہم رول ہے ، وہ متحدہ عرب امارات سے طبع ہونے والی عمدہ کتابیں جمع کرکے آنے والوں کے ساتھ ارسال کرتے رہتے ہیں۔ لائبریری کی زیارت کے بعد ہم” لرن قرآن “ یعنی قرآن سیکھو کے دفتر کی جانب چل دئے۔

ادارہ لرن قرآن کی زیارت:

            ندوة العلماء کے چند نوجوان فضلا نے عصر ِحاضر ٹیکنا لوجی کو شرعی و دینی مقاصد میں بھر پور استعمال کرتے ہوئے قرآن کریم کو موبائل کے ذریعہ سیکھنے کا بہت عمدہ طریقہ اختیار کیاکہ پوری دنیا سے جو بھی مسلمان قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہو، وہ ایک جاری کردہ نمبر پر واٹس ایپ کے ذریعہ رابطہ کرے ، اپنا وقت بتائے اور بلا معاوضہ قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھنا سیکھے۔چند سالوں قبل چھوٹے پیمانے پر کام شروع ہوا تھا، اب ماشاء اللہ تقریباً ۸۰/ سال تک کے ہزاروں افراد اپنے وقت اور اپنی سہولت کے مطابق قرآن پڑھنا سیکھتے ہیں۔

            اس کی بہت ساری خصوصیات ہیں، جیسا کہ مولانا عبد اللہ شریح مقبول احمد ندوی صاحب نے بتائی کہ جو نمبرسے فون آتا ہے، اس پر سوائے قرآن سیکھنے کے اورکوئی مراسلت نہیں ہوتی ، سیکھنے والے سے اس کی عمر بھی دریافت نہیں کی جاتی، صرف نام اور ملک ،مرد یا عورت بس اتنا ہی معلوم کیا جاتا ہے۔

            ایک قابل تقلید کام ہے، مسلمانوں کی تعداد موجودہ دنیا میں ۲۵۰/ کروڑ یعنی دو ہزار پانچ سو ملین سے متجاوز ہے اور بڑی تعداد قرآن پڑھنا نہیں جاتنی، اور ہمارے پاس ذریعہٴ ابلاغ اورنیٹ کے ذریعہ سیکھنے سکھانے کی آسان سبیل موجود ہے، ایسے متعدد ادارے بھی ناکافی ہیں۔ ماشاء اللہ بلا معاوضہ قرآن سیکھنے کے ایسے اوربھی ادارے قائم ہونے چاہیے۔(۱)

            اس کے بعد ہم ”کپڑا بینک“ کی دفتر کی طرف چل دئے۔

 کپڑا بینک کے دفتر کی زیارت :

            پچھلے چند سالوں سے شروع ہوئی ، جس میں ابتداء ً استعمال شدہ ایسے کپڑے لیے جاتے ،جو کہیں سے پھٹے نہ ہو، دھوکر پریس کرکے تیار کیے جاتے اور کال کی جائے تو وصول کیا جاتا۔ اوربعد میں مستحقین تک پہنچائے جاتے ہیں۔

            اب کھانا شروع کیاہے، اوردیگراشیاء بھی ۔ یعنی ایک قابل تقلید کام ہے۔ مسلمانوں کو اپنی بستیوں میں یہ کام کرنے چاہیے۔

            ہندستان میں ویسے بھی غربت بہت زیادہ ہے اورلاک ڈاوٴن کی وجہ سے غربت میں مزید تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔لوگ بھوک سے مررہے ہیں، ایسے مواقع پرخدمتِ خلق کے جذبے سے بلا تفریق مذاہب وادیان ہم مسلمانوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، تاکہ برادران وطن کے دل میں جو میڈیا کے راستے سے نفرت کے بیج بوئے گئے ہیں، ہم اس طرح خدمت کرکے اسے محبت میں بدل سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاوٴن میں مسلمانوں نے بہت اچھا رول ادا کیا ہے، مزید منظم انداز میں اسے آگے بڑھنا چاہیے۔

            ان شاء اللہ اگلی قسط میں مسجدمنیری، علی پبلک اسکول ،ادارہ ادب اطفال،جامع مسجد بھٹکل،فطرت لائبریری برائے اطفال اور علمائے بھٹکل کے ساتھ ایک یادگار نشست اور واپسی پر سفر نامہ کی تکمیل کریں گے۔


(۱)…اس کا تفصیلی تعارف ان شاء اللہ آئندہ قسط میں قارئین کے پیش خدمت ہوگا۔

Welcome to our website www.rolexreplicaswissmade.com that is a perfect online shop for fake rolex