جامعہ کے شب و روز:
ریاض العلوم انوا جالنہ میں تکمیلِ قرآنِ مجید کی مجلس:
24 اگست بروز ہفتہ فجر کی نماز اور معمولات کی ادائیگی کے بعد تقریبا صبح 8 بجے تین افرادحضرت مولانا محمد حذیفہ وستانوی صاحب، حضرت مولانا خالد دیسائی صاحب لندن اور ناظم ِمکاتب ومراکز جامعہ اکل کوا مولانا جاوید صاحب جامعہ کی مشہور ومعروف شاخ ”جامعہ ریاض العلوم انوا“ کے لیے روانہ ہوئے۔
طلبہٴ جامعہ کا پروگرام اور والدین حفاظ کا اکرام:
یہ سفر ادارہ ہذا سے تقریباً 25 خوش نصیب طلبہ کے تکمیلِ حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرنے کے موقع پر تھا، جس کے لئے ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک استقبالیہ پروگرام پیش کیاگیا، جس میں ادارہ ہذا کے طلبہ نے نہایت عمدہ انداز میں تعلیمی ونشاطاتی پروگرام پیش کیا۔طلبہ کے پروگرام کے بعد ان حافظ بننے والے طلبہ کے والدین کا شال پوشی سے اکرام کیا گیا۔
مہمانوں کا خطاب:
اس کے بعد آئے ہوئے مہمانان خصوصی میں سے حضرت مولانا فاروق وستانوی صاحب (ناظم وشیخ الحدیث عمر بن خطاب کنج کھیڑا) کا خطاب ہوا۔ اس کے بعد مولانا بنیامین وستانوی صاحب ناظمِ جامعہ ہذا نے آخری سورتیں پڑھاکر طلبہ کو زمرہٴ حفاظ میں شامل کیا۔ اور تمام آنے والے مہمانوں کا پرُزور شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد لندن سے تشریف لائے ہوئے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا محمد خالد دیسائی صاحب نے حفظِ قرآن کریم کی فضیلت اور حفاظِ کرام کی عظمت ومقام پر خطاب کیا۔ اور اخیر میں اس مجلس کے روح ِرواں حضرت مولانا محمد حذیفہ وستانوی صاحب کا کلیدی خطاب ہوا، جس میں آپنے بیش بہا باتیں بتائیں، حالاتِ حاضرہ میں زوال سے نکل کر عروج کی راہ سجھائی،آپ کا بیان جو نہایت ہی قیمتی اور ضروری باتوں پر مشتمل تھا اس کے اہم نکات پیشِ خدمت ہیں۔
خلاصہٴ خطاب حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی:
آپ کا یہ خطاب قرآنِ کریم کی عظمت، انسان کی مخلوقات پر فضیلت، اور اسلامی تعلیمات کی اہمیت وضرورت پر مشتمل تھا۔
انسان کی دیگر مخلوقات پر افضلیت:
اللہ نے انسان کو مخلوقات کا سردار بنایا، کیوں کہ اس میں اختیاری طور پر اللہ سے محبت، اس کے ذکر اور طاعت کی استعداد ہے،دیگر مخلوقات بھی اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، لیکن انسان کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے اللہ کا ذکر کرے۔
قرآنِ کریم کی عظمت:
قرآنِ کریم انسان پر اللہ کا عظیم تحفہ ہے، جوانسانی قلوب کو محبت ِالٰہی سے سر شار کرتا ہے۔ اورقرآن کریم کی تعلیمات کی حفاظت کے لیے مدارس کا کردار بہت اہم ہے۔ہمارے علما نے تعلیماتِ قرآن کو نہ صرف محفوظ رکھا، بل کہ اس کی تعلیم کو فروغ دیابریں بنا ہمارے ملک میں اسلام صحیح شکل وصورت میں موجود ہے۔
عصر حاضر میں ایمان واسلام کی حفاظت کے لیے قرآن سے وابستگی نہایت ضروری ہوچکی ہے۔”قرآنِ کریم کی تعلیم اور حفظ“ انسان کی روحانی غذا ہے، جو اسے ہر طرح کا سکون فراہم کرتی ہے۔
حفاظت قرآن کے ذرائع اور علماکا کردار:
اسلامی تعلیمات کی حفاظت کے لیے ہر دور میں اللہ نے کسی نہ کسی قوم یا فرد کو منتخب کیا ہے۔ مدارس اور علما نے ہمیشہ سے ایمان کی حفاظت کے لیے درکار تمام اہم کردار ادا کیا ہے۔قرآنِ کریم کے ایک بھی حرکت، حرف اور لفظ میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔قرآن کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ پہاڑوں پر نازل ہوتا، تو وہ بھی اس کی عظمت کو برداشت نہ کر پاتے۔
عوام کو قرآن سے متعلق اہم پیغام:
۱- مسلمانوں کو قرآن کریم کے ساتھ مضبوط تعلق رکھنا ہوگا!
۲- اس کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا ہوگا!
۳- قرآن ِکریم کے پیغام کو پوری انسانیت تک پہنچانا ہوگا!
۴- موجودہ دور میں ایمان کی حفاظت ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے قرآن سے وابستہ ہونا ہوگا!
۵- مدارس اور خانقاہیں ایمان کی حفاظت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے مراکز ہیں، ان مراکز سے اپنے رشتے مضبوط کرنا ہوگا!
۶- دنیا اور آخرت میں نجات کے لیے قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا!
۷- تحفظ ِایمان کے لیے قرآن کریم کی تعلیمات کو لازم پکڑنا ہوگا!
۸- اسلامی معاشرت کی بقاکے لیے قرآن ِکریم کی تعلیمات کو جاننا اور اس پر مکمل عمل پیرا ہونا ہوگا!
۹- اور ان سب چیزوں کے لیے اپنے مدارس کی حفاظت اور ان کی ترقی کے لیے کوشاں رہنا ہوگا!
۱۰- قرآن ِکریم کی تعلیمات کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا ہوگا۔
نیز آپ نے اپنے خطاب میں خاص طور سے قرآنِ کریم کی تعلیمات کی حفاظت کے لیے علمااور مشائخ کے کردار کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مسلمانوں کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے قرآن ِکریم کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی۔ نیز عہد لیا کہ دنیاوی مشکلات کے باوجود قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنا ہے،اور قرآن کریم کے پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔
اختتامِ مجلس:
اخیر میں اس مبارک محفل کے صدر مولانا ابراہیم صالح صاحب لندن کے ایما پر حضرت مولانا محمد فاروق صاحب نے رقت آمیز دعا کے ذریعہ مجلس کا اختتام کیا۔
قرب وجوار کے مسلمانوں سے ملاقات:
پروگرام کے بعددوپہر کا کھانا تناول فرمایا اور اس کے بعد نمازِ ظہر ادا کی، جسمانی وروحانی خراک حاصل کرنے کے بعد علاقہ سے آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات کی،حالات دریافت کیے اور مفید مشوروں اور ضروری وعدوں کے ساتھ انہیں رخصت کیااو ر سلوڑ کے لئے روانہ ہوگئے۔
مدرسہ سلیمیہ سلوڑ اور وزیر اقلیت مہاراشٹرسے ملاقات:
طے شدہ پروگرام کے مطابق وزیر اقلیت ِامور جناب عبدالستار صاحب سے مدرسہ سلیمیہ سلوڑ میں ملاقات ہونا تھا۔ مولانا کا وفد ابھی گاڑی سے اتر ہی رہا تھا کہ وزیر صاحب بھی اپنے قافلہ کے ساتھ پہونچ گئے، چائے نوشی پر ضروری کام کی باتیں ہوئیں۔وزیر صاحب حضرت رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کے بڑے عقیدت مندوں میں سے ہیں اور آپ سے بڑی محبت رکھتے ہیں،آپ نے حضرت رئیس کی طبیعت دریافت کی اور خصوصی دعا کی درخواست پیش کی۔اس میٹنگ سے فارغ ہوکر حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے مدرسة البنات کا جائزہ لیا،جہاں معصوم اور چھوٹی چھوٹی بچیوں نے اپنے ننے منے ہاتھوں سے قرآن پاک لکھا تھا، اس کی زیارت کی۔ بچیوں کا تعلیمی تربیتی جائزہ لیا ان کی کار کردگی سے حضرت مولانا بڑے خوش ہوئے اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ اس کے بعد عصر کی نماز ادا کی اور اساتذہٴ کرام سے ملاقات کے بعد بدناپور کے لئے روانہ ہوگئے۔