فقہ وفتاویٰ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین درج ذیل مسئلہ میں کہ :
مسلمان تاجر کے لیے راکھی فروخت کرنا، اسی طرح خاص وہ لباس فروخت کرنا جو مورتیوں ہی کے لیے مختص ہے یا ایسا لباس ان کا فروں کو سل کر دینا شرعاً کیسا ہے؟ صحیح جواب سے روشناس کرا کر عند اللہ ماجور ہوں۔ فقط
الجواب وباللہ التوفیق
راکھی یہ ہندووٴں کی مذہبی چیز ہے، اور ہر ایسی چیز جو غیر قوموں کی مذہبی ہے یا ان کا شعار ہے، ان کی تجارت کرنا، معصیت میں ان کے تعاون کے مترادف ہے،اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح جو لباس مورتیوں کے لیے مختص ہے اس کی تجارت کرنا یا اسے سِل کر دینا بھی کراہت سے خالی نہیں ہے، لہٰذا اس سے بھی بچنا چاہیے۔
والحجة علی ما قلنا
ما فی ”القرآن الکریم“: ﴿ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، واتقوا اللّہ إن اللّہ شدید العقاب﴾(سورة المائدة:۲)
ما فی ”احکام القرآن للجصاص“: قولہ تعالی: ﴿ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان﴾ نہی عن معاونة غیرنا علی معاصی اللّہ تعالی۔ (۲/۳۸۱/ سورة المائدة)
ما فی ”التفسیر المنیر“: ولا تعاونوا علی الإثم وہو الذنب…والمعصیة: وہی کل ما منعہ الشرع…والإثم والعدوان یشمل کل الجرائم التی یأثم فاعلہا، ومجاوزة حدود اللّٰہ بالاعتداء علی القوم۔ واتقوا اللّٰہ بفعل ما أمرکم بہ و اجتناب ما نہا کم عنہ۔(۳/۴۱۸/ الجزء السادس، سورة المائدة)
ما فی ”التنویر مع الدروالرد“: (ویکرہ) تحریمًا (بیع السلاح من أہل الفتنة إن علم) لأنہ إعانة علی المعصیة (وبیع ما یتخذ منہ کالحدید) ونحوہ یکرہ لأہل الحرب (لا) لأہل البغی لعدم تفرغہم لعملہ سلاحاً لقرب زوالہم، بخلاف أہل الحرب زیلعی – قلت: وأفاد کلامہم أن ما قامت المعصیة بعینہ یکرہ بیعہ تحریما وإلا فتنزیہًا۔ نہر۔
(۶/۴۲۰،۴۲۱/ کتاب الجہاد، باب البغاة، مطلب فی کراہة بیع ما تقوم المعصیة بعینہ)
ما فی ”جواہر الفقہ“: إن الإعانة علی المعصیة حرام مطلقا بنص القرآن أعنی قولہ تعالیٰ: ﴿ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان﴾ وقولہ تعالی: ﴿ فلن أکون ظہیرا للمجرمین﴾، ولکن الإعانة حقیقة ہی ما قامت المعصیة بعین فعل المعین، ولا یتحقق إلا بنیة الإعانة أو التصریح بہا أو تعینہا فی استعمال ہذا الشیء بحیث لا یحتمل غیر المعصیة۔
(۲/۴۴۷/ تفصیل الکلام فی مسئلة الإعانة علی الحرام، تنقیح الضابطة)
ما فی ”جمہرة القواعد الفقہیة“: الإعانة علی المحظور محظور۔ (۲/۶۴۴)
ما فی ”المقاصد الشریعة للخادمی“: إن الوسیلة أو الذریعة تکون محرمة إذا کان المقصد محرما۔
(ص: ۴۶/ المبحث الأول، المطلب الثامن صلة المقاصد بالذرائع سدًّا وفتحا) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی
۱۲/۲/۱۴۴۵ھ-فتوی نمبر :۱۱۹۹