مضارب کی لا پرواہی پر نقصان کا ذمہ دار کون؟

فقہ وفتاویٰ

سوال:     اس تحریر کا مقصد ایک مسئلہ کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا ہے۔

             صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ چار لوگوں نے مل کر ایک گاڑی خریدی۔ گاڑی کا سودا چار لاکھ بیس ہزار(420000) میں ہوا، تین افراد نے ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ روپے ملائے اور ایک شخص بغیر پیسوں کی محنت میں شریک ہوا، خریدتے وقت دو لاکھ روپے دیے اور بقیہ رقم ایک دو دن کے بعد لون کی سلپ رسید اور پیپر گاڑی کے لیتے وقت ادا کرنے تھے، باقی ماندہ پیسے ادا کرنے کا موقع آیا تو اس وقت دو شریکوں کو کچھ شک ہوا کہ گاڑی لون کے اعتبار سے کلیئر اور صاف ستھری معاملہ کے اعتبار سے نہیں ہے، ہم نے یہ بات اس تیسرے شریک کو جو صرف محنت میں شریک تھا، جس نے پیسے نہیں لگائے تھے ،اس کو متنبہ کیا اور آگاہ کیا کہ ہم نے تحقیق کی ہے، گاڑی پر لون باقی بتا رہا ہے اور جس سے گاڑی خریدی گئی وہ شخص مشکوک ہے، لہٰذا باقی پیسے نہ دے کر بل کہ گاڑی واپس لوٹا کر معاملہ ختم کرلیں، لیکن اس شریک نے کہا کہ میں نے بھی تحقیق کی ہے گاڑی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، پیسے ادا کرنے سے پہلے دونوں شریکوں نے ان کو بارہا آگاہ کیا کہ معاملہ صاف نہیں ہے۔

             بہرحال گاڑی لے لی گئی، اس کے بعد کچھ پیسے گاڑی پر خرچ ہوئے، تب بھی ہم دونوں شریکوں نے اس شریک سے جو صرف محنت میں شریک تھا کہا کہ ابھی پیسہ نہ لگائے، لیکن اس کے باوجود پیسے لگائے گئے اور گاڑی چار لاکھ پچاس یاساٹھ ہزار روپے میں پڑی، (حضرت مفتی صاحب کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جو تیسرا شریک ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ روپے دیے کون ہے اسی چوتھے شریک کو معلوم ہے جو بغیر پیسوں کے محنت میں شریک تھا) اس کے بعد گاڑی فروخت کرنے کے لیے کار بازار میں لگا دی گئی، اسی دوران وہ شریک جو محنت میں شریک ہے ،اس کو گاڑی تیار بھی کرنا تھا، فروخت کرنا بھی تھا اور گاڑی کی حفاظت بھی اس کے ذمہ تھی، دیگر شرکاء کی اجازت کے بغیر گاڑی کو اپنے ذاتی کام کے لیے استعمال کرتا رہا اور ہم یہی سمجھ رہے ہیں کہ گاڑی کار بازار میں کھڑی ہے اور اس نے بغیر اجازت کے تقریبا ۱۹۰۰/ کلومیٹر گاڑی چلائی اور اسی اثنا میں اس شخص نے گاڑی اپنے ذاتی کام کے لیے جلگاؤں لے کرکے گیا، نہ اطلاع دی کسی بھی شریک کو اور نہ ہی اجازت لی اور جلگاؤں گاڑی فائنانس والوں نے پکڑ لی، گاڑی خریدتے وقت نہ یہ طے ہوا تھا کہ گاڑی کو کوئی شریک استعمال کرے گا اور نہ ہی یہ طے ہوا تھا کہ استعمال نہیں کرے گا کیوں کہ گاڑی فروخت کرنے کے لیے تجارت کے طور پر لی گئی تھی۔

             حضرت والا سے شرعی رہبری یہ حاصل کرنا ہے کہ آیا اس طرح دیگر شرکاء کی اجازت کے بغیر ان کے حق میں تصرف کرنا اس شریک کے لیے جائز تھا یا ناجائز؟

             نیز جب اس معاملے کو ہم نے آپس ہی میں حل کرنا چاہا تو اس شخص نے جس کی کوتاہی سے گاڑی پکڑی گئی اس نے اپنی غلطی کا اقرار بھی کیا اور پورے پیسے ہر شریک کو لوٹانے کا اقرار بھی کیا، بل کہ اس شخص نے، اس کے اہلِ خانہ نے یہاں تک کہا کہ ہم اچھے لوگ ہیں، آپ کے ایک ایک پائی لوٹا دیں گے اور ایک لاکھ روپے اس میں سے لوٹائے بھی، لیکن اب اپنے اقرار ووعدہ سے مکر رہے ہیں اور پیسے واپس لوٹانے کا نہیں بولتے، لہٰذا حضرت والا شرعی رہبری فرمائیں کہ یہ جو شخص واحد کا اپنی مرضی سے گاڑی کو بغیر اجازت کے استعمال کرنا اور دوسرے شرکاء کے حق کو ضائع کرنے کی وجہ سے نقصان ہوا، اس کی بھرپائی کس کے ذمے ہے؟

             کیا وہ شریک جس نے ذاتی طور پر گاڑی استعمال کی اور اجازت نہیں لی، وہ بھریگا یا تمام شرکا نقصان برداشت کریں گے؟ فقط والسلام

الجواب وباللہ التوفیق

            بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسئولہ میں تین لوگوں کا پیسہ اور ایک کی محنت ہے، تو یہ معاملہ عقد ِمضاربت ہے، مضاربت کا عام اصول یہ ہے کہ اگر مضاربت میں مضارب (محنت کرنے والے) کی طرف سے شرط کی مخالفت یا تعدی (کوتاہی) کے بغیر نقصان ہو، تو مضارب پر اس کا ضمان نہیں آتا، کیوں کہ مضارب امین ہوتا ہے۔ البتہ اگر مضارب کی طرف سے تعدی پائی جائے، مثلاً رب المال یعنی پیسہ لگانے والے کی طرف سے لگائی گئی شرط کے مخالف کوئی عمل کیا ہو، یا اس کے علاوہ کوئی واقعی کوتاہی ثابت ہوجائے، تو ایسی صورت میں مضارب ضامن ہوتا ہے۔

             مذکورہ سوال میں لکھی تفصیل کے مطابق مضارب نے دو پیسہ لگانے والوں کے آگاہ اور متنبہ کرنے کے باوجود اس گاڑی کو خریدا اور گاڑی کار بازار میں کھڑی کرنے کے بجائے تقریباً ۱۹۰۰/ کلومیٹر اپنے ذاتی کام کے لیے استعمال کیا اور اسی درمیان فائنانس والوں نے گاڑی پکڑ کر ضبط کرلی۔ تو مضارب کی طرف سے خلاف ورزی اور تعدِّی پائی گئی، لہٰذا اس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا وہ ضامن ہوگا،یعنی اس نقصان کی بھرپائی مضارب کے ذمہ لازم ہے۔


 

والحجة علی ما قلنا

ما فی ” تبیین الحقائق“ : قال رحمہ اللہ: (ہی شرکة بمال من جانب وعمل من جانب) یعنی المضاربة عقد شرکة بمال من أحد الشریکین وعمل من الآخر ہذا فی الشرع……(والمضارب امین وبالتصرف وکیل وبالربح شریک وبالفساد أجیر وبالخلاف غاصب)…وانما صار غاصبًا بالخلاف لوجود التعدی علی مال الغیر کالغصب، وہذا لأن صاحبہ لم یرض أن یکون فی یدہ إلا علی الوجہ الذی أمرہ بہ فاذا خالف فقد تعدی فصار غاصبًا فیضمن۔ (۵/۵۱۴ تا ۵۱۶/کتاب المضاربة)

 ما فی ” تنویرالابصار مع الدرالمختار“: (وحکمہا إیداع ابتداء وتوکیل مع العمل وشرکة إن ربح وغصب إن خالف وإن أجاز بعدہ) لصیرورتہ غاصبًا بالمخالفة……… (ولا تجاوز بلد أو سلعة أو وقت أو شخص عینہ المالک) لأن المضاربة تقبل التقیید المفید ولو بعد العقد ما لم یصر المال عرضًا۔ (فان فعل ضمن) بالمخالفة (وکان ذلک الشراء لہ) ولو لم یتصرف فیہ۔ (۸/۴۳۰/۴۳۱/۴۳۷/ کتاب المضاربة) فقط

واللہ أعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی

۲۳/۶/۱۴۴۳ھ-فتوی نمبر :۱۱۵۳