فتنوں کے دور میں علم دین اور قرآن سے وابستگی ناگزیر!!
خطاب :مولانا حذیفہ صاحب وستانوی(مدیر ماہنامہ شاہراہ علم)
کمپوز :مولانا عزیر صاحب (معاون ماہنامہ شاہراہ علم)
مرتب:محمدہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی(منیجر شاہراہ علم)
خطاب بتاریخ:۶ستمبر۲۰۲۴ء بمقام مسجد میمنی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا۔
سامعین: طلبہ ٴ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا (شعبہٴ عا لمیت)
عزیز طلبہ!
فتنوں کے اس دور میں علم کا سیکھنا مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ شوال کے مہینے میں تعلیمی سال شروع ہوا اور اب ہم ربیع الاول میں داخل ہو چکے ہیں، یعنی نصف سال پورا ہونے جا رہا ہے، اس موقع سے ششماہی کے امتحانات اور امتحانات کے بعد آپ کی مرغوب چیز یعنی چھٹیاں ہونے جا رہی ہیں اور پھر چھٹی کے بعد دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، ان شاء اللہ!
انسان کی چھٹی دخولِ جنت کے بعد:
ویسے اس دنیا میں آنے والے انسان کے لیے چھٹی نہیں، انسان کے لیے چھٹی تو اس وقت ہے، جب اس کا پہلا قدم جنت میں چلا جائے۔ امام احمد ابن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ حضرت انسان کے لیے راحت کب، اور انسان سکون کا سانس کب لے گا؟ تو آپ نے بڑا پیارا جواب دیا:” جب وہ اپنا پہلا قدم جنت میں رکھ دے گا“۔اس لیے کہ یہی کامیابی ہے، اس سے پہلے کوئی کامیابی اور راحت کا تصور نہیں!اس سے پہلے جتنی بھی کامیابیاں ہیں، جتنی بھی راحتیں ہیں، یہ تمام عارضی ہیں ، دائمی نہیں ۔ دائمی راحت تو اسی وقت انسان کو ملے گی، جب وہ اللہ کی رضامندی کے حصول میں کامیاب ہو کر ، جنت میں داخل ہو جائے۔
المقصد الأرشد (جلد: 2 صفحہ۳۹۸) تالیف: الامام برھان الدین ابراہیم بن محمد، تحقیق و تعلیق:الدکتور عبدالرحمن ابن سلیمان ، مکتبة الرشد الریاض)
قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ، فتنوں سے حفاظت کا سب سے اہم ترین ذریعہ ہے!!
جنت کی منزل بڑی کٹھن ہے آسان نہیں ۔ آپ نے سورہ ٴاعراف بارہا پڑھا ہوگا، ہم قرآن پڑھتے تو ہیں، مگر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، صرف طوطے کی طرح رٹ لیتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ محض تلاوت قرآن بھی ثواب سے خالی نہیں ۔ ہاں مگر! اس فتنے کے زمانے میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ، فتنوں سے حفاظت کا سب سے اہم ترین ذریعہ ہے۔
دخولِ جنت کے بعد جنتی کیا کہے گا اور کیوں کہے گا:
قرآن ِکریم نے اصحاب الاعراف کا واقعہ بیان کیا ہے اور اس واقعے کو ذکر کرنے سے پہلے قرآنِ کریم نے ایک جگہ پر بیان کیا کہ انسان جب جنت میں داخل ہوگا، تودخول کے بعد کہے گا:﴿الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہَذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلا أَنْ ہَدَانَا اللّہُ﴾(الاعراف:43)
”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے“ اس لیے کہ وہ کئ مراحل کو کامیابی سے طے کرنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔سب سے پہلے وہ دنیا سے ایمان بچا کر لے گیا ہوگا (اللہ ہم سب کو اس میں شامل فرمائے) اس کے بعد قبر کی منزل سے گزرا ہوگا (اللہ ہمارے لیے اسے بھی آسان فرمائے) اس کے بعد جب صور پھونکا جائے گا”ونفخ فی الصور فإذا ہم من الأجداث إلی ربہم ینسلو ن“َ (یس:51)”اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک یہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف تیزی سے روانہ ہوجائیں گی“ توسارے لوگ کھڑے ہو جائیں گے۔
پہلی مرتبہ صورپھونکا جائے گا تو ساری کائنات ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ دوسری مرتبہ پھوکا جائے گا تو سب اپنی قبروں سے کھڑے ہو کر اللہ کی طرف چل پڑیں گے اورمیدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔یہ” یوم الحساب “حساب اور میزان کا دن ہوگا اور پھر اس کے بعد پل صراط سے گزرے گا، تب جا کر جنت میں داخل ہو گا۔ تو جیسے ہی جنت میں پہلا پاؤں رکھے گا تو ٹھنڈی سانس لے گا اور کہے گا ﴿الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِی ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلا أَنْ ہَدَانَا اللّہُ﴾(الاعراف:43)”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے“کہ بھائی بڑی مشکل سے پہنچے ۔یہاں سے نکلے تو وہاں اٹکے، وہاں سے نکلے تو یہاں اٹکے، اٹک اٹک کے بھی پہنچ گئے۔
انسان اشرف الخلائق کیوں؟
انسان کو اللہ نے اشرف الخلائق تو ضرور بنایاہے، مگر اس کے لیے منزلوں کو بہت ہی زیادہ کٹھن رکھا ہے اور دنیا میں بھی دستور ہے کہ انسان جتنے اونچے مرتبے پر پہنچتا ہے، اتنی زیادہ مشقتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ توظاہر سی بات ہے ،جنتی یعنی اللہ کا سب سے مقرب بندہ، جنت میں جانے کا مطلب اللہ کے قریب جانا ،تو دنیا اور آخرت میں انسان کے لیے اس سے بڑا کوئی مقام اور منصب نہیں ہو سکتا؛ لہٰذا وہاں تک پہنچنے کے لیے بھی بڑی سخت جتن اور پاپڑ بیلنے ہوں گے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو کما حقہ اس کے لیے جدوجہد اور محنت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے!
المثبتات فی زمان الفتن :
ہمیں فتنوں کے زمانے میں سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے؟ جو فتنوں کے زمانے میں ہمارے لیے ایمان اور اسلام پر ثابت قدمی کا ذریعہ ہے، جسے ہمارے محدثین اور صوفیا نے ”المثبتات فی زمان الفتن“ سے موسوم کیا ہے۔ فتنوں کے زمانے میں ایمان پر ثابت قدم رکھنے والی چیزیں۔
فتنوں کے زمانے میں ایمان پر ثابت قدم رکھنے والی چیزیں:
اس پر بہت کلام کیا گیا ہے، مگر عام طور پر چار چیزیں ایسی ہیں، جو انسان کو فتنوں کے زمانے میں ایمان پر ثابت قدم رکھتی ہیں، اگر ان چار چیزوں کو ہم مضبوطی کے ساتھ تھام لیں! اور اپنے گھر والوں، محلے والوں ، بستی والوں کو اس کی دعوت دیں، تو ہم اپنے ایمان کو اس پرفتن دور میں بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ!
تعطیلات ششماہی کا مشن:
اس چھٹی میں آپ اپنے گھر جا رہے ہیں تو، جانے سے پہلے یہ ذہن بنائیں! سب سے پہلے تو آپ امتحان کی خوب تیاری کریں! اللہ آپ سب کو اچھے نمبرات سے کامیابی عطا فرمائے! اور پھر ذہن بنا کر جائیں کہ کرکٹ کھیلنے کے لیے ، والدین کو پریشان کرنے کے لیے ، دوستوں اور اپنے متعلقین کے ساتھ آوارگی کرنے کے لیے نہیں جانا ہے۔ جانا ہے تو ایک پیغام لے کر جانا ہے! اور وہ پیغام یہ ہے کہ اس فتنے کے زمانے میں ہم اپنے ایمان کو کیسے بچائیں ؟ہم میں سے ہر ایک کا یہ مقصد ہونا چاہیے جتنے بھی طلبا گھر جا رہے ہیں وہ اپنے ذہن میں اس بات کو بٹھا لیں کہ گھر جائیں گے تو اس پیغام کو لے کر جائیں گے کہ مثبتاتِ فتن سے ہر ایک کو واقف کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ!
مثبتاتِ اربعہ(فتنوں سے بچانے والی چاربنیادی چیزیں):
ان چار چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فتنے کے زمانے میں انسان کو ثابت قدم رکھنے والی ہیں:
سب سے پہلی چیزقرآن کی تلاوت:
ہمارے علما اور محدثین نے لکھا ہے اور حضرات ِصوفیا بھی اس کی تائید کرتے ہیں: کہ قرآن کریم کہتا ہے :﴿وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقرآن جُمْلَةً وَاحِدَةً کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا﴾ (الفرقان:۳۲)
”اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ: ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کردیا گیا؟ (اے پیغمبر) ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں۔ اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے“۔
اس آیت ِکریمہ میں دل کے ایمان پر ثابت قدمی کو ”وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا“کے ساتھ بیان کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ:” جب زندگی قرآن کے ساتھ جڑ جاتی ہے، جب قرآن کے ساتھ تعلق مضبوط ہوجاتا ہے، قرآن کی تلاوت، قرآنِ کریم کا سمجھنا ،قرآن ِکریم کی دعوت ، قرآن کی تعلیمات پر عمل ،مقصودِ زندگی اور سب سے محبوب مشغلہ ہوجاتا ہے ،تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا میں کتنے ہی کٹھن حالات آجائیں ،کتنی ہی مشکل ترین صورت حال ہو جائے؛ قرآن سے وابستہ شخص کبھی ایمان سے ڈگمگا جائے !! یہ ہو ہی نہیں سکتا یہ کھلا چیلینج ہے۔
غزہ ہمارے لیے بہت بڑی مثال اور مشعل ِراہ ہے:
”غزہ“ تو بہت سن رکھا ہوگا آپ نے؟ 11 مہینے سے ہم غزہ کو سن رہے ہیں اور کئی مرتبہ آپ کے سامنے اس سلسلے میں میں نے بات کی ہے شاہراہ میں مضامین بھی آئے ہیں۔ اہل غزہ جنہوں نے گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل پرہلہ بولا، اس کے بعد اسرائیل کھسیانی بلی کی طرح قوانین جنگ کو روندتے ہوئے ان لوگوں پرجھپٹ پڑا، امریکہ اور دنیا کی بہت ساری بڑی بڑی طاقتوں ،سائنس ٹیکنالوجی سے لیس جدید ترین اور انتہائی خطرناک ہتھیار کو ساتھ ملا کر 11/ مہینے سے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔
غزہ کے دس فیصد لوگ جام ِشہادت پی کر بھی ثابت قدم:
آفیشیلی تو یہ کہا جاتا ہے کہ 50 سے 60 ہزار لوگ شہید؛ لیکن اَن آفیشیلی رپورٹ کے مطابق تقریبا ًدو سے ڈھائی لاکھ لوگ اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ یعنی غزہ میں رہنے والے انسانوں میں سے دس فیصد لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کی آبادی قریباً23 لاکھ ہے ،اگر 23/ لاکھ میں دو لاکھ یا دو لاکھ 25 ہزار آپ مانیں، تو اس کا تخمینہ لگ بھگ10 فیصد پہنچے گا۔ ان میں ۳۴/ فیصد بچے ، ۲۴/فیصدعورتیں اور۷فیصد بوڑھے ہیں ، جوانوں نے تو ان کو ناک چنے چبوا دیے ہیں،ان کو کمزور کرنے کے لیے یہ عام شہریوں، بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو مار کر اپنی سفاک تاریخ سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔لیکن ہمارے لیے عبرت ہے کہ اتنی بڑی شہادت کے باوجود، وہ لوگ ایمان پر ثابت قدم ہیں، اور زبان پر صدائے شکر الحمدللہ بلند ہے۔
اہل غزہ کے ایمان پر ثابت قدمی کا سب سے پہلا راز:
ان کے ایمان پر ثابت قدمی کا سب سے پہلا راز یہی ہے:﴿ کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا﴾(الفرقان:۳۲)”(اے پیغمبر) ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہارا دل مضبوط رکھیں۔ اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے“۔
انہوں نے اپنا تعلق قرآن کے ساتھ ایسا مضبوط کیا ہے کہ، ایسی حالت میں جب ان پر میزائل اور بم گرائے جا رہے ہیں ،ان کے سروں پر چھت نہیں، مسجد یں شہید کردی گئیں، مدرسے ڈھا دیے گئے، ان کی اسکولوں ، یونیورسیٹیوں ، ہسپتالوں کو، میزائل سے زمین دوزکر دیا گیا، کوئی چیز باقی نہیں رکھی گئی، سب ختم کر دیا گیا،ظالموں نے ظلم کو بھی حیا دلادی ؛اس کے باوجود ان کے ایمان پر ذرہ برابر اثر توکیا ،بل کہ اور مضبوط ہوگیا۔ اَلَّذِینَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَد جَمَعُوا لَکُم فَاخشَوہُم فَزَادَہُم اِیمَانًا # وَّ قَالُوا حَسبُنَا اللّٰہُ وَ نِعمَ الوَکِیلُ (آل عمران۱۷۳)
”وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا: یہ (مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے“۔
ان کے ازدیاد ایمان کی وجہ صرف یہی نظر آتی ہے کہ وہ ٹوٹے ہوئے مکانوں ،جھونپڑوں اور ٹینٹوں میں ؛یہاں تک کہ کھلے آسمان کے نیچے ملبے کے اوپر بھی قرآن کی تلاوت کررہے ہیں۔ قرآن سے ان کاایسا تعلق ہے کہ ان کا بچہ بچہ قرآن کا حافظ ہے۔ ان کے مرد ،ان کی عورتیں سب قرآن کے حافظ اور حافظہ ہیں اور اسے سمجھتے بھی ہیں ،بل کہ قرآن کی ہر ہر آیت پر مکمل ایمان اور مضبوط اعتقادر کھتے ہیں۔
جان سے بڑھ کر قرآن کی فکر:
چلتے پھرتے،بم اور میزائل کے سایوں میں قرآن کی تلاوت ۔ وہاں کے لوگوں نے مجھے بہت ساری ایسی ویڈیوز اور تصویریں بھیجیں کہ چھوٹا سا معصوم بچہ ہے،بمشکل پانچ سات سال کا، اسے اپنے کپڑے کی فکر نہیں،جان کی فکر نہیں ،مگر اپنے قرآن کی فکر کررہا ہے ۔بم سے تباہ مکان سے بھاگ رہا ہے کچھ ساتھ لے جانے کی فکر نہیں بجز اس کے کہ سینے سے قرآن کو چمٹائے ادھر سے ادھر بھاگا جا رہا ہے، نہ اس کے پاؤں میں چپل ہے، نہ اس کے بدن پر صحیح کپڑے، مگر قرآن کے ساتھ کیسا عشق ہے؟!!﴿کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا﴾(الفرقان:۳۲)۔
امت کو قرآن کے ساتھ جوڑنا ، اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت :
اس لیے امت کو قرآن کے ساتھ جوڑنا ، اس زمانے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمارے جتنے بھی طلبا ہیں: عربی سوم، چہارم، پنجم، مشکا ة،دورے میں پڑھتے ہیں، ان طلبہ کوتعطیلات میں ایک پروگرام اور مقصدکے ساتھ جانا ہے کہ : گاؤں کی مسجد میں جا کر قرآن کی تفسیر کریں گے۔ لوگوں کو قرآن سمجھائیں گے، لوگوں کو قرآن سکھائیں گے۔کہیں گے کہ بھائی آؤ! ہم آپ کو قرآنِ کریم تجوید کے ساتھ پڑھنا سکھاتے ہیں، جن کو قرآن شریف پڑھنابالکل نہیں آتا ،ان کو ناظرہ قرآن پڑھائیے! جن کو قرآن تو آتا ہے، مگر تجوید کے ساتھ نہیں تو ان کو تجوید سکھائیے! جن کو تجوید سے قرآن پڑھنا آتا ہے ،ان کو قرآنِ کریم کی حفظ کی ترغیب دیجیے! جو قرآن کریم حفظ کر رہے ہیں، ان کو قرآن کریم سمجھائیے! اور جو قرآنِ کریم کو سمجھ رہے ہیں، ان کو قرآن پر عمل کرنے پر آمادہ کیجیے! یعنی زندگی کا کوئی شعبہ اور کوئی آدمی ایسا نہ چھوٹے، جس کو آپ قرآن کے ساتھ منسلک کرنے میں ناکام ہوں۔ آپ کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ہر ہر بندہ قرآن کے ساتھ جڑ جائے۔
اللہ والے کون؟
ہمارے علما نے لکھا ہے، حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”اھل القرآن اھل اللہ و خاصتہ“(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر:۲۱۵) کہ اہل قرآن یہ اللہ کے اہل ہیں۔ اللہ کے اہل ،اہل اللہ یہ اتنا بڑا مقام ہے کہ آپ اس مثال سے سمجھیں کہ کسی کو یہ کہہ دیا جائے کہ یہ” رسول اللہ کا اہل ہے“ حضور کے خاندان سے ہے، تو اس کے لیے یہ بات کتنی باعثِ فخر ہوتی ہے! (تعجب وعظمت سے کہتا ہے) ارے بھئی! یہ سید ہے۔ یہ تو حضور کے خاندان سے ہے !یہ حسنی ہے یہ حسینی ہے! اب جس کو اللہ خود کہے کہ یہ اللہ والا ہے اس کا کتنا بڑا مقام ہوگا؟ اہل قرآن اللہ کے اہل ہیں ، صرف اہل ہی نہیں؛ بل کہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔
اہل اللہ وخاصتہ بننے کا طریقہ:
علما نے لکھا ہے کہ اہل اللہ بننے کے لیے اسے اہل قرآن بننا ہوگا۔ سب سے پہلے اسے قرآن کریم کی تلاوت کا عادی بننا پڑے گا۔ کہ حضرات ِصحابہ کی طرح ہفتے میں ایک قرآن ختم کرے۔ حضرات صحابہ میں کم سے کم تلاوت قرآن کی مقدار ہفتے میں ایک قرآن ختم کرنے کی تھی؛ ورنہ تین دن ،دو دن ،ایک دن میں ،زیادہ سے زیادہ چار دن یا پانچ دن میں قرآن کریم مکمل کرلیتے اور جو سب سے مشغول ہوتے تھے وہ سات دن میں قرآن مکمل کرتے تھے۔قرآن میں جو سات منزلیں ہیں، وہ اسی لیے ہیں کہ کم از کم ایک ہفتے میں قرآن ختم ہو جائے۔ اور ایک ہفتے میں بھی نہ ہو تو، پھر ایسی مسلمانی کس کام کی؟
پہلا طریقہ: اگر آپ کو اہل اللہ بننا ہے توسب سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت کا جنون سوار کرنا ہوگا۔
دوسرا طریقہ: قرآن ِکریم کی تلاوت تجوید کے ساتھ کی جائے۔ اگر آپ قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھتے ہیں تو آپ قرآن ِکریم کا حق ادا کر رہے ہیں ؛کیوں کہ قرآن کریم خود مطالبہ کرتا ہے﴿ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا﴾(مزمل:۴)اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔
آپ نے بارہا تجوید کی درس گاہ میں سنا ہوگا، آپ کے قاری صاحب کہتے ہوں گے” ای جود القرآن تجویدا“ کما فسرہ علی ابن طالب۔ حضرت علی بن ابی طالب اس کی تفسیربیان کرتے ہوئے کہتے تھے کہ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ:” قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھو!“ اس لیے کہا گیا ہے کہ ”اقروٴا لقراٰن کما اُٴنزل“ قرآن کو ایسا پڑھو؛ جیسا کہ وہ نازل کیا گیا ہے۔
(موسوعة علوم القرآن: ۱۲۹ )
جسے زیادہ قرآن یاد وہ امیر:
حضرات صحابہ قرآن کے عاشق تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو قرآن کے ساتھ جتنا تعلق رکھتا تھا ،حضور کی نگاہ میں وہ اتنا زیادہ بلند ہوا کرتا تھا ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو امین بناتے تھے، تو اس سے پوچھتے تھے کہ تم میں سے قرآن ِکریم کا سب سے زیادہ حصہ کس نے یاد کیا ہے؟ کوئی کہتا : مجھے سورہٴ ال عمران ، کوئی سورہٴ بقرہ کہتا ۔ جسے جتنی سورت یاد ہوتی وہ اتنی بتاتا۔ جو سب سے زیادہ قرآن ِکریم کا حافظ ہوتا ،حضور اسی کو امیر بنا تے تھے ۔ وہ اہل زبان تھے،قرآن کو سمجھتے بھی تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو امیر بنا دیتے تھے۔
عمر میں سب سے چھوٹے عہدے میں سب سے بڑے:
قبیلہٴ بنو ثقیف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکہ تم میں سب سے زیادہ قرآنِ کریم کا حافظ کون ہے؟ ان میں سب سے چھوٹے حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی تھے، ان کی عمر ۱۷/ سال تھی،یہ پورے قافلے میں سب سے چھوٹے تھے۔ اب جب حضور نے پوچھا کہ کس نے کتنا یاد کیا ہے؟ تو حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی نے کہا: کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، سب کے جواب کے مطابق سب سے زیادہ سورتیں ان کو یاد تھی، تو حضور نے انہی کو ان کا امیر بنا دیا؛ جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے ۔ان میں کوئی 45 سال کا ،کوئی 50 سال کا، کوئی سردار 55 سال کا، کوئی 60 سال کا، کوئی 70 سال کا؛ مگرآپ ﷺ نے حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی کو امیر بنایا
حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی کاشوق علم:
اُس زمانے میں رہنے سہنے سامان رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا ، جب یہ لوگ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آتے تو اپنا سامان مدینے کے باہر ہی چھوڑ دیتے اور حفاظت کے لیے حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی کو چھوڑ آتے ، ادھر سب حضور کی مجلس میں شرکت کرتے اور ادھر حضرت عثمان بیٹھے بیٹھے سامان سنبھالتے ، آپ سب سے چھوٹے تھے کچھ بول بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر جب سب آ جاتے ، اور کھا کر سو جاتے تو یہ چپکے سے مسجد نبوی کی طرف نکل آتے اور آ کر دیکھتے کہ کون صحابی مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں ،پھر ان سے پوچھتے : آپ کو کتنا قرآن یاد ہے؟ ان کے جواب کے بعد ان سے درخواست کرتے کہ مجھے بھی یاد کر ادیں! اس قدرشوق تھا آپ کو۔ اس لیے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر آپ نے جواب دیا اور سب سے زیادہ قرآن کا حفظ آپ نے کر رکھا تھا یہ سن کر تو ان کے قبیلے کے لوگوں کو بھی حیرانی ہو ئی! اور ان سے پوچھنے لگے ارے بھائی! تجھے تو ہم سامان کے پاس چھوڑ جاتے تھے، تو نے سب سے زیادہ کیسے یاد کر لیا؟
تو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی نے اپنے قرآن یاد کرنے کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا :کہ جب آپ حضرات سو جاتے تھے، تو میں چپکے سے مسجد نبوی آجاتا اور یہاں موجود صحابہ سے قرآن یاد کرتا تھا،اور اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مل جاتے تھے تو حضورﷺ سے بھی یاد کرتا تھا۔
ہندوستان میں سب سے پہلے اسلام پہنچانے والے صحابی:
اوریہی عثمان ابن ابو العاص الثقفی ہندوستان میں سب سے پہلے اسلام پہنچانے والے صحابی ہیں۔ سب سے پہلے ہندوستان میں جو اسلام پہنچا اس کا سہرا حضرت عثمان ابن ابو العاص الثقفی کے سر جاتا ہے۔
(بر صغیر میں اسلام کے اولین نقوش ص:۵۳ محمد اسحاق بھٹی مکتبة السلفیہ لاہور)
مہارتِ قرآن کی وجہ سے حضرت ِمعاذ بن جبل کاامیر ِلشکر بننا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے ایک لشکر بھیجا تھا، اس میں حضرت عمر بھی تھے، اس کے باوجود حضور نے حضرت معاذ بن جبل کو امیر بنایا ؛اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ حضرت معاذ قرآن کے بہت ماہر ہیں۔ اسی لیے حضور نے فرمایا”خُذُوا القُرْآنَ مِن أرْبَعَةٍ“ اگر قرآن سیکھنا ہے تو ان چار لوگوں سے قرآن سیکھو! ”مِن عبدِ اللَّہِ بنِ مَسْعُودٍ…، وسَالِمٍ مَوْلَی أبِی حُذَیْفَةَ، ومُعَاذِ بنِ جَبَلٍ، وأُبَیِّ بنِ کَعْبٍ“(بخاری شریف حدیث نمبر:۳۸۰۸)کہ ان چار میں سے کسی سے قرآن سیکھو! اس لیے کہ یہ قرآن کریم کے بڑے ماہر تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ِمعاذ بن جبل، کو بھی چھوٹی عمر ہونے کے با وجود اس لشکر کا امیر بنایا جس میں حضرت عمر جیسے بڑے بڑے صحابہ تھے۔
امت قرآن کریم سے وابسطہ رہے اس سے غافل نہ ہو اس لیے احناف نے کم از کم چالیس دن میں ایک ختم قرآن کو بہتر قرار دیا ہے۔
امت کا ایک بڑا طبقہ قرآن پڑھنا نہیں جانتا:
افسوس ہے اس بات پر کہ امت کا ایک بڑا طبقہ قرآن پڑھنا نہیں جانتا اور ان کو اس کی فکر بھی نہیں ہے۔وہ تو غفلت میں پڑے ہیں ، ہمیں ہی ان پر محنت اور کوشش کرنی ہے اور قرآنِ کریم کی طرف راغب کرنا ہے۔
تیسرا طریقہ: قرآن کریم کے حفظ کا اہتمام ۔ اہل اللہ میں اگر کوئی شامل ہونا چاہتا ہے، تو قرآنِ کریم کے حفظ میں اتقان ہونا چاہیے، بہترین قرآن یاد ہونا چاہیے۔
چوتھا طریقہ: قرآن ِکریم پر عمل ۔
علمافرماتے ہیں کہ اگریہ چارچیزیں(۱)تلاوت ِقرآن۔(۲) تجوید کا اہتمام۔( ۳) حفظ واتقان۔ (۴) عمل بالقرآن۔ پائی جاتی ہیں آپ کے اندر میں کہ آپ قرآن پڑھتے بھی ہیں، تجوید کے ساتھ پڑھتے ہیں، آپ اس کو پکا یاد بھی کر رہے ہیں، اس پر عمل بھی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اھل اللہ و خاصتہ میں شامل ہیں۔
(دروس للشیخ صالح المغامسی: ۹/۱)
پانچواں طریقہ: بعض لوگوں نے کہا: قرآن کی طرف دعوت دینا ،اسے سمجھنا سمجھانا۔ یہ بھی شامل ہے ۔ یہ پانچ چیزیں آپ کرتے ہیں، تو آپ اھل اللہ و خاصتہ میں شامل ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اہل القرآن اھل اللہ و خاصتہ میں شامل ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
ایمان پر ثابت قدمی کا دوسراراز
مقاصد قرآن پرنظر:
قرآن پڑھانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس سے تاریخ کا بھی علم ہو، انبیاء کے قصوں اور واقعات کو سمجھ کر انسان خود کو ایمان پر ثابت قدم رکھے اور ساتھ ساتھ عربی ادب بھی سیکھے؛ تو پڑھنا اور پڑھانا تھری ان ون ہے کہ پڑھنے والے کو صحیح تاریخ بھی معلوم ہوتی ہے۔
قصص النبیین کا آغاز ” من کسر الاصنام“ سے کیوں؟
بریں بنا قصص النبیین پڑھنے والے طلبہ کے ذہن میں ایک سوال آنا چاہیے کہ:” آدم علیہ السلام کے قصے سے مصنف کو شروع کرنا چاہیے تھا؛ لیکن مصنف نے ابراہیم سے شروع کیا ،پھربراہیم علیہ السلام کے قصے میں بھی ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش سے شروع کرنا تھا کہ آپ کہاں پیدا ہوئے؟ کب پیدا ہوئے؟ لیکن شروع کیا” من کسر الاصنام“ سے ! تو اس کا جواب یہ ہے کہ پورے دنیا میں اللہ کے مقابلے میں اگر کوئی چیز ہے تو وہ اصنام ہی ہیں، کہا: جس نے اصنام کو توڑ دیا گویا اس نے اللہ سے رشتہ جوڑ لیا۔
بتوں کے اقسام:
کسی کے دل میں محبت کا بت ہے، کسی کے دل میں جاہ کا تو کسی کے دل میں مال کا اور الگ الگ دیوتاؤں کا بت تو ہے ہی ،اپنے اپنے منفعت اور باطل عقیدے کے اعتبار سے؛ ان سارے بتوں کو توڑو! جتنے بھی عارضی بت اور مجازی بت ہیں ان سب کو توڑ دو! تو تمہیں حقیقی خالق اور مالک خود بخود مل جائے گا۔
سارے بتوں کو توڑ کر، ایک خالق کی چوکھٹ سے وابستہ ہو جاوٴ!
اللہ نے مولانا علی میاں ندوی سے قصص النبیین ”من کسر الاصنام“ سے شروع کرواکر،یہ پیغام دے دیا کہ اپنے دلوں کے سارے بتوں کو توڑ دو! اور ایک خالق کی چوکھٹ سے وابستہ ہو جاوٴ!
گھروں میں قصص النبیین کی تعلیم:
آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بھی اس کی تعلیم شش کریں۔ قرآن نے کتنی عجیب بات کہی ہے﴿ وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہ فُؤَادَک﴾(ھود:۱۲۰)
” اور (اے پیغمبر) گذشتہ پیغمبروں کے واقعات میں سے وہ سارے واقعات ہم تمہیں سنا رہے ہیں ،جن سے ہم تمہارے دل کو تقویت پہنچائیں۔
واقعاتِ انبیاء سے متعلق اہم کتابیں:
قرآن نے ۲۴ انبیاء کے واقعے بیان کیے ہیں۔ ہمیں کثرت سے ان واقعات کو پڑھنا چاہیے! ”آدم سے محمدا تک“ مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی نے یہ کتاب لکھی ہے،جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کے قصے مختصر مختصر بیان کرتے ہیں۔ علامہ سیوہاروی مجاہد آزدی ہونے کے ساتھ ساتھ موٴرخ اسلام گزرے ہیں، انہوں نے بھی قصص الانبیا کے نام سے کتاب لکھی ہے ، اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں ہیں ، ہمیں ان کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یوسف علیہ الصلاة والسلام آج کے زمانے کی اقلیت کے لیے نمونہ:
آج ہی میں دیکھ رہا تھا تو ایک بڑی عجیب اور قیمتی کتاب میرے نظر سے گزری ،اس کتاب کا نام تھا ”حضرت یوسف علیہ الصلاة والسلام آج کے زمانے کی اقلیت کے لیے نمونہ“ ہم لوگ ہندوستان میں اقلیت اور مائنورٹی ہیں ،اور خصوصا ہمارے اوپر حالات ہیں،ایسے موقع پر یوسف علیہ السلام کے قصے سے ہمیں کیا کیا سبق ملتا ہے،وہ اس کتاب میں بیان کیا ہے۔
شیخ محی الدین قرا داغی قطر میں رہتے ہیں،اور ہمارے دوست ہیں، انہوں نے عربی میں یہ کتاب لکھی ہے اور کسی نے اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے ۔ اس کا اشتہار پڑھ کر میں نے اسے منگوایا ہے ؛تاکہ حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام کے قصے سے اقلیت کے کون کون سے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں اسے دیکھوں اور پھر اس پر عمل کروں۔
انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی سیرت اور واقعات میں تمام مسائل کا حل:
یہ انبیاعلیہم الصلوة والسلام اور صحابہ کی سیرتیں، صرف اسٹوری نہیں ؛بلکہ اس میں زندگی کے بہت سارے مسائل کا حل ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں کما حقہ اس کا مطالعہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
تیسرا راز
فتنے کے زمانے میں گناہوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں:
انسان اگر فتنوں کے زمانے میں ثابت قدم رہنا چاہتا ہے اور اپنے ایمان کو بچا کر لے جانا چاہتا ہے تو اسے اپنے علم پر عمل کرنا ہوگا اور اس بات کو کتنی قوت سے قرآن نے بیان کیا﴿وَلَوْ أَنَّہُمْ فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِہِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِیتًا﴾(النساء:۶۶)
اور جس بات کی انہیں نصیحت کی جارہی ہے، اگر یہ لوگ اس پر عمل کرلیتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، اور ان میں خوب ثابت قدمی پیدا کردیتا۔
ایمان پر ثابت قدمی کے اعتبار سے اس سے زیادہ بڑھ کر اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ انسان گناہوں کو چھوڑے اور اعمالِ صالحہ کا عادی بنے۔ اپنی انکھوں کے گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے، اپنے کانوں کے گناہوں سے خود کو بچائے، ہاتھ ،پاؤں کے گناہوں سے خود کو محفوظ رکھے ، پھر اللہ رب العزت ایمان پر ثابت قدمی عطا فرماتے ہیں۔ گناہوں کے ساتھ جو زندگی گزارتا ہے فتنے کے زمانے میں اس کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔
طلبہٴ مدارس کتنے خوش نصیب ہیں:
برین بنا اپنے آپ کو قرآن سے وابستہ کیجئے! اور مدرسہ کے طلبہ تو ( اللہ اکبر) صبح سے شام تک پڑھتے ہی رہتے ہیں۔ قال اللہ( اللہ نے کہا)،قال رسول اللہ( رسول اللہ نے کہا) امام ابو حنیفہ نے کہا،امام ابو یوسف نے کہا، اس کے علاوہ اور ہمارے کانوں میں کچھ پڑتا ہی نہیں، تو کتنے خوش قسمت ہیں ہمارے کان اور ہماری زبان اور ہم خود کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے دین کو جاننے، اپنے نام کو بار بار سننے کے لیے ہمیں منتخب کیا؛ ورنہ دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ وہ اللہ کا نام سننے کو ترستے ہیں۔
علما کی سرزمین ورثے سے محروم نسل:
ابھی میں ازبکستان گیاتھا،(بخارا)امام بخاری جہاں پیدا ہوئے، امام مرغینانی کی جگہ، ان کی قبر پر جانا ہوا، امام ماتریدی اور امام ترمذی کی قبر کی زیارت ہوئ ،حکیم ترمذی ابو اللیث سمرقندی ،سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ بہاؤالدین نقشبندی کے مرقد پر حاضر ہوا اور ایسے بڑے بڑے کئی ایک لوگ ہیں ،وہاں جاؤ تو بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں بہہ پڑتی ہیں۔مگر افسوس! کہ آج انہی علاقوں میں کوئی دا ڑھی، ٹوپی والا مسلمان بھی نظر نہیں آتا۔
ازبکستان 92فیصد مسلمان اور کوئی مدرسہ نہیں:
ہم لوگ ازبکستان کے ایئرپورٹ پر اتر کر تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے سیدھے ایک گاؤں پہنچے، میں نے پوچھا ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ میزبان کی طرف سے جواب ملا یہاں ہمارے ایک دوست ہیں، وہ یہاں ایک مدرسہ شروع کر رہے ہیں ،تو آپ کو یہاں دعا کرانے کے لیے لائے ہیں۔ میں نے کہا: کہ آپ کے یہاں مدرسے کا کیا سسٹم ہے؟ غیر متوقع جواب ملا:” ہمارے یہاں مدرسہ نہیں چلتا“۔
پورے ازبکستان میں 92/فیصد مسلمان ہیں، اور کوئی مدرسہ نہیں! تو میں نے کہا: اب یہ کیسے شروع کریں گے؟ جواب ملا ایک مرتبہ ہم نے شروع کیا تھا، حکومت نے بند کروا دیا، اب ہم پھر شروع کر رہے ہیں، آپ دعا کریں کہ اللہ رب العزت اب آسان کرے اور خصوصی مدد فرمائے !
محدثین کا ملک اور علوم اسلامیہ کا مرکزرہا ازبکستان:
ازبکستان وہ جگہ ہے، جہاں پر ایک ایک وقت میں سیکڑوں محدثین ہوتے تھے۔ صرف آج سے 200 سال پہلے کی بات ہے، دوسری صدی سے لے کر بارہویں تیرہویں صدی ہجری تک یہ ملک علومِ اسلامیہ کا مرکز رہا، جس کو ہم ما وراء النہرکہتے ہیں، نہر شیحون اور جیحون جس کونہر من انہار الجنة کہا جاتا ہے،آج اس علاقے کا ایسا برا حال ہے کہ اللہ ان بے چاروں پر رحم فرمائے!
اردو کتابوں کاازبک زبان میں ترجمہ:
یہاں ہمارے دوست اور میزبان عبدالقیوم قیدی روف تھے۔ہم نماز پڑھنے کے لیے ان کی مسجد میں گئے، پھر ان کے کمرے میں وہ مجھے لے گئے، وہاں میں نے بہت ساری اردو کتابیں دیکھیں ،تو میں نے پوچھاکہ شیخ! یہ اردو کتابیں آپ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ انہوں نے جواباً کہا: کہ یہ اردو کتابیں جن کو آپ کے علما نے ہندوستان میں لکھا ہے ہم اس کا ازبیگ زبان میں ترجمہ کرتے ہیں اور پھر یہاں کے لوگوں کو دین سکھاتے ہیں۔ میں نے کہا دیکھو! وَتِلْک َالْاَیَّام ُنُدَاوِلُہَابَیْن َالنَّاسِ” (آل عمران:۱۴۰)”یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں“۔
ہم ان کے بزرگوں کی کتابیں وہاں پڑھ رہے ہیں اور یہاں یہ اپنے ایمان کو بچانے کے لیے ہمارے بزرگوں کی کتابوں کا ترجمہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اب تک یہ 17 یا 20 کتابوں کا ترجمہ کر لیا ہے اور آپ بھی اچھی کتاب اچھا مضمون وغیرہ ہم کو بھیجا کیجیے؛ تاکہ ہم ترجمہ کر کے لوگوں کو دین سکھانے کی کوشش کریں۔
ازبک مسلمانوں کاحافظوں کی زیارت کے لیے ترسنا:
جب ہم ان کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں اتنے طلبہ پڑھتے ہیں، اتنے حافظ ہوتے ہیں، توجن کے دلوں میں تھوڑی سی دین کی رمک باقی ہے، وہ زار و قطار روتے تھے، کہتے تھے: حافظ کو دیکھنے کے لیے ہماری آنکھیں ترستی ہیں ۔
ازبکستان کی تاریخ سرخ آندھی کا سایہ:
ایک زمانے میں سوئیت یونین کے نام سے دنیا کے اندر ایک بہت بڑی طاقت تھی، بیسویں صدی کے اوائل میں جسے سرخ آندھی کہا جاتا تھا یعنی” خون کا طوفان“پورے عالمِ اسلام کو اس نے اپنے لپیٹ میں لے لیا اور ایسا ظلم ڈھایا، ایسا ظلم ڈھایا کہ الامان والحفیظ!ظلم وبربریت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی گھر میں قرآن مل جاتا تو اس پورے گھر والوں کو قتل کر دیا جاتا ، اگر کوئی بچہ اپنی زبان سے اللہ بول دیتا، تو اس کے باپ کو 10 سال کی سزا ہو جاتی، ایسے سخت حالات میں بھی ان لوگوں نے اپنے ایمان کو بچایا۔
ہم نے ان سے کہا کہ دین کی نشاة ثانیہ کے لیے کیا پروگرام ہونا چاہیے، آپ اس سے متعلق سوچیں! کہ مومنوں اور مسلمانوں کو کس طریقے سے اپنے دین پر لانے کی فکریں اور کوششیں کی جائیں۔ہمارا اچانک وہاں کا سفر ہوا تھا، جس کی بہت ساری تفصیل میں نے لکھی بھی ہے اور شاہراہ علم میں ان شاء اللہ جلد آپ اسے پڑھیں گے۔
اچھے ماحول پر اللہ کا احسان اور اس کی قدردانی:
اس لیے ہمیں اللہ کا احسان ماننا چاہیے کہ ہمیں اللہ رب العزت نے اتنا اچھا ماحول فراہم کیا کہ ہم دین سیکھ رہے ہیں، سکھا رہے ہیں۔ اس کی قدر کرنے کی کوشش کریں اور اپنے گھر والوں محلے اور بستی والوں کے پاس جا کر اس کو عام کرنے کی فکر کریں۔
چوتھا راز
فتنوں کے زمانے میں ایمان پر ثابت قدمی کا اہم ترین ذریعہ دعا :
”اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ“کی تفسیرہمارے علماء نے ”ثبتنا“ سے کی ہے۔ کہ ہدایت تو ملی ہوئی ہے، اے اللہ! تو اس پر ثابت قدم رکھ۔ہم ہر نماز میں”اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ“ بار بار پڑھتے ہیں۔ آدمی اگرفرض اور واجب ہی پڑھے تو پورے دن میں 20 رکعت ہوتی ہے۔یعنی ایک نماز پڑھنے والا کم سے کم بیس مرتبہ یہ دعا مانگتاہے ۔
زندگی میں دعا آگئی تو بہت کچھ آ گیا:
حدیث پاک میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جس میں ایسے فتنے رونماہوں گے، جس سے وہی آدمی نجات پائے گا اور وہی اپنا ایمان بچا پائے گا،جس کی دعا ایسی ہوگی جیسی دعاڈوبنے والاکرتا ہے۔
ایک آدمی پانی میں ڈوب رہا ہے، اس کو معلوم ہے کہ موت یقینی ہے، اس سے زیادہ استحضار اور خشوع و خضوع کے ساتھ کون دعا کرسکتا ہے؟ایسے خشوع اور خضو ع کے ساتھ جو دعا کرے گا وہ ان فتنوں سے بچے گا، ان کے علاوہ اور کوئی ان فتنوں سے بچ نہیں پائے گا۔ اس لیے دعاؤں کا اہتمام اور کوشش کرنی چاہیے۔ مسجد میں کچھ وقت پہلے آکر دعا کریں!
صبح وشام کی دعا کا اہتمام:
میں آپ کو بارہا کہتا ہوں کہ صبح وشام کی دعاؤں کا اہتمام کریں۔کمرے سے نکلیں اور داخل ہوں تو دعا پڑھیں۔ آپس میں ”سلام“ کو رواج دیں!
نیک لوگوں کی صحبت بھی فتنوں سے بچاتی ہے:
بہرحال! مثبتات الفتن یہ چار تو مشہور ہیں، لیکن علما نے اس کے علاوہ بھی لکھا ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ اگر آپ نیک لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں، تب بھی آپ فتنوں سے محفوظ رہیں گے﴿ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ﴾(التوبہ:۱۱۹)
طلبہ کو کس کے ساتھ رہنا چاہیے؟
نیک لوگوں کی صحبت اوربرے لوگوں سے دور رہنا چاہیے، جو لوگ بری عادتوں کے عادی ہو ں، جو لوگ گالی گلوچ کے عادی ہوں،جو لوگ فلم بینی کے عادی ہوں، جو لوگ کرکٹ اور اس طرح کی فضول اور بے کارچیزوں کے دیکھنے کی عادی ہوں ایسے لوگوں سے دور رہو۔ اور ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق رکھو،جو قرآن پڑھنے کے عادی ہوں، جو علم سیکھنے کے عادی ہوں،جو سیرت اور کتابوں کے مطالعے کے عادی ہوں، اچھے دوستوں کے ساتھ رہنے کی کوشش کرو! چھٹیوں میں بھی گھر جائیں تو آوارہ گردی اور آوارہ قسم کے لوگوں سے بچیں اور اچھی چیزوں کو لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
گھر پر قرآن کو محنت کا مرکز بنائیں!!
آپ جب گھر جائیں تو ہر ایک پلان بنا کر جائے کہ ”قرآن کریم کو اپنی محنت کا مرکزبنائیں گے“۔ والدین کو قرآن نہیں آتا تو ان کو قرآن سکھائیں گے؛ ورنہ قیامت کے دن اللہ آپ سے بھی پوچھے گا کہ تیرے والد نے تجھے قرآن کا حافظ بنایا، مگر تو نے کبھی فکر کی کہ اپنے والدین کو قرآن سکھلائے؟ ان کو موقع نہیں ملا، لیکن تو نے فکر کی ؟بچو! یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، گھر میں اگر بھائی، بہن، بھتیجے اوربھانجوں کو قرآن نہیں آتا ہے، چچیرے ممیرے جس کو بھی قرآن نہیں آتا ہے، ان سب کو قرآن سمجھانے ،قرآن پڑھانے کی کوشش کریں! اپنے گھرسے شروع کریں ۔ چھوٹی چھوٹی سورتوں کی تفسیر کریں، قرآن کے ساتھ امت کو جوڑیں۔
قرآن کاچسکہ ساری لتوں پر غالب آجاتا ہے:
امت کوایک مرتبہ قرآن کریم کا چسکا لگ جائے گا تو پھر یہ دنیا کے سارے چسکے بھول جائے گی۔ آپ کو بھی ایک مرتبہ قرآن کریم کا چسکا لگنا چاہیے کہ قرآن کیا ہے،اس کی حلاوت کیسی ہے؟ اس میں اللہ نے جو چاشنی رکھی ہے، وہ دنیا کی کسی چیز میں نہیں ہے۔کیوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
نعمت قرآن انسان کی سب سے بڑی خوش قسمتی:
یہ تو آپ کی میری اور انسانوں کی خوش قسمتی ہے کہ قرآنِ کریم جیسی نعمت مل گئی؛ ورنہ اللہ کے اس کلام کے پڑھنے کی انسان میں طاقت نہیں!کیوں کہ یہ کلام اللہ ہے۔ قرآن نے بیان کیا:﴿ لَوْ أَنزَلْنَا ہَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَیٰ جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللَّہِ﴾(الحشر:۲۱)کہ اگر قرآنِ کریم کو پہاڑ پر نازل کردیا جاتا تو وہ بھی برداشت نہیں کرپاتا۔ اور اللہ کے کلام کو ہم اپنی زبان سے پڑھ رہے ہیں،یہ مشکل میں سے نہیں ناممکنات میں سے ہے، یہ تو اللہ نے ہمارے لیے آسان کیا ،تو ہم پڑھ پاتے ہیں ورنہ اللہ (خالق و مالک) کے کلام کو کون پڑھ سکتا ہے؟!
نزول قرآن کے وقت حضواکی حالت:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا نزول ہوتا تھا (اللہ اکبر) ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں: کہ سخت سردی میں بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم پسینے میں شر ابورہو جاتے تھے۔نزولِ قرآنِ کریم کا بوجھ آسان نہیں تھا۔ ہمارے خاطرہماری ساری مشقتوں کو رسول اللہانے اٹھایا۔ 23/ سال تک وحی کا نزول ہوا اور اس وحی میں ایسا بوجھ ہوتا تھاکہ حضرات صحابہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور عرفہ میں تھے ،اپنی اونٹنی قصوہ پر ،اسی دوران اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی:﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾(ا لمآئدة:۳) ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا (لہذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو)“اتنی ہی آیت نازل ہوئی، جس کااتنا بوجھ اس اونٹنی پر پڑا کہ وہ اونٹنی بیچ میں سے ایسی جھک گئی کہ قریب تھا کہ وہ زمین پر لگ جاتی اور وہ پھٹ کر دو ٹکڑے ہو جاتی، مگر اللہ کی رحمت سے وہ بچ گئی۔ وحی اللہ کا کلام ہے کوئی آسان چیز نہیں ، مگر ہمیں چوں کہ بڑی آسانی سے مل گیا؛ اس لیے ہمیں اس کی قدر نہیں،جب کہ ہمیں اس کی قدر ہونی چاہیے کہ اتنی بڑی نعمت اللہ نے ایسے ہی ہمیں عطا فرما دی، ورنہ یہ اربوں، کھربوں میں بھی نہیں ملتی، پوری دنیا کی دولت ایک طرف ہوتی تب بھی یہ نعمت انسان کونہیں مل سکتی تھی، لہذا اللہ نے جو اتنی بڑی نعمت ہمیں عطا فرمائی ہے اس نعمت کی ہمیں قدرکرنی چاہیے۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اسے پڑھو!اسے سمجھواور اس پر عمل کرو! اس کے پیغام کو ہر ایک تک پہنچانے کی کوشش کرو!
اللہ رب العزت ہم سب کو کما حقہ قرآن کریم کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے! فتنوں کے اس دور میں اللہ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی نصیب فرمائے اورایسے اعمال کی توفیق مرحمت فرمائے، جس سے اللہ ہم سب سے راضی ہو جائے ۔آمین!