مفتی محمد جعفر ملی رحمانی /صدر دار الافتاء- جامعہ اکل کوا
انسان کے رہن سہن، اور رفتار وگفتار میں وہ سلیقہ مندی و خوبصورتی جو دوسروں کو متاثر کردے اسے ”ادب “اور” تہذیب“ کہتے ہیں۔
”ادب“، انسان کو مہذب بناتا ہے، ادب انسانی نظر وفکر کو وسعت اور اسے بالیدگی عطا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں ادب کو بڑی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔
کوئی بھی سماج ومعاشرہ اسی وقت بہترین سماج ومعاشرہ ہوسکتا ہے، جب اس کے افراد باادب و تعلیم یافتہ ہوں، اس وضاحت کے ساتھ کہ علم کی کمی تو ادب سے پوری ہوسکتی ہے، مگر ادب کی کمی علم سے پوری نہیں ہوتی۔
ادب ہی انسان کو حیوان سے ممتاز کرتا ہے
ادب سے ہی انسان انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے
ادب ہی انسان کی معراج وارتقاء کا ذریعہ ہے۔
ادب ہی سے انسان عزت وعظمت پاتا ہے ، عربی کا مشہور مقولہ ہے: ”اَلدِّیْنُ کُلُّہ اَدَبٌ“دین پورا کا پورا ادب ہے۔اس لیے قوم وملت کے دعاة، معلمین اور والدین پر لازم ہے کہ وہ نئی نسل کی تہذیب، اور انہیں ظاہری وباطنی اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کرنے پر خاص توجہ دیں، کیوں کہ جو نسل اخلاقی تربیت یافتہ ہوتی ہے وہی سیادت وقیادت کی حقدار ہوتی ہے۔
ہم مسلمان ہیں ، ہمارا دین ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ حسن اخلاق، کثرت عبادات پر مقدم ہے، اور آدمی اپنے حسن اخلاق سے صاحب صوم وصلاة کے درجہ کو پالیتا ہے: ” إن صاحب حسن الخلق لیبلغ بہ درجة صاحب الصوم والصلاة “۔ (ترمذی: رقم الحدیث: ۲۱۲۱)
مسلمان اپنے کلام، اپنے سکوت، اپنی حرکات، اپنے کام، اپنی فرصت، اپنی چستی، اپنی سُستی، اپنی موافقت ومخالفت ، اپنی محبت ومودت، اپنی مخاصمت، اپنی عبادت، اپنے مذاق وغیرہ میں با ادب ہوتا ہے، گویا اس کی پوری زندگی ادب اور اخلاق ِحسنہ کا حسین گلدستہ ہوتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کہ ہر زمان ، مکان اور ہر شیٴ کا ادب مستقل اور اس کے مناسب حال ہوتا ہے، ” أدب کل شیء ما یناسب حالہ “ ۔
اس مختصر تمہید کے بعد بازار وتجارت سے متعلق کچھ آداب ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں، اللہ پاک ہمیں ان آداب سے موٴدب ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین !
تجارت کا پہلا ادب:
تاجر (BUSINESSMAN) کو چاہئے کہ صبح سویرے اٹھ کر فجر کی نماز پڑھ لیں ، اللہ رب العزت سے خیر کا سوال کریں، شرور سے پناہ مانگیں، اور صبح سویرے ہی اپنے کاروربار کو شروع کردیں، کیوں کہ جو کام صبح سویرے کئے جاتے ہیں، ان میں برکت کی دعا خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔
صخر غامدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِأُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِہَا “۔
(” سنن أبی داوٴد “ : ۱/۲۳۰)
اے اللہ! میری امت کے لیے ان کے صبح سویرے انجام دیئے جانے والے اعمال میں برکت عطا فرما۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ جب بھی آپ کوئی فوج و لشکر میدانِ جنگ میں لڑنے کے لیے روانہ فرماتے تو صبح سویرے روانہ فرماتے۔
صحابی رسول اللہ صخر غامدی رضی اللہ عنہ تاجر تھے، جب آپ اپنا سامانِ تجارت روانہ کرتے تو صبح سویرے روانہ کرتے، اور اس عمل کی وجہ سے وہ بڑے صاحب ِثروت بن گئے تھے۔
آج کا مسلمان!
آج مسلم تاجروں اور کاروباریوں کا یہ حال ہے کہ رات دیر گئے تک بیدار رہتے ہیں، اور اس کے بعد سوتے ہیں، نتیجةً صبح فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے، اور دن کا بڑا حصہ گذر جانے تک سوئے رہتے ہیں، اس کے بعد بیدار ہو کر فریش ہوتے ہیں، پھر دکان اور کاروباری مقاموں پر پہنچتے ہیں، جبکہ وہ وقت نکل چکا ہوتا ہے، جس میں انجام دئیے جانے والے اعمال میں برکت کی دعا خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔
فجر کی نماز نہ پڑھنے کی نحوست اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے محرومی کا ہی یہ اثر ہے کہ اکثر وبیشتر تاجر اپنی تجارت میں خسارہ و نقصان یا بے برکتی کا شکو ہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسرا ادب:
بازار میں دعا کا اہتمام: بازار (Market) میں تاجر (Businessman) کو دعا کرتے رہنا چاہئے، کیوں کہ دعا عبادت اور حصول ِخیر کثیر کا ذریعہ ہے ، آدمی جب دعا میں لگا رہتا ہے تو اس کا تعلق براہِ راست اس رازق سے ہوتا ہے جو پوری دنیا کو رزق دے رہا ہے، اور جب رازق سے تعلق ہو تو رزق میں برکت واضافہ میں کیا شک ہوگا؟
یہی وجہ ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بازار میں”لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، ولہ الحمد، یحی ویمیت وہو حی لا یموت، بیدہ الخیر، وہو علی کل شیء قدیر“ پڑھے گا، اللہ پاک اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھ دے گا، ایک لاکھ گناہ اس کے نامہٴ اعمال سے مٹادے گا، اور جنت میں ایک گھر اس کے لئے بنا دے گا۔
عن عمر رضی اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:” من قال فی السوق: لا إلالہ إلا اللہ، وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد یحي ویمیت وہو حی لا یموت، بیدہ الخیر، وہو علی کل شیء قدیر، کتب اللہ لہ ألف ألف حسنة ومحا عنہ ألف ألف سیئة، وبنی لہ بیتاً فی الجنة“۔
(رواہ الترمذی)
اگر ریا وشہرت کا اندیشہ نہیں ہے، تو بازار میں بآواز بلند ذکر کرتے رہنا افضل ہے کیوں کہ یہ غافلوں کے لئے تذکیر ویاد دہانی ہے، اور اگر ریاء شہرت کا اندیشہ ہو تو پھر آہستہ آہستہ ہلکی آواز میں اپنے آپ کو ذکر میں مشغول رکھیں ، اور دست بکار ودل بیار کا مصداق بنے، (ہاتھ کام کاج میں لگے ہوں اور دل اللہ کے ذکر میں مشغول)
بازار، تجارت میں اشتغال کی وجہ سے مکان غفلت ہوتاہے، اس لئے وہاں ذکر کی خاص فضیلت ہے، اسی طرح بازار شیطان کی سلطنت اور اس کی افواج کی چھاوٴنی ہوتا ہے، اور تاجر وہاں شیطان سے بر سرِ پیکر ہوتاہے، اگر وہ ذاکر ہوگا، تو ذکر کی برکت سے وہاں شیطان اور اس کی افواج کو شکست ہوگی، اور تاجر کامیاب ہوگا۔
آج کا مسلمان تاجر!
آج بہت سے مسلم، تجارت و کاروبار کرتے ہیں، لیکن آپ دیکھیں گے کہ وہ اس ادب سے عاری ہیں، اپنی دکانوں پر بیٹھ کر فرصت کے اوقات کو ضائع کرنا، موبائل ، انٹرنیٹ پر فلمیں یا شارٹ ویڈیوز دیکھنا اور گیم کھیلنا وغیرہ ان کی عادات ہیں، یہ نہیں کہ فرصت ومہلت کے وقت میں، تلاوت کریں گے، ذکر واذکار اور درود شریف کے پڑھنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں گے، تاکہ ان کے اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں، گناہ مٹا دیئے جائیں اور ان کے لئے جنت میں گھر بنا دیا جائے۔
تیسرا ادب:
بازار سے متعلق تیسرا ادب یہ ہے کہ اگر کسی ضرورت سے بازار جانے کی نوبت آجائے تو یہ کوشش کریں کہ آپ سب سے پہلے بازار میں داخل ہونے والے اور سب سے آخر میں اس سے نکلنے والے نہ بنئے۔
کیوں کہ بازار شیطان کے جنگ کی جگہ ہے، یہاں شیطان اپنا جھنڈا گاڑ دیتا ہے، بازاری لوگ شیطانی افعال کوانجام دیتے ہیں: دھوکہ دینا، چیزوں میں ملاوٹ کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا، ایسے عقود کرنا جو بنگاہ شرع فاسد ہیں وغیرہ، شیطان ان کاموں پر آمادہ کرنے کے لئے بازار کو اپنا سینٹر ومرکز بناتا ہے۔جسے حدیث پاک میں ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا کہ شیطان بازار میں اپنا جھنڈا گاڑ دیتا ہے، اس لئے بلا ضرورت بازار جانا اور غیر تاجر وخریدار کے لئے بازاروں میں بیٹھے رہنا مکروہ ہے۔
فرصت کے اوقات آدمی یا تو اپنے گھر میں ذکر واذکار، نفل نماز اور تلات میں گذارے یا مسجد میں، کیوں کہ مسجد زمین کے حصوں میں سب سے بہترین حصہ اور بازار اس کے بد ترین حصوں میں سب سے بد ترین حصہ ہے۔
” ثم أتاہ فقال لہ: خیر البقاع المساجد بیوت اللہ فی الأرض قال: فأي البقاع شر؟ فعرج إلی السماء ثم اتاہ فقال: شر البقاع الأسواق“ ۔
(معجم الکبیر للطبرانی : حدیث نمبر: ۷۱۴۰)
آج کا مسلمان!
آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ مسجدوں میں سے سب سے آخر میں آتے ہیں، عین اس وقت، جب کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہوتی ہے، یا ایک دو رکعتیں ہوچکی ہوتی ہیں، جمعہ کے دن اس وقت مسجد میں داخل ہوتے ہیں، جب امام خطبہ شروع کر چکا ہوتا ہے یا خطبہ کی اذان ہو رہی ہوتی ہے، اور جیسے ہی امام نے سلام پھیرا فوراً مسجدوں سے باہر نکل جاتے ہیں، حالاں کہ مسجدیں مقام خیر ہیں، ان میں جتنا زیادہ وقت گزرے گا وہ خیر ہی ہوگا۔
اور بازاروں کے حوالے سے ان کا یہ حال ہے کہ سب سے پہلے بازار وں میں داخل ہوتے ہیں، اور سب سے آخر میں وہاں سے نکلتے ہیں، حالاں کہ بازار مقام شر ہیں، جتنا وقت بھی بلا ضرورت وہاں گزرے گا، اس میں خیر نہیں ہے۔بالخصوص مسلم خواتین کا حال انتہائی قابل اصلاح ہے، کہ وہ رمضان المبارک کی مقدس ومبارک راتیں، افطار کے بعد سے لے کر دیر رات تک، اشیائے زینت خریدنے کے لئے بازاروں کی زینت بنی رہتی ہیں، یقیناً یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔
اے کاش! مسلمان اس ادب سے موٴدب ہوتے کہ ان کا زیادہ وقت مسجدوں میں گزرتا، اور کم سے کم وقت بازاروں میں۔
چوتھا ادب:
حضرت طفیل بن اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لایا کرتے تھے ، اور ان کے ساتھ بازار جاتے تھے، وہ فرماتے ہیں: ” جب ہم بازار جاتے تو حضرت عبد اللہ بن عمر کا یہ حال ہو تا کہ جب بھی وہ کسی ردی اور خراب چیز بیچنے والے یا مالی لین دین کرنے والے یا کسی غریب و مسکین یا اور کسی بھی شخص کے پاس سے گزرتے تو اسے سلام کرتے“ ۔
حضرت طفیل کہتے ہیں: ” میں ایک دن عبد اللہ بن عمر کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے کہا : آپ میرے پیچھے پیچھے بازار چلو، تو میں نے ان سے عرض کیا : بازار جاکر کیا کروگے؟ نہ تو آپ بازار میں ہونے والے لین دین کا معائنہ کرتے ہو، نہ کسی سامان کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتے ہو، نہ سامان کا سودا کرتے ہو اور نہ ہی بازار میں لگنے والی مجلسوں میں بیٹھتے ہو، (تو وہاں جاکر کروگے کیا؟) اس لئے یہیں بیٹھ جائیے، بیٹھ کر گپ شپ کرلیں گے“۔ تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا: ” ائے ابو بطن !(پیٹ کے ابا۔ حضرت طفیل کا پیٹ ذرا بڑا ٹھا، اس لئے وہ اس لقب سے معروف تھے، نہ کہ اس لئے کہ وہ کھانا زیادہ کھاتے تھے) ہم بازار، سلام کرنے کی غرض سے جاتے ہیں کہ جو شخص بھی ہمیں وہاں ملتا ہے ہم اسے سلام کرتے ہیں“ ۔
” إنما نغدو من أجل السلام نسلم علی من لقینا“
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے، جس طرح کاروبار کے ذریعہ آمدنی اور روپیہ پیسہ کمانے کے لئے انسان بازار کا رخ کرتا ہے، ایسے ہی نیکی کمانے کے لئے بھی اسے بازار جانا چاہئے۔
آج کا مسلمان!
آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ بازاروں میں ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی ہے، لیکن سلام کی توفیق نہیں ہوتی، اور اگر کوئی موفَّق من اللہ سلام بھی کرتا ہے، تو اسے سلام کا جواب نہیں دیا جاتا، اور اگر دیا بھی جاتا ہے تو محض سر یا ہاتھ کے اشارے سے ، زبان سے جواب کے الفاظ نہیں ادا کیے جاتے، جبکہ ہمارے اسلاف بازار محض اس غرض سے جاتے تھے کہ وہاں یاتو سلام کریں گے یا سلام کا جواب دیں گے، تاکہ ہمارے نامہٴ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوجائے، ہمارے اس ادب سے عاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آخرت اور نیکیوں کی قدر ہماری نگاہوں میں باقی نہیں رہی، اگر کسی چیز کی قدر ہے تو بس دنیوی مال ومتاع، اس لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے، اور اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کے اضافہ کی فکر کرے، تاکہ یہاں کی عارضی زندگی میں سکون اور وہاں کی حیات ابدی میں کامیابی میسر ہو۔
پانچواں ادب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” قسم سامان کو رائج کر دیتی ہے، اور برکت کو نیست ونابود کر دیتی ہے “ ۔
ایک دوسری روایت میں ہے : ” خرید وفروخت اور کاروبار میں قسمیں کھانے سے بچو، کیوں کہ قسمیں کھانا سامان کو رائج کردیتا ہے، پھر برکت کو نیست ونابود کردیتا ہے“۔
خرید وفروخت کرتے وقت، سامان کی جودت و عمدگی، مضبوطی وپائیداری سے متعلق گاہک و صارف کو مطمئن کرنے کے لئے قسم نہ کھائے، خواہ قسم کھانے والا شخص اپنی قسم میں سچا ہو یا جھوٹا، اگر جھوٹا ہے تو جھوٹی قسم کے گناہ کی وجہ سے قسم نہ کھائے، اور اگر سچا ہے تو اللہ پاک کی عظمت کا یہ تقاضہ ہے کہ حقیر و معمولی سامان ِتجارت کی خاطر اس کے نام کی قسم نہ کھائی جائے۔
” فإن الله تعالی عظیم ولا یقسم العظیم إلا علی عظیم “ ۔
آج کا مسلم!
آج مسلم تاجروں کا یہ حال ہے کہ وہ اس ادب ِعالی سے واقف نہیں، اور اگر ہیں تو اس پر عامل نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ دیکھو: اگر تم تجارت و کاروبار میں قسمیں کھاوٴ گے تو اس سے تمہارا کاروبار گرچہ خوب چل پڑے گا، لوگ تمہارا اعتبار کریں گے، اور اپنی ضرورت کی چیزیں تمہاری دکانوں سے خریدیں گے، لیکن تمہارا یہ قسمیں کھانا برکت کو نیست ونابود کردے گا، ہزاروں لاکھوں کماوٴگے، لیکن تمہاری ضروتیں پوری نہیں ہوں گی، یا پھر جو مال تم نے قسمیں کھا کھا کر کمایا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہونے کا سبب بن جائے، جس میں تم دوائیں کھا کھا کر تھک جاوٴ اور وہ تمہیں ہلاک کرکے ہی دم لے۔
” إیاکم والحلف فی البیع فإنہ ینفِّق ثم یَمحَق “ ۔ (مسلم)
چھٹا ادب:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو شخص جھوٹی قسم کھائے تاکہ نا حق کسی شخص کا مال لے لے “ ۔ یا آپ نے فرمایا : ” تاکہ ناحق اپنے بھائی کا مال لے لے، تو اللہ رب العزت سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غصہ ہوگا، اور اللہ پاک نے اس بات کی تصدیق قرآن کریم میں نازل فرمائی ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللهِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَناً قَلِیْلًا أوْلٰئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمْ فِی اْلآخِرَةِ وَلَا یُکَلِّمُہُمُ اللهُ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ﴾۔
(آل عمران: ۷۷) (بخاری)
ترجمہ:یقینا جو لوگ معاوضہٴ حقیر لے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو اللہ تعالی سے کیا ہے اور اپنی قسموں کے ان کو کچھ حصہ آخرت میں نہ ملے گا، اور نہ خدا تعالی ان سے کلام فرمائیں گے، اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے قیامت کے روز، اور نہ ان کو پاک کریں گے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔
جھوٹی قسم کھا کر دوسرے کا مال ناحق لے لینا غضب خداوندی کو دعوت دینا اور اس کی نظر محبت سے اپنے آپ کو محروم کرنا ہے، اس کے باوجود کتنے مسلم تاجر وغیر تاجر ایسے ہیں جو بلا جھجک جھوٹی قسمیں کھا کھا کر دوسروں کے مال ناحق لے لیتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں، احکامِ خداوندی کے مکلف وپابند ہیں، ہماری دنیوی ترقی اور اخروی نجات اسی میں ہے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں احکام ِخداوندی کو جانیں اور اسی کے مطابق معاملات کریں ۔
فقہ کا قاعدہ ہے:
”لایجوز لمسلم أن یتصرف أو یفعل فعلاً إلا بعد معرفة حکم اللّٰہ فیہ“۔
(موسوعة القواعد الفقہیة: ۸/۱۵)
ساتواں ادب:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” بے شک اللہ پاک ناپسند فرماتے ہیں ہر ایسے شخص کو جو خوب کھاتا پیتا ہو، بازاروں میں چیختا چلاتا ہو، پوری رات سوئے پڑا رہتا ہو (رات میں نہ نفل پڑھتا ہو اور نہ ذکر کرتا ہو) دن میں گدھے کی طرح اپنی آواز کو بلند کرتے پھرتا ہو، یا گدھے کی طرح ادھر سے ادھر دنیوی بوجھوں کو اپنے اوپر لادھ کر پھرتا ہو، امر دنیا سے تو خوب واقف ہو اور امرِآخرت سے جاہل “ ۔
عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ” إن اللہ یبغض کل جعظری جواظ، سخاب بالأسواق، جیفة باللیل، حمار بالنہار، عالم بأمر الدنیا، جاہل بأمر الآخرة “ ۔
(صحیح ابن حبان)
حدیث پاک میں مسلم تاجروں کے لئے اس ادب عالی کی تعلیم دی جارہی ہے کہ تاجر ایسا نہ ہو کہ اس کی پوری دلچسپی صرف اسی میں ہو کہ خوب اچھا اچھا کھائے پئے، رات بھر بلا نماز وذکر سویا پڑا رہے ، اس کی تمام فکروں کا مرکز صرف اس کا کاروبار ہی ہو، لوگوں کو اپنے سامان اور اپنی دکان کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بازار میں خوب زور سے آوازیں لگائے، امور ِدنیا و تجارت سے تو خوب واقف ہو، مگر دین وآخرت کے امور میں بالکل صفر، اس طرح کا تاجر کامل مسلم تاجر نہیں ہوسکتا۔
کامل مسلم تاجر کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس کی تجارت اسے اپنے فرائض و واجبات ِدینیہ سے غافل نہیں کرتی، اس کی دنیوی تجارت سے وہ اپنی آخرت کو بناتا اور سنوارتا ہے، تمام تجارتی امور کو موافق ِشرع انجام دیتا ہے، ناجائز وحرام چیزوں کی خرید وفروخت نہیں کرتا، اور نہ حلال ومباح چیزوں کی خرید وفروخت میں خلاف ِشرع طریقوں کو اپناتا ہے، ایسا تاجر کل قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ حشر کیا جائے گا، اور ان لوگوں کی رفاقت پر ہی حسن ِرفاقت کا اطلاق ہوتا ہے۔
” التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین“ ۔
(ترمذی)