معارفِ باندوی
مال خرچ کرنے کا صحیح طریقہ:
جھانسی سے ایک صاحب اپنی گاڑی سے تشریف لائے اور طلبا کو تقسیم کرنے کے لیے معتد بہ مقدار میں لڈّو (مٹھائی) بھی ساتھ لائے۔ حضرت اقدس نے اس کو پسند نہیں فرمایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ: آپ نے اس میں کتنے پیسے خرچ کیے؟ انہوں نے جواب دیا کہ:
تین ہزار کے لڈّو ہیں۔ حضرت جی نے ارشاد فرمایا: آپ نے اتنے پیسے خرچ کیے اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ کم از کم آپ مجھ سے مشورہ کرتے کہ: میں اتنے پیسے خرچ کرنا چاہتا ہوں، میں آپ کو صحیح مشورہ دیتا۔ کتنے غریب بچے سردی میں اُن کے پہننے اوڑھنے کے گرم کپڑے نہیں، میں اُس کا انتظام کرتا۔ کھلانا ہی تھا تو میں گوشت وغیرہ پکوا کر اچھا کھانا کھلا دیتا۔ اتنے طلبا میں دود ولڈ و بھی گئے تو کیا ہوا؟ آدمی پیسہ خرچ کرے تو سلیقہ سے خرچ کرے، کسی کو کچھ دینا ہوتو پہلے پوچھ لے کہ:
میں اتنا خرچ کرنا چاہتا ہوں، ضرورت کی چیز دے دے۔ ان صاحب نے عرض کیا: حضرت! جو قسمت کا تھا وہ لڑکوں کو پہنچ گیا۔ میرے پاس دوسری رقم رکھی ہے اُس سے طلبا کے کپڑے کا انتظام کر دیجیے۔ حضرت نے فرمایا:یہ میرا مطلب نہیں! میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ خرچ کرنے سے پہلے مشورہ کر لینا چاہیے۔ پھر ان ہی صاحب نے تنہائی میں حضرت کو کافی رقم بطور ہدیہ کے دینا چاہی اور بہت اصرار سے، خلوص سے، محبت کے ساتھ پیش کی، حضرت نے قبول فرمانے سے عذر فرمایا۔ بہت اصرار کرنے پر ان کی دل جوئی کے لیے اُس میں سے پچاس روپے حضرت نے قبول فرما لیے۔
مدرسہ کا نقصان کرنے پر طلبہ کو تنبیہ:
کسی طالب علم نے مدرسہ کا تارکاٹ ڈالا تھا۔ حضرت سید نے تنبیہ کرتے ہوئے طلبا سے فرمایا کہ: اللہ کے بندو! تم لوگ مدرسہ میں کیوں آئے ہو؟ کیا مدرسہ کا نقصان اور لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے آئے ہو؟ تار کاٹنے سے تم کو کیا مل گیا؟ تم مدرسہ میں علم دین حاصل کرنے آئے ہو یا چور ڈاکو بننے کے لیے؟ کوئی نہیں دیکھ رہا کیا ؟خدا بھی نہیں دیکھ رہا؟ اللہ تعالیٰ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ڈھیل دی جاتی ہے لیکن جب گرفت ہوتی ہے بڑی سخت پکڑ ہوتی ہے۔ ایسے شخص پر خدا کی لعنت ہوتی ہے اُس کا غضب نازل ہوتا ہے، جن ہاتھوں سے تم نے یہ حرکت کی ہے کیا وہ ہاتھ شل نہیں ہو سکتے؟ کیا اُس شخص پر اللہ کا عذاب نہیں آسکتا؟
علم کے درجات اور مختلف نصابوں کی ضرورت :
فرمایا: علم حاصل کرنے کے بھی درجات ہونے چاہئیں، ہر ایک کے لیے”بخاری شریف“ پڑھنا ضروری نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ نہ پوچھا جائے گا کہ: ”بخاری شریف“ کیوں نہیں پڑھی؟ اس لیے اگر کسی کی علمی صلاحیت نہ ہو تو ابھی چھوڑ دے، اپنا وقت ضائع نہ کرے، دین کا ضروری علم حاصل کر کے کچھ اور کام کرنے لگے۔ مثلاً قرآن شریف کی تصحیح اور ضروری مسائل سیکھنا ضروری ہے اُس کی کوشش کی جائے۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ ہر مدرسہ میں مختلف قسم کے نصاب ہونے چاہئیں، ایک نصاب ایسا بھی ہونا ضروری ہے، جس میں دین کی ضروری باتیں سکھا دی جائیں، عوام الناس اور جن طلبا کی علمی استعداد نہ بنتی ہو ان کو اس نصاب کی تکمیل کے بعد دنیا کے کاموں میں لگ جانا چاہیے اور اس نصاب کو ہر زمانہ کے محققین علما کو تجویز کرنا چاہیے۔
طلبا کی دو قسمیں اور اہل مدارس کی ذمہ داری، ہر طالب علم کو پورا عالم کورس نہیں پڑھانا چاہیے :
فرمایا: آج کل طلبا کی بالکل استعداد نہیں ہوتی۔ بس! رسمی طور پر پڑھ کر عا لمیت کی سند حاصل کر لیتے ہیں، مدرسہ والوں کو اور اپنے والدین کو دھوکہ دیتے ہیں، جن طلبا کی استعداد نہیں ہوتی وہ دو طرح کے ہیں:
ایک تو ذہین سمجھ دار طلبا ہیں، اگر محنت کریں تو استعداد پختہ ہو سکتی ہے، لیکن وہ محنت ہی نہیں کرتے، یہ اُن کی بڑی غلطی اور کوتاہی ہے۔ اُن کو محنت کرنی چا ہیے اور مدرسہ والوں کو اُن سے محنت لینی چاہیے۔
دوسرے نمبر پر بہت سے طلباایسے ہیں جو کند ذہن ہیں، محنت کرتے ہیں پھر بھی کامیابی نہیں ہوتی، استعداد نہیں بنتی۔ ایسے طلبا کو چاہیے کہ: اس تعلیم کو چھوڑ کر دین کی ضروری معلومات حاصل کر کے کسی اور کام میں لگ جائیں، ہر شخص کا عالم ہونا ضروری نہیں۔
بس مدرسہ میں صرف ایسے لڑکے ہونے چاہئیں جو ذہین ہوں، علمی استعداد اور صلاحیت ہو ، محنت کرتے ہوں اور علم کے مطابق عمل بھی کرتے ہوں۔ ابھی شروع سال ہے سب لوگ اپنے اپنے متعلق فیصلہ کر لو اور مجھے اطلاع کر دو ،اگر پڑھنا ہے تو محنت سے پڑھو، اپنے گھر والوں کو دھوکہ نہ دو۔ جو محنت کرتا ہے اور لگارہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس سے دین کا کام بھی لیتے ہیں؛ خواہ کسی درجہ کا ہو۔ (۱۳۰۵ھ)
پنج سالہ نصاب:
حیدر آباد سے ایک طالب علم تشریف لائے، جو یہاں پنجم سالہ نصاب (شعبہ عربی) میں دو سال تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ دوسرے ایک طالب علم بھی ان کے ساتھ آئے اور عرض کیا کہ: حضرت ! یہ پنج سالہ نصاب ”سالِ سوم“ میں اس سال پڑھیں گے۔ حضرت نے فرمایا: اس نصاب کے پڑھنے سے ان کو کیا فائدہ؟ اس سے اتنی پختہ استعداد اور علمی قابلیت تو پیدا نہیں ہوتی، ایسے پڑھنے سے نہ پڑھنا ہی اچھا ہے۔ پڑھنے والے بھی اچھے ہوں، پڑھانے والے بھی قابل ہوں تو مفید ہو سکتا ہے۔ اب نہ پڑھنے والے ایسے ہیں نہ پڑھانے والے۔ اگر تم کو پڑھنا ہی ہے تو محنت سے کامل نصاب پڑھو۔ دو، تین سال کا ہی فرق تو پڑے گا یا پھر اُس کو بھی چھوڑ دو۔ پنج سالہ نصاب کی تکمیل کے بعد جو کام تم کو کرنا ہے، ابھی کام شروع کر دو، بعد میں حفظ، تجوید، قرأت ہی تو پڑھاؤ گے، ابھی شروع کردو۔ اس نصاب کو پڑھ کر عربی کی کتابیں تو تم پڑھا نہیں سکتے، جو کام بعد میں شروع کرنا ہے ابھی شروع کردو۔
اصل میں یہ نصاب افریقی طلبا کے لیے تیار کیا تھا، ان ہی کے لیے تسہیل الصرف تسہیل النحو کتابیں لکھی تھیں۔” تسہیل النحو“ کو بعض لوگ مشکل کہتے ہیں۔ اصل میں ایک دو کتا بیں ہی ”نحو“ کی ان کو پڑھائی تھیں اس لیے کوشش کی گئی کہ ”نحو“کی زیادہ سے زیادہ باتیں اُس میں آجائیں۔ تو اصلاً یہ نصاب تو اُن ہی کے لیے تجویز کیا تھا ،اُن کے پاس وقت کی قلت ہوتی ہے۔ نیز دیگر علوم” منطق“وغیرہ سے ان کو مناسبت بھی کم ہوتی ہے۔ دوسرا پختہ عالم بننا اُن کا مقصود بھی نہیں ہوتا۔ بس! علم دین پڑھنے کا ہوتا ہے جو ہو جائے بہتر ہے، نہ ہونے سے ہونا اچھا ہے۔ اصل میں یہ نصاب ان ہی کے لیے تھا، لیکن تمہارے لیے میری رائے یہی ہے کہ: نصاب پورا پڑھو اور نہیں پڑھنا ہے تو کام کرو۔ اُردو کی ضروری کتابیں پڑھ لو، تا کہ دین کی ضروری باتیں معلوم ہو جائیں۔ تجوید تم کو آتی ہے کام شروع کر دو اور اگر واقعی پڑھنا ہے تو پورا پڑھو۔
ان کے ساتھی نے عرض کیا کہ حضرت! ان کی نہ ماں ہے، نہ باپ دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ حضرت نے فرمایا: ماں باپ کے انتقال ہو جانے سے کیا ہوا؟ اگر تمہاری ماں زندہ ہوتیں تو یہاں آکر تمہارے لیے ناشتہ تو بناتی نہیں! کیا کرتیں؟ باپ زندہ ہوتے تو آکر تمہارے کپڑے تو دھوتے نہیں! کمرہ میں جھاڑو تو لگاتے نہیں! خرچ ہی تو تم کو دیتے؟!! باپ خرچ دے سکتا ہے اللہ نہیں دے سکتا؟ سب انتظام ہو جائے گا تم اللہ کا نام لے کر شروع کرو۔
(افاداتِ صدیق،ص:۱۲۸-۱۳۲)