عمل اور نیکی میں نیت کا دخل

انوار نبوی: تیسری قسط:

درسِ بخاری: حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی

مرتب: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی

عمل اور نیکی میں نیت کا دخل

            الحمدللہ! مدیر شاہرا ہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے دروسِ بخاری، مسلم اورترمذی، کا سینکڑوں صفحات پر مشتمل درسی مسودہ تیار ہے۔جس میں عمدہ بحثیں اور مفید باتیں شامل ہیں۔ ان دروس میں آپ کا شوقِ مطالعہ اور محققانہ مزاج صاف جھلکتا ہے؛ذہن میں یہ بات آئی کہ درسِ حدیث کے ان مباحث کو جو مفید ِعوام و خواص ہیں ، مضمون کی شکل دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔درس کا اکثر حصہ ؛جو خالص علمی اور تحقیقی تھا،تذکیری پہلو اور عوام کی رعایت میں اسے شامل نہیں کیا گیا ہے۔ دعا کریں کہ درس ِحدیث کتابی شکل میں آجائے تو ساری بحثیں اس میں شامل ہو جائیں گی، جس کی علمی حلقے پذیرائی یقینا ہوگی۔

بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ

            وَبِہ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِيُّ قالَ حدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ حدَّثنَا یَحْیَ بنُ سَعیدِ الَانصاريُّ،قَالَ اَٴخْبَرَنِيْ مُحَمَّدُ بنُُ ابرَاہیمَ التَّیْمِيُّ اَٴنَّہ سمِعَ عَلقمةَ بنَ الوقَّاصِ الَّیْثِيَّ یقولُ:سمعتُ عُمرَ بنَ الخَطَّابِ رَضیَ اللہُ عنہُ علَی المِنبرِ قالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ یَقُوْلُ:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیءٍ مَّا نَوٰی، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا، اَٴوْ الٰی امْرَأةٍ یَنْکِحُھَا، فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ۔(بخاری)

ترجمہ:امام بخاری نے فرمایا: کہ ہم سے بیان کیا امام حمیدی نے اور حمیدی کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا سفیان نے،وہ فرماتے ہیں ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید الانصاری نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا محمد بن ابراہیم تیمی نے اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے علقمہ بن وقاص سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ،اس حال میں کہ حضرت عمر منبر پر تشریف فرماتھے۔ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”تمام اعمال کا مدارنیتوں پر ہے اور یقینا ہر شخص کے لیے وہی ہے، جس کی اس نے نیت کی،لہٰذا جس کسی نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہوگی، جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے“ ۔

ہجرت کے عمل میں دنیاوی مفادات کی نیت :

            ” فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا“اگر کسی آدمی نے ہجرت کی اور ہجرت کرتے ہوئے یہ نیت کی، کہ مدینہ منورہ جائیں گے اور اس کی مارکیٹ سے دنیا کما ئیں گے، تو فرماتے ہیں کہ اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی(یعنی دنیا کمانے کے لیے)۔

            ”اَٴوْ الٰی امْرَأةٍ یَنْکِحُھَا، فَہِجْرَتُہ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِِ“ اسی طرح کسی آدمی نے نکاح کے غرض سے ہجرت کی، تو یہ ہجرت اسی(نکاح) کے لیے ہو گی۔اسی وجہ سے صحابہ اپنے درمیان ایک صحابی کو ”مہاجرِاُم قیس “کے نام سے یاد کرتے تھے۔

کیا کسی صحابی نے عمل ِہجرت میں دنیا کی نیت کی ہے؟

             محدثین کے مابین یہاں ایک بحث ہے کہ کیا کسی صحابی نے عمل ِہجرت میں دنیا کی نیت کی تھی؟ اس سلسلے محدثین کا قول نفی میں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرات صحابہ میں سے کسی نے بھی ہجرت دنیاوی غرض سے نہیں کی؛کیوں کہ مدینہ منورہ میں تجارت کے لیے کوئی بڑی منڈی موجود ہی نہیں تھی؛بل کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت سے قبل تو مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا۔

ہجرت سے پہلے مدینہ کا نام:

            ہجرت سے قبل یہ جگہ بیماریوں کی آماجگاہ ہوا کرتی تھی اور حمیّٰ یثرب( یثرب کا بخار) کافی مشہور تھا۔مدینہ میں جو بخار چڑھتا تھا اس بخار کی وجہ سے لوگوں کی موت ہو جایا کرتی تھی، تو جوجگہ بیماریوں کی آماجگاہ ہو، وہاں آدمی تجارت کے لیے کیوں کر جائے گا؟ایسی جگہوں سے تو آدمی بھاگتا ہے۔

یثرب ”مدینہٴ طیبہ“ کیوں کر بنا؟

             یثرب جو ماقبل ہجرت ایک ایسی جگہ تھی جہاں لوگ جانا پسند نہیں کرتے تھے؛ لیکن بعد میں یثرب مدینہٴ طیبہ بن گیا، یثرب مدینہ طیبہ کیوں کر بنا؟ببرکةِ ہِجرةِ رَسولِ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی برکت سے یثرب مدینہٴ طیبہ بن گیا ۔ تو اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حضرات صحابہ میں سے کسی کی بھی نیت دنیا کمانے کی نہیں تھی؛ بل کہ حضرات صحابہ نے خالصةً لوجہ اللہ ہجرت کی تھی۔ صرف ایک صحابی نے نکاح کی نیت سے ہجرت کی،جس کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”إنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ فرمایا، اور ہمیں اس عظیم حدیث اور دینی اصل کا علم ہوا۔

”الأعمال“کی تعریف:

            ”إنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ “ میں لفظ” الأعمال“ استعمال ہوا ہے، اعمال یہ عمل کی جمع ہے، جس کی علماء کرام نے دو تعریفیں کی ہیں۔

پہلی تعریف: امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں: عمل کہتے ہیں کسی شخص کا قصد وارادے سے کسی کام کو انجام دینا۔ الْعَمَلُ کُلُّ فِعْلٍ یَکُوْنُ مِنَ الْحَیْوَانِ بِقَصْدٍ․ کسی شخص کا کسی کام کو اپنے ارادے سے کرنا اسے عمل کہا جاتاہے۔ (مفردات غریب القرآن، ص: ۳۴۸)

دوسری تعریف: بعض حضرات نے یہ تعریف کی ہے:کسی عمل کو ارادے سے انجام دینا، چاہے وہ قلب سے ہو چاہے وہ جوارح سے ہو۔ جوارح سے کسی کام کے کرنے پراعمال کثیر الاستعمال ہیں۔مطلب دل سے تو کام کیا نہیں جاتاہے،دل سے تو سوچا جاتاہے۔تو بعض حضرات نے دل سے کسی کام کے سوچنے کو بھی عمل کہا۔

 (عمدة القاری:۳۵)

حدیثِ پاک میں اعمال سے کونسے اعمال مرادہیں:

            اب یہاں پر حدیث مبارکہ میں لفظ اعمال سے کونسے اعمال مراد ہیں؟ اس سلسلہ میں دو قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ یہاں” الأعمال“ سے مراد اعمالِ شرعیہ ہیں۔یعنی اعمال شرعیہ میں نیت کا ہونا ضروری ہے؛ البتہ جمہور کا یہ کہنا ہے کہ نہیں اعمال سے مراد یہا ں پر عام اعمالِ عامہ ّ ہیں، چاہے ان کا تعلق شریعت سے ہو یا نہ ہو، انسان کے ہر عمل میں اس کی نیت کو دخل ہوتاہے۔خواہ وہ دنیوی کام ہی ہو، نیت اچھی اور دینی ہے، تواس دنیوی کام میں بھی اس شخص کو عبادت کا ثواب ملتا ہے۔

انسان امورِ مباح میں کیا نیت کرے؟

             فقہاء اور علماء کہتے ہیں کہ انسان جو بھی عمل کرے ،اس میں نیت درست ہونی چاہیے۔ جیسے کھاتے وقت یہ نیت کرے،کہ میں اس لیے کھار ہا ہوں کہ کھانے سے میرے اندر طاقت پیدا ہو گی،اور اس طاقت کی وجہ سے میں پڑھ سکوں گا، میں اللہ کی عبادت کر سکوں گا،دین کی خدمت کر سکوں گا تو اس نیت کی وجہ سے اس کا کھانا بھی عبادت بن جائے گا۔ حالاں کہ کھانا کوئی شرعی عمل نہیں ہے؛ بل کہ ہر انسان یہ عمل کرتاہے ، ہاں مگر! جب اس میں اچھی نیت کرلی ، تو ایک عام عمل بھی عبادت بن جاتا ہے۔

سونا بھی عبادت:

            آدمی جلدی سو گیا، اس نیت سے کہ صبح اٹھ کر تہجد پڑھو گا، تو اس کا یہ سونا بھی عبادت بن گیا۔ اسی لیے جمہور محدثین فرماتے ہیں کسی بھی عمل کے وقت کوئی بھی عمل کرتے وقت نیت کا استحضار ضروری ہے تاکہ اعمال عادیہ کو بھی نیت دینیہ کے ذریعہ عادت بنا لیا جائے۔

شاہ عبد العزیز  پر دو لوگوں کی کیفیت قلبی کا عجیب وغریب واقعہ:

            شاہ عبد العزیز رحمة اللہ علیہ کے بارے میں آتاہے، کہ ا للہ رب العزت نے آپ کو یہ ملکہ عطا کیا تھا کہ قلب کی کیفیت آپ پر ظاہر ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ آپ حج کے لیے تشریف لے گئے ، وہاں آپ نے ایک آدمی کو دیکھاکہ وہ بیت اللہ میں باب کعبہ سے چمٹ کر رو رہا ہے،آپ نے اس کے قلب پر توجہ کی۔ تو آپ کو استعجاب اور تعجب ہوا، آپ کے ہمراہ مریدین، خادمین ، طلباء بھی تھے،پھر آپ طواف کرکے واپس نکلے تو مکہ کے بازار میں ایک آدمی پر نظر پڑی جس کی دوکان پر بڑی بھیڑ تھی ، آپ تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہوگئے اور پھر تعجب کرنے لگے۔تو آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت آپ نے کھڑے ہوکر دو جگہ استعجاب کیا، اس کا کیا مطلب؟

            آپ نے کہا کہ مجھے عجیب وغریب قسم کا انکشاف ہوا۔کہا: میں نے پہلے آدمی کو دیکھا کہ وہ کعبة اللہ سے چمٹ کر رورہا ہے، دعائیں کر رہا ہے، مگر جب میں نے اس کے قلب پر توجہ کی تو دیکھا کہ اس کا قلب غافل ہے۔اور اس دوسرے آدمی کو میں نے دیکھا کہ وہ بازار میں ہے،بھیڑ لگی ہوئی ہے وہ تجارت کر رہا ہے،مگر اس کا قلب ذکر اللہ میں مشغول ہے؛ اسی لیے بعض حضرات نے کہا کہ قلب کا عمل یہ بھی عمل ہے، صرف اعضاء و جوارح سے عمل نہیں ہوتاہے؛بل کہ قلب سے بھی عمل ہوتاہے۔ اسی لیے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:” تَنَاْمُ عَیْنِیْ وَلَا یَنَاْمُ قَلْبِیْ۔( صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: ۳۰۲۸، ۴/۴۹)

            کہ میری آنکھیں تو سوجاتی ہیں، مگر میرا دل نہیں سوتا۔حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کی زندگی کا کوئی لمحہ ذکر اللہ سے غافل نہیں ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ جب وہ سوتے ہیں تو ان کی آنکھیں سوجاتی ہیں، مگر ان کا دل ذکر اللہ میں مشغول ہوتاہے۔

             بہر حال ان باتوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ حدیث میں اعمال سے اعمالِ عامہّ مراد ہیں،اب اس صورت میں ایک سوال پیدا ہو گا کہ کیا اعمال میں، صرف اعمال مسلمین شامل ہیں یا پھر اعمال ِکفار بھی شامل ہیں؟۔

کیا اعمال میں مسلمان اور کفار دونوں شامل ہیں؟

            سوال یہ ہوتا ہے کہ جب ”الأعمال“ سے اعمال عامہ مراد ہیں تو کیا اس میں مسلمان اور کفار دونوں کے اعمال شامل ہوں گے ؟

            تواس سلسلے میں احناف اور محدثین کی بڑی جماعت کا مذہب ہے کہ اس میں صرف اعمال مسلم شامل ہیں نہ کہ اعمال کفار۔

 ایسا کیوں؟

             اس لیے کہ جب کافر نے کلمہ نہیں پڑھا، اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت نہیں کی، تو حکمِ شرعی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا، جب حکم شرعی اس کی طرف متوجہ نہیں ہواتو وہ اعمال کا مکلف بھی نہیں ہوا۔

کافروں کو آخرت میں سزا کس بات پر ہوگی؟

             کافروں کو آخرت میں سزا ان کے کفر کی وجہ سے ہوگی، ان کے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوگی۔ مسلمان نماز چھوڑے گا تو نماز چھوڑنے پر اس کو سزا ہوگی،مگر کافر کو سزا کفر وشرک پر ہوگی۔اس لیے کہ کفر وشرک ا ورالحاد یہ قبیح لعینہ ہیں،جس کی قباحت کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے کہ منعم کی ناشکری کسی اعتبار سے جائز نہیں ہے ،اسی وجہ سے یہ اتنے بڑے گناہ ہیں کہ ان کی سزا ختم نہیں ہو گی۔ چہ جائے کہ ان کفار کو اعمال کا مکلف مانا جائے اور اس کی بھی سزا دی جائے۔

شافعیہ کا مذہب:

            امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر بعض محدثین کا کہنا یہ ہے کہ اعمال میں سب کے اعمال داخل ہیں۔چاہے اعمالِ کفار ہوں یا اعمالِ مسلم ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ خطابِ شرعی جیسے ہر نماز کے وقت مسلمان کی طرف متوجہ ہوتاہے،ایسے ہی کافر، مشرک اور غیر مسلم کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے، تووہ بھی اس کے مکلف ہوئے؛ لہذا اس کو آخرت میں دگنی سزا ہوگی، ایک تو کفر وشرک کی وجہ سے ا ور دوسرے ان عبادتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے، جن کاشریعت نے ان کو مکلف کیا تھا،تو دونوں کی سزا ان کو ملے گی۔

معمولی عمل بھی باعث خیر ہے:

            ایک مشہور واقعہ ہے :ایک آدمی کا انتقال ہوا اس نے اپنے پیچھے بیٹی چھوڑی،اس بیٹی کی اس کے بعد صحیح تربیت نہ ہوسکی تو بیٹی اوباش اور آوارہ ہوگئی۔جب اس آدمی کا انتقال ہوا تو اس کے ایک بزرگ دوست نے اسے خواب میں دیکھا کہ قبر میں اس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ اور دیگر لوگوں کی حالت ٹھیک ٹھاک ہے،لیکن اس کی حالت اچھی نہیں ،تو آپ نے دریافت کیااس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس نے کہا :کہ ان لوگوں کو ایصال ثواب کرنے والے لوگ موجود ہیں اور مجھے کوئی ایصالِ ثواب کرنے والا نہیں۔

بزرگ نے فرمایا: کہ آپ کی بیٹی تو ہے۔

 شخص نے کہا:بیٹی تو ہے مگر وہ کبھی ایصالِ ثواب نہیں کرتی۔

             تو یہ بزرگ اسے ڈھونڈنے نکلے؛ تا کہ اس سے مل کر کہہ سکیں: کہ آپ کے والد کو آپ کی طرف سے ایصال ثواب کی ضرورت ہے؛ آپ بھی ان کے لیے کچھ صدقہ ، خیرات یا کچھ نہ کچھ پڑھ کر بخشا کریں۔ تو اس تلاش کے دوران پتہ چلا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح پر ہے آپ نے تلاش جاری رکھی تو اسے ایک ندی کنارے پاکراس سے اپنا خواب سنایا اور کہا کہ آپ کو اپنے والد کے لیے صدقہ، خیرات کرنا چاہیے۔یہ سن کر اس عورت نے چلو بھر پانی بھرا اور اس کو اٹھاکر خشک زمین پر پھینک دیااور کہا: کہ یہ میں نے اپنے باپ کے لیے صدقہ کر دیا۔اس عمل سے بزرگ کو مزیدتکلیف ہوئی ،لیکن دوسرے دن پھر انہوں نے خواب دیکھا کہ اس آدمی کی حالت بہت اچھی ہے۔

            شخص نے کہا :کہ آپ کے کہنے پر اس نے جو چلو بھر پانی صدقہ کیا اس کی وجہ سے میری حالت میں سدھار آیا ہے ۔

             بزرگ نے کہا: کہ اس نے تو کچھ صدقہ نہیں کیا، ایسے ہی پانی اٹھاکر پھینک دیا۔

            شخص نے کہا :کہ ایک چھوٹا سا کیڑا بہت دنوں سے وہاں پیاسا بیٹھا ہوا تھا،اتفاق سے وہ پانی اس کے منہ میں چلا گیا، تو اللہ کو اس کا یہ صدقہ پسند آگیا اور اس کے بدلے مجھے راحت میسر آئی۔

            تو یہ چھوٹا سا عمل ہے اس کی نیت کا بھی پتہ نہیں۔ واللہ اعلم بحقیقة الحال۔

            لیکن ہو سکتاہے اس کی نیت درست ہو۔ دیکھنے والے نے یہ دیکھا کہ اس نے صدقہ کا مذاق کیا ہے، لیکن ہو سکتا ہے اس کے پاس کچھ نہ ہواوراس نے سوچا کہ کم سے کم پانی ہی صدقہ کر دیا جائے۔ جب یہ معمولی سا عمل مرے ہوئے انسان کو فائدہ پہنچا سکتاہے، تو عمل کے وقت استحضار نیت زندہ انسان کو کس قدر فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

نیت کا فائدہ:

            علمافرماتے ہیں کہ نیت کو نواة سے لیا گیا ہے۔کہ آپ گٹھلی کو معمولی سمجھتے ہیں، مگر وہ گٹھلی کھجور کے بڑے درخت کو اُگاتی ہے، اور دسیوں سال تک اس پر کھجورآتے رہتے ہیں۔کہا :اسی طریقہ سے اگر معمولی نیت سے بھی تم کوئی چھوٹا عمل کروگے، اور وہ اللہ کو پسند آگیا توہو سکتا ہے یہ معمولی نیت آخرت میں نجات کا باعث بن جائے۔

            جیسے حدیث پاک میں وہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بدکار عورت تھی، اس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا، اور یہی عمل اس کے لیے باعثِ نجات بن گیا۔تو یہ سب کمال نیت کا ہے۔ ( صحیح البخاری، رقم الحدیث: ۳۴۶۷)

نیت ایک ثواب اَنیک(کئ ایک):

             انسان رات سوتے وقت دو رکعات نماز پڑھتا ہے اور اس میں مختلف نیتیں کرتا ہے، مثلا: اللہ یہ دو رکعات ہیں تونے دن بھر جو نعمتیں دیں، اس کے شکر کے طور پراور اسی طرح مجھ سے دن میں جتنے بھی گناہ سرزد ہوئے ،ان گناہوں سے توبہ واستغفار کے لیے، تو یہ دو رکعت صلوة التوبہ کی طرف سے بھی کافی ہو جائے گی اور صلوة الشکر کے طرف سے بھی ۔ مزید یہ کہ اگر بندہ ان دو رکعت میں صلوة الحاجہ کی نیت کر لے، یا یہ نیت کر لے کہ اے اللہ میں تہجد کے لیے اٹھنا چاہتاہوں، لیکن اگر آنکھ نہ کھلے تو یہی دو رکعت تہجد بن جائے،تو وہ دو رکعت تہجد بن جائے گی۔ اس نے اسی میں نیت کی فلاں فلاں کام کا ا ستخارہ تو وہی دو رکعت استخارہ بن گئی۔بندہ جتنی نیت کرے گا اتنا ہی ثواب اس بندہ کو ملتا چلا جائے گا۔

            نوافل میں امام نُجیم نے مستقل طور پر اپنی کتاب”الاشباہ والنظائر “ جو افتاء میں پڑھائی جاتی ہے، اس میں مستقل اس پر کلام کیا ہے۔کہ احناف کے یہاں فرض نماز میں تعددِ نیت درست نہیں ہے،مگر نفل نماز میں تعددِ نیت درست ہے۔ فرض نماز کسی نے پڑھی اور اس میں نیت کرے کل کے قضا نماز کی، تو اس طرح نیت کرنا درست نہیں ہے۔ تداخل نیت فرائض میں جائز نہیں ہے۔ہاں تداخلِ نیت نوافل میں جائز ہے۔

( الاشباہ والنظائر:۳۴، القاعدة الثانیة: الأمور بمقاصدہا، حاشیة الطحطاوی: ۱/۲۱۶، دار الکتب العلمیة)

ایک نفل میں متعدد نیت:

            اسی طرح اگر کوئی بندہ ایک نفل میں متعدد نوافل کی نیت کر لے، تو اللہ تبارک وتعالی اس بندہ کو تمام نیت کی عبادت کا ثواب عطا کریں گے، وخزائنہ لا تنفد،اللہ کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ایسے ہی کوئی آدمی تحیة الوضو کاپابند ہو،کسی دن مسجد آیا تو دیکھا کہ جماعت میں تین چار منٹ ہی بچے ہیں، تحیة الوضو پڑھوں گا تو سنت نہیں پڑھ سکوں گا،تو سنت ہی میں تحیة المسجد اور تحیة الوضو کی بھی نیت کر لی، تو تینوں نمازوں کا ثواب مل جائے گا۔

سوال پیدا ہوا کہ ایسا کیسے ہو سکتاہے ؟

 جواب: اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں؟ اللہ کو ہم انسانوں کی طرح اجر دینے کے لیے کوئی فیکٹری نہیں بنانی پڑتی ہے کہ فیکٹری میں آپ کے لیے ثواب بنائے اور پھر دے ۔اِنَّمَآ اَمْرُہ اذَا اَرادَ شَیئًا اَنْ یَقولَ لَہُ کُن فَیَکُوْنُ۔

(یٰس:۸۴)

            وہ کسی بھی چیز کو کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔

ادنیٰ جنتی کے جنت کی مقدار کیا ہوگی:

             حدیث میں آتاہے: کہ سب سے ادنی جنتی کو اس دنیا کے برابر جنت دی جائے گی؛بل کہ اس دنیا کے دس گنا برابر جنت دی جائے گی۔

 (صحیح بخاری ومسلم)

اللہ کے خزانہ میں کمی نہیں:

            اللہ کے خزانہ میں کوئی کمی نہیں ۔ اس کا دارومدار تو انسان کے کمال پرہے کہ وہ اللہ کے خزانے سے کتنے اعمال کو اپنے اعمال نامے میں کھینچ پاتاہے۔ اور یہ سب نیت کا کھیل ہے۔ انسان بے شمار ثواب کما سکتا ہے، صرف اپنی نیتوں کا استحضار کرے اور درست نیت کرنا شروع کردے۔

کام ایک نیت دس:

            ایک کام کرے اور اس میں دسیوں نیت کرے، ان دسیوں نیت کے اجر وثواب اس کو ملتے رہیں گے۔جیسے ایک طالب علم یہ نیت کرے کہ پڑھنے کے بعد میں خود عمل کرسکوں، اس کا ثواب ملے گا۔یہ نیت کرے کہ پڑھنے کے بعد جو کچھ سیکھوں دوسروں تک بھی پہنچاوٴں گا، تو دوسروں کو دعوت دینا کا بھی ثواب ملے گا۔یہ نیت کرے کہ میں پڑھ کر نیک وصالح بنوں گا، س کی برکت سے میری اولاد اور میری ذریت بھی نیک وصالح ہوگی؛تو اس کا بھی اجر وثواب ملے گا، یہ نیت کرے کہ میرا مقصد تو تجھے راضی کرناہے، تجھے راضی کرنے کے لیے میں پڑھ رہا ہوں،تو اس کا ثواب بھی ملے گا۔

             یہ ساری چیزیں بندے پر ہیں کہ وہ نیت کر کے اللہ سے کتنی نیتوں کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ تو بندہ جتنی نیتیں کرتا چلا جائے گا، اتنا ثواب اس کے اعمال نامے میں کھینچتا چلا آئے گا۔ اور یہ سب اللہ کے یہاں ایک آٹو میٹک سسٹم ہے، جب انسان آٹومیٹک مشین بنا سکتاہے، تو کیا اللہ کے لیے اپنے نظام کو آٹو میٹک بنانا کوئی مشکل کام ہے؟ ہر گز نہیں!

            اس بنا پر امام بخاری نے اس حدیث کو اتنی اہمیت کے ساتھ اپنی کتاب میں جگہ دی۔اور اسی لیے حدیث کے ایک ایک جزو کو الگ الگ کرکے بیان کیا جارہا ہے۔

انسانوں پر نعمت خدا وندی:

            ایک سوال ہوتا ہے کہ چرند پرند یہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پھر طوطے کو اللہ سکھایا جاتا ہے، وہ اس کو کہتا ہے، حالاں کہ چرند پرند اس کو نہیں سمجھتے ہیں، ایسا کیوں؟طوطا کیا کوئی بھی پرند، چرند پرند سمجھنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اتنا ہی جتنا اللہ نے ان کو سکھایا ہے۔

وستان کا واقعہ:

            میں ایک دفعہ دلی جارہا تھا، تو ائیر پورٹ جاتے ہوئے ہمارے گاوٴں وستان گیا( قریة صغیرة صغیرة جدا)یہ سورت ضلع میں بہت ہی چھوٹا سا گاؤں ہے، مسلمانوں کے یہاں سات آٹھ مکانات ہیں۔ اور کچھ ان کے یہاں کام کرنے والوں کے مکانات ہیں۔ ہمارے گھر کے دروازے پر ہی کھجور کا درخت لگا ہوا ہے،اس کھجور کے درخت پر چڑیاں خوبصورت گھونسلے بناتی ہے،تو میں نے دیکھا کہ پورے کھجور کے درخت پر گھونسلے بناکر چڑیا رہ رہی ہے،مجھے یہ منظر بڑا اچھا لگا، بہت دیر تک کھڑے کھڑے میں اس کو دیکھتا رہا،کہ اللہ نے اس کو یہ گھونسلا بناناسکھایاہے، اس گھونسلے میں اس کا بیڈروم، کچن، اسٹاک روم بھی ہوتاہے۔ آج کی سائنس نے جب اس پر ریسرچ کیا تو کہا کہ اس میں اس کا اسٹاک روم بھی ہوتاہے، جس میں کھانے پینے کی چیزیں لاکر وہ اسٹاک کرتی ہے۔سائنسداں کہتے ہیں کہ وہ اتنی اچھیArchitecting فن معماری کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا گھونسلہ بناتی ہے کہ ہمارا اچھاسے اچھا Architect بھی اس کے سامنے فیل ہو جاتا ہے۔اللہ اس کو ریڈی میڈ پیدائشی فطری طور پر ہی سکھا دیتاہے۔ اس کوفن معماری سیکھنے کے لیے کسی آرکیٹک (Architect)کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔

آواز کیسے نکلتی ہے؟

            بہر حال جو چیز بولی جاتی ہے اس میں کمال ہے سمجھ میں آنا۔پھیپھڑے سے جو آواز نکلتی ہے وہ ہمارے گلے کے تاروں کو حرکت دیتی ہے،حرکت دینے سے اس میں ایک قسم کی مخصوص آواز پیدا ہوتی ہے،پھر جب وہ مخارج کی جگہ سے ٹکراتی ہے تو مخارج نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ اس میں ایک آواز کو دخل ہے اوردوسرا زبان کو۔ طوطے کی زبان انسان کے زبان کے مشابہ ہوتی ہے؛اسی لیے وہ انسان کی طرح بولنا سیکھ جاتاہے،لیکن دوسرے پرندے انسان کی طرح بولنا نہیں سیکھتے۔ طوطا بولنا تو سیکھ جاتاہے، مگر اس کو یہ نہیں معلوم ہوتاہے کہ”اللہ“ کا معنی کیا ہے ؟وہ کس عظیم ذات کا نام ہے ،اس کے ساتھ ہمارے کیا عقیدے وابستہ ہیں ۔اللہ نے اس کو اتنی سمجھ نہیں دی ہے تو وہ اس کا مکلف بھی نہیں ہے۔ اللہ اگر ان چھوٹی چھوٹی مخلوقات کو بھی انسان کی طرح سمجھ دے دیتا تو انسان کے لیے دنیا میں رہنا مشکل ہو جاتا۔یہ اللہ کا نظام ہے۔ اللہ نے ان کو محدود سمجھ دی ہے، اور اتنی ہی سمجھ دی جتنی سمجھ کی ان کو ضرورت ہے،ان کوبس اتنی ضرورت ہے کہ جب کھاتے ہیں تو ناک سے سونگھ کر سمجھ جاتے ہیں، کہ یہ چیز میں کھا سکتا ہوں یا نہیں ؟اور یہ اچھا ہے۔

 تابع کا کمزور ہونا اور متبوع کا قوی ہونا ضروری ہے:

             اللہ نے ان سب کوانسان کے تابع بنایا ہے۔اور تابع کا کمزور ہونا اور متبوع کا قوی ہونا ضروری ہے۔جیسے انجن میں طاقت ہوتی ہے، اس کے پیچھے ڈبے ہوتے ہیں، اگر ڈبوں میں بھی انجن جیسی طاقت دے دی جائے تو گاڑی کا اپنے اسٹیشن پر پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی طرح اللہ نے حضرت انسان کو انجن بنایا ہے اور دیگر مخلوقات کو ڈبے کی طرح جوڑ دیا ہے؛اسی لیے آج تک اللہ کی مخلوقات میں سے کسی نے اتنی ترقی نہیں کی جتنی انسانوں نے کی ہے۔

چاند پر زمین کی خرید و فروخت:

            انسان ترقی کرکے نہ صرف چاند پر پہنچا ،بل کہ وہاں زمینوں کی خرید وفروخت ہونے لگی ہے۔لیکن چاند پر انسان کے لیے رہنا دشوار ہے،اس لیے کہ چاند پر آکسیجن نہیں ہے۔انسان کو وہاں چلنے کے لیے سہارا لینا پڑے گا، وہ ہوا میں معلق جیسا رہے گا،زمین سے لگا نہیں رہے گا؛ کیوں کہ وہاں آکسیجن نہیں ہے ، سانس لینے کے لیے آکسیجن کے سلنڈر لگانے پڑیں گے،جو وہاں زمین خریدیں گے وہ سب سے بڑے بیوقوف ہیں؛اس لیے کہ جہاں پر اتنی مشکل زندگی ہے وہاں رہ کر انسان کیا کرے گا؟ وہاں انسان کیسے لطف اندوز ہوگا، جہاں سانس بھی نہیں لے سکتا۔ اللہ نے اتنی خوبصورت دنیا بنائی،اگر لطف اندوزی کرنا ہی ہے تو کسی پہاڑ یا سمندر کے کنارے پر چلا جائے۔چاند کواللہ نے انجوائے اور سیر وتفریح کی جگہ سے متعارف نہیں کروایا؛ بل کہ اللہ نے ”حسبان“ بنایا ہے۔ تاریخ اور مہینوں کے حساب کے لیے بنایا ہے۔

اعمال سے اعمالِ اخروی مراد ہیں، یا اعمال دنیوی؟

             الاعمال سے کون سے اعمال مراد ہیں؟ اعمالِ اخروی مراد ہیں، یا اعمالِ دنیوی؟ تو اس سلسلہ میں متقدمین ومتاخرین کا اختلاف پایا جاتاہے۔ متاخرین کے نزدیک اعمال سے مراد اعمالِ شرعیہ ہیں۔اور متقدمین کے نزدیک اعمال سے مطلق اعمالِ مراد ہیں۔یعنی چاہے وہ شریعت سے تعلق رکھتے ہوں یا شریعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔ہرقسم کا عمل ”إنَّمّا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ میں شامل ہے،تو متقدمین ومتاخرین میں اختلاف عموم وخصوص کا ہے۔متقدمین اسے عموم پر محمول کرتے ہیں اور متاخرین خصوص پر محمول کرتے ہیں۔اب رجحان کس جانب ہے؟ تو ا س سلسلہ میں بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس کو اعمالِ شرعیہ پر محمول کرنا راجح ہونا چاہیے یعنی متاخرین کا مسلک راجح معلوم ہوتا ہے۔اور بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اسے خصوص پر محمول کرنے کے بجائے عموم پر محمول کیا جائے۔ اس کے راجح ہونے کے سلسلہ میں بھی اختلاف ہے۔

            اس سلسلہ میں یہ کہا جا سکتاہے کہ حضراتِ فقہاء کے یہاں اس سے مراد اعمالِ شرعیہ لیے جائیں گے۔اور حضرات ِمحدثین کے یہاں اعمالِ عامہ مراد لیے جائیں گے۔اس لیے کہ حضرات فقہا جن اعمال کا تعلق جوارح سے ہے، ان سے بحث کرتے ہیں؛ لہذا ان کے بحث اور ان کے موضوع کے اعتبار سے اعمالِ شرعیہ ہی مرا د ہوں گے۔اور حضرات محدثین پوری شریعت سے بحث کرتے ہیں؛اس لیے انہوں نے اعمالِ عامہ کو مراد لیا ہے؛ لہذا محدثین کے اعتبار سے راجح قول اعمالِ عامہ کو ہوگا۔

نیت کے اعتبار سے انسانوں کے مراتب:

            حدیث پاک میں ” النِّیَّاتِ“ کو جمع استعمال کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت کے اعتبار سے انسان کے مختلف درجات اور مختلف مراتب ہیں۔ علماء نے نیت کے اعتبار سے انسان کی تین قسم کی ہیں:

 پہلا:ایک انسان عبادت کرتاہے؛ تاکہ اسے جنت مل جائے،اس کو” عبادة الحریص“ کہا جاتاہے۔

دوسرا : بندہ اس لیے عبادت کرتاہے؛ تاکہ جہنم سے بچ جائے۔جہنم سے خلاصی اور عذابِ جہنم سے اسے بچایا جا سکے اس کوعبادة الواقی کہا جاسکتا ہے۔

 تیسرا: بندہ اس لیے عبادت کرتاہے، تاکہ اللہ راضی ہو جائے، اسے عبادة العبادة کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقی معنی میں عبادت کرنے والاہے۔

نیت کو جمع ”النیاّت“ ذکر کرنے کی حکمت:

             محدثین فرماتے ہیں چوں کہ نیت کے اعتبار سے انسان کے مختلف درجات ہیں۔ان ہی درجات کی طرف نشان دہی کرنے کے لیے حدیث مبارک میں نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بجائے واحد لانے کے جمع لایا ہے۔

نیت میں دنیوی اعتبار سے تنوع:

            اسی طرح سے محدثین فرماتے ہیں کہ نیت میں جہاں اخروی اعتبار سے تنوع ہوتاہے،اسی طریقہ سے دنیوی اعتبار سے بھی تنوع ہوتاہے۔ کہ انسان ایک عبادت میں متعدد نیتیں کرکے، اس ایک عبادت سے متعدد ثواب حاصل کرسکتا ہے؛لہذا اس بنا پر نیت کو جمع لایا گیا کہ بندوں کے لیے اللہ نے آسانی کر دی؛ کہ تم نیت کرتے چلے جاوٴ جتنی نیت کرو گے اتنا زیادہ ثواب ،اللہ کی طرف سے ملتا چلا جائے گا۔

قلب کی مختلف کیفیت وحالت:

            قلب کی کیفیت وحالت کے لیے عربی زبان میں مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جیسے: ”الھمُّ‘ العزم‘ الہاجس‘ حدیث النفس‘الارادة“۔ یہ وہ الفاظ ہیں، جو قلب کے حالات کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور نیت کے مترادفات میں سے ہیں؛البتہ ان کے درمیان معمولی فرق ہے۔

ارادہ اور نیت میں فرق:

            علامہ انور شاہ کشمیری  نے اس کی بڑی اچھی توجیہ بیان کی ہے، فرماتے ہیں ارادہ اور نیت ان دونوں میں ایک باریک اور لطیف فرق یہ ہے کہ ارادے کا لفظ اغراض اور غرض کے ساتھ خاص نہیں ہے یعنی ارادے کا لفظ بولا جاتا ہے تو بولنے والے کے پیش نظر کوئی غرض نہیں ہوتی ہے؛ بل کہ یہ عام لفظ ہے۔ اور نیت” ارادة القلب“ کو کہتے ہیں، اس کے ساتھ بولنے یا نیت کرنے والے کی کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے۔

            علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض ا لباری میں فرمایا:کہ اسی لیے” نوی اللہ “بولنا درست نہیں ہے۔”اراد اللہ“ بولنا درست ہے۔ اللہ کے لیے نیت کے لفظ کا استعمال درست نہیں ہے،اللہ کے لیے ارادے کے لفظ کا استعمال درست ہے؛کیوں کہ انسان عمل کرتاہے، تو اس سے انسان کی اپنی کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہو تی ہے؛جیسے کوئی جنت کے حصول کے لیے عمل کررہا ہے، کوئی جہنم سے بچنے کے لیے عمل کررہا ہے،کوئی اللہ کو راضی رکھنے اور کرنے کے لیے عمل کررہا ہے،مگر اللہ کا کوئی بھی کام اپنی غرض سے نہیں ہے۔اللہ نے دنیا اس لیے نہیں بنائی کہ اللہ رب العزت کو اپنی عبادت کروانی تھی،یہ دنیا بھی انسان اور مخلوق کے لیے ہے۔اللہ کی اپنی کوئی غرض اس سے وابستہ نہیں ہے۔( فیض الباری: ۱/۸۱)إنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ۔ اللہ بے نیاز ہے۔(لقمان:۲۶)

             اللہ کی ذات بے نیاز ہے،اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں :قرآن وحدیث کے پورے ذخیرے میں کہیں ایک جگہ پر بھی اللہ کے لیے نیت اور نوی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیاہے۔ہاں ارادہ کا لفظ اللہ تعالی کے لیے استعمال کیا گیاہے۔تو یہ فرق ہوا ارادہ اور نیت میں۔

 ”ہاجس“ کس کیفیت کو کہتے ہیں؟

            دوسرا لفظ آتاہے ”ہاجس“،اس کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، امام ابن نجیم نے(الاشباہ والنظائر) میں ، اور وہیں سے بقیہ لوگوں نے لیا ہے۔

             امام ابن نجیم نے لکھا ہے کہ انسان کے دل میں کسی چیز کے کرنے کا ابتدائی مرحلہ ”ہاجس“ کہلاتا ہے ،یہ اتنی کم مدت کے لیے آتاہے کہ انسان کو خود پتہ نہیں چلتا ؛ جیسے انسان سبق میں بیٹھا ہے، اور سبق میں بیٹھے بیٹھے کھانا کا ارادہ ہوا؛کہ خوشبو آرہی ہے تو اب اس کا دماغ ادھر جانا شروع ہوااور ادھر گیا، لیکن فورا دوسرے ہی مرحلہ میں وہ سبق میں واپس آگیا۔زیادہ دیر ٹکا نہیں، تواس کو ہاجس کہیں گے۔ گویا ارادے کا مرور ہوا۔

 ” ہم“ کس کیفیت کا نام ہے؟

            پھر دوسرے نمبر پر ” ہمّ“ آتاہے۔ انسان نے کسی چیز کے بارے میں سوچا،اور سوچنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے وہ چیز اس کے دل میں ٹھہری۔اور روک کر اس پر اس نے سوچا،تو اسے ”الہم“ کہا جائے گا۔

” حدیث النفس“ کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟

            تیسرے نمبر پر جو لفظ استعمال کیا جاتاہے وہ ہے ” حدیث النفس“، یعنی انسا ن کے دل میں کسی چیز کا ارادہ آیا، وہ ٹھہرا اور ٹھہرنے کے بعد انسان اس کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔تویہ سوچنا ہی ”حدیث النفس“ ہے۔اس کا معنی نفس کے ساتھ بات کرنا ہے۔

 ”العزم“ کس حالت کی نمائندگی کرتا ہے؟

            اور اخیر میں آتاہے ”العزم“ کہ انسان کا میلان جب کسی ایک جانب ہوجائے، تو کسی ایک طرف میلان کا ہوجانا یہ عزم ہے۔فرماتے ہیں کہ نیت کے لیے یہ لفظ بالکل اخیر میں آتاہے،جب انسان کسی کام کو کر گزرنے کے لیے تیار ہو جاتاہے۔

ترتیب:

            (’ہاجس ‘خیال آیا اور گیا،’ہم ‘آیا اور تھوڑی دیر ٹھہرکر گیا،’حدیث النفس ‘رکا کچھ غور وفکر ہوا پھر گیا اور اخیر میں’ عزم ‘ آیا اور ایک سوچ طے ہوئی اور وہ رک گئ)۔ اس ترتیب کی روشنی میں دیکھیں تو انسان کا نفس کسی چیز کے بارے میں گفتگو کرتاہے، گفتگو کرنے کے بعد اس کا میلان ہو جاتاہے؛اور میلان ہوجانے کے بعد اب وہ اس کو کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتاہے ،اس کی آمادگی یہی نیت ہے۔ ہمارے علما نییہ جتنے بھی فروق بیان کیے ہیں؛ان فروق سے گزرنے میں بعضے مرتبہ انسان کو ایک سیکنڈ سے بھی کم مرحلہ لگتاہے۔اور اگر انسان آہستہ آہستہ سوچتا ہے تو اس میں کچھ مدت لگتی ہے۔

 (الأشباہ والنظائر لابن نجیم: ۴۲، قاعدة: الأمور بمقاصدہا)

(جاری…………)