مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
سوال: میں گلاب نبی شیخ مودو، آپ سے اس بات کا فتوی چاہتا ہوں کہ میں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا پیسہ کھیت کی خریداری میں لگایا، بعدہ اس کھیت کو ۲۰۰۸ء میں ۹۷/ لاکھ روپیے میں فروخت کیا۔ اور اس میں سے اپنی دونوں بیٹیوں(حافظہ، امرین)کو ۳۵/ لاکھ کا مکان اور پلاٹ خرید کردیا اور انہیں مکمل قبضہ بھی دے دیا، اور بقیہ رقم اپنے چھوٹے بیٹے شیخ فیروز کو بغرض تجارت اپنی ملکیت باقی رکھتے ہوئے اس شرط کے ساتھ دیا کہ منافع گھر کے اخراجات پر صرف ہوں گے۔ اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ آیا بیٹیوں کو دیا ہوا ہدیہ شرعاً صحیح ہوا یا نہیں، اور ان دو بیٹیوں کے علاوہ میرے دو بیٹے (شیخ فاروق، شیخ فیروز) ہیں ، اور میری بیوی بھی بقید حیات ہے، تو اب میں اس بقیہ رقم کو میرے دونوں بیٹوں اور ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان کس طرح تقسیم کروں؟ شرعی راہ نمائی فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
آپ نے اپنی دونوں بیٹیوں کو مکان اور پلاٹ ہبہ دے کر انہیں مکمل قبضہ بھی دے دیاہے، تو شرعاً یہ ہبہ مکمل ہوگیا۔ (۱) اور وہ دونوں اس کی مالک ہوگئیں۔(۲)
آپ جب تک حیات ہیں، اپنی ملکیت کے تنِ تنہا مالک ومختار ہیں، البتہ آپ اسے اپنی حیات ہی میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تو اولاً اس میں سے اپنے لیے اپنی ضرورت کے بقدر الگ کرلیں، اور اپنی بیوی کو بھی ضرورت کے بقدر دے دیں(۳) پھر دونوں لڑکیوں میں سے ہر لڑکی کو جس قدر مکان اور پلاٹ دیا ہے، اسی کے بقدر ہر لڑکے کو دے دیں۔ پھر بقیہ رقم دونوں بیٹیوں اور دونوں بیٹوں کے درمیان برابر سرابر تقسیم کردیں۔ کیوں کہ زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد وملکیت کی تقسیم ہبہ وبخشش ہے، اور ہبہ و بخشش میں اولاد کے درمیان خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی برابری کرنا مستحب ہے،(۴) بلا عذر کسی کو زیادہ اور کسی کو کم دینا گناہ ہے۔ ہاں اگر کوئی زیادہ ضرورت مند اور محتاج ہے یا خدمت گزار ہے، تو اسے دوسروں سے زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۵)
الحجة علی ما قلنا
(۱) مافي ”تنویر الابصار مع الدر المختار“: وتتم الہبة بالقبض الکامل۔ (۸/۴۹۳/ کتاب الہبة)
مافي”شرح المجلة للبناني“: تنعقد الہبة بالایجاب والقبول وتتم بالقبض۔ (ص: ۴۶۲/رقم المادہ: ۸۳۷)
(۲) مافي”البحر الرائق“: وحکمہا ثبوت الملک للموہوب لہ۔ (۷/۴۸۳/کتاب الہبة)
(۳) مافي ”التنویر مع الدر والرد“: فتجب للزوجة بنکاح صحیح علی زوجہا: لانہا جزاء الاحتباس۔ (۵/۲۲۳،۲۲۴/ کتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب اللفظ جامد، ومشتق)
مافي ”تبیین الحقائق“: تجب النفقة للزوجة علی زوجہا والکسوة بقدر حالہما۔ (۳/۳۰۰/ کتاب الطلاق، باب النفقة)
(البحر الرائق:۴/۲۹۳/ کتاب الطلاق، باب النفقة)
مافي ”التفسیر للبیضاوی“: المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکة کیف شاء من الملک۔ (ص: ۷، سورة الفاتحة)
مافي ”معجم المصطلاحات والألفاظ الفقہیة“: الملک التام في اصطلاح الفقہاء : ہو الذي یخول صاحبہ حق التصرف المطلق في الشي الذي یملکہ فیسوغ لہ أن یتصرف فیہ بالبیع والہبة۔ (۳/۳۵۱، مادة: الملک)
(۴) مافي ”صحیح البخاري“: عن عامر رضی اللہ عنہ قال: سمعت النعمان بن بشیر وہم علی المنبر یقول: أعطاني أبی عطیة فقالت عمرة بنت رواحة لا ارضی حتی تشہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: إنی أعطیت ابني من عمرة بنت رواحة عطیة فأمرتني أن أشہدک یارسول اللہ قال: أعطیت سائر ولدک مثل ہذا، قال: لا، قال: فاتقوا اللہ واعدلوا بین اولادکم۔ الحدیث۔ (۱/۳۵۲،کتاب الہبة، باب الاشہاد في الہبة)
مافي ”شرح الطیبی شرح مشکاة المصابیح“: فیہ استحباب التسویة بین الاولاد في المحبة فلا یفضل بعضہم علی بعض سواء کانوا ذکورا وإناثا۔
(۶/۱۹۳/ کتاب البیوع، باب العطایا، تحت الرقم: ۳۰۱۹)
(۵) مافي ”الدر المختار مع الشامیة“: وفي الخانیة: لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة، لأنہا عمل القلب، وکذا في العطایا إن لم یقصد بہ الإضرار، وان قصدہ فسوی بینہم یعطی البنت کالابن عند الثاني، وعلیہ الفتوی۔ ۸/۵۰۱/ کتاب الہبة)
مافي ”الفتاوی الہندیة“: ولو وہب رجل شیئاً لأولادہ في الصحة وأراد تفضیل البعض علی البعض في ذلک لا روایة لہذا في الاصل عن اصحابنا، وروی عن أبی حنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ أنہ لا بأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل لہ في الدین وان کانا سواء یکرہ ، وروی المعلی عن ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ انہ لا بأس بہ اذا لم یقصد بہ الإضرار، وإن قصد بہ الاضرار سوی بینہم یعطي الابنة مثل ما یعطي للابن وعلیہ الفتوی۔ ہکذا في فتاوی قاضی خان وہو المختار۔ کذا في الظہیریة۔ (۴/۳۹۱/ کتاب الہبة، الباب السادس في الہبة للصغیر)
(فتاوی قاضی خان: ۴/۲۹۰/ کتاب الہبة، فضل في ہبة الوالد لودہ والہبة للصغیر۔ فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی
یکم/محرم الحرام/۱۴۴۳ھ
فتوی نمبر:۱۱۲۲