مقصوداحمدضیائی
خادم التدریس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں و کشمیر
ایک منفرد مبلغ و مناظرحضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی
بجھ گئے کتنے شبستانِ محبت کے چراغ
محفلیں کتنی ہوئی شہر خموشاں ، کہیے
مناظر ِاسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی نوراللہ مرقدہ و برداللہ مضجعہ جماعت دیوبند کی عبقری شخصیت تھے؛ جو اللہ رب العزت کی جوارِ رحمت میں پہنچ چکے ہیں۔ حضرت مولانا کی وفات کی اندوہ ناک خبر نے بہت دیر تک کرب آثار لمحوں کے حصار میں رکھا ۔چوں کہ مولانا مرحوم ایک معروف عالم دین اور مایہ ناز مفکر و محقق اور جماعت دیوبند کے لیے سرمایہٴ افتخار تھے۔ بلاشبہ آں مرحوم جیسی عبقری شخصیات کو پانے کے لیے زمانے چشم براہ رہیں گے؛ چوں کہ ایسی معارف پرور شخصیات صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔ بقول شاعر
مدتوں فکر کے سانچے میں پگھلتا ہے شعور
تب کہیں جاکے کوئی اہل ہنر بنتا ہے
مناظر اسلام حضرت مولانا سید طاہر حسین گیاوی کی ولادت اور تعلیمی زندگی کا مختصر خاکہ آپ کے تذکرہ نگاروں نے کچھ اس طرح سے لکھا ہے۔
اسم گرامی: سید طاہر حسین بن سید سلطان احمد گیاوی 20 جمادی الاولیٰ 1366ھ بہ مطابق 12 اپریل 1947ء کو بہ روز شنبہ موضع کابَر، کونچ، ضلع گیا( صوبہ بہار) برطانوی ہندمیں پیدا ہوئے۔
عربی سوم تک کی ابتدائی تعلیم مدرسہ انوار العلوم (گیا) میں ہوئی۔اس کے بعد متوسطات کے ابتدائی حصے کی تعلیم مدرسہ مظہر العلوم بنارس میں حاصل کی، جہاں پر رہتے ہوئے انہوں نے الٰہ آباد بورڈ سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ مولوی کا امتحان پاس کیا۔ پھر ایک سال مظاہر علوم سہارن پور میں پڑھائی کی اور جہاں تک تعلق ہے آپ کی تدریسی و عملی زندگی کا ؛ توتعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے تقریبًا آٹھ نو سال تک مدرسہ ریوڑی تالاب سمیت بنارس کے متعدد مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں اور پھر 1404ھ بہ مطابق 1984ء کو انہوں نے اپنے زیر ِاہتمام ریاستِ بہار (موجودہ جھارکھنڈ) کے ضلع پلاموں میں ”دارالعلوم حسینیہ“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ آپ کی فراغت جامعہ عربیہ جامع مسجد امروہہ سے ہوئی، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ 1386ھ بہ مطابق 1967ء کو دار العلوم دیوبند میں داخلہ ہوا اور تقریباً ڈھائی سال تک تعلم حاصل کرکے 1969ء میں عربی ہفتم تک پہنچے ،اسی سال دار العلوم دیوبند میں ایک انقلاب آیا اور انقلاب بھی ایسا کہ مولانا مرحوم جیسے ذہین و فطین علم دوست بھی اس کے دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے، طالب علم ؛تو طالب علم ہی ہوتا ہے خواہ وہ عمر کے جس اسٹیج پربھی ہو؛ حقیقت یہ ہے کہ طالب علم کی لڑکھڑاہٹ ہی اسے پارس بناتی ہے اور اگر پھر طالب علم کے ساتھ نو عمری بھی ہو تو یہ اس کو دو آتشہ بنا دیتی ہے۔ چناں چہ اسٹرائک میں پیش قدمی کی وجہ سے دار العلوم میں تعلیمی مرحلہ جاری نہ رکھ سکے؛ بالآخرمولانا سید فخر الدین احمد کے مشورے اور کاوش سے جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں داخلہ ہوگیا اور شعبان 1399ھ بہ مطابق 1970ء میں وہیں سے دورہٴ حدیث کی تکمیل کی۔ اسی درمیان میں الٰہ آباد بورڈ سے عالم و فاضل کا امتحان پاس کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ ادیبِ کامل کا امتحان پاس کیا۔
معروف صاحب قلم حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی اپنے رفیقِ درس مولانا گیاوی مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”ان کی اُس موقع (1969ء کی دار العلوم دیوبند کی اسٹرائک) کی بے ساختہ و بے ارادہ ٹریننگ نے، بعد کی عملی زندگی میں دیوبندیت کے ایک زبردست، بے باک، باصلاحیت، تقاضاہائے وقت کے لیے بہت موزوں ترجمان کے طور پر اُنھیں ابھارا اور میدان میں اتارا اور ”خدا شرّے برانگیزد ازاں خیرے بروں آید“ کا وہ سو فی صد مصداق ثابت ہوئے۔ آج وہ مناظرِ اسلام، متکلمِ اسلام، ترجمانِ دیوبندیت، لسانِ حق، خطیبِ دوراں اور محبوبِ انام سب کچھ بنے ہوئے ہیں“۔
مولانا گیاوی کے قلم گوہر بار سے قیمتی کتابیں صادر ہوئیں۔ آپ کی مطبوعہ تحقیقات و تصانیف میں مندرجہٴ ذیل کتابیں شامل ہیں:
” عصمت انبیاء اور مولانا مودودی“؛ ”اعجاز قرآنی“؛” رضاخانیت کے علامتی مسائل“؛ ”احسن التنقیح لرکعات التراویح“؛” العدد الصحیح فی رکعات التراویح“؛” نمازوں کے بعد کی دعا“؛” شہید کربلا اور کردار یزید“؛” مقتدی پر فاتحہ واجب نہیں“؛” انگشت بوسی سے بائبل بوسی تک“؛” ترک تقلید ایک بدعت ہے“؛ ”بریلویت کا شیش محل“وغیرہ۔
ماضی و حال پر نظر رکھنے والے میری بات سے اتفاق کریں گے کہ مولانا سید طاہر حسین گیاوی میدانِ مناظرہ کے عظیم شہسوار تھے۔ آپ کے تذکرہ نگاروں نے لکھا اور بجا لکھا ہے کہ آپ کی پوری زندگی اِحقاق حق اور اِبطال باطل سے عبارت تھی۔ آپ نے مصلحتوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا؛ زندگی بھر باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کا کر دار ادا کیا۔
کاتب ِحروف کو دو باتوں کی وجہ سے مولانا سے اُنس تھا۔ ایک یہ کہ ہمارے زمانہٴ طالب علمی میں آج کی طرح سوشل میڈیا کی سہولیات بطور ِخاص واٹس ایپ اور فیسبک وغیرہ نہ تھیں؛ کیسٹوں کے ذریعہ تقاریر سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ مولانا سید طاہرحسین گیاوی کے مناظرے کی کیسٹیں ذوق و شوق سے سننے کا بھی اہتمام رہتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ جامعہ مظہر سعادت،ہانسوٹ گجرات کے زمانہٴ طالب علمی میں منتظمین جامعہ نے ایک مرتبہ جمعرات ؛بعد مغرب جمیع طلبہٴ مدرسہ کو آپ کا ایک بیان برائے استفادہ بذریعہ ٹیپ ریکارڈ سنانے کا اہتمام بھی کیا تھا۔ الحمدللہ آپ کے تحقیقی بیانات سن کر جہاں معلومات میں اضافہ ہوا کرتا ،وہیں دل میں اطمینان کی کیفیت پیدا ہوتی اور ایمان کو بھی تقویت ملا کرتی تھی۔
ہمارے زمانہ طالب علمی میں عمومًا ذہین اور باذوق طلبہ کو آپ کے بیانات کا کچھ نہ کچھ حصہ نوک ِزبان ہوا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ویڈیوز اور آڈیوز بھی منظر عام پر آنے لگیں ،جن سے استفادہ میں مزید آسانی ہوگئی۔
دوسری وجہ یہ کہ مولانا گیاوی استاذِ گرامی قدر حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ بانی و مہتمم جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں و کشمیر و ممبر کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رفیق ِدرس تھے۔ چناں چہ سنہ 1995ء میں آپ کا ہمارے دیار میں ایک کانفرنس میں آنا ہوا ۔اس موقع پر جامعہ ضیاء العلوم پونچھ میں بھی تشریف فرما ہوئے تھے؛ اس وقت یہ عاجز ضیاء العلوم میں علوم عصریہ کا مبتدی طالب علم تھا۔ یاد آرہا ہے کہ قدیم مرکزی جامع مسجد بگیالاں کی فوقانی منزل میں اساتذہ و طلبہ اور قرب و جوار سے آئے ہوئے معزز شہریوں کے روبرو ایمان افروز بیان ہوا تھا۔ بیان کے آخر میں بعض حاضرین نے پرچیوں پر سوالات لکھ کر مولانا کو دینے شروع کیے، جن کے آپ نے تسلی بخش جواب دئیے، اس طرح یہ مجلس انتہائی اہمیت کی حامل رہی۔
یادش بخیر! یہ تھے مولانا کے حوالے سے آج سے لگ بھگ 28/ برس قبل کے مدھم نقوش! اس موقع پر آپ نے ضیاء العلوم اور بانی و مہتمم مدرسہ کے تئیں جو تاثرات رقم فرمائے وہ بھی ذیل میں ہدیہٴ قارئین ہیں۔
(آج مؤرخہ 17 / ستمبر 1995ء مدرسہ ضیاء العلوم میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔میں نے پہلے مدرسہ کو دیکھا نہ تھا، صرف سنتا تھا، لیکن بانیٴ مدرسہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب متعنااللہ بفیوضہم کو نہ صرف دیکھا ہی تھا، بل کہ درالعلوم دیوبند کے زمانہٴ طالبِ علمی میں بہت قریب سے جانتا تھا ۔مولانا موصوف علم و عمل کے پیکر اور سنت کے علمبر دار تو پہلے ہی سے تھے، اس مدرسہ کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اب معلوم ہوا کہ صاحبِ کرامات بھی ہیں۔ اس لیے کہ پہاڑوں کی سرزمین ؛کہ جہاں جہالتوں اور ضلالتوں کے بھی مختلف الاقسام بے شمار پہاڑ تھے، اس جگہ ایسا علم کا سرچشمہ اور فیضانِ سنت کا روشن مینارہ کھڑا کرنا اور ایک مختصر سی مدت میں ایسا عظیم الشان مدرسہ آپ کی زندہ کرامت سے کسی طرح کم نہیں۔طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مدرسہ کی ضروریات اگرچہ بتا رہی ہیں کہ اس ادارہ کا مستقبل نہایت روشن ہوگا اور اس کا نفع دور دور تک پہنچے گا، تاہم اب بھی جو کچھ ہے مدرسہ کے ارکان و کارکنان کے اخلاص کی بیّن دلیل ہے۔ طلبہ میں سلیقہ شعاری اور اپنے خاص مشغلہ میں دل چسپی اور سرگرمی کے ساتھ ہمہ وقت مصروف رہنا، اساتذہ کی قابلیت اور ان کی مستعدی کی واضح علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید ترقیات سے نوازے اور اس کے معاونین کی ہمتیں بلند فرمائے، تمام مسلمانوں کو ایسے اداروں کی طرف حوصلہ مندی سے توجہ کرنی چاہیے۔ اللہ پاک اجر عطا فرمائے گا۔”مجھے حضرت مولانا غلام قادر صاحب مہتمم مدرسہ ہذا کے رفیقِ درس ہونے کا فخر حاصل ہے اور ان کی دینی خدمات پر بے حد مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ پاک مولانا کو تا دیر قائم و دائم رکھے اور ان کے فیض سے نفع اٹھانے کی توفیق ارزانی فرمائے۔)
حضرت مولانا نے اپنی تاثراتی تحریر کے آخر میں ایک بات یہ فرمائی کہ
”مجھے حضرت مولانا غلام قادر صاحب مہتمم مدرسہ ہذا کے رفیقِ درس ہونے کا فخر حاصل ہے۔ “
واقعہ یہ ہے کہ مولانا گیاوی مرحوم، مولانا جمیل احمد صاحب سکروڈوی،حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی، حضرت مولانا عبدالحمید صاحب اسحاق مدظلہ اور حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ جو کہ ہم درس ہوتے ہیں، جس دور میں یہ حضرات دارالعلوم میں زیر تعلیم تھے، اس کے بارے میں بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی قاسمی کشمیری اپنے استاذِ اول حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کے تذکرے میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ”اس وقت دارالعلوم کہکشان علم کا آسمان تھا اور ایسے ذہین طلبہ اس کے تابندہ ستارے تھے، گو اب بھی بہت کچھ ہے، مگر وہ سب کچھ کہاں جو تھا۔ فرمایا کہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب کے تکرار میں شریک ہونے والے آج ملک کی نامور علمی شخصیات کی صف میں شمار ہوتے ہیں، تو سوچئے کہ مولانا کے ہم وزن یا مولانا سے انیس بیس طلبہ کن صلاحیتوں کے مالک ہوں گے۔ بقول حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی صاحب کہ اس وقت قوم دارالعلوم کو ذہین طلبہ کی صورت میں ہیرے دیتی تھی، جن کو تراش کر دارالعلوم انگشتری کمال میں جڑ دیتا تھا ۔“
بہ ہرحال حضرت مولانا دارالعلوم کے ان ذہین اور باصلاحیت طلبہ کی صفِ اول میں شمار ہوئے، جن کے بارے میں شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا کہ
ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
بالاختصار:
احاطہٴ دارالعلوم میں حضرت مولانا کے بیتے ایَّام، سرگرمیاں، بے نظیر ذکاوت و ذہانت وغیرہ فرزندانِ دارالعلوم کی تاریخ میں ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتے ہیں، جس سے مستقبل کا مؤرخ ایک علمی مرقع تیار کر سکتا ہے۔
بہرکیف یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ حضرت مولانا طاہرحسین گیاوی کی پوری زندگی کام سے عبارت رہی اور یہ کوئی پرانا قصہ و کہانی نہیں ہے،بل کہ کل کی بات ہے۔ ان کی خدماتِ جلیلہ کا پرچم ابھی نگاہوں کے سامنے پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا ہے اور جماعتِ دیوبند کا ہر کوئی آپ کے فکر و کاز سے پورے طور پر واقف و آشنا ہے۔ لہٰذا میرا ماننا یہی ہے کہ مولانا کو حقیقی خراج یہی ہوگا کہ ہم بھی اپنی زندگی کے جس موڑ پر بھی کھڑے ہوں ،اپنے کردار و عمل سے حق و صداقت کے پرچم کو بلند رکھنے میں اپنا مؤمنانہ اور داعیانہ کردار ادا کریں۔ ہر انسان کے منصوبے ہوا کرتے ہیں، لیکن ان منصوبوں کی تکمیل ہر کس و ناکس کے بس میں کہاں؟ جاننا چاہیے کہ حضرت مولانا کے بھی منصوبے تھے اور عظیم و جلیل تھے ،جن کو محض خواب و خیال ہی آپ نے نہ رہنے دیا، بلکہ ان میں خوش اسلوبی سے رنگ آفرینی بھی کرتے رہے؛ جس کی قابل تقلید مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جو بلاشبہ دعوت فکر و عمل دینے کے لیے بہت کافی ہیں۔ الحاصل آپ معروف و مشہور عالم دین؛ بہترین مبلغ، مناظر، محقق اور مصنف تھے۔ تحفظ سنت پر آپ کی نمایاں اور زریں خدمات ہیں۔ مگر آہ! 10 / جولائی 2023ء مطابق 21 ذی الحجہ 1444ھ بروز پیر اپنے وقت کا یہ ایک منفرد مبلغ و مناظر داغ مفارقت دے گیا۔دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مولانا کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے اور جماعت میں مولانا مرحوم و مغفور کے امثال بکثرت پیدا فرمائے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے