ائمہٴ ثلاثہ کے نزدیک متفق علیہ ایامِ قربانی

فقہ وفتاویٰ

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

ائمہٴ ثلاثہ کے نزدیک متفق علیہ ایامِ قربانی

مسئلہ:    اکثرعلماء اور ائمہ کے نزدیک قربانی کے ایام صرف ۳/دن یعنی ذی الحجہ کی ۱۰/تاریخ سے ۱۲/ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک ہیں، اس کے بعد قربانی جائز اور معتبر نہیں ہے، حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کامسلک یہی ہے، قربانی کے آخری وقت کے بارے میں کوئی صحیح اور معتبر حدیث موجود نہیں ہے البتہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار سے واضح ہوتاہے کہ قربانی کے ایام صرف تین ہی ہیں، اور دِنوں کی یہ تعیین چوں کہ عقل سے نہیں ہو سکتی، اس لیے یہ آثارِ صحابہ احادیث ِ مرفوعہ کے درجہ میں ہیں، حضرت امام شافعی اور بعض تابعین رحمہم اللہ نے ایام تشریق سے متعلق حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہوے۱۳/ذی الحجہ کو بھی قربانی کے ایام میں شامل کیا ہے، مگر وہ روایت سند کے اعتبار سے نہایت کمزور ہے، اور احتیاط اس میں ہے کہ جو ایام سب ائمہ کے نزدیک متفق علیہ طور پر قربانی میں شامل ہیں انہیں میں قربانی کی جائے، مشکوک دن میں قربانی کرکے عبادت کو مشکوک نہ بنایا جائے، افسوس ہے کہ آج کل کچھ لوگ مشکوک دن میں قربانی کی باقاعدہ تحریک چلاکر امت میں انتشار برپا کر رہے ہیں، ایسے نادان خیر خواہوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔


 

الحجّة علی ما قلنا:

 ما في ” إعلاء السنن “ : قال الشوکاني في نیل الأوطار: قال النووي: وروي ہذا عن عمر بن الخطاب وعلي وابن عمر وأنس، وحکی ابن القیم عن أحمد أنہ قول غیر واحد من أصحاب رسول اللہﷺ، ورواہ الأثرم عن ابن عباس، وکذاحکاہ عنہ في”البحر“وہو قول أبيحنیفة وأحمد ومالک․

(۱۷/۲۵۴، کتاب الأضاحی، باب أن الأضحیة یومان بعد یوم الأضحی)

ما في ” الہدایة “ : وہيجائزة فيثلثة أیام: یوم النحرویومان بعدہ، وقال الشافعي: ثلثة أیام بعدہ، لقولہ علیہ السلام: أیام التشریق کلہا أیام ذبح، ولنا مارويعن عمروعلي وابن عباس رضياللہ عنہم، قالوا: أیام النحرثلثة أیام أفضلہا أوّلہا وقد قالوا سماعاً لأن الرأي لایہتدی إلی المقادیر، وفيالأخبار تعارض فأخذنا بالمتیقن وہوالأقل․(۴/۴۴۶، کتاب الأضحیة)

ما في ” موسوعة تکملة فتح الملہم “ : وأما آخروقت الأضحیة فالثاني عشرمن ذي الحجة وہومذہب أبي حنیفة ومالک وأحمد، وأماالشافعي فقال: آخر أیام التشریق وہو الثالث عشرمن ذی الحجة ، وحکاہ النوويعن الأوزاعي وداود ومکحول أیضاً، وہو اختیارابن القیم في زاد المعاد ، واستدل الجمہور بما أخرجہ مالک فيالموطا أن عبداللہ بن عمر قال: الأضحی یومان بعد یوم الأضحی، وقال مالک: أنہ بلغہ عن عليّ بن أبي طالب مثلہ وقد ذکرشیخنا التھانوي رحمہ اللہ عدة آثارعن عمر بن الخطاب وابن عباس وابن عمر وعلي وأبي ہریرة وأنس رضي اللہ عنہم، والآثارالموقوفة في ہذا في قوة المرفوع، لأن أوقات العبادة لاتثبت بالقیاس، ویدل علیہ حدیث النہي عن ادخارلحوم الأضاحي فوق ثلاثة أیام أیضاً، وأما الشافعي رحمہ اللہ فقد استدل بماروي عن النبيﷺ من قولہ : لکل فجاج مکة منحر وکل أیام التشریق ذبح ، أخرجہ أحمد والدارقطنی وابن حبان والبیہقي کما في نیل الأوطار، ولکن ذکرشیخنا التھانوی رحمہ اللہ في إعلاء السنن أن في إسنادہ مغامز لا تقوم معہا الحجة، ولاشک أن مذہب الجمہورأحوط․واللہ سبحانہ وتعالی أعلم․(۹/۴۵۸، کتاب الأضاحي، وقت الأضحیة)

ما في ” إعلاء السنن “ : عن ابن أبی شیبة ناجریرعن منصورعن مجاہد عن ماعز بن مالک بن ماعز الثقفي أن أباہ سمع عمربن الخطاب یقول: إنماالنحرفي ہذہ الثلاثةالأیام․ (۱۷/۲۵۶،کتاب الأضاحی،باب أن الأضحیة یومان بعد یوم الأضحی)

وفیہ أیضاً:عن علي قال: النحرثلاثة أیام أفضلہا أولہا․(۱۷/۲۵۶)

ما في ” موطاإمام مالک “ : عن عبداللہ بن عمرقال: الأضحی یومان بعد یوم الأضحی․ (ص:۱۸،کتاب العقیقة، الأضحیة عما في بطن المرأة)

ما في ” السنن الکبری للبیہقي “ : عن أنس رضي اللہ عنہ قال: الذبح بعد النحر یومان․ (۹/۵۰۰، کتا ب الضحایا، باب من قال الأضحی یوم النحر ویومین بعدہ)

(المسائل المہمہ ۱۴:۱۳۵)