علما کو دین کے تمام شعبوں کا جامع ہونا چاہیے

 معارفِ تھانوی

علما کو دین کے تمام شعبوں کا جامع ہونا چاہیے:

            آپ لوگ مقتدا بننے والے ہیں، اس لیے آپ کے اندر سب شعبے دین کے ہونا چاہئے، عالم وہ ہے جو علوم کے تمام شعبوں کا عالم ہو، حسین وہ ہے جس کی ناک، کان، آنکھ سب ہی حسین ہوں۔ سب چیزیں موزوں یا متناسب ہوں، اگر سب چیزیں اچھی ہوں، مگر آنکھوں سے اندھا یا ناک کٹی ہو تو وہ حسین نہیں، اسی طرح دیندار وہ ہے، جو دین کے تمام شعبوں کا جامع ہو۔ (تجدید تعلیم وتبلیغ ص: ۷۲۳)

علما وطلبہ سے خاص خطاب:

            میں علما وطلبہ سے خاص طور پر خطاب کرتا ہوں کہ آپ حضرات جو علم پر ناز کئے بیٹھے ہیں اور علم کے فضائل اور درجاتِ عالیہ کا مستحق اپنے کو سمجھتے ہیں اور موقع بے موقع عوام کے سامنے ”فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلَی أَدْنَاکُم “پڑھ دیا کرتے ہیں، آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ فضائل کون سے علم کے ہیں، مطلق علم کے یا علم مع العمل کے؟ اگر عالم بے عمل کے لیے کتاب وسنت میں وعید میں نہ ہوتیں تو تمہارا ناز کسی درجہ میں تسلیم کیا جاتا ،مگران وعیدوں کے ہوتے ہوئے نفس علم کیسے باعث فخر ہو سکتا ہے۔ (الافاضات :۳/۵۳)

            محض کتابیں پڑھ لینے سے آدمی عالم نہیں ہوجاتا، بل کہ علم دوسری چیز کا نام ہے۔ جب طب (ڈاکٹری) کی کتابیں پڑھ لینے سے ہر شخص طبیب نہیں بن جاتا، جس کو علاج کا ملکہ (مہارت) حاصل ہو جائے وہی طبیب ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کو حدیث و قرآن اور فقہ کی کتابیں پڑھ لینے سے علم کی حقیقت حاصل نہیں ہوتی، محض الفاظ یا د ہو جاتے ہیں۔ علم کی حقیقت حاصل ہونے کے لیے کتابوں کے سوا ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہے، جس کو اس زمانہ کے ایک شاعر نے خوب کہا ہے #

 نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

            یعنی صحبت اہل اللہ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے آج کل اکثر علما کورے ہیں، الا ماشاء اللہ، اس طرف توجہ ہی نہیں۔ اسی واسطے حقیقی علم والے بہت تھوڑے ہیں۔ (التواصی بالحق ص: ۳۶)

            مولوی اسی ناز میں ہیں کہ ہم قال اقول یعنی عربی کتابیں خوب جانتے ہیں مگراس سے کیا ہوتا ہے مقصود تو کچھ اور ہی ہے۔ عربی داں ہونا کچھ کمال نہیں، خدا داں ہونا چاہیے۔ (انفاس عیسی ا/۴۱۱)

            بڑا ناز ہے علم پر کہ ہم عالم ہوگئے، یاد رکھو! بغیر اپنے کو مٹائے ہوئے کچھ بھی نہیں ہوتا اور مٹانے کے یہ معنی نہیں کہ کتا بیں مٹادو ،نہیں تم اپنے کو مٹادو کہ ہم کچھ نہیں، جب تک یہ بات پیدا نہ ہو سمجھ لو کہ تم بر باد ہو، کورے ہو، کچھ نہیں ہو۔ (الافاضات الیومیہ:۴/۳۸۱)

محض عالم ہونے سے افضل ہونا لازم نہیںآ تا:

            ہم عالم ہوکر اکمل ہوسکتے ہیں، لیکن افضل ہونا خدا کو ہی معلوم ہے۔ ایک محض عالم ہے اور ایک جاہل ، تو عالم اکمل تو ہے ، مگر افضل ہونا خدا ہی کو معلوم ہے افضل جاہل ہے یا عالم، کیوں کہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ عالم کے لیے افضل ہونا بھی لازم ہے۔ ممکن ہے کہ اس جاہل کے قلب میں ایسی کوئی چیز ہو کہ وہ علم سے زیادہ خدا کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو تو اپنے اکملیت کی بنا پر اپنے کو افضل سمجھنا برا ہے۔ یہی علوم ہیں جو کامل کی صحبت میں میسر ہوتے ہیں۔ (الافاضات الیومیہ ص: ۳۶۸)

             فرمایا: ایک مرتبہ متعدد علما کا مجمع تھا اور کبر و تواضع کے متعلق اس پر بحث تھی کہ ایک عالم اپنے کو کمتر کیوں سمجھ لے، یہ تو تکلیف مالا طاق ہے، کیوں کہ جب علم وفضل پڑھا ہے تو یہ کیسے سمجھے کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ ایک حافظ اپنے کو غیر حافظ کیسے سمجھ سکتا ہے۔

             حضرت حکیم الامت نے نہایت جامع اور مختصر جواب ارشاد فرمایا کہ کسی کمال کے سبب اکمل سمجھنا تو جائز ہے، مگر افضل بمعنی مقبول سمجھنا جائز نہیں۔ پس یہ سمجھنا کہ میں عالم ہوں اس میں کوئی حرج نہیں، مگر اس پر اپنے کو مقبول عند اللہ سمجھنا یہ بڑا خطرناک ہے، پس یہ سمجھنا کہ ممکن ہے کہ باوجود اس کے جاہل ہونے کے اس میں ایسی کوئی خوبی ہو، جس سے وہ اللہ تعالی کو پسند آ جائے اور ہم گو بڑے عالم ہوں مگر ہم میں کوئی ایسی برائی ہو جس سے ہم ان کو پسند نہ آئیں پھر ہم ہیں کس کام کے۔(ملحوظات جدید ملفوظات ص:۷ ۲)