معار ف کا پو د روی
حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی (اللہ پاک ان کی قبر کو نور سے منور فرمائیں) بڑے عجیب آدمی تھے، جب آپ سب سے پہلے گجرات تشریف لائے تو اس وقت انہوں نے تقریر میں فرمایا کہ بھائی! یہ عجیب بات ہے کہ ایک مدرس سال بھر بخاری شریف پڑھاتا ہے اور جب ختم کرنے کا وقت آتا ہے تو آپ یوپی سے آدمی بلاتے ہیں، یہ کیا تماشا ہے، تو مجھے تنبہ ہوا۔
ایک بار مانچسٹر میں ان سے عرض کیاگیا کہ حضرت! یہاں بہت سے لوگ آپ سے بیعت ہونا چاہتے ہیں، حضرت نے سختی سے منع فرمایا اور یوں فرمایا کہ بھائی ! یہاں کچھ مشائخ موجود ہیں، ان کو اپنے اپنے شیوخ سے اجازت ہے کہ وہ بیعت کریں آپ حضرات ان سے کیوں رجوع نہیں کرتے ؟ میں تو پانچ روز یہاں رہ کر چلا جاوٴں گا، آپ کے امراض کی کیا اصلاح کروں گا؟ اور آپ لوگ مجھے خط تو لکھنے والے ہیں نہیں، میں خواہ مخواہ حلقہ بڑھاکر چلاجاوٴں گا اس سے کیا فائدہ؟
یہ ہے ہمارے بڑوں کی بے نفسی کا عالم! لوگ آرہے ہیں تو فرمارہے ہیں کہ نہیں، تم ان سے رجوع کرو جو یہاں موجود ہیں ، ان کی عزت کرو اور یہ بات تین دن تک دہراتے رہے کہ اپں ے یہاں علما کا وقار بڑھاوٴ اور امت کو اپنے یہاں کے علما سے وابستہ کرو۔
عالِم کا بگڑنا سارے عالَم کا بگڑنا ہے:
آج کل ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اپنے یہاں کے علما کے ساتھ لوگوں کو منسلک نہیں ہونے دیتے، آپ معاف فرمائیں چوں کہ میرے دل میں یہ سب باتیں ہیں ، اس لیے میں کھل کر کہنا چاہتا ہوں، اللہ کے واسطے ہم ایسا نہ کریں۔
میرے دوستو! ہم لوگوں میں سے ہر شخص کے اندر کمزوری ہے، انبیائے کرام علیہم السلام ہی معصوم ہوتے ہیں، کوئی عالم ایسا نہیں جس سے غلطیاں نہیں ہوتیں، ہم لوگ سب غلطی کرنے والے ہیں، لیکن اگر کسی میں خیر زیادہ ہے تو وہ صالح آدمی ہے، امت کو اس سے وابستہ رہنا چاہیے۔
ہندوستان میں ہم لوگ ایک تنظیم کے ساتھ کام کررہے تھے، آپس میں اختلاف ہوا جس پر آٹھ دس آدمیوں نے استعفیٰ بھی دے دیا، بڑا ہنگامہ ہوا، ان ہی دنوں اتفاق سے میرا مکہ مکرمہ جلانا ہوا، حرم شریف میں ایک آدمی مجھ سے کہنے لگا کہ صاحب ! فلاں صدر صاحب ایسے ہیں، ویسے ہیں، بندہ نے عرض کیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، انہوں نے دین کا کام بہت کیا ہے اگر ان کی چند باتوں سے ہمیں اختلاف ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ بالکل ہی خراب آدمی ہیں؟ پھر بندہ نے عرض کیا کہ انہوں نے بڑے بڑے خیر کے کام کیے، چند مثالیں ان کے سامنے بیان کیں، اس پر اس شخص نے تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ آپ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے مخالف عالم کے بارے میں اس طرح کی باتیں بتلائیں۔
میرے دوستو! یہ بہت غلط بات ہے کہ جب تک ہم ایک ادارے سے وابستہ رہتے ہیں تب تک اس کی تعریف کرتے ہیں اور جب اس ادارے سے علیحدگی ہوجاتی ہے تو پھر اس کی برائی کرنے لگتے ہیں، یہ ہم لوگوں کی کمزوریاں ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب تک ہر خیر کو اپنے ساتھ وابستہ کرے اور دوسرا کوئی آئے تو سارے دنیا کا شر اسی میں نظر آئے، یہ بہت بری بات ہے۔ چوں کہ میرا تعلق مدرسوں سے رہا اور پینتیس سال تک رہا، اس کے بعد ترکیسر رہا، اس لیے مجھے اپنے دوستوں سے اور اساتذہ سے زیادہ واقفیت ہے، ہم لوگوں کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ معمولی کتاب کسی سے ہٹالی جاتی ہے تو سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کی بے عزتی ہمارے ساتھ ہوئی ہے۔
حضرت شاہ صاحب کی وسعت ظرفی:
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کا قصہ سنا، دیوبند میں شاہ صاحب نے یوں فرمایا کہ بھائیو! دارالعلوم ہم کو تنخواہ دے رہا ہے اب دارالعلوم چاہے ہم سے بخاری شریف پڑھوائے چاہے ہم سے میزان پڑھوالے۔
اور شاہ صاحب ہی کے بارے میں ہم نے یہ سنا کہ حضرت شاہ صاحب جب دارالعلوم سے الگ ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ آپ جامع مسجد میں درس شروع کردیجیے سارا حلقہٴ دورہٴ حدیث مسجد میں آجائے گا، انہوں نے کہا کسی محدث کے لیے جائز نہیں کہ ایک جگہ درس حدیث ہوتا ہو تو اس کے مقابل دوسرا درس شروع کرے، میں یہاں سے دور چلا جاوٴں گا، چناچہ اس لیے انہوں نے ڈابھیل کا قیام اختیار فرمایا، اس زمانے میں ڈابھیل کا حال یہ تھا کہ نہ وہاں کمرے تھے نہ کوئی سہولت، سملک جاتے تو ٹخنوں سے اوپر کیچڑ میں چل کر جاتے تھے، لیکن حضرت مدنی کے مقابل میں درس شروع کرنا انہوں نے پسند نہیں کیا۔ یہ تو ہمارے اسلاف کا معاملہ تھا، وہ کسی جماعت کو اپنے عمل سے نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔
آج ہم لوگوں میں یہ بات نہیں رہی، ہم معمولی باتوں میں اختلاف کرتے ہیں، جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، نہ ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ اختلاف کی بنیاد کیا ہے، بعض مرتبہ اختلاف کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں ہوتی ، بھائیو! یہ چیزیں نقصان دہ ہیں۔اجتماعیت کے بغیر دنیا میں کام نہیں ہوتا، دنیا میں دوسری قومیں جو کام کررہی ہیں سر جوڑ کر ہی کررہی ہیں۔