ملفوظا تِ وستا نوی

نماز اور تلاوتِ قرآن کریم کا اہتمام:

            حضرت طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ سے بارہا یہ بات کہی گئی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کا معمول بنائیں،تو آپ میں سے کون کون طالب علم اقل قلیل ایک پارہ کی تلاوت کرتے ہیں وہ ہاتھ اونچاکرو!

            جو لوگ نہیں کرتے ہیں ان کو آئندہ تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے،قرآن کہتاہے﴿اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ﴾قرآن کریم نبی کریم سے مخاطب ہے کہ اے نبی! تلاوت کرو اس کتاب کی جو آپ کی طرف نازل کیا گئی ہے،﴿وَاَقِمِ الصَّلوةَ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْھی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللّہِ اَکْبَرُ﴾عالم جب تک نمازی نہیں بنتاہے کسی کام کا نہیں بنتاہے،”اِنَّ مِنْ اَھمِّ اُمُوْرِ کُمْ الصَّلوة“ تمہاری زندگی کا اہم ترین امر نماز ہے۔

تجوید و ترتیل کے ساتھ تلاوتِ قرآن کریم کی تاکید:

            حضرت عصر کے بعد کی مجلس میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:کہ اساتدہ کو مکلف کیا گیاہے کہ وہ تجوید ،ترتیل اور حدر کی تیاری میں اپنے آپ کو لگادیں،اور طلبہ میں اس کی روح پھونگ دیں۔

            میرے بچو! ہمارے مدارس کا یہ جو درس نظامی ہے ، یہ ہمارے اکابر کی کاوش اور کوشش ہے کہ انہوں نے ہمارے لیے ساری چیزیں مہیا کردی ہیں کہ جب ہمارے طالب علم دینیات او رحفظ کے بعد عا لمیت میں آتاہے تو وہ ایک بہترین عالم ربانی ،مدرسِ قرآن،مفسر ِقرآن اور سبع وعشرہ کا بہترین قاری بن سکتاہے۔

            جامعہ آپ کو ایک اچھا قاریٴ قرآن ،مفسر ِقرآن اور محدث بناناچاہتاہے۔جامعہ آپ کے اوقات کی قدر کرتاہے اور آپ کے اساتذہ کو رہنمائی کرتا ہے کہ وہ آپ کو کس طرح سے تعلیم پر راغب کریں،نحو صرف کا اجرا کرائیں۔

ترجمہٴ قرآن یاد رکھنے کا آسان طریقہ:

            دو طالب علم بیٹھ جائیں اور قرآن کریم پڑھیں اور اس میں صیغہ تلاش کریں، صیغہ پہچانیں کہ یہ کون سا صیغہ ہے۔ اس طرح آپ قرآن کا ترجمہ کبھی نہیں بھولیں گے۔اگر ترجمہ یادرکھنا ہے تو اس ترتیب کو لیکر چلنا ہوگا او راگر قرآن سمجھنا ہے تو ”صرف“ و”نحو“اور عوامل کو سمجھنا ہوگا۔ان کو جانے بغیر نہ توآپ قرآن سمجھ سکتے ہیں اور نہ صحیح عبارت پڑھ سکتے ہیں لہٰذا طالب علم کو چاہیے کہ وہ شروع ہی سے صرفی نحوی بننا چاہیے۔ اگر آپ اس پر محنت کرلیتے ہیں تو بہترین عالم ربانی ،مدرس قرآن، مفسر قرآن بن سکتے ہیں،عربی میں تکلم کرسکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں۔﴿وَمَا ذلِکَ عَلَی اللّہِ بِعَزِیْزٍ﴾اللہ پر کوئی مشکل نہیں ہے،قرآن نے عجیب انداز میں فرمایاہے،﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾تحقیق کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کیا ہے توہے کوئی اسے یاد کرنے والا؟

” اگر توہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں“:

             ترجمہ آسان، تجوید آسان، سب آسان ہے،بشرط کہ تم محنت کرو۔ لیکن” اگر توہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں۔“ہاں اگر طلبہ چاہ لے تو بہت کچھ بن سکتے ہیں،اگر محنت نہیں کریں گے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟پھر ضرورت ہے پٹائی کی!

            عربی اول میں میرے استاد نے میری بہت پٹائی کی، مجھے امر حاضر کا قاعدہ ہی نہیں یا د ہوتا تھا، سب بچے سنادیے، میں نہیں سنایا پایاتھا اور میں دومہینے تاخیر سے مدرسہ میں داخلہ لیا تھا، میں پہلے اسکول میں تھا،تو میں اپنے استاد کے کمرے پر گیا اور ان سے کہا کہ حضرت آپ مجھ سے ناراض ہیں؟تو میرے استاد نے کہا کہ ناراض نہیں ہوں۔ چپ چاپ سبق یاد کرکے لا ، ورنہ مارمار کے سیدھا کروں گا۔اس کے بعد مجھے امر حاضر کا قاعدہ ایسا یاد ہوگیا کہ اب اگر کوئی جدید طالب علم آتاہے تو امتحان کے لیے میں اس سے امر حاضر کا قاعدہ پوچھ دیتاہوں۔

            طالب علم جو سبق پٹائی کھاکر یاد کرتاہے وہ کبھی نہیں بھولتاہے،تو جو دورہ یا مشکوٰة پڑھتے ہیں وہ یہ نہ سمجھے کہ مجھے صرف نحو کی ضرورت نہیں ہے ،نہیں یہ بنیادی کتابیں ہیں، یہ اخیر تک یاد رہنی چاہیے۔

طلبہٴ دورہٴ حدیث سے خطاب:

            حضرت نے طلبہٴ دورہٴ حدیث کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

             قرآن کریم کہتاہے:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلاَئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾دوسری جگہ قرآن نے کہا﴿وَلَاتَحْزَنُوْا وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّوٴْمِنِیْنَ﴾آیت کریمہ پڑھیے اور اس کے معانی پر غور کیجیے، اس کے مطالب کو دیکھیے اور اس کے شان نزول کو پڑھیے۔

            قرآن کریم کے ساتھ ہمارا والہانہ تعلق ہونا چاہیے،قرآن کو سمجھنا ہر عالم اور فاضل کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کو ہم پڑھیں اور سمجھیں اور لوگوں تک اس کو پہنچائیں۔

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اَلا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ“سنو! حاضر لوگ پہنچادے ان کو جو غائب ہیں۔

            یہ مدارس قرآنی تعلیم کے مراکز ہیں،جہاں قرآن سمجھایا، پڑھایااوریاد کرایا جاتاہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اَلا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ“یہ مسجد نبوی سے چلا، اصحاب ِ صفہ سے چلا اور قیامت تک جاری رہے گا،لہٰذا قرآن امت تک پہنچاوٴ! بچوں کو قرآن سکھاوٴ! بڑوں کو قرآن پڑھاوٴ اور اپنی زندگی میں قرآن کو لاوٴ!۔

قیام مدارس کا مقصد:

            حضرت طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:قرآن کریم کا ترجمہ،ترکیب اور تفسیر ہماری زندگی کا نصب العین بننا چاہیے،اور یہ مدارس خالصةً لوجہ اللہ قرآن کریم کی تعلیم،تدریس اور تبلیغ ہی کے لیے قائم ہوئے ہیں،جو معاشرے میں کام ہوا ہے، وہ ان مدارس سے ہوا ہے کہ حفاظ،مترجمین،مفسرین اورمدرسین بھی ان مدرسوں سے نکلے۔ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے قرآنی خدمات کے ساتھ ہم کو وابستہ کیا ہے،جو طلبہ قرآن کریم کے ساتھ اپنے آپ لگائے ہوئے ہیں،قرآن یادکرنے اور سمجھنے کے ساتھ شغف رکھتے ہیں وہ بہت خوش نصیب ہیں،اور اللہ کا فضل ہے اس پر۔قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے کیا ہے،﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحفِظُوْنَ﴾کہ ہم نے قرآن کریم کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

            اس میں تاکید در تاکید ہے، اللہ نے اس کا ذریعہ انسان کو بنایاہے، ہم اور آپ کو بنا یاہے۔ اللہ نے انسان میں سے ہم کو چن لیا،کوئی آیا بنگال سے کوئی آیا بہار سے، آسام سے، کرناٹک سے ،ایم پی اور مہاراشٹر سے آئے۔ اور یہ آئے نہیں ہیں یہ بھیجے گئے ہیں،موہوب من اللہ ہیں۔ اللہ نے کہا کہ تم ہمارے قرآن کی خدمت میں لگ جاوٴ تمہاری خدمت ہم کریں گے اور پوری دنیا ان کی خدمت کررہی ہے۔ تمہیں کھانا پینا سب ہم کریں گے، آپ یہاں پر ہیں اور ایک جماعت کھانا بنانے میں لگی ہے، کوئی چاول میں لگاہے، تو کوئی روٹی بنانے کی فکر کررہاہے،کیوں ؟اس لیے کہ یہ طلبہ اللہ کے قرآن کی خدمت میں لگے ہیں۔

            ایک صاحب کا فون آیاکہ میرے پاس پچاس ہزار روپیے ہیں، آپ بولیں تو ہم بھیج دیں ،تو میں نے کہا کہ بھیج دیں۔ مولانا اویس صاحب سے اکاوٴنٹ نمبر لے لیں اور بھیج دیں۔یہ کس لیے ؟﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحفِظُوْنَ﴾اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم ہمارے قرآن کی خدمت میں لگ جاوٴ تمہاری فکر میں کروں گا۔ اتنے بڑے مجمع کو تین وقت کھلانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آدمی ایک گھر چلاتاہے اس کو کتنی پریشانی ہوتی ہے،لیکن مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے ،مجھے معلوم بھی نہیں ہے کہ کیا بن رہاہے،کیوں کہ اللہ کا وعدہ ہے﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحفِظُوْنَ﴾تم ہمارے قرآن کی خدمت میں لگ جاوٴ تمہاری خدمت ہم کریں گے۔ اللہ نے آپ کے سینوں کو منتخب کرلیاہے۔ اللہ نے منتخب کرلیا ہے کہ فلاں گاوٴں کا فلاں آدمی کا لڑکا حافظ قرآن بنے گا،عالم بنے گا۔﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ﴾یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتاہے دیتاہے۔

            میرے پیارے بچو! یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں قرآن کی خدمت کے لیے منتخب کیا ہے،تو اپنے آپ کو قرآن کے ساتھ وابستہ رکھو اور قرآن کا وعد ہے:﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحفِظُوْنَ﴾۔

            حضرت دورہٴ حدیث کے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ہاں بھائی دورہٴ حدیث کے طلبہ کرام قرآن کہتاہے:﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ﴾اگر تم ہمارا شکرگزاری کروگے تو ہم تمہاری نعمتوں میں اضافہ کردیں گے۔﴿وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾اور اگر تم ہماری نعمتوں کی ناشکری کروگے تو یاد رکھو کہ ہمارا عذاب بہت سخت ہے۔ شکرانِ نعمت پر ازدیادے نعمت کا وعدہ ہے اور ناشکر ی پر عذاب کی وعید ہے۔ اس آیت کو کثرت سے پڑھتے رہو اور اپنے بیان میں بھی امت کو اس سے آگاہ کرو،شکر گزار بن جاوٴ۔

            حدیث کے طلبہ کو رونے والا بننا چاہیے،بس کام بن گیا۔حضرت شیخ الحدیث شیخ زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ میں نے حدیث کے ایسے طلبہ کو بھی دیکھا کہ وہ مجلس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرتے ہیں۔درسِ حدیث میں عشقِ رسول کے ساتھ بیٹھیں کہ جب آپ اپنے استاد سے سنیں قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کی زبان بھی صلی اللہ علیہ وسلم سے شرسار ہونی چاہیے اور یہ اس وقت ہوگاجب آپ حضور قلب کے ساتھ بیٹھیں گے ۔صرف آپ درس حدیث میں نہیں ہیں، بل کہ آپ مجلس رسول میں بھی بیٹھے ہیں، اس لیے باوضواور حضور قلب کے ساتھ بیٹھا کرو پھر دیکھو کہ کیسے انوار کے نزول ہوتے ہیں۔

            آپ قرآن کی تلاوت بھی کیا کرو،قرآن یاد کروقرآن آسان ہے،قرآن نے اپنے بارے میں اعلان کیا ہے،﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرْ﴾تحقیق کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کیا ہے توہے کوئی اسے یاد کرنے والا۔

            آخر میں میں دورہٴ حدیث کے طلبہ کو ایک ہی بات کی تاکید کرتاہوں کے حدیث کے درس میں عظمت کے ساتھ بیٹھئے،کیوں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس ہے،اتباعِ سنت کے پابند ہوجائے دورد کی کثرت رکھیے۔