ایامِ قربانی اور اس کے متعلق ضروری احکام

 انوار نبویﷺ

پیش کش: مفتی محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی

            عن نافع عن ابن عمر عن النبیﷺ: قال لایاکل احد من لحم اضحیتہ فوق ثلاثة أیام۔مسلم شریف (ج۲،ص ۱۵۸)

            ترجمہ: حضرت نافع،حضرت عبد اللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ نبی ٴکریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ تین دن سے زائد کوئی اپنی قربانی کے گوشت میں سے نہ کھائے۔

            احقر ایام قربانی اور اس کے متعلق ضروری احکام کے تحت مذکورہ اہم عناوین قارئین کے نظر کرنے جارہا ہے۔

            ۱-ایام قربانی کی صحیح تعداد۔

            ۲-تین دن کا ثبوت قرآن سے۔

            ۳-تین دن کا ثبوت احادیث سے۔

            ۴-تین دن کا ثبوت اجماع صحابہ سے۔

            ۵-غیر مقلدین کے دلائل کا جائزہ۔

            ۶-قربانی کے افضل ایام۔

            ۷-قربانی کے ایام میں رات کو قربانی کرنے کا حکم۔

            ۸-قربانی کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟

            ۹-قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرنے کا حکم۔

            ۱۰-قضا قربانی کی ادائیگی کا حکم۔

            سب سے پہلے ہم ایام قربانی کی صحیح تعداد سے متعلق شیخ الحدیث جامعہ اکل کواحضرت مولانا رضوان الدین صاحب معروفی کی کتاب التحفة المرضیة فی تحقیق احکام الاضحیةسے اہم اقتباسات پیش کرتے ہیں:

            حضرت شیخ الحدیث صاحب نے بڑے مرتب ،محقق اور مدلل انداز میں اس پر بحث کی ہے ؛آپ نے تین دن قربانی پر حدیث ِ رسولﷺ اور آثار صحابہ  سے استدلال کے عنوان کے تحت کئی ایک دلائل پیش کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے۔   

            ”مسلم شریف کی روایت ہے:عن نافع عن ابن عمر عن النبیﷺ: قال لایاکل احد من لحم اضحیتہ فوق ثلاثة أیام۔

مسلم شریف (ج۲،ص ۱۵۸)

            یہ حدیث اگر چہ مسئلہٴ اکلِ لحم اضحیہ میں منسوخ ہے؛ تا ہم مسئلہٴ زیر بحث میں استدلال کے لیے مفید ہے؛ اور صورت ِاستدلال یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو جمع رکھنے اور اس کے کھانے کی ممانعت فرمائی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تین دن کے بعد ذبح ِاضحیہ بھی درست نہیں ؛کیوں کہ جن دنوں میں قربانی کرنا جائز ہے، انہیں دنوں میں اس کے گوشت کا کھانا بھی بنص قرآنی ’فکلوا منھا‘ مشروع و مستحب ہے اور ایسے وقت ذبح کرنا جائز نہیں ہے، جس وقت کھانا اس کا حرام اور ناجائز ہو،پس اس حدیث کا منشاء یہی بتلا رہا ہے کہ چوتھے دن کی قربانی درست نہیں؛ کیوں کہ اگرچوتھے دن کی قربانی صحیح تسلیم کر لی جائے، تو پھر یہ لازم آئے گا کہ جو شخص اس دن قربانی کا جانور ذبح کرے، اس کے لیے اس حدیث کی رو سے اس کا گوشت حرام ہے؛ حالاں کی یہ باطل ہے کہ آدمی قربانی کرے اور اس کے لیے اس کے گوشت کا استعمال ممنوع ہو، لہٰذا یوم ِرابع کا قربانی کے دنوں میں سے ہونا بھی باطل ہے اور چوں کہ اس ارشادِ نبوی ﷺ میں تین دن تک کھانے کی اجازت بھی سمجھی جاوے گی۔

ایک ضروری تنبیہ :

            اس مقام پر اس امر کی توضیح بھی انتہائی ضروری ہے کہ کھانے کی حرمت کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں یہ حرمت منسوخ ہوگئی اور اب یہ حکم باقی نہیں رہا؛ بل کہ اب فرمان ِنبوی یہ کہ اگر چاہو تو کھاوٴ اور کھلاوٴ اور ذخیرہ بنا کر رکھو ’واطعموا و احبسوا و ادخروا ‘۔

 (مسلم:ج۲،ص۱۵۸)

            جیسا کہ حدیث میں ہے یعنی تین دن کے بعد بھی جب تک آدمی چاہے قربانی کا گوشت رکھے اور کھاتا رہے، کوئی حرج اور گناہ کی بات نہیں اور جو حرمت ِاکل تھی وہ اس حدیث کی وجہ سے منسوخ ہوگئی، لیکن اس حکم کے نسخ سے یہ لازم نہیں آتا کہ استدلال بھی درست نہ ہو؛ جیسا کہ بعض حضرات کا گمان ہے کہ جب حرمت ِاکل منسوخ ہوکر تین سے زائد دنو میں کھانے کی اجازت ہوگئی، تو ان زائد دنوں میں قربانی کرنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان کا یہ مزعومہ گمانِ محض ہے، جس کی کوئی اصل نہیں؛ کیوں کہ کھانے کی گنجائش تو پورے سال تک ہے، مگرپورے سال ذبح کرنا کسی کے نزدیل بھی درست نہیں۔

            مختصر یہ کہ نسخِ حرمتِ اکل ،جوازِ اضحیہ یوم رابع کو مستلزم نہیں اور متعلقہ حدیث نبوی ’ لایأکل احد من لحم اضحیتہ فوق ثلثة أیام ‘ ’ایام النحرثلثة‘کی طرف غماز ہے ۔ (بحوالہ ماخوذ ازنیل الاوطار: ج۵۔ص۱۴۳)ماخوذ از التحفة المرضیة فی تحقیق احکام الاضحیةص:۳۵تا۳۷)

            اس کے علاوہ قرآن حدیث کتب فتاویٰ سے استدلال پیش خدمت ہے۔

ایام قربانی کی صحیح تعداد:

            قربانی کے تین دن ہیں: ۱۰، ۱۱ اور۱۲ ذوالحجہ یعنی عید الاضحیٰ کا پہلا، دوسرا اور تیسرا دن۔ اس لیے انھی تین دنوں میں سے کسی ایک دن میں قربانی کرنا ضروری ہے۔نہ پہلے نہ بعد۔

( اعلاء السنن، البحر الرائق، رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ)

تین دن کا ثبوت قرآن سے:

            قال اللّٰہ تعالیٰ:﴿ لِیَشْہَدُوْ مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوْا سْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَعْلُوْمَاتٍ عَلٰی مَارَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾

(الحج، رقم الآیة۲۸)۔

            تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں ،جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں،اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اللہ نے انہیں عطا کیے ہیں۔

             وعن عبد اللہ بن عمر:” فالمعلومات یوم النحر ویومان بعدہ۔“

(تفسیر ابن ابی حاتم ۶: ۱۶۲)،

            عبد اللہ ابن عمر نے ایام ِمعلومات کی تفسیر یوم ِنحر اور اس کے بعد دو دن سے کی ہے۔

             ومثلہ فی الدر المنثور (۴: ۱۴۶)،

             ”واذکروا اللّٰہ فی أیام معدودات“: ولا خلاف أن المراد بہ النحر وکان النحر فی الیوم الاول وہو یوم الأضحی والثانی والثالث ولم یکن فی الرابع نحر فکان الرابع غیر مراد فی قولہ تعالیٰ ”معدودات“ لا ینحر فیہ۔(کتاب الأحکام)

تین دن کا ثبوت احادیث سے:

            موطأ امام مالک رحمہ اللہ میں ہے:

            ” مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: الْأَضْحَی یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ الْأَضْحَی.“

السنن الکبریٰ للبیہقی میں ہے:

            حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کَانَ یَقُولُ:” الأَضْحَی یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ الأَضْحَی.“

             قَالَ: وَحَدَّثَنَا مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کَانَ یَقُولُ:” الأَضْحَی یَوْمَانِ بَعْدَ یَوْمِ الأَضْحَی.“

             حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَبِی عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:” الذَّبْحُ بَعْدَ النَّحْرِ یَوْمَانِ“۔

            صحابہ کرام  کی تمام تر روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ قربانی کا اخیر وقت بارہویں ذی الحجہ کی شام تک ہے۔

            علامہ ابن قیم  نے امام احمد بن حنبل  سے نقل فرمایا ہے کہ اصحاب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بہت سارے لوگوں کا یہی قول ہے۔

            حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں۔اور طبقہٴ صحابہ میں سے کسی ایک صحابی نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی، پس یہ اس بات کی کھلی اور روشن دلیل ہے کہ تین دن قربانی صحابہ رضی اللہ عنہ کا اجماع ہے اور جس کسی مسئلہ پر اجماع ِصحابہ محقق ہوجائے اس پر عمل کرنا لازم ہوجاتا ہے کسی کے لیے بھی اختلاف کی مجال باقی نہیں رہتی۔

تین دن کا ثبوت اجماعِ صحابہ سے:

            امام رازی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ تمام صحابہ کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا امر توقیفی ہوتا ہے، جو اس بات پردال ہوتا ہے کہ مسئلہ متفق علیہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

            پس اس کلیہ کی روشنی میں اس مسئلہ (یعنی قربانی کا تین دن ہونا ،جس پر اجماع ِصحابہ ہے) کا ماخذ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت ہوئی۔

علامہ کاسانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:

             ”والظاہر أنہم سمعو ذلک من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لأن اوقات العبادات و القربات لا نعرف الا بالسمع“۔

 (بدائع الصنائع:جلد 4/ص:198)

غیر مقلدین کے دلائل کا جائزہ:

            مستند ومعتبر کتابوں سے چار دن کے قائلین کے دلائل کی اسنادی اور استدلالی حیثیت نہایت کمزور ثابت ہوتی ہے،جس کی ایک جھلک قربانی کے دن تین نہ کہ چار شیخ الحدیث جامعہ اکل کوا کی تصنیف سے مستفاد پیش خدمت ہے۔

            فریق مخالف نے اپنے موقف (یعنی چار دن قربانی) کی مشروعیت پر کل تین حدیثیں پیش کی ہیں۔

اول: حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہما کی حدیث۔

دوم: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث۔

سوم: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث۔

             لیکن اصول حدیث اور قانون ِجرح و تعدیل کی تحقیقی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ان میں سے کوئی ایک روایت بھی اس درجہ کی نہیں، جو مفید ِمقصود اور مثبت ِمدعا ہو، بل کہ ہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی علت موجود ہے جس کی وجہ سے وہ ساقط الاعتبار ہے۔

            ان کی پیش کردہ روایتوں میں سے بعض منقطع ہیں، بعض شاذ و منکر، بعض موصول مگر انتہائی ضعیف، اور بعض ایسی ہیں جن پر موضوع ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ غرض کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں جو استدلال میں پیش کئے جانے کے کے لائق ہو اور نہ ہی اس کے علاوہ اصولِ شرعیہ اربعہ (کتاب وسنت و اجماع امت اور قیاس) میں سے کوئی دوسری دلیل ہے، جس سے چار دن قربانی کی مشروعیت پر استدلال کیا جاسکے۔

            اس خلاصے کے بعد صفحہ۶۱/ سے۷۴ تک تینوں استدلالات کا اصولی اور مدلل جواب دیا ہے، اختصار کے پیش ِ نظر یہاں خلاصے پر اکتفاء کیا ہے۔

قربانی کے افضل ایام:

            قربانی ۱۰/ ۱۱/ ۱۲/ ذو الحجہ میں سے کسی بھی دن کی جاسکتی ہے؛ البتہ پہلا دن افضل ہے، پھر دوسرا دن اور پھر تیسرا دن۔

             لیکن تیسرے دن یعنی ۱۲/ ذوالحجہ کا سورج غروب ہوجانے کے بعد پھر قربانی جائز نہیں۔

(البحر الرائق، رد المحتار، فتاویٰ محمودیہ، بہشتی زیور)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

            وَقْتُ الْأُضْحِیَّةِ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ: الْعَاشِرُ وَالْحَادِی عَشَرَ وَالثَّانِی عَشَرَ، أَوَّلُہَا أَفْضَلُہَا، وَآخِرُہَا أَدْوَنُہَا

قربانی کے ایام میں رات کو قربانی کرنے کا حکم:

            قربانی کا جانور ان تین دنوں میں دن کو بھی ذبح کرنا جائز ہے اور رات کو بھی، لیکن رات کو ذبح کرنا بہتر قرار نہیں دیا گیا ہے، البتہ اگر روشنی کا مناسب انتظام ہو اور جانور کے ذبح کرنے میں بھی کوئی دشواری نہ ہو تو رات کو ذبح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔(اعلاء السنن، رد المحتار، بہشتی زیور ودیگر کتب)

            بدائع الصنائع میں ہے:وہو کَرَاہَةُ تَنْزِیہٍ، وَمَعْنَی الْکَرَاہَةِ یَحْتَمِلُ أَنْ یَکُونَ لِوُجُوہٍ: أحدہا: أَنَّ اللَّیْلَ وَقْتُ أَمْنٍ وَسُکُونٍ وَرَاحَةٍ فَإِیصَالُ الْأَلَمِ فی وَقْتِ الرَّاحَةِ یَکُونُ أَشَدَّ، وَالثَّانِی: أَنَّہُ لَا یَأْمَنُ من أَنْ یخطء فَیَقْطَعُ یَدَہُ، وَلِہَذَا کُرِہَ الْحَصَادُ بِاللَّیْلِ، وَالثَّالِثُ: أَنَّ الْعُرُوقَ الْمَشْرُوطَةَ فی الذَّبْحِ لَا تَتَبَیَّنُ فی اللَّیْلِ فَرُبَّمَا لَا یَسْتَوْفِی قَطْعَہَا.۔

            وجہ:رات وقت راحت ہے۔ہاتھ کٹنے کا اندیشہ۔ مشروط رگیں چھوٹ جانے کا گمان۔

قربانی کا وقت کب شروع ہوتا ہے؟

            قربانی کا وقت دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے شروع ہوتا ہے، اس لیے دس ذو الحجہ کی صبح صادق سے پہلے قربانی درست نہیں۔شہر اور اسی طرح وہ بڑے گاؤں اور دیہات جو شہر کے حکم میں ہوتے ہیں، جہاں عید کی نماز واجب ہوتی ہے وہاں عید کی نماز کے بعد ہی قربانی جائز ہے، اس سے پہلے جائز نہیں۔ اگر کسی نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کرلی تو قربانی ادا نہیں ہوگی، ایسی صورت میں دوبارہ قربانی کرنا واجب ہے۔ واضح رہے کہ شہر میں جہاں کہیں بھی عید کی نماز ادا ہوجائے، تو اس کے بعد قربانی کرنا جائز ہے۔البتہ وہ چھوٹے گاؤں اور دیہات جہاں عید کی نماز ادا کرنا جائز نہیں وہاں دس ذوالحجہ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرنا درست ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ سورج نکلنے کے بعد ہی قربانی کی جائے۔(اعلا ء السنن، البحر، رد المحتار، الاختیار،بہشتی زیور، جواہر الفقہ)

            مذکورہ مسئلے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اصل اعتبار قربانی کا جانور ذبح کرنے کی جگہ کا ہے، اس لیے اگر موکل یعنی جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے وہ شہر میں ہو اور اس کا وکیل اس کی طرف سے ایسے گاؤں میں قربانی کررہا ہو جہاں عید کی نماز واجب نہ ہو تو ایسی صورت میں وکیل کے لیے جائز ہے کہ وہ موکل کی قربانی صبح صادق کے بعد ہی کرلے، اسی طرح ایسی صورت میں اگر موکل گاؤں میں ہے اور وکیل شہر میں ہے تو وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ عید کی نماز کے بعد ہی موکل کی قربانی کرے۔

قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرنے کا حکم:

            کسی صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کے مذکورہ تین دنوں میں قربانی نہیں کی یہاں تک کہ ۱۲/ ذوالحجہ کا سورج غروب ہوگیا تو ایسی صورت میں اب درمیانے درجے کے بکرے یا دنبے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ایسی صورت میں بڑے جانور میں ساتویں حصے کی قربانی معتبر نہیں۔ اگر جانور خریدنے کے باوجود بھی قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرسکا تو اب اسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ہے۔(اعلاء السنن، امداد الاحکام)

قضا قربانی کی ادائیگی کا حکم:

ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کے ذمے گزشتہ ایک سال یا ایک سے زائد سالوں کی قربانیوں کی قضا واجب ہو تو ایسی صورت میں ہر قربانی کے بدلے درمیانے درجے کے بکرے یا دنبے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔