مفتی نعمان اشاعتی دھرمپوری/استاذ جامعہ اکل کوا
تزکیہٴ نفس کا مفہوم:
عربی زبان میں تزکیہ کا مفہوم کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا، اس کو نشو و نما دینا اوراُس کو پروان چڑھانا ہے۔
تزکیہ کا عمل مختلف چیزوں پر مختلف شکلوں میں نمایاں ہوگا، مادی چیزوں پر یہ عمل کسی اور شکل میں نمایاں ہوگا اور معنوی چیزوں پر کسی اور صورت میں؛ لیکن یہ فرق محض ایک ظاہری فرق ہوگا، حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی فرق نہیں ہو گا، لفظ کے اندر صاف ستھرا بنانے، نشو و نما دینے اور پروان چڑھانے کی جو روح ہے، وہ اس کے عمل میں ہر جگہ نمایاں رہے گی۔
اس بات کو مثال سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ تزکیہ کا عمل زمین کے ایک ٹکڑے پر بھی کیا جا سکتا ہے اور ایک انسان کے نفس پر بھی کیا جاسکتا ہے ،اگر چہ ان دونوں چیزوں پر اس عمل کی صورت ظاہر میں مختلف ہو گی، اس لیے کہ میدان عمل الگ الگ ہیں، لیکن حقیقت اور مقصد کے لحاظ سے دونوں عملوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہوگا، زمین کا تزکیہ یہ ہو گا کہ اس کو پہلے جھاڑ جھنکار سے صاف کیا جائے، اس کی ناہمواریوں کو ہموار کیا جائے، پھر اس پر ہل چلا کہ اس کو نرم بنایا جائے، پھر کھاد اور پانی دے کر اس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق کسی صالح بیج کو نشو و نما دے سکے اور اس سے پھل اور پھول حاصل ہو سکیں۔
نفس کا تزکیہ یہ ہو گا کہ اس کے اندر جو غلط افکار و نظریات جڑ پکڑ گئے ہیں، ان کی جڑیں اکھاڑی جائیں، جاہلانہ عادات و اخلاق نے اس کے اندر جو کجیاں اور نا ہمواریاں پیدا کر رکھی ہیں، ان کو درست اور ہموار کیا جائے، رسم ورواج کی پرستش نے اس کو بے حسی اور جمود کے جو روگ لگا رکھے ہیں ان کو دور کیا جائے۔ فانی اور نفسانی لذتوں کی چاٹ نے اس پر جو پست ہمتی اور بزدلی طاری کر رکھی ہے، اس کا علاج کیا جائے؛ تاکہ اس کی آنکھیں کھل سکیں، اس کا دماغ سونچ سکے، اس کی ہمت ابھر سکے، اس کی عادتیں سنور سکیں اور وہ اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق اپنی ذہنی، اخلاقی اور روحانی ترقی کے اس بلند مرتبہ تک پہنچ سکے، جس مرتبہ تک پہنچنے کی اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر قابلیت رکھی ہے۔
تزکیہ کا اصطلاحی مفہوم:
اسی مفہوم سے ملتا جلتا تزکیہ کا اصطلاحی مفہوم بھی ہے۔ اس کا لغوی مفہوم جیسا کہ اوپر بیان ہوا کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا اور اس کو پروان چڑھانا ہے اور اس کا اصطلاحی مفہوم نفس کو غلط رحجانات و میلانات سے موڑ کر نیکی اور خدا ترسی کے راستہ پر ڈال دینا اور اس کو درجہٴ کمال پر پہنچنے کے لائق بنانا ہے۔
تزکیہ کا یہ اصطلاحی مفہوم خود قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے واضح ہوتا ہے:
﴿و نَفْسٍ وَّمَا سَوّاہَا فَاَلْہمَہا فُجُوْرَہا وَ تَقْواھا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّہَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّہَا ﴾
ترجمہ: اور(انسان کی) جان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو ٹھیک ٹھیک بنایا،پھر اس کو اس کی بدکرداری اورپرہیزگاری سمجھادی،یقیناً جس نے نفس کو سنوار لیا، وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے اس کو خاک میں ملادیا (یعنی نفسانی خواہشات سے آلودہ رکھا)، وہ گھاٹے میں رہا۔
فائدہ: جس بات کی قسم کھائی جارہی ہے؛ اس کی اہمیت ظاہر کرنے اور اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے قرآن میں قسمیں کھائی جاتی ہیں؛ لہٰذا آیت نمبر: ۸/ تا۰ ۱/ میں قسم کے اصل مقصد کو واضح فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل ودماغ میں خیر وشر دونوں کی معرفت عطا کردی ہے؛ لیکن کامیاب وہی شخص ہوگا، جو اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سنوار لے اورجو نفس کابندہ بن جائے گا، اس کے لیے نقصان ہی نقصان ہے۔
اس آیت سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اللہ تعالے نے انسان کے نفس کو اس طرح بنایا ہے کہ اس کے اندر نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات ودیعت کر دیے ہیں۔ اور اس کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان امتیاز کر سکے، پھر انسان کے لیے فلاح و کامرانی کا راستہ یہ ٹھہرایا ہے کہ وہ نیکی اور بدی کی اس کشمکش میں نیکی کا ساتھ دے اور اس کو بدی پر غالب کرنے کی کوشش کرے۔
صحیح شعور کے ساتھ نیکی کو غالب کرنے اور بدی کو مغلوب کرنے کا یہ مجاہدہ قرآن مجید کی اصطلاح میں تزکیہ ہے۔
تزکیہ قرآن حکیم میں:
تزکیہ بمعنی تزکیہٴ نفس، اس کی نسبت قرآن حکیم میں نفس ِانسانی کی طرف بھی آئی ہے، پیغمبر کی طرف بھی اور اللہ سبحانہ کی طرف بھی!
تزکیہ کی نسبت انسان کی طرف:
﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا﴾ (الشمس )بے شک کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔
﴿وَمَن تَزَکَّیٰ فَإِنَّمَا یَتَزَکَّیٰ لِنَفْسِہِ وَإِلَی اللہِ الْمَصِیرُ﴾ (فاطر)
اور جو شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے ،وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔
تزکیہ کی نسبت پیغمبر کی طرف:
﴿کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مَنْکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ﴾ (البقرة)
جیسا کہ ہم نے تمہارے درمیان ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے، جو تمہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سناتاہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔
تزکیہ کی نسبت اللہ کی طرف:
﴿بَلِ اللَّہُ یُزَکِّی مَن یَشَاءُ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا﴾ (النساء)
اللہ جس کا چاہتا ہے تزکیہ کرتا ہے اور اللہ کسی پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔
تزکیہ بمعنی طہارت و پاکیزگی:
﴿ذَلِکُمْ أَزْکَی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة)
تمہارے لیے یہی طریقہ زیادہ پاکیزہ اور ستھرا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
﴿وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ﴾ (النور )
”انہیں چاہئے کہ اپنے ستر کی حفاظت کریں۔“
تزکیہ بمعنی شاطر، ذہین، بہترین صلاحیتوں والا:
﴿قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّکَ لَا ہَبَ لکِ غُلَامًا زَکِیاً﴾ (مریم )
فرشتے نے کہا: ”تمہارے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں ؛تاکہ آپ کو ایک بہترین بیٹا دوں۔
تزکیہ بمعنی تعریف کرنا،خود کو پاکیزہ بتانا:
﴿فَلا تُزَکِّوا أَنفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن اتقی ﴾(النجم)
”لہٰذا تم اپنے آپ کو مقدس نہ سمجھو ،وہی بہتر جانتاہے کہ کون پرہیز گار ہے۔“
نفس کا مفہوم :
اِنسان کے جسدِ خاکی میں معصیت کا گہرا شعور رکھنے والی اور اُس سے بچنے(اِجتناب) کے طریقوں سے بھی آگاہ رہنے والی ایک فعال، متحرک اور خود مختار قوتِ حاکمہ ہوتی ہے؛ جو اِنسان کو بد اعمالی اور گُناہ پر اکساتی بھی ہے اور اس سے بچاؤ کے طریقے بھی سُجھاتی ہے؛ نیز کبھی کسی بد کرداری کے ظہور پر لعنت و ملامت بھی کرتی ہے۔ وہ متضاد داخلی کیفیات کی حامل ہوتی ہے، کبھی معصیتوں اور بد اعمالیوں کا اصل منبع ہو اکرتی ہے اور کبھی حسنات و اعمالِ صالحہ کے لیے داعی و محرک ہو کر رُشدوخیر کے لیے بُنیادی سرچشمہ بن جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ روح اور جسم کے درمیان ایک پل کا کام دیتی ہے، یہی قوتِ حاکمہ”نفس“(SELF)کہلاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ نَفسٍ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوٰھَا، قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا﴾۔ (الشمس)
”قسم نفس کی اور جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس کی بدی اور اس کی پر ہیز گاری اس پر الہام کر دی۔ یقینا وہ فلاح پا گیا، جس نے اس کا تزکیہ کیا۔
نفس کا معنی:
لغت میں نفس کے مختلف معنی وارد ہوئے ہیں، مگر قابلِ ذکر چند یہ ہیں: جان، روح، ذات، شخصیت، حقیقت امر ،مگر اِصطلاحاًنفس وہ شئ ہے، جو اِنسان کے اندر غضب اور خواہش و شہوات کی جامع ہو۔
قرآن حکیم میں لفظ ”نفس“ 267 دفعہ استعمال ہوا ہے۔
نفس کے اقسام:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نفس کے تین اقسام بتائے ہیں اور وہ یہ ہیں:
۱۔نفسِ مطمئنہ: اگر نفس کو اللہ کی اطاعت سے سکون واطمینان حاصل ہو، اس کی طرف انابت سے خوشی ہو، اس کی ملاقات کا آرزو مند اور مشتاق ہو اور اس کو اس کے قرب حاصل کرنے میں انس میسر ہوتو یہ نفس مطمئنہ ہے۔اور اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یَا اَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً﴾
”اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل ،اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش“۔(الفجر)
2۔نفسِ لوّامہ: یہ نفس کبھی ایک حال پر باقی اور قائم نہیں رہتا ہے۔بلکہ اس میں بہت تغیر، تبدیلی اور تلون پیدا ہوتا رہتا ہے۔ کبھی ذکر سے سرشار رہتا ہے تو کبھی غفلت ولا پرواہی میں مبتلا ہوجاتا ہے، کبھی احکام ِالٰہی کے قبول کرنے میں سعادت ابدی سمجھتا ہے، تو کبھی ان سے اعراض بھی کرتا ہے، تو کبھی محبت کا برتاؤ کرتا ہے اور کبھی بغض رکھتا ہے، تو کبھی خوش اور کبھی رنجیدہ رہتا ہے۔ اور کبھی راضی اور کبھی غصہ ہوتا ہے اور کبھی انتہائی مطیع فرمانبردار اور ڈرنے والا ہوجاتا ہے۔
”وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ“”اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی“ ۔(القیامہ:۲)
نفس لوامہ کی دو قسمیں ہیں: لوامہ ملومہ اور لوامہ غیر ملومہ:
لوامہ ملومہ: جاہل، ظالم اور حد سے تجاوز کرنے والا نفس ہے، جس پر اللہ اور فرشتوں کی طرف سے ملامت نازل ہوتی ہے۔
لوامہ غیر ملومہ: یہ نفس بندے کو اللہ کی عبادت وطاعت کے باب میں اس کی تقصیر اور کوتاہی کرنے پر ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے، درحقیقت سب سے شریف نفس وہی ہے، جو نفس کو عبادت اور طاعت کے سلسلے میں سرزنش و فہمائش کرتا رہے اور اللہ کی رضا کی خاطر ہر ملامت کرنے والے کی ملامت کو برداشت کرے۔
3۔نفس امارہ: یہ نفس ہر بری اور خراب چیزوں کا حکم دیتا ہے، شر اور برائی اس کی سرشت اور فطرت میں ہے۔ اس کے شر اور برائی سے خلاصی اور نجات محض اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مہربانی سے ہوسکتی ہے؛جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
﴿وَمَا اُبَرِّیُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ﴾۔
”میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا،بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہے، مگر جس پر میرے رب نے رحم کردیا۔ بے شک میرا رب بخشنے والا اور مہربان ہے۔
تزکیہٴ نفس اور اصلاحِ نفس کی اہمیت:
آج سب سے زیادہ آسان کام دوسروں کو متہم کرنا، عیب لگانا اور نکتہ چینی کرنا ہے؛ مگر اپنے گریبان میں جھانکنا، اپنے عیوب سے واقف ہونا اور اپنے نفس کا تزکیہ و اصلاح کرنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے؛ اسی لیے اپنے نفس کا محاسبہ کرنا، اس کی چالوں کو سمجھنا، اس کی بے جا خواہشات کو ٹھکرا کر اسے اپنے تابع کرنا،بالفاظ دیگر غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر کامل توجہ کے ساتھ اپنے نفس کا تزکیہ و اصلاح کرنا ،جہاد جیسے عظیم کارنامے سے کچھ کم نہیں۔
ایک بار نبیٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہاد سے واپس آکر صحابہ سے ارشاد فرمایا:رَجَعْنَا مِنَ الْجِہَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِہَادِ الْأَکْبَر کہ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی جانب واپس آئے ہیں۔
صحابہ نے عرض کیا: ”مَا الْجِہَادُ الْأَکْبَرُ یَا رَسُولَ اللَّہِ! “ اللہ کے رسول! جہاد اکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جِہَادُ النَّفْسِ وَ الشَّیْطَانِ یعنی نفس اور شیطان سے جہاد، جہادا کبر ہے۔
اللہ اکبر! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر لطیف نکتے کی وجہ سے جہاد نفس کو جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا کہ نفس سے جہاد کر کے اسے شکست دے دی گئی، اسے مغلوب کر دیا گیا تو شر کا مادہ ہی مٹ جائے گا اور ہر طرح کا خیر وجود میں آئے گا؛ کیوں کہ نفس کا غلبہ ہر شر کی بنیاد ہے اور اس کی شکست ہر خیر کا سر چشمہ۔ یقینا ہمارا اصل دشمن ہمارا اپنا نفس ہے، اس سے جہاد کرنا اور اسے شکست دینا ہی ہماری فتح اور اصل کامیابی ہے۔
نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
بڑے موزی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
گویا نفس کو عقل و شریعت کی نکیل ڈال دینا، نفس کو تسخیر کر لینا، نفس کو فتح کر لینا ہے۔ جو اپنے نفس کو فتح کر لیتا ہے، وہ دوسروں کے دلوں کو بھی فتح کر سکتا ہے اور جو دوسروں کے دلوں کو فتح کرلے، وہی فاتح زمانہ ہوتا ہے ۔ ع
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
کتنا عجیب ہے کہ ہم اپنے نفس کو تو قابو نہیں کر سکتے اور ساری دنیا کو فتح کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے نفس پر تو زور و اختیار نہیں اور وسروں پر حکومت کرنے کی سوچتے رہتے ہیں۔ ایک انگریز فلسفی مسٹر مینگر“ کہتا ہے کہ اگر آپ دوسروں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے خود پر حکومت کریں۔
انسان کے انسان ہونے کے لیے نفس کی اصلاح اور اس کا تزکیہ اس قدر ضروری ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مقاصد بعثت میں سے ایک اہم مقصد تزکیہ نفس کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْہُمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیٰتہِ وَیُزَکِّیہِمْ و یُعَلِّمُہُمُ الکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ﴾ (الجمعة )
ترجمہ: ”وہی اللہ ہے، جس نے امیوں میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ پڑھ سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے بیشک یہ لوگ اس سے قبل کھلی گمراہی میں تھے۔“
چناں چہ عرب کے بدو، جن کی رگ رگ میں جاہلیت سرایت کی ہوئی تھی، جن کی مجرمانہ ذہنیت، منافقانہ نفسیات، بد عملی اور بد اخلاقی ان کی روحانی بیماریوں کا سبب بنی ہوئی تھی؛ انسانیت و اخلاق سے گرے ہوئے ایسے لوگ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم و تزکیہ سے آراستہ ہو کر سارے عالم پر چھا گئے۔ ان کے اعمال، افکار، اذہان اور اخلاق ہر طرح کے جرائم سے پاک ہو گئے اور ان میں نیکی و خیر خواہی کی ایسی تخم ریزی پڑگئی کہ وہی قوم جو تہذیب و تمدن سے بالکل عاری تھی، اخلاق و شائشتگی سے بالکل خالی تھی؛ وہ خود مہذب و متمدن ہی نہیں ہوگئی؛ بل کہ ساری دنیا کے لیے تہذیب واخلاق کی معلم و مربی بن گئی۔
نفس کا تزکیہ اور اصلاح اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ خود معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے اکثر یہ دعا فرماتے تھے:
”اللَّہُمَّ آتِ نَفْسِی تَقْوٰہَا وَزَکِّہَا أَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکّٰہَا أَنتَ وَلِیُّہَا وَ مَوْلٰہاَ“۔
(نسائی)
اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرمائیے اور اس کا تزکیہ فرمادیجئے، آپ ہی اس کا بہترین تزکیہ کرنے والے ہیں: آپ ہی اس کے ولی بھی ہیں اور مولیٰ بھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے:
”حَاسِبُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا۔“
”اپنے نفس کا محاسبہ کر لوقبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے۔“
محاسبہٴ نفس:
کل قیامت کا دن بڑا سخت ہوگا، اعمال کا حساب ہوگا اور اعمال کی درستگی نفس کی درستگی پر موقوف ہے بگڑے نفس سے بگڑے اعمال ہی صادر ہوں گے۔ اس لیے آج دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کر لینا کل قیامت کے دن اعمال کے حساب لیے جانے سے سہل اور آسان ہے۔ حضرت حسن رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: مومن اپنے نفس کا نگراں ہوتا ہے اور اللہ کے لیے اس کا محاسبہ کرتا ہے۔ بیشک جو لوگ دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں گے، روز قیامت ان کا حساب و کتاب آسان ہوگا؛ اور جن لوگوں نے دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کیا، قیامت میں ان کا حساب بہت سخت ہوگا۔
نفس کا محاسبہ مشکل بھی ہے اور آسان بھی، اللہ پاک نے اسے زور آور بھی بنایا ہے اور بے حد کم زور بھی۔ جو شخص ایک بار اس کے مقابلے پر آجاتا ہے، اس کے سامنے ڈٹ جاتا ہے کہ خواہ کتنی ہی مشقت اور تکلیف ہو، دل چھلنی چھلنی ہو جائے، ارمان خون خون ہو جا ئیں، مگر نفس کی بات نہیں مانوں گا، گناہ کر کے اس کو خوش نہیں ہونے دوں گا؛ اس شخص کے آگے نفس کا کچھ زور نہیں چلتا، وہ کم زور پڑ جاتا ہے؛ اس کی خواہشات ڈھیلی پڑنے لگتی ہیں۔ اسی طرح نفس کے ہر برے تقاضے پر اس سے ٹکر لیتا ہے، عزم مصم کے ساتھ اس کے تقاضے کوٹھکراتا ہے، اس کی خواہش کو کچلتا ہے تو پہلی بار خواہش نفس پوری نہ کرنے سے جتنی تکلیف ہوئی تھی، دوسری بار اس سے کم ہوگی اور تیسری بار اس سے بھی کم۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ وہ تکلیف بالکل ہی جاتی رہے گی اور پھر نفس اس کے تابع ہو جائے گا۔
جو شخص نفس کے آگے کم زور پڑ جائے اس پر نفس شیر ہو جاتا ہے، اسے اپنا غلام بنا لیتا ہے اور وہ شخص اس کے سامنے بھیگی بلی بنا دم ہلاتا رہتا ہے؛ اس کے ہر تقاضے کو پورے کرتا ہے اور اس طرح نفس کے دام میں پھنس کر خود کو تباہ و برباد کر لیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے نفس کا محاسبہ بڑا مشکل کام ہے، تاہم وہ بھی اگر ہمت و حوصلہ سے کام لے تو نفس کے پھندے سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔
دیدہ و دانستہ حق سے انحراف اور ہوا پرستی کا حال اور مآل اور اس کی مثال:
وَلَو شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہ اَخْلَدَ اِلَی الاَرضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ فَمَثَلُہ کَمَثَلِ الکَلبِ اِن تَحمِل عَلَیہِ یَلہَث اَو تَترُکہُ یَلہَث ذٰ لِکَ مَثَلُ القَومِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِاٰیٰتِنَا فَاقصُصِ القَصَصَ لَعَلَّہُم یَتَفَکَّرُونَ سَآءَ مَثَلَاْ القَومُ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِاٰیٰتِنَا وَاَنفُسَہُم کَانُوا یَظلِمُونَ﴾۔
( الأعراف: 176-177)
ترجمہ: اور ہم چاہتے تو بلند کرتے اس کا رتبہ ان آیتوں کی بدولت لیکن وہ تو ہو رہا زمین کا اور پیچھے ہو لیا اپنی خواہش کے، تو اس کا حال ایسا جیسے کتا ،اس پر تو بوجھ لادے تو ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو۔ سو بیان کر یہ احوال تاکہ وہ دھیان کریں ،بری مثال ہے ان لوگوں کی کہ جھٹلایا انہوں نے ہماری آیتوں کو، اور وہ اپنا ہی نقصان کرتے رہے ۔
گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ کے عہود اور مواثیق کا بیان تھا۔ اب ان آیات میں ایسے ہوا پرستوں اور گرفتاران حرص و طمع کا حال اور انجام اور مثال بیان کرتے ہیں جو حق کو قبول کر لینے اور پوری طرح سمجھ لینے کے بعد محض دنیوی طمع کی بنا پر احکام خداوندی سے منحرف ہو جائیں اور شیطان کے اشاروں پر چلنے لگیں اور خدا کے عہد اور میثاق کی پرواہ نہ کریں ایسوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔
نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگنا دراصل نفس پرستی ہے اور یہ بھی بت پرستی کی ہی قسم ہے:
﴿اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلہَہ ہَوٰیہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَ قَلْبِہ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہ غِشٰوَةً فَمَنْ یَّہدِیْہ مِنْ بَعْدِ اللّہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ﴾
بھلا آپ نے اس شخص کو دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اللہ نے سمجھ بوجھ کے باوجود اس کو ہدایت سے محروم کردیا، اس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھ پر پردہ رکھ دیا، تو اب اللہ کے سوا کون اس کو ہدایت پر لاسکتا ہے؟ کیا تم سوچتے نہیں ہو؟؟
خواہش کو معبود بنانے سے مراد ہے: اللہ تعالیٰ کے احکام پر اپنی خواہشات کو غالب رکھنا، دنیا میں زیادہ تر گناہ خواہشات ہی کی پیروی کا نتیجہ ہوتے ہیں، زنا ہو یا چوری، جھوٹ ہو یا غیبت، سود ہو یا رشوت، ظلم و زیادتی ہو یا حق تلفی، اللہ کی عبادت سے غفلت ہو یا شرک و بت پرستی، ان سب کے پیچھے انسان کی خواہشات کار فرما ہیں؛ چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اس کی خواہش ہمارے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔ (کنز العمال)
ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں انسان کو ہلاک کردینے والی اور تین چیزیں بچانے والی ہیں تو ہلاک کرنے والی چیزیں ہیں: بخل جس کی اطاعت کی جائے، خواہش جس کی پیروی کی جائے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، اوربچانے والی چیزیں ہیں: تنہائی میں اور لوگوں کے درمیان اللہ کی خشیت، دولت و محتاجی دونوں حالتوں میں اعتدال، غصہ اورخوشی دونوں حالتوں میں عدل۔ (کنز العمال، المعجم الاوسط)
اس سلسلے میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرنے کے لائق ہے، فرماتے ہیں: جب انسان صبح کرتا ہے تو اس سے متعلق تین چیزیں (علم، عمل، خواہش) جمع ہوتی ہیں، اگر عمل خواہش کے تابع ہوجائے تو اس کا دن بدترین دن ہوتا ہے اور اگر اس کا عمل علم کے تابع ہوجائے تو وہ اس کا بہترین دن ہوتا ہے۔
(تفسیر قرطبی)
حاصل کلام یہ ہے کہ اس میں خواہشات نفسانی کو بتوں سے تعبیر کیا ہے۔ جس نے اپنی خواہشات کو ہی امام و مقتدا بنا لیا اور ان کے پیچھے چلنے لگا تو گویا یہ خواہشات ہی اس کے بت ہیں۔ حضرت ابوامامہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ زیر آسمان دنیا میں جنتے معبودوں کی عبادت کی گئی ہے، ان میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک ہوٰی ہے یعنی خواہش نفسانی، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی السلام نے فرمایا کہ دانشمند وہ شخص ہے ،جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور ما بعد الموت کے واسطے عمل کرے اور فاجر وہ ہے، جو اپنے نفس کو اس کی خواہش کے پیچھے چھوڑ دے اور اس کے باوجود اللہ سے آخرت کی بھلائی کی تمنا کرتا رہے۔اور حضرت سہل بن عبداللہ تستری نے فرمایا کہ تمہاری بیماری تمہاری نفسانی خواہشات ہیں۔ ہاں اگر تم ان کی مخالفت کرو تو یہ بیماری ہی تمہاری دوا بھی ہے۔ (معارف القرآن)
تزکیہ نفس اور اصلاح نفس کے طریقے اور تدابیر:
حجتہ الاسلام امام غزالی نے اصلاح نفس کے چار مجرب طریقے بتائے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(۱)… کسی کامل مرشد کی خدمت میں حاضر رہے، تا کہ وہ اس کے احوال پر نظر کر کے اس کے عیوب کو ظاہر کرے۔
(۲)… اپنے کسی مشفق اور مخلص دوست کو اپنا نگراں مقرر کرے، جو محض اس کی خاطر داری کی وجہ سے اس کے عیبوں کو نہ چھپائے اور نہ حسد کے باعث ان میں اضافہ کرے۔
شیخ داؤد طائی رحمت اللہ علیہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں اٹھتے بیٹھتے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ وہ میرا عیب مجھ پر ظاہر نہیں کرتے، پھر ان کے پاس بیٹھنے سے کیا فائدہ؟
(۳)… اپنے بارے میں دشمن کی بات سنے، کیوں کہ دشمن کی نظر ہمیشہ عیب پر پڑتی ہے، خواہ دشمن دشمنی میں مبالغہ بھی کرے، تاہم اس کی عیب جوئی راستی سے خالی نہیں ہوتی۔
(۴)… دوسروں کے حال پر نظر کرے اور جب کسی کا عیب دیکھے تو خود اس سے اجتناب کرے اور خیال کرے کہ وہ خود بھی ایسا ہی ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام سے لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ کو یہ ادب کس نے سکھایا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں نے کس کی کوئی برائی دیکھی تو خود میں اس سے اجتناب کرنے لگا۔ غرض اصلاح ِنفس کے بغیر انسان، انسان نہیں بنتا اور اپنے رب کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا؛ اور جو رب کی معرفت سے محروم رہا، وہ اپنا عروج کہاں پائے گا؟ اس لیے اصلاح ِنفس کی پہلے فکر کرے اور اس کے لیے اس کے طریقے کو اپنائے اور ساتھ ساتھ اللہ پاک سے فضل و توفیق کی دعا کرتا رہے اور ہمیشہ نفس و شیطان کے مکر و فریب سے پناہ مانگتا رہے۔
”اللَّہُمَّ قِنِی شَرَّ نَفْسِی وَأَعْزِمُ لِی عَلَی رُشْدِ أَمْرِی۔“
اے اللہ مجھے میرے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنے کام کی اصلاح پر ہمت دے!
اسی طرح تزکیہٴ نفس کے لیے یہ دعا کا بھی اہتمام کرتے رہیں۔
حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا مانگا کرتے تھے:
”اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا“۔
اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کاولی اور مولیٰ ہے۔(مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا امت کی تعلیم کے لیے ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود (نفس) کو مذموم (بری صفات سے پاک کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پاکی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا بھی کرے اور اس دعا کے لیے وہ الفاظ سب سے بہترین ہیں ،جو اوپر حدیث پاک میں مذکور ہوئے۔
صاحبو!…یہ بات ذہن نشین کرلو! انسان کی فلاح وکامیابی اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے؛ چناں چہ محاسبہٴ نفس، اور ہر قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں مکمل نگرانی ضروری ہے؛ لہٰذا جس شخص نے محاسبہ نفس، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الٰہی کے مطابق مکمل قابو رکھا تو وہ بڑی کامیابی پاگیا۔
اب ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں، اللہ کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے قربِ الٰہی تلاش کریں۔ غضبِ الٰہی کا موجب بننے والے اعمال سے دور رہیں اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ متقی کامیاب و کامران ہوں گے اور خواہشاتِ نفس کے پیروکار نامراد ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے نیک اعمال میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کرے۔نیز حق تعالیٰ ہم تمام کو تزکیہٴ نفس،توبہ،استغفاراور کثرت ذکر کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔
” اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ کُلَّمَا ذَکَرَہُ الذَّاکِرُونَ، وَ کُلَّمَا غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الْغَافِلُونَ“