تلاوت وسماعتِ قرآن کریم کے چھ ضروری آداب

مرتب :محمد سبحان ارریاوی(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

                (۱)…         استقبالِ قبلہ۔

                (۲)…        حضوریٴ دل ۔

                (۳)…        گریہ وبکاء۔

                (۴)…        جوابِ آیات۔

                (۵)…        تدبُّرِ قرآن۔

                (۶)…        رفع الصوف حسب المعنیٰ

۱-: قبلہ کی طرف منہ کر کے تلاوت کرنا منجملہ آدابِ تلاوت کے ہے:

                 یُسْتَحَبُّ لِلْقَارِئِ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِمَا رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہ قَالَ اَشْرَفُ الْمَجَالِسِ مَا اسْتُقْبِلَ بِہِ الْقِبْلَةُ۔ رواہ الطبرانی۔ وروی الطبرانی وابن عدی عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہ قَالَ اَکْرَمُ الْمَجَالِسِ مَا اسْتُقْبِلَ بِہِ الْقِبْلَةُ۔ (تلاوة القرآن المجید:ص۷۲)

                ترجمہ: قاری کے لیے مستحب ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کر کے تلاوت کرے، کیوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا یہ ارشاد عالی روایت کیا ہے کہ” شریف ترین مجلس وہ ہے، جس میں قبلہ کی طرف منہ کیا جائے۔“یہ طبرانی کی روایت ہے۔

                نیز طبرانی اور ابن عدی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ” معزز ترین نشست وہ ہے، جس میں قبلہ کی طرف منہ کیا جائے۔“(طبرانی و ابن عدی)

۲-قران کریم کی سماعت کے وقت جسم کے ساتھ ساتھ دل کی حاضری و خشیت بھی ضروری ہے:

                وٴ…وَفِیْ الْجَامِعِ الْکَبِیْرِ لِلسُّیُوْطِیْ رَحِمَہُ اللّٰہُ مِنْ حَدِیْثِ أُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی بِالنَّاسِ فَقَرَأَ عَلَیْہِمْ سُوْرَةً فَاَغْفَلَ مِنْہَا اٰیَةً فَسَاَلَہُمْ ہَلْ تَرَکْتُ مِنْہَا شَیْئًا فَسَکَتُوْا فَقَالَ مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَقْرَأُ عَلَیْہِمْ کِتَابُ اللّٰہِ لَا یَدْرُوْنَ مَا قُرِئَ عَلَیْہِمْ وَلَا مَا تُرِکَ، ہٰکَذَا کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ خَرَجَتْ خَشْیَةُ اللّٰہِ مِنْ قُلُوْبِہِمْ فَغَابَتْ قُلُوْبُہُمْ وَشَہِدَتْ اَبْدَانُہُمْ اَ لَا وَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَقْبَلُ مِنْ اَحَدٍ عَمَلًا حَتّٰی یَشْہَدُ بِقَلْبِہ مَا شَہِدَ بِبَدَنِہ۔ ا ہ اتحاف۔( نہایہ القول المفید:۳۰۴)

                ترجمہ: علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ کی جامع کبیر میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ایک بار نماز پڑھائی اور اس میں ان کے سامنے ایک سورت تلاوت فرمائی اور اس سورت میں سے ایک آیت( نسیاناً) ترک فرمادی، پھر (نماز کے بعد) صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا کہ میں نے اس سورت میں سے کوئی آیت چھوڑی ہے؟ صحابہٴ کرام خاموش رہے،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان قوموں کا کیا (نامناسب )حال ہے، جن پر اللہ کی کتاب پڑھی جاتی ہے اور اُنہیں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کون سا حصہ پڑھا گیا ہے اور کون سا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی بھی یہی حالت تھی کہ ان کے دِلوں سے خوف ِخداوندی جاتا رہا تھا، سو ان کے دل غیر حاضر اور صرف ظاہری اجسام حاضر رہتے تھے( اور انہیں بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا پڑھا گیا اور کیا چھوڑا گیا )سن لو! بلاشبہ اللہ رب العزت کسی کا کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں فرماتے ،جب تک کہ وہ اپنے اس عمل میں جسم کے ساتھ ساتھ دل سے بھی حاضر و متوجہ نہ ہو۔(جامع کبیر للسیوطی)

۳- قرآن مجید کی تلاوت کے وقت خوش آوازی کے علاوہ رونا یا کم از کم رونے کی شکل ہی بنانا ادب اور مستحب ہے:

                عَنْ سَعِیْدِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ فَاِذَا قَرَاْتُمُوْہُ فَابْکُوْا فَاِنْ لَمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکُوْا وَتَغَنَّوْا بِہ فَمَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ فَلَیْسَ مِنَّا.(رواہ بن ماجہ، من تعلیقات التبیان:ص ۱۱۱)

                ترجمہ: حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ” قرآن غمناکی اور دلی خوف و تأثر کے ساتھ اترا ہے، لہٰذا جب اس کو پڑھا کرو تو رویا کرو، سو اگر تم رو نہ سکو، تو رونے کی شکل ہی بنا لیا کرو اور اس کے ذریعے بے نیازی حاصل کرو، نیز خوش آوازی سے پڑھو، کیوں کہ جس نے قرآن کے ذریعے بے نیازی حاصل نہ کی نیز اس کو خوش آوازی سے نہ پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“(ابن ماجہ)

                فائدہ-(۱): صالح مِرِّ ی کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآنِ کریم پڑھا تو مجھ سے فرمایا صالح! قرأت تو یہ ہو گئی، مگر گِریہ اور رونا کہاں ہے؟

                فائدہ-(۲): حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب تم سُبْحٰن( بنی اسرائیل) کا سجدہ پڑھو، تو سجدہ کرنے میں جلدی مت کرو، یہاں تک کہ تمہیں رونا آ جائے، سو اگر تم میں سے کسی کی آنکھ نہ روئے، تو اِس پر اس کو دل سے رونا چاہیے (کہ مجھے رونا نہیں آتا ہے)۔

(حاشیہٴ تبیان:۸۶/۸۷)

۴- بعض سوالیہ آیتوں کے جواب میں چند مخصوص کلمات کہنے کی تلقین:

                وٴ…رَوی اَبُوْ دَاودَ وَالتِّرْمِذِیُّ حَدِیْثَ مَنْ قَرَأَ﴿ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ﴾ فَانْتَہٰی اِلٰی اٰخِرِ ہَا فَلْیَقُلْ ”بَلٰی وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ“ وَمَنْ قَرَأَ ﴿لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ﴾ فَانْتَہٰی اِلٰی اٰخِرِہَا ﴿اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی﴾ فَلْیَقُلْ ”بَلٰی“ وَمَنْ قَرَأَ ﴿وَالْمُرْسَلَاتِ﴾ فَبَلَغَ ﴿فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہ یُؤْمِنُوْنَ﴾ فَلْیَقُلْ ”اٰمَنَّا بِاللّٰہ“ِ قَالَ النَّوَوِیُّ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی قُلْتُ وَفِیْ﴿ فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ﴾ یَقُوْلُ” وَلَا بِشَیْءٍ مِنْ نِّعْمَتِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ“۔رواہ الحاکم۔ وفی﴿ فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَاءٍ مَّعِیْنٍ﴾ یَقُوْلُ ”اَللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ“ وَفِیْ خَتْمِ﴿ وَالضُّحٰی﴾ وَمَا بَعْدَہَا ”اَلتَّکْبِیْرُ“۔رواہ البیہقی۔ (نہایہ القول المفید:۳۱۰)

                ترجمہ: ابو داؤد اور ترمذی نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص ﴿ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ﴾ پڑھے اور اس سورت کے اخر تک پہنچ جائے، تو وہ یوں کہے ”بَلٰی وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ“(کیوں نہیں! یقینا اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے اور میں اِس پر من جملہ گواہی دینے والوں کے ہوں )اور جو ﴿لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیمَةِ﴾ پڑھے، تو اسی سورت کے آخر یعنی اس آیت تک پہنچ جائے﴿اَلَیْسَ ذلِکَ بِقَادِرٍ عَلی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتی﴾( کیا وہ ذات اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے) تو وہ یوں کہے ”بَلٰی“(کیوں نہیں! ضرور قادر ہے) اور جو﴿وَالْمُرْسَلَاتِ﴾ والی سورت پڑھے اور اس آیت پر پہنچ جائے ﴿فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہ یُؤْمِنُوْنَ﴾(تو وہ لوگ اس قرآن کے بعد اور کون سی کلام پر ایمان لائیں گے) تو وہ یوں کہے”اٰمَنَّا بِاللّٰہ“(میں اللہ اور اس کی کتاب پر ایمان لے آیا) نووی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں میں کہتا ہوں کہ﴿ فَبِاَیِّ الَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ﴾(سو تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے )کے جواب میں یوں کہے ” وَلَا بِشَیْءٍ مِنْ نِّعْمَتِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ“(اور ہم اے پروردگار! آپ کی نعمتوں میں سے کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے ہیں ،سو تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں)۔اس کو حاکم نے روایت کیا ہے۔اور﴿ فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَاءٍ مَّعِیْنٍ﴾( تو کون ہے وہ جو تمہارے پاس رواں اور جاری پانی کو لائے گا) کے جواب میں یوں کہے ”اَللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ“( یعنی اللہ ہی لائیں گے اور جو تمام جہانوں کے پروردگار ہیں۔بعض روایات میں یہ لفظ آئے ہیں” اللّٰہُ یَاْتِیْنَا بِہ وَہُوَ رَبُّنَا وَرَبُّ العَالَمِیْنَ“اور سورہ ﴿وَالضُّحی﴾ اور اس کے ما بعد سورتوں کے خاتمہ پر” تکبیر“( اللّہُ اَکْبَرْ) کہے۔ اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔( بیہقی)

۵-فائدہ (۱): تدبر قرآن کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد عالی:

                حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے: سب سے بڑا فقیہ اور دانشور وہ ہے، جو قرآن کو چھوڑ کر دوسری چیز کی طرف راغب نہیں ہوتا، یقینا ایسی عبادت میں کوئی خیر نہیں، جس میں علم نہ شامل ہو اور ایسے علم میں کوئی خیر نہیں، جس میں فقہ نہ شامل ہو اور ایسی تلاوت میں کوئی خیر نہیں، جس کے ساتھ تدبُّر کا حصہ نہ شامل ہو۔

( کتاب العلم لابی خیثمہ زہیر بن حرب، رسالہ ضمن کتاب الایمان:۱۴۳/ بحوالہ یا حملة القرآن:۳۶)

فائدہ-(۲): قران پاک میں غور و تدبر کے متعلق حسن بصری  علیہ کا ارشاد:

                حسن بصری رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پہلے لوگ قرآن شریف کو اللہ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور و تدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے اور تم لوگ اس کے حروف اور زبر، زیر تو درست کرتے ہو، مگر اس کو فرمانِ شاہی نہیں سمجھتے، اس میں غور و تدبر نہیں کرتے۔(فضائل)

فائدہ-(۳): کسی دوست کا خط انسان کتنے غور سے پڑھتا ہے؟ اور کسی دوست کی باتیں انسان کتنی توجہ سے سنتا ہے؟

                تورات سے احیا میں نقل کیا ہے کہ حق سبحانہ تقدس ارشاد فرماتے ہیں: اے میرے بندے! تجھے مجھ سے شرم نہیں آتی، تیرے پاس راستہ میں سے کسی دوست کا خط آ جاتا ہے تو چلتے چلتے راستے میں ٹھہر جاتا ہے، الگ بیٹھ کر غور سے پڑھتا ہے، ایک ایک لفظ پر غور کرتا ہے۔ میری کتاب تجھ پر گزرتی ہے، میں نے اس میں سب کچھ واضح کر دیا ہے، بعض اہم امور کا بار بار تکرار کیا ہے، تاکہ تو اس پر غور کرلے اور تو بے پرواہی سے اڑا دیتا ہے، کیا میں تیرے نزدیک تیرے دوستوں سے بھی ذلیل ہوں؟ اے میرے بندے! تیرے بعض دوست تیرے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے، تو ہمہ تن ادھر متوجہ ہو جاتا ہے، کان لگاتا ہے، غور کرتا ہے، کوئی بیچ میں تجھ سے باتیں کرنے لگتا ہے، تو تو اشارہ سے اس کو روکتا ہے، منع کرتا ہے، میں تجھ سے اپنے کلام کے ذریعے سے باتیں کرتا ہوں اور تو ذرا بھی متوجہ نہیں ہوتا، کیا میں تیرے نزدیک تیرے دوستوں سے بھی زیادہ ذلیل ہوں؟ (فضائل)

۶-معنیٰ کی رعایت سے بعض الفاظ پر آواز کو اونچا کر دینا:

                عَنْ عُمَرَ بنِْ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ َتَعَالٰی عَنْہُ اَنَّہ قَرَاَ فِی صَلَاہِ الْمَغْرِبِ بِمَکَةَ﴿ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ﴾ وَرَفَعَ صَوْتہ وَقَالَ﴿ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ﴾۔

(رواہ النووی فی التبیان:۱۲۲)

                ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ آپ نے مکہ معظمہ میں نمازِ مغرب میں ﴿ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ﴾پڑھی اور﴿ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ﴾ بہت زیادہ اونچی آواز سے پڑھا۔

                فائدہ: قرآن کے آداب و حقوق کا خلاصہ یہ ہے کہ کلامِ پاک کی عظمت اور صاحبِ کلام کی کبریائی دل میں رکھے۔ دل کو گندے خیالات اور گندی ذہنی سوچ سے پاک کرے، جس عزت سے بادشاہ کا فرمان اور جس شوق سے محبوب کا کلام پڑھا جاتا ہے اسی طرح پڑھنا چاہیے۔ پڑھنے میں جلدی نہ کرے، بل کہ ترتیب و تجوید سے پڑھے، تلاوت میں رونا نہ آئے، تو رونے کی شکل بنائے، آیاتِ وعد و رحمت پر دعا ئے جنت و رحمت مانگے اور آیات ِعذاب و و عید پر مغفرت و پناہ چاہے، آیات تنزیہ و تقدیس پر” سُبْحَانَ اللّٰہِ“ کہے۔ قرآنِ پاک پر تکیہ نہ لگائے، اس کی طرف پاؤں نہ پھیلائے، اس کی طرف پشت نہ کرے، اس کو پاؤں سے نہ روندے کہ یہ حرام ہے۔   

              قاری قرآن کی تلاوت کے وقت یہ سوچے کہ گویا خود سبحانہ و تعالیٰ کو کلامِ پاک سنا رہا ہے، نیز کانوں کو اس درجہ متوجہ بنا دے کہ گویا خود حق سبحانہ و تعالیٰ کلام فرما رہے ہیں اور یہ سن رہا ہے۔