قربانی

شفیع احمد قاسمی اِجرا، مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

عمارتِ اسلام کاچوتھاپتھر:

            اللہ تبارک وتعالیٰ کے بے پایاں فضل وکرم سے ہم اشہرحُرم کے ماہِ ذی الحجہ میں قدم رکھ چکے ہیں اور خراماں خراماں دنیاوی پلیٹ فارم سے آگے آخرت کی جانب کھسک رہے ہیں۔ کائنات کے نقشہ پرزند گی بسر کرنے والاہر مسلمان اچھی طرح جانتا ہے کہ یہی وہ ماہِ مبارک ہے،جس میں اسلام کے عالی شان فرائض میں سے ایک ”حج“ کا فریضہ بھی ادا کیا جاتا ہے ۔یہ عمارتِ اسلام کاچوتھابنیادی اوراہم پتھرہے،جس کی ادائیگی کے لیے دنیا کے ۱۹۵/ ممالک کے کونے کونے سے لاکھوں فرزندانِ توحید سرتاپا بے تابانہ، محبوبانہ، معصومانہ،عاجزانہ ، والہانہ ا ور عاشقانہ انداز اختیارکرکے مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر پہنچتے ہیں اوردنیاپریہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ اِس دور میں بھی جبکہ مسلمان دنیاوی اعتبارسے مغلوب ہیں ، لیکن حج کے موقع پراُن کااتفاق واتحاداظہرمن الشمس ہے۔ حج کے تعلق سے قرآن کریم میں ربِّ دوجہاں کا یہ اعلان ہے کہ: ﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَفَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّعَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔﴾اس آیت کریمہ میں حج کی فرضیت اُن لوگوں کے لیے لازم قراردی گئی ہے، جو وہاں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔اگرکسی نے اس کاانکارکیاتواللہ تعالیٰ ساری دنیا سے بے نیاز ہے ۔

حج؛اہم ترین عملی مشق:

            حج ؛درحقیقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کااعلیٰ ترین نمونہ اوربہت بڑی عملی مشق ہے اوریہ اسلام کاآخری کورس ہے ۔نمازبھی توایساہی نمونہ ہے،مگراُس میں وقت تھوڑالیاہواہے ۔اِسی طرح روزہ بھی ایساہی نمونہ ہے ، مگراس میں نمازکی نسبت وقت زیادہ لیاہواہے اورحج میں وقت روزے سے بھی زیادہ لیاہواہے ۔اورحاجی کوعاجزی کے لباس میں مختلف پہاڑیوں اورمیدانوں میں پھیرنے کامقصدیہ ہے کہ اس کااللہ تعالیٰ پریقین اورایمان بنے اوراس سے مختلف قسم کی عبادتیں کرانااوردعائیں کراناہے اورپھراللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول فرماتے ہیں۔حج کے اِن ایام میں حاجی کااللہ تعالیٰ کے ساتھ ایساتعلق اورلگاؤپیداہوجاتاہے کہ ایساتعلق خویش واقارب میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔اتنے عرصے میں حاجی سے جوپابندیاں کراناہے اورکچھ حلال وطیّب چیزیں بھی اس سے چھڑانا ہے ۔اِس کامقصدیہ ہے کہ اے بندے!جس طرح تونے یہ چیزیں رضائے الٰہی کے لیے یہاں چھوڑی ہیں،اسی طرح پوری زندگی میں وہی کام کرو،جن پراللہ راضی ہواوروہ کام ہرگزنہ کرو،جس پراللہ تعالیٰ ناراض ہو۔

(خلاصة تفسیر القرآن:ج۴/ص۱۲)

ہمارانشانہ قربانی پر ہے:     

            ماہ ذی الحجہ میں حج کے علاوہ دوسری اہم عبادت ”قربانی “بھی ہے،اِس لیے حج کے تعلق سے ضمناً یہ باتیں سپردِقلم وقرطاس ہوگئی ہیں۔ورنہ فی الوقت ہماری تحریرکااصل مقصد تو قربانی اور اُس کا مقصد ِعظیم ہے ۔ زیرنظر مضمون میں حتی المقدورقلم کی ساری طاقت جمع کرکے اِسی قربانی کی قربان گاہ پر قربان کرناہے۔یہاں سے ہمیں کچھ قیمتی موتی ہاتھ آ جائیں گی تو ہمارے بھی کام بن جائیں گے۔

اقوامِ عالم کوپتاہے:

             ہمارے ذہنی پردے پریہ بات حاضررہے کہ صرف لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سے اقرار کرنے والے ہم کلمہ گو تک ہی قربانی کی لافانی کہانی محدودنہیں ہے ،بلکہ دیگراقوام عالم کوبھی اچھی طرح سے پتا ہے کہ عشرہٴ ذی الحجہ میں شعائراسلام میں سے انجام دی جانے والی ایک اہم ترین عبادت ؛اللہ کی خوش نودی کی خاطراسلامی تعلیمات واحکامات کے مطابق اُس کی راہ میں اپنی محبوب اوردل پسندچیزکی قربانی کرنابھی ہے ۔ اِس لیے دنیاکے چپے چپے میں بسنے والے مسلمانوں کوہرسال ماہِ ذی الحجہ کی ۱۰/تا۱۲/تاریخ میں سنت ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کو زندہ کرنے کاحکم دیا گیاہے ۔ہرصاحبِ استطاعت ،ذی حیثیت اورمالک نصاب کو اِس بات کا پابند اور مکلف کیا گیاہے کہ وہ پوری نیک نیتی،خلوص دل اور سچے جذبے کے ساتھ لازمی طورپر قربانی کافریضہ انجام دے کر رضائے الٰہی کا پروانہ حاصل کرے۔

قربانی کی فضیلت:

            حدیث شریف میں جویہ بات نظرآتی ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی راہ میں کوئی جانورقربان کرتاہے تو اُس قربانی کے نتیجے میں یہ ہوگاکہ اُس جانورکے جسم پرجتنے بھی بال ہوں گے،ایک ایک بال کے بدلے ایک ایک گناہ معاف ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ کواُن تین دنوں میں کوئی عمل بھی خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے ۔ جتنا زیادہ قربانی کرے گا،اتناہی اللہ کے نزدیک محبوب ہوگا۔اوریہ کہ جب تم قربانی کرتے ہوتوجانورکاخون ابھی زمین پر نہیں گرتا، ا س سے پہلے وہ اللہ کے یہاں پہنچ کرتقرب الٰہی کاذریعہ بن جاتاہے ۔یہ سب اس لیے ہے کہ جب اللہ رب العزت یہ دیکھتے ہیں کہ میرابندہ یہ دیکھے بغیرکہ یہ بات عقل میں آتی ہے یانہیں اور اُس کے مال کا فائدہ ہورہاہے یا نقصان؟ صرف میرے حکم پرجانورکے گلے پرچھری پھیررہاہے ،تو اللہ پاک اس کایہ عظیم الشان اجر عطافرماتے ہیں ۔

            اللہ رب العزت اپنی کتابِ لازوال قرآن کریم میں ارشادفرماتے ہیں کہ:﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَادِمَآوٴُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔﴾اللہ پاک کی بارگاہ میں کسی جانورکی قربانی کاگوشت اورخون نہیں پہنچتا،بلکہ اُس کے پاس قربانی کرنے والے کاتقویٰ اوراخلاص پہنچتاہے۔

             اِس کی تفسیرمیں مفتی محمدشفیع صاحب نوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں کہ:﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا۔﴾ میں یہ بتلانا مقصودہے کہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے،اللہ کے پاس اُس کاگوشت اورخون نہیں پہنچتانہ وہ مقصودِ قربانی ہے ،بلکہ مقصوداصلی اس پر اللہ کانام لینااورحکم ربی کی بجاآوری دلی اخلاص کے ساتھ ہے ۔ یہی حکم دوسری تمام عبادتوں کا ہے کہ نمازکی نشست وبرخاست،روزہ میں بھوکاپیاسارہنااصل مقصودنہیں،بلکہ مقصودِ اصلی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل دلی اخلاص ومحبت کے ساتھ ہے ۔اگریہ عبادات اُس اخلاص ومحبت سے خالی ہیں، تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے، روح غائب ہے، مگرعبادت کی شرعی صورت اورڈھانچہ بھی اِس لیے ضروری ہے کہ حکمِ ربانی کی تعمیل کے لیے اُس کی طرف سے یہ صورتیں متعین فرمادی گئی ہیں۔

(معارف القرآن: ج۶/ ص ۲۶۷)

 کوئی حیثیت نہیں ہے:

            ہماری طرف سے انجام دیے جانے والے کسی بھی عمل کوقیمتی اورباحیثیت بنانے کے لیے اِخلاص یا خلوص عقلاً،عرفاً اورشرعاً ہراعتبارسے مستحسن ومطلوب ہے۔ چناں چہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کاارشاد ہے: ﴿ وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔﴾ اِس کامطلب یہ ہے کہ تمام ہی احکاماتِ دینیہ؛ اِس شرط کے ساتھ قابل اعتباروباوقارہیں کہ مکلفین اُس کے بجالانے میں مخلص ہوں۔ورنہ تویہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اعمال چاہے جتنے بھی ہوں،پہاڑوں کے ڈھیرہی کیوں نہ ہوں،خدائے پاک کے نزدیک اُن کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہو گی۔جب کوئی قیمت اور حیثیت ہی نہیں ہوگی توپھرہمارے لیے یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ایسے اعمال کوجگہ کہاں ملے گی؟بے قیمت اعمال اٹھا کرردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جائیں گے اور نجات کی راہ مشکل ہوجائے گی۔ محبوب رب العالمین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اَخْلِصْ عَمَلَکَ یَکْفِیْکَ الْعَمَلُ الْقَلِیْلُ“ اپنے اعمال وافعال میں اخلاص کی خوش بو پیدا کر لو، تھوڑا عمل بھی حصولِ رضائے خداوندی اور تمھاری نجات کے لیے کافی ہوجائے گا۔

خلوص چاہیے ،فلوس نہیں:

            اِسی بات کوبروایت ابوہریرہ یوں ارشادفرمایاگیاکہ : ”قَالَ رَسُوْلُ اللّہ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ اللّہَ لَایَنْظُرُاِلی صُوَرِکُمْ وَ اَمْوَالِکُمْ وَلکِنْ یَّنْظُرُاِلی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ“کہ اللہ جل شانہ کی نظر تمھاری صورتوں اورتمھارے اموال پر نہیں ہوتی، بلکہ اُس کی نظرتوتمھارے دلوں اوراُس کے احوال پرہوتی ہے کہ دل میں اخلاص ہے یانام ونمودکی طلب یاصرف زبانی جمع خرچ؟کیوں کہ اسلام میں مقبولیت اعمال کی شرط فلوس پر نہیں، بلکہ خلوص پررکھی گئی ہے، جیساکہ اوپر وضاحت کردی گئی ہے ۔

(مسلم شریف:ج۲/ص۳۱۷)

             اِس لیے قربانی کا بکرا خریدنے سے پہلے اُن لوگوں کا لیا ہوا پیسا ادا کیجیے، جن لوگوں کوآپ نے بکرا بنایا ہے ، کیوں کہ اُن کوبھی قربانی کا بکرا خریدناہے ۔

قربانی؛اَسراروحقائق کاپوراجہان:        

            آج کل لوگ قربانیاں اِس لیے دیتے ہیں کہ خوش نصیبی سے سالانہ ایک بارہی یہ موسم آتاہے ۔اب رہی یہ بات کہ قربانی کی اصل روح اورپروردگارعالم کااِس قربانی سے مطالبہ کیاہے ؟اِس قربانی کے نتیجے میں ہماری زندگی میں کون سی اورکیاتبدیلی آ رہی ہے ؟اِن سب باتوں سے کسی کوکوئی سروکاراورمطلب نہیں۔جبکہ قربانی ایک ایسی عظیم الشَّان عبادت ہے، جواپنے اندر عبرت وموعظت اور تاثیروانقلاب کابے پناہ سامان رکھتی ہے ۔یہ صرف جانور ذبح کرنے کانام نہیں ہے ،بلکہ قربانی اپنے اندر اسراروحقائق کاپوراجہان رکھتی ہے ۔قربانی صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی گوشت خوری کر کے اوربسیارخوری کے انجام ِبدکوبالائے طاق رکھ کرمعدے کواچھی طرح بوجھل کر دے،بلکہ یہ قربانی اپنے پیداکرنے والے رب سے ایک عہدوپیمان کانام ہے۔ ایساعہدوپیمان ؛جس سے زندگی کی گاڑی کا رخ بدل جائے ۔زندگی من چاہی کے بجائے رب چاہی ہوجائے،مسلمان سب کی چھوڑکرصرف رب کی عبادت کرنے والا بن جائے ،شیطانی پٹری چھوڑکررحمانی پٹری کامسافربن جائے۔کروڑوں معبودانِ باطلہ سے رخ موڑکرایک طرف کوجھک جائے۔یہ بات دل کے اندر خوب نقش رہے کہ قربانی محض جانوروں کے گلے پر چھری چلانے کانام نہیں ہے ،بلکہ خواہشات پر چھری چلانے کا ابدی پیغام بھی ہے ۔

            وہ چھری چلاتے ہوئے اپنی امیدوں،جائز تمناؤں اورآرزوؤں کاخون کررہاہوتاہے۔اگر جانور ذبح کرکے گوشت کھانا ہی اصل مقصد ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مسلمان توبلاناغہ ہرروزہی یہ کام کرتا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

ہم پھولے نہیں سماتے ہیں:   

            اب ہمیں چاہیے کہ راہ خدامیں اپنی پیش کردہ قربانی کابھی سرسری طورپرہی سہی!لیکن جائزہ لے لیں، تاکہ مقصود ِقربانی یا روحِ قربانی کوسمجھنے میں آسانی کی راہ پیداہوجائے۔قربانی کی اصل روح اوراس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ؛محبت الٰہی میں مگن ہو کر اپنی تمام نفسانی خواہشات کوایک ایک کرکے ذبح کردے اوراُسے فناکی گود میں ہمیشہ کے لیے دفنادے۔ اب اِس حکمتِ عالیہ کوسامنے رکھ کر سوچیں کہ جوبھی اپنے آپ کومسلمان کہلانے والا شخص اپنے چہرے پر ڈاڑھی کے چند بال بھی نہیں رکھ سکتا،وہ اپنی نفسانی خواہشات کی کہانی کو کیا خاک ؛پیوندِ خاک کرسکے گا؟ہرگزنہیں کرسکے گا،کیوں کہ ابھی اتنابڑابہادرنہیں ہواہے۔اکثرلوگوں کی حالت یہ ہے کہ صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلے اپنے چہرے پر پھاؤڑاچلانے کی عادت بنالی ہے۔ کہیں ایسانہ ہوکہ ڈاڑھی کے بال دیکھ کر لوگ دھوکے میں آکراُسے مرد سمجھنے کی غلطی کرنے لگ جائیں۔

دوعالمی شہرت یافتہ خواہشات:

            یوں تونفسانی خواہشات بہت بڑی بڑی ہیں،اُن میں سے دوبہت اور عالمی پیمانے پرشہرت یافتہ ہیں۔ (۱)حب مال(۲)حب جاہ۔ پھراِن کی بہت سی شاخیں برگدکے پیڑ کی طرح پھیلی ہوئی ہیں،جن کا شمار بھی پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر جاری کرنے سے کم نہیں ۔اب یہ فیصلہ کرناآسان ہے کہ جو مسلمان اتنابھی نہیں کرسکتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اوراُس کے محبوب محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں چہرے کے بال صرف دس دنوں کے لیے چھوڑدے ، وہ دیگر خواہشات کو چھوڑنے کی بڑی بڑی قربانیاں کب؟کہاں اورکیسے دے سکے گا؟ آج کے جدید دور کا نادان انسان؛ صرف جانوروں کی قربانی پر پھولے نہیں سما رہا ہے ۔ اُسے یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ اصل مقصد تو خواہشات کو قربان کرناتھا، جسے اب تک بغیرکسی کوتاہی کے پوری ایمان داری اورخوش اسلوبی کے ساتھ اپنے دل کے نہاں خانوں میں پال ہی رہاہے ۔ اُن خواہشاتِ نفسانی کو قربان کرنے کے بجائے اُن کاغلام اور بندہٴ بے دام بنا ہوا ہے ۔اِس لیے یاد رکھیں کہ ایام قربانی میں صرف جانور کو قربانی کے گھاٹ اتارنے اوراُس کے گوشت کوپیٹ کی وادی میں ٹھونس لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔

قربانی کاسبق:

            حج کی عبادت میں قدم قدم پریہی سکھایاجاتاہے کہ تم نے اپنی عقل کے سانچے میں جوچیزیں بٹھارکھی ہیں اورسینے میں جوخواہشات نفسانی کے بت بسارکھے ہیں،اُن کوتوڑدو۔اِس بات کامکمل یقین رکھواوراعلان کرو کہ جو کچھ بھی ہے،وہ ہمارے حکم کے اتباع میں ہے ۔یہی مذکورہ چیزقربانی میں ہے ۔قربانی کاسارافلسفہ اور خلاصہ یہی ہے۔اِس لیے کہ قربانی کے معنی ہیں”اللہ پاک کاتقرب حاصل کرنے کی چیز“اوریہ لفظ قربانی ”قربان“ سے پیدا ہوا ہے اور لفظ”قربان“بھی ”قُرب“سے نکلاہے ۔توقربانی کے معنی یہ ہوئے کہ وہ چیز؛جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیاجائے اورغورکیاجائے توپتاچلے گاکہ قربانی کے سارے عمل میں یہی توسکھایاگیاہے کہ ہمارے حکم کے اتباع کا نام دین ہے۔جب ہماراحکم آجائے توپھرکسی کواپنی عقل کاگھوڑادوڑانے کی ضرورت نہیں ہے ،نہ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنے کا موقع باقی رہتاہے اورنہ اس میں کسی طرح کے چوں وچرا کی گنجائش رہتی ہے ۔ایک مسلمان کا کام یہی ہوتا ہے کہ خداوندعالم کی طرف سے حکم آجائے تو اپنا سر جھکا دے اور اس حکم کااتباع کرے ۔ یعنی

”سرتسلیم خم ہے،جومزاجِ یارمیں آئے“

ایک حدیث:

            عرفِ عام یاپھرعوامی گلیاری کہہ لیجیے،جس میں ایک حدیث بہت زوروشورسے گشت کررہی ہے اور علمائے کرام کی زبان وبیان اور جلسوں اورمحرابوں کی وادی سے بھی خوب اچھل کودمچارہی ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ: ”سَمِّنُوْا ضَحَایَاکُمْ فَاِنَّہَاعَلَی الصِّرَاطِ مَطَایَاکُمْ“جس کامطلب یہ ہے کہ اپنی قربانی کے جانور کو کھلا پلا کر خوب موٹاکرو،اس لیے کہ یہی جانورپل صراط پر تمھاری سواری بنیں گے اورقربانی کرنے والے حضرات اِس پر بیٹھ کربڑے آرام سے گزریں گے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ انتہائی درجے کی ضعیف حدیث ہے،اِس لیے ضُعف کی صراحت کے بغیراِس کوکہیں پر بیان کرنابھی جائز نہیں اورایسی من گھڑت حدیث پر ایسا ٹھوس اعتقادویقین کسی طرح درست نہیں ہے۔یہ حدیث لوگوں کے درمیان اتنی مشہور ہو چکی ہے کہ اب یہ بھی سمجھا جانے لگاہے کہ اگراِس اعتقادکی پٹری سے ذرابھی ہٹے تو قربانی ہی نہیں ہوگی۔اوراب حال یہ ہے کہ اِس حدیث کی بہ دولت قربانی کرنے والے یہ سوچ کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے پُل صراط پارکرنے کاایک شان دار انتظام کر لیا ہے۔ دنیا کے اِس بازار میں ایک موٹی سی قربانی کر دیں گے ،بیڑاپارلگ جائے گا۔

عقل کے گھوڑے کوکام میں لائیے:

            کیاہم میں سے کسی نے بھی دنیامیں زندگی کے کسی موڑپربھی کوئی ایسی گائے بھینس دیکھی ہے،جواِس طرح کی باریک اور تیزدھار والی جگہ سے گذرکر دکھا دے؟ہم ایسی خطرناک اورہیبت ناک جگہ سے خودزندگی میں تو کیا؛خواب میں بھی نہیں گذرسکتے توگائے بھینس یادیگرجانورکیا خاک گذرسکیں گے؟سیدھی بات تویہی ہے کہ پل صراط عبور کرنااُن جانوروں کا کام ہے ہی نہیں،بلکہ ہم انسانوں کا کام ہے ۔کیوں کہ اعمال کے مکلف انسان ہیں، حساب وکتاب اور جزاوسزاانسانوں کے لیے ہے ، جمادات وحیوانات کے لیے نہیں۔اب یہ سوال بھی دماغ کے تہہ خانے میں گردش کرے گاکہ پھرہم کس چیزکے سہارے اُسے پار کریں گے؟ آخروہ کون سی چیز ہے ، جو یہ خطرناک مرحلہ پار کرائے گی اورہماری ڈوبتی کشتی پار لگائے گی؟جب ہم اِس پہیلی کوسمجھنے کی کوشش کریں گے تو حقیقت کھل کرسامنے آئے گی اورپتاچلے گاکہ ہم کس بھول بھلیاں میں بھٹک رہے ہیں۔

وہاں بھی جائے گاکام سے:

            دنیاوآخرت کی تمام مشکلات کاحل اتباعِ شریعت میں رکھاگیاہے ۔دنیاوی زندگی میں ہمیں جس صراط مستقیم پر چلنے کامکلف اورپابندکیاگیاہے،آخرت میں یہی پل صراط ہوگا۔جس نے یہاں عبورکرلیاوہ وہاں پہنچ کر بھی بہ آسانی عبورکرلے گا۔جوبندہ یہاں ڈگمگایاتووہ وہاں بھی کام سیجائے گا ۔پل صراط کی وہ دھاراور باریکی ؛ جس کے نام سے ہی ہم لوگ خوف کھاتے اور کانپتے ہیں،دل کی دنیازیروزبرہونے لگتی ہے،وہ اِسی دنیا میں موجود ہے ۔جوبھی خوش نصیب انسان؛ نفس اورشیطان کی چالوں سے ہوشیاررہااور افراط وتفریط کی وادی سے بچ کرنکل گیاوہ حقیقت میں پل صراط پارکرگیا۔جوبدقسمتی کا مارابھی افراط وتفریط کا شکار ہو کر اوردنیا کی رنگینی میں کھو کر صراط مستقیم سے ہٹ گیا،اُس کے لیے پل پارکرناممکن نہیں ہوگا، خواہ دنیامیں کتنی ہی قربانیاں کر ڈالے اور جانور کیسے بھی موٹے تگڑے ہوں، کچھ کام نہیں آئے گا۔

اصل کاپتاہی نہیں:

            تقویٰ واحتیاط اوراتباعِ شریعت ہی اصل ہے ۔اتباع بھی ایسا،جوافراط وتفریط کی مارسے یکسرپاک اور شریعت کے عین مطابق ہو،جس سے انسانی زندگی میں اعتدال کی دلآویزخوش بوبکھرتی ہو۔اِسی میانہ روی اور اعتدال کی بہ دولت ہمیں کتابِ لاثانی کی زبانی”امت وسط“کاعظیم لقب دیا گیاہے ۔

            یہ بات اچھی طرح سے ذہن میں بٹھا لیجیے کہ پل صراط الگ سے کوئی چیزنہیں ہے ،جیساکہ ہم لوگوں نے سمجھ رکھاہے۔اِس لیے پل صراط پار کرنے کاایک ہی راستہ بچتاہے اور وہ ہے صراطِ مستقیم۔اِس کے علاوہ جتنے بھی راستے ہیں،وہ سب جہنم کے گڑھے میں گرانے والے ہیں۔اِسی کوقرآن کریم نے کہا ہے : ﴿ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔﴾ اسلام کے علاوہ دوسرا راستہ قابل قبول نہیں،اِس لیے ﴿ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ۔﴾ اور دوسری راہوں پرمت چلو۔اِس لیے کہ وہ راہیں تمھیں سیدھی پٹری سے اتار دیں گی۔

اب اپنی قربانی کی کہانی:

            اب یہاں تک رسائی حاصل کرنے کے بعدمناسب معلوم ہوتاہے کہ چندسطورمیں اپنی پیش کردہ قربانی کا نقشہ بھی آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کردیاجائے ،اِس کے بعد تحریرکواختتام کی وادی میں پہنچاکرخاموشی اختیار کر لی جائے گی۔اِس کا تعلق قربانی کی چندخامیوں اور کوتاہیوں سے ہے ،جوہمارے معاشرے میں عمومی طور پر پائی جاتی ہیں اورمقام افسوس یہ ہے کہ مسلسل برگ وباربھی لارہی ہیں۔ کیوں کہ ہماری زندگی میں دیگرفرائض کی طرح فریضہٴ قربانی بھی ایک رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔

            (۱) بعض لوگ یہ کوتاہی کرتے ہیں کہ طاقت نہ ہونے کے باوجودشرم کی وجہ سے قربانی کرتے ہیں کہ لوگ یہ کہیں گے کہ اُنھوں نے قربانی نہیں کی۔محض دکھاوے کے لیے قربانی کرنا درست نہیں،جس سے واجب حقوق فوت ہوجائیں۔

            (۲)بہت سے لوگ محض گوشت کھانے کی نیت سے قربانی کی نیت کر لیتے ہیں۔اگرعبادت کی نیت نہ ہو تواُن کوثواب نہیں ملے گااوراگرایسے لوگوں نے کسی اورکے ساتھ حصہ رکھا تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔

            (۳)بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گھرمیں ایک قربانی ہوجاناکافی ہے ۔اِس لیے لوگ ایسا کرتے ہیں کہ ایک سال اپنی طرف سے قربانی کرلی۔ایک سال بیوی کی طرف سے کردی۔ایک سال لڑکے کی طرف سے،ایک سال لڑکی کی طرف سے،ایک سال مرحوم والدکی طرف سے اورایک سال مرحومہ والدہ کی طرف سے ۔خوب یاد رکھناچاہیے کہ گھرکے جتنے افرادپرقربانی واجب ہوگی اُن میں سے ہرایک کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔ مثلاً: میاں بیوی اگردونوں صاحب نصاب ہوں تودونوں کی طرف سے دوقربانیاں لازم ہیں۔اِسی طرح اگر باپ بیٹادونوں صاحبِ نصاب ہوتوخواہ اکٹھے ہی رہتے ہوں،مگرہرایک کی طرف سے الگ الگ قربانی واجب ہے ۔

            (۴) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی عمر بھر میں ایک دفعہ کرلینا کافی ہے ۔یہ خیال بالکل غلط ہے،بل کہ جس طرح زکاة اورصدقہٴ فطر ہرسال واجب ہوتاہے، اِسی طرح ہرصاحب نصاب پر قربانی بھی واجب ہے ۔

            (۵)بعض لوگ گائے یابھینس میں حصہ لیتے ہیں اوریہ نہیں دیکھتے کہ جن لوگوں کے حصے رکھے ہیں وہ کیسے لوگ ہیں؟ یہ بڑی غلطی ہے ،جوسراسرنقصان کاسبب ہے۔اگرسات حصے داروں میں سے ایک بھی بے دین ہویااُس نے قربانی کی نیت نہیں کی ،بلکہ محض گوشت کھانے کی نیت کی توسب کی قربانی بربادہوگئی۔اِس لیے حصہ ڈالتے وقت حصہ داروں کا انتخاب بھی احتیاط سے کرناچاہیے۔

            (۶)کچھ لوگ ایسے بھی نظرآتے ہیں،جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یااپنے کسی مرحوم یاعزیزکی طرف سے قربانی کرتے ہیں اوراپنے نام سے نہیں کرتے ۔اِس سلسلے میں اُن حضرات کوسب سے اہم بات یہ معلوم ہونی چاہیے کہ قربانی صاحب نصاب اور زندوں پر واجب ہے نہ کہ مردوں پر۔اِس لیے پہلے اپنی طرف سے قربانی کرنا ضروری ہے، پھر گنجائش ہونے پر اپنے کسی بھی مرحوم کے ایصالِ ثواب کی خاطر قربانی کرسکتے ہیں،اِس میں کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے۔

رعایت ضرورکیجیے:

            قربانی کرنے میں اِن مذکورہ امورکی رعایت بہت ضروری ہے ۔خلاف ورزی کی صورت میں قبولیتِ قربانی بھی تشکیک کے دائرے میں آسکتی ہے ۔کہیں ایسانہ ہوکہ بارگاہِ صمدیت سے ثواب لیتے لیتے گناہ کی پوٹلی ہی ہمارے سروں کی زینت بنے اورہم خسرالدنیاولآخرة کامصداق ہوجائیں ۔

بارگاہِ الٰہی میں دعا:

            اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاکرلیجیے کہ یااللہ!تونے ہمیں قربانی کاحکم اوراس کی توفیق دی،ہم نے جانورقربان کر دیے۔اب تیرے حکم اوررضاکی خاطرہم اپنی نفسانی خواہشات کوبھی قربانی کے گھاٹ اتاریں گے۔ تواپنی رضاکاپروانہ دینے کی خاطرتمام خواہشات کوقربان کرنے کی توفیق عطافرما۔ہماری یہ قربانی توایک نقل ہے، اِس نقل کوتواپنی رحمتِ خاص سے اصل بنادے اورقربانی کی جواصل حقیقت ہے،وہ بھی ہمیں عطا فرما دے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سیدالمرسلین!