جن میں درک حاصل کرنے کے لیے حکیم الامت کی عقلی و کلامی تحقیقات پر نظر درکار
حکیم فخرالاسلام الہ آبادی
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔أما بعد!
فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
(ألَم تَرَاِلَی الَّذِی حَاجَّ اِبرَاہِیمَ فِی رَبِّہ اَن اٰتٰہُ اللّٰہُ المُلکَ، اِذقَالَ اِبرَاہِیمُ رَبِّیَ الَّذِی یُحیی وَیُمِیتُ قَالَ اَنََا اُحیی وَاُمِیتُ، قَالَ اِبرَاہِیمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاتِی بِالشَّمسِ مِنَ المَشرِقِ فَاتِ بِہَامِنَ المَغرِبِ فَبُہِتَ الَّذِی کَفَرَ،وَاللّٰہُ لَایَہدِی القَومَ الظّٰلِمِینَ)۔
(اے مخاطب!)کیا تجھ کو اُس شخص کا قصہ تحقیق نہیں ہوا(یعنی نمرودکا)جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مباحثہ کیا تھااپنے پروردگا رکے (وجودکے)بارہ میں (یعنی توبہ توبہ وہ خدا کے وجو د کامنکرتھا)اِس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے اُس کوسلطنت دی تھی (یعنی چاہیے تو یہ تھاکہ نعمت ِسلطنت پر احسان مانتا اورایمان لاتا، اُس نے برعکس انکا راورکفر شروع کردیا۔اوریہ مباحثہ اُس وقت ہوا تھا)جب ابراہیم علیہ السلام نے (اُس بادشاہ نمرود کے پوچھنے پر کہ خدا کیسا ہے؟]دوجواب دیے:
پہلا جواب:
پہلے[جو اب میں)فرمایاکہ: میراپرودگار ایسا ہے کہ وہ جِلاتا ہے اورمارتا ہے (یعنی یہ ]جِلانا اورمارنا[اُس کے خواصِ صفات سے ہیں۔وہ کوڑھ مغزجِلانے اورمارنے کی حقیقت تو سمجھا نہیں)کہنے لگاکہ (یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں کہ)میں بھی جِلاتا ہوں اورمارتا ہوں (چناں چہ جس کو چاہوں قتل کردوں،یہ تو مارنا ہے اورجس کو چاہوں قتل سے معاف کردوں، یہ جلانا ہے)۔
ابراہیم علیہ السلام نے (جب دیکھا کہ بالکل ہی بھدی عقل کا ہے، اس]قتل کرنے، چھوڑ نے[ کو جِلانا اورمارنا سمجھتا ہے، حالاں کہ جِلانے کی حقیقت یہ ہے کہ بے جان چیز میں جان ڈال دے،نہ یہ کہ ]جوچیز جان دار ہو [اُس کو چھوڑ دے۔اِسی طرح مارنا یہ ہے کہ اُس کی جان اپنے اختیار سے نکالے، نہ یہ کہ مثلاًاُس کی گردن الگ کردے اورجان بدون اُس کے اختیار کے نکل جاوے۔ ورنہ]اگرقتل کرنا، جان نکال لینے کا اِختیار اور قدرت کہلائے،تو[ یہ اختیار بھی ہونا چاہیے تھاکہ گردن الگ کردے اور جان نہ نکلنے دے ]کیوں کہ قدرت کا تعلق اِثبات و نفی دونوں سے ہوتا ہے[اورقرائن سے معلوم ہواکہ یہ جِلانے اورمارنے کی حقیقت تو سمجھے گا نہیں، اِس ضرورت سے دوسرے جواب کی طرف متوجہ ہوئے اور)فرمایا:
دوسراجواب:
(اچھا)اللہ تعالیٰ آفتاب کو (روز کے روز)مشرق سے نکالتا ہے، تو (ایک ہی دن)مغرب سے نکال (کردکھلا)دے،اِس پر متحیر رہ گیا وہ کافر (اورکچھ جواب بن نہ آیا۔اب اِس کا مقتضایہ تھاکہ طریقہئ ہدایت کو قبول کرلیتا؛مگر وہ اپنی اُسی بے جاراہ پر جمارہااس لیے ہدایت نہ ہوئی)۔
اوراللہ تعالیٰ(کی عادت ہے کہ)ایسی بے جاراہ پر چلنے والوں کو ہدایت نہیں فرماتے۔“ (۱)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ آیت کے مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں:”یہاں سے اہل مناظرہ کے ایک اِشکال کا جواب بھی ظاہر ہوگیا۔“
وہ اِشکال ایک عقلی قطعی اصول کے حوالہ سے ہے۔آئندہ سطور میں پہلے عقلی اصول کی وضاحت، پھراُس پر اِستدلالِ ابراہیمی سے وارد ہونے والا اِشکال ذکر کیا جائے گا۔بعد ازاں اُس کا عوامی طرز کا جوجواب دیا جاتا ہے،اُس سے تعرض کر کے اُس کا نادرست ہونا ظاہرکیا جائے گااور سب سے آخر میں اصل جواب مذکور ہو گا۔
بحث وکلام کا عقلی اصول:
”اِشکال]سے پہلے ضروری[ یہ ہے کہ فن مناظرہ کا مسئلہ]ذہن میں رہے اور وہ یہ[ ہے کہ ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف اِنتقال کرنا مناظر کو جائز نہیں۔ا وریہ ایک ]مطلق طور پر تسلیم شدہ[مسئلہ عقلیہ ضروریہ ہے، کیوں کہ ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف اِنتقال جائز کردیا جائے، تو اِس طرح سلسلہ مناظرہ کبھی ختم ہی نہ ہوگا،]کیوں کہ[تم نے ایک دلیل بیان کی،خصم]فریقِ مخالف[ نے اُس کو توڑ دیا، تم نے اُس سے اِنتقال کرکے دوسری دلیل بیان کردی، اُس نے اُس کو بھی توڑدیا،تم نے تیسری دلیل بیان کردی، تو یہ تو غیرمتناہی سلسلہ ہو جائے گا،پھر حق کبھی ظاہر ہی نہ ہوسکے گا۔ اِس لیے علمائے مناظرہ نے اِنتقال الی دلیل آخر]دیگر دلیل کی طرف منتقل ہونے[ کوناجائز مانا۔“
اِشکال:
اب اِشکال یہ ہے کہ آیت کے اندراِستدلال میں بہ ظاہرِ نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دوسری دلیل کی طرف اِنتقال اِس عقلی اصول کے خلاف ہے۔
نادرست جواب:
سمجھنا چا ہیے کہ اِس اِشکال کا درست جواب وہ تو نہیں ہے جو عوامی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہمارا بنایا ہوا عقلی قاعدہ حضرت ابراہیم پر حجت نہیں،چناں چہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:
”اورکوئی شخص اِس اِشکال کایہ جواب نہ سمجھے کہ یہ تو علم مناظرہ کا ایک مسئلہ ہے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام نبی ہیں، اُن کے ذمہ میں ہمارے اصول کا ماننا کب لازم ہے! بل کہ ہم کوہی اُن کی بات کا ماننا لازم ہے۔“اِس جواب کے درست نہ ہونے کی وجہ اوپر ذکر کی جا چکی ہے کہ مذکورہ عقلی قاعدہ اِظہارِ حق کے باب میں ایک قطعی اصول ہے۔
اِشکال کا جوا ب جو آگے آ رہا ہے،اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک خاص حیثیت و مصلحت سے اِنتقالِ استدلالِ ابراہیمی بھی درست ہے،جسے سمجھنے کے لیے ایک تمہید کا سمجھناضروری ہے:
تمہید:
عقل کی طرف جو اصول منسوب کیے جاتے ہیں،وہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
۱-کسی علم و تحقیق میں فن سے وابستہ لوگوں کااپنی ضرورت سے بعض اصول کامسلم قرار دے لینا۔مثلاً قدیم وجدیدفلسفیوں نے اپنی ضرورت کے تحت یہ اصول مقرر کیا کہ طبیعت ہمیشہ ترقی کرتی رہتی ہے،(۲)اِسی طرح سائنس دانوں نے یکسانیتِ فطرت کا قاعدہ وضع کیا۔
عقل کی طرف منسوب یہ اصول بدل سکتے ہیں،غلط ہو سکتے ہیں یا اِن میں یہ ممکن ہوا کرتا ہے کہ ہر موقع پر جاری نہ ہوں۔چناں چہ مذکورہ دونوں اصول کی یہی حیثیت ہے۔پہلے اصول کا تو دلیل سے ثبوت ہی نہیں،(۳)دوسرا اصول اِستقرائی اور ظنی ہے، کلیہ بننے کی اُس میں صلاحیت نہیں،چناں چہ جارج برکلے1685 تا 1753ڈیوڈ ہیوم1711 تا 1774ء،الامام محمد قاسم نانوتویؒ1832 تا 1880ءحکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ 1863تا 1943ء،البرٹ آئنسٹائن1879تا 1955اورکارل پاپر1902تا 1994ء نے اُسے توڑ کر دکھا دیا۔(۴)
۲- نفس الامری حیثیت سے مسلم عقلی اصول،کہ کسی کے تسلیم کرنے،نہ کرنے کا اُس میں دخل نہ ہو؛بلکہ ضروری درجہ میں واجب التسلیم ہو۔
]اِس تمہید کے معلوم ہونے کے بعد مسئلہ کا [جواب ظاہر ہے کہ: یہ مسئلہ محض ہمارے اصول مسلمہ کی قسم سے نہیں ]جسے کسی اہلِ فن نے اپنی ضرورت سے وضع کر لیا ہو[؛ بل کہ] نفس الامری حیثیت سے مسلم[ عقلی مسئلہ ہے جس کا تسلیم کرنافی نفسہٖ ضروری ہے۔پس اب]اصولِ مناظرہ پر وارد ہونے والے [ اِس اشکال کا ]کہ ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف انتقال مناظر کو جائز نہیں [صحیح جواب سنیے:
اِشکال کا درست جواب:
بات یہ ہے کہ مناظرہ میں اِنتقال الی دلیل آخر]دیگر دلیل کی طرف منتقل ہونے میں باعتبارِ مصلحت دو پہلو ہیں:۱-اپنی مصلحت،۲-فریقِ مخالف کی مصلحت،[:اپنی مصلحت سے تو] انتقال[ ناجائز ہے؛ لیکن خصم کی مصلحت سے جائز ہے۔
فریقِ مخالف کی مصلحت کی وضاحت:
مثلاً:ہم نے ایک دلیل غامض ]مشکل،دقیق[بیان کی جس کو خصم]فریقِ مخالف[ نہیں سمجھ سکتا،تو اب دوصورتیں ہیں:
۱-ایک یہ کہ دلیل غامض کو سہل عنوان سے بیان کیا جائے۔سو]اِس میں دو صورتیں ہیں [:
٭اگر اِس میں ]لمبی گفتگو یعنی[تطویل زیادہ نہ ہو،نیز مخاطب تسہیل کے بعدسمجھنے پر قادرہو،تب تو اُس کی تسہیل کردینی چاہیے۔
۲-اوراگر تسہیل میں تطویل ہو]اورگفتگولمبی ہو جائے [ یا مخاطب ایسا بلید ]کم فہم،بد فہم[ہو،کہ تسہیل کے بعد بھی دلیل ِغامض کو نہ سمجھ سکے، تواب دوسری صورت یہ ہے کہ اُس ]مسئلہ[کی]گہری بنیادپر مبنی [ دلیل ِغامض سے انتقال کرکے دوسری واضح دلیل بیان کردی جائے، جس کو خصم بخوبی سمجھ سکے۔
حضرت ابراہیم کا اِنتقال دلیل: فریقِ مخالف کی مصلحت:
تو]مذکورہ مکالمہ ابراہیم و نمرود میں [ ابراہیم علیہ السلام نے اِس صورت میں مخاطب کی مصلحت سے] – کہ وہ بد فہم تھااور اندیشہ تھا کہ تسہیل کے بعد بھی اُلجھاوے پیدا کرے گا-دلیل ِغامض کی تسہیل کی جانب اِلتفات کے بجائے دوسری دلیل کی جانب[ انتقا ل کیا تھا؛ کیوں کہ آپ نے دیکھا کہ مخاطب بڑاہی کور مغز ہے، اس لیے اِس کی کیا امید تھی کہ]تسہیل کے بعد [ وہ اِماتت]مارنے [ واِحیا ]جِلانے[کو سمجھے گا اورجھک جھک نہ کرے گا۔
تسہیل اگر ہوتی تو کیا ہوتی:
] اصل جواب کی تسہیل میں فریقِ مخالف کی بدفہمی رُکاوٹ بنی[اگر نمرود کو کچھ بھی علم وفہم ہوتاتو اُس کی بات ]کہ میں بھی جلاتا اورمارتا ہوں [کاجواب بہت سہل تھا،ابراہیم علیہ السلام یہ کہہ سکتے تھے کہ اِزہاقِ روح ]روح کا نکالنا[تیری قدرت میں نہیں، تیراکام صرف گردن جداکردینا تھا۔اُس کے بعد روح کا نکل جانا عادۃُ اللہ کے موافق ہوا،تیرا اِ س میں کچھ دخل نہیں -کیوں کہ قاعدہ عقلیہ ہے اَلْقُدْرَۃُ تَتَعَلَّقُ بِالضِّدّیْنِ کہ قدرت ضدین کے ساتھ متعلق ہواکرتی ہے۔جو شخص جان نکالنے پر قادر ہوگا، وہ اُس کے روکنے پر بھی ضرور قادر ہوگا-پس تفریقِ گردن]گردن زدنی[ کے بعد اگر زُہوق]و خروجِ[ روح تیرے اختیار سے تھا، تو اِس پر بھی تجھ کو قدرت ہونی چاہیے کہ ایک شخض کی گردن جداکرکے اُس کی جان کو نہ نکلنے دے۔ اگر تو اِس پر قادرہے کہ گردن کاٹنے کے بعد جان کو روک لے اورنہ نکلنے دے، تو ایسا بھی کردکھا۔؛مگر[اِس کا جواب اُس کے پاس ہرگز کچھ نہ تھا،پس] دلیل کے لحاظ سے تو وہ عاجز تھا۔
دلیل کی کمزوری نہیں؛مخاطب کی بد فہمی اِنتقالِ دلیل کا سبب بنی:
]معلوم ہوا کہ[ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی دلیل کمزورنہ تھی اورنہ اُس]دلیل[ کی کمزوری کی وجہ سے آپ نے دوسری دلیل کی طرف انتقال کیاتھا؛بل کہ] دلیل، غامض ہونے کے ساتھ تمہید میں مذکوردوسری صورت کی دوسری شِق رونما ہوئی اور[ محض اِس وجہ سے ]پہلی دلیل پر کیے گئے معارضہ کو ترک کر کے دوسری دلیل کی جانب[انتقال کیا،کہ پہلی دلیل کے سمجھنے کی اُس کور مغز سے امید نہ تھی۔“(۵)
حکیم الامت ؒ کا ذکر کردہ یہ قاعدہ کہ- جب مخاطب اِستدلال سمجھنے سے عاجز ہو،تو اِنتقالِ دلیل جائز ہے- ”التلخیصات العشر“میں ”تلخیص الشریفیۃ“کے اندر مذکور ہے۔ قاعدہ اور مذکورہ قید اِن الفاظ میں درج ہے:
٭ وَلَایَصِحُّ اْلْاِنْتِقَالُ مِنْ دَلِیْلٍ إلٰی دَلِیْلٍ آخَرَ لِعِجْزِہ، وَیَجُوْزُلِعِجْزِ غَیْرِہ عَنْ فَہْمِ اْلدَّلِیْلِ اْلأوّلِ۔(۶)
ترجمہ:مستدل کا اپنے عجز کی وجہ سے ایک دلیل کو چھوڑ کر دوسری دلیل کی طرف منتقل ہونا درست نہیں؛ مگر جب فریقِ مخالف پہلی دلیل کے سمجھنے سے عاجز ہو،تو اُس کی مصلحت سے درست ہے۔
اِس تمام گفتگو پر دو فائدے مرتب ہوئے:
۱-اِحقاق ِحق کے لیے عقلی اصول کا التزام ضروری ہے،اُسے نظر انداز کرنا ٹھیک نہیں۔
۲-عقلی اصولوں کی فہم حاصل کرنے،نیز اُن کے اِجرا و اِطلاق کا ملکہ پیدا کرنے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے عقلی و کلامی اِستدلالات پر مبنی مضامین و تحقیقات پر نظر،مقصدِ مذکور میں معاون ہے۔ فخرالاسلام الہ آبادی ۵۱ / شوال ۵۴۴۱ھ=۵۲/اپریل ۴۲۰۲ء،جمعہ۔
حوالہ جات
(۱)حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ:”بیان القرآن“ ج ۱ ص ۳۵۱ تاج پبلیکیشنز دہلی ۴۹۹۱۔
(۲)قدیم فلسفیوں کے طبیعت کا تصور،جدید فلسفیوں میں ڈارون]۹۰۸۱تا۲۸۸۱ء[ کا اِرتقا،ہیگل]۰۷۷۱تا۱۳۸۱ء[کا ڈائیلیکٹک میتھڈ وغیرہ کی تھیوریاں اِسی اصول پر مبنی ہیں۔
(۳)دیکھیے:مولانا عبد الباری ندویؒ:”برکلے“،”فہم انسانی“ترجمہ ”ہیومن انڈر اِسٹینڈنگ“از ڈیوڈ ہیوم،الامام محمد قاسم نانوتویؒ:”آبِ حیات“،حکیم الامت:”تلخیص ہدایۃ الحکمۃ“،”الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ“،”ترجمہ اصلاحِ دہلویہ“
(۴)حکیم الامت:”اشرف التفاسیر“جلد ۱ ص۸۱۲،تالیفاتِ اشرفیہ ملتان ۵۲۴۱ھ۔یہ حکیم الامت کے مواعظ وغیرہ میں بیان کیے گئے علوم قرآن،یعنی تفسیر،علم اعتبار،علم احسان،علم فقہ،علم کلام،عقلی علوم،علوم حکمت اور ربطِ آیات پر مبنی چار جلدوں پرمشتمل اُن مضامین کا مجموعہ ہے،جوقرآن کریم کی آیات سے بہ طور تفسیر،تمثیل،تشبیہ،قیاس،اِستنباط،اِستدلال سے ثابت ہوتے ہیں یاکسی مشہور عصری تحقیق سے قرآن کریم کے مضمون پر پڑنے والے ظاہری اعتراض،نیزدرست عقلی اصول سے آیات ِ قرآنیہ کے ساتھ ظاہری مزاحمت سے دفاع کے طور پر بیان کیے گئے ہیں: جلداول=صفحات۶۹۴۔جلددوم=صفحات۲۳۴۔جلدسوم=صفحات۰۹۳۔جلدچہارم=صفحات۹۸۳۔ہر جلد کے آخر میں اُس جلد کی سورتوں سے متعلق رسالہ ”سبق الغایات فی نسق الآیات“کے مضامین شا مل ہیں۔ ۷۰۶۱صفحات پرمشتمل اِن چار مجلدات کے مرتب جناب صوفی اقبال قریشی اور جناب ابو حذیفہ محمد اسحاق ملتانی ہیں۔
(۵)ایضا۔
(۶)حکیم الامت ؒ: ”التلخیصات العشر”تلخیص الشریفیۃ“ ص۴۳،مکتبۃ البشری ۵۳۴۱ھ=۴۱۰۲ء۔اصل رسالہ کا نام:”الرسالۃالشریفیۃ فی آداب البحث والمناظرۃ“ہے۔یہ کتاب سیدشریف علی بن محمدالجرجانی ؒ کی تصنیف ہے اوراِس کی تسہیل و توضیح امام الہند الوحید مولانا الشیخ عبد الرشید الجونفوری نے کی ہے جو ”شرح الرشیدیۃ“]المعروف بہ ”الرشیدیۃ“ [ کے نام سے موسوم ہے اور درس نظامی کے نصاب میں متداول ہے۔