مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری،وانمباڑی( ناظم: مرکزالاقتصاد الاسلامی،انڈیا)
تمہید:الحمد للّٰہ وحدہ والصلوٰة والسّلام علی من لا نبی بعدہ أما بعد
دنیا میں ہر انسان کمائی کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور ہر ایک وقت سے پہلے یا کم وقت میں مالدار بننا چاہتا ہے، اور اس نشے نے اس کو اسقدر پاگل بنادیا ہے کہ وہ حلال و حرام کی بھی تمیز کئے بغیر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے کوشاں ہے، اوربہت سارے مکار تاجر اسی جلدبازی یا نشے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ”حلال“ یا ”مضاربہ“ وغیرہ کے نام سے امت کو گمراہ کرکے ان کی زندگی بھر کی پونجی لوٹنے میں مصروف ہیں، آئے دن ایسی بہت ساری کمپنیاں بازار میں آرہی ہیں جو بھولے بھالے مسلمانوں کو حلال کے نام سے لوٹنے کے لئے نئے نئے طریقے ایجاد کر رہی ہیں اور عوام کو بہکانے اور دھوکہ دینے کے لئے کسی نہ کسی معروف اسلامی عقد جیسے مضاربہ یا وکالہ وغیرہ کا سہارا لیتی ہیں، حالانکہ دور دور تک ان کمپنیوں کا ان اسلامی عقود سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، لیکن عوام و خواص کا ایک بڑا مجمع صرف ان اسلامی الفاظ کے ظاہر پر فدا ہوکر اپنی زندگی بھر کی پونجی ان مکاروں کے حوالہ کرکے ہر ماہ کی پہلی تاریخ میں حلال نفع کا انتظار کرتا ہوا نظر آتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی چند مہینوں یا سالوں تک ان کمپنیوں سے حسب ِمعاہدہ نفع بھی آتارہتا ہے، بعد میں اچانک یہ ہنگامہ برپا ہوتا ہے کہ کمپنی ڈوب گئی یا بھاگ گئی ، پھر یہی عوام جس نے لالچ و حرص میں بنا سوچے سمجھے اور جانکار علماء سے بنا کسی مشورہ کے اپنی زندگی بھر کی پونجی حوالہ کردی تھی، اب وہی عوام علماء کو کوستے ہوئی نظر آتی ہے کہ انھوں نے ہمیں کیوں نہیں بتایا وغیرہ، جس کی بہت ساری واضح مثالیں ماضی قریب میں گذرچکی ہیں۔
چنانچہ اسی طرح کی فراڈ پر مبنی کمپنیوں میں سے ایک نئی کمپنی”ثمیر گولڈ بزنس“ کے نام سے بازار میں آئی ہے یہ بھی بھولے بھالے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے چھ مہینوں میں پیسہ ڈبل کرنے وغیرہ کے جھوٹے وعدے کررہی ہے،اور کمپنی نے اپنا جو تعارف نامہ جاری کیا ہے اس میں کہیں بھی اس کمپنی کے آفس کا اڈریس یا اس کمپنی کے کام کا طریقہٴ کار وغیرہ کا کوئی ذکر تک نہیں ہے، لیکن حد تو یہ ہے کہ اس کمپنی کی مقبولیت میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور عوام و خواص کا ایک بڑا مجمع ”آ بیل مجھے مار“ کی طرح آنکھ بند کرکے اس کمپنی میں پیسہ لگا رہے ہیں۔چنانچہ اسی کمپنی سے متعلق بہت سارے علماء اور عوام نے دسیوں سوالات بھیجے اور اس کمپنی کے متعلق تحقیقی جواب کا مطالبہ کیا ، تو اسی درخواست کو مد ِنظر رکھتے ہوئے بندہ نے اپنے ادارہ”مرکزالاقتصاد الاسلامی“ کے شعبہٴ تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ کے امسال کے شرکاء کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اس کی شرعی و عقلی تحقیق پیش کریں، اسی تحقیق کا خلاصہ یہ مضمون ہے ، اس مضمون میں ہم نے شریعت کی روشنی میں تحقیق کرکے صرف اپنی رائے دی ہے اور یہ سوال نامہ چونکہ ایک مخصوص کمپنی کے نام کے ساتھ آیا تھا اس لئے تحقیقی جواب میں بھی اس کا نام واضح طور پر مذکورہے۔
اب رہی بات ہماری تحقیق کو ماننے یا نہ ماننے کی تو یہ قارئین کی اپنی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔آمین!
فقط:بندہ محمد سلمان مظاہری،وانمباڑی
!الحمد للّٰہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی أما بعد
قال اللہ تبارک وتعالی ﴿وآخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل ا للّہ﴾ صدق اللّہ العظیم۔
اسلام ایک جامع دین ہے جس میں عقائد وعبادات اور اخلاقیات کے ساتھ معاشرت ومعاملات سے متعلق واضح ہدایات اور تعلیمات موجود ہیں، معاملات دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جیسے اللہ نے ہمیں عبادت کا مکلف بنایا ہے اسی طرح معاملات میں بھی کچھ احکام کا مکلف بنایا ہے، قرآن کریم نے تجارت کے لیے اسفار کی الفت اور کاروبار سے انس کو اپنی نعمت قرار دیا، پھر پوری انسانیت کی روزی روئے زمین پر پھیلا کر دن کو حصول معاش کا وقت اور ذریعہ قرار دے کر اس کی طلب کے لیے کوشش کا حکم دیاہے:
کما قال اللہ تعالی: ”وجعلنا النہار معاشا“ (سورة النبأ:۱۱)
ایک دوسرے جگہ ارشاد فرمایا: ”وابتغوا من فضل اللہ“ (الجمعة: ۱۰)
البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تجارت کے دوران حلال کمائی سے متعلق شریعت کے احکام وضوابط کی پابندی کی جائے اور حرام معاملات سے مکمل اجتناب کیا جائے، ایک مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ ان کو اختیار کرنے سے پہلے اس کے طریقہٴ کار کو جانے کہ آیا اس میں تجارت کے شرعی اصول وضوابط پائے جاتے ہیں یا نہیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے وہ ذریعہٴ معاش اختیار کر رکھا ہوتا ہے ،جو کہ حرام ہے اور شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ مثلا: سود کا ذریعہ معاش، اگر ان سے کہا جائے کہ یہ تو نا جائز اور حرام ہے اس طریقے سے پیسے نہیں کمانا چاہیے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنی محنت کا کھا رہے ہیں، اپنا وقت صرف کر رہے ہیں اور اگر ہم کسی کو مضاربت کے طور پر پیسہ دے کر اس کا نفع لیتے ہیں تو ہم اس کا نقصان بھی تو گوارہ کرتے ہیں اب اگر وہ کام حرام ہے تو اس سے ہمارا کیا تعلق؟
خوب سمجھ لیں کہ اللہ تعالی کے یہاں ہر محنت جائز نہیں ہوتی بلکہ جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوصرف وہی محنت جائز ہے، لہذا آمدنی کے جو ذرائع حرام ہیں ان کو یہ کہہ کر حلال کرنے کی کوشش کرنا کہ یہ ہماری محنت کی آمدنی ہے شرعاً اس کی گنجائش نہیں ہے۔ الغرض اسلام نے تجارت کے سلسلے میں کئی اصول وضوابط مقرر فرمائیں ہیں، جن میں ایک اصول یہ آیت کریمہ ہے: ”لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل إلا أن تکون تجارة عن تراض منکم“ یعنی باطل طریقے سے اموال کمانا حرام ہے۔
دور ِحاضر میں لوگوں میں معاملات کے تعلق سے بے راہ روی بڑھتی جارہی ہے، پیسوں کی لالچ میں لوگ حرام وحلال کی پرواہ کیے بغیر ہر طرح سے مال کمانے اور جمانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں؛ حا لانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دور اندیشی سے اس کی پیشین گوئی فرما دی تھی:
”عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ قال: یأتی علی الناس زمان لا یبالی المرء ما أخذ منہ أمن الحلال أم من الحرام “۔(بخاری، حدیث :۲۰۵۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو چیز اس نے حاصل کی ہے وہ حلال ہے یا حرام، لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معاملہ کرتے وقت اس سے متعلق تمام شرعی اصول وضوابط کی مکمل پاسداری کریں۔
آج کے اس پرفتن اور ترقی یافتہ دور میں طرز زندگی کی طرح کاروبار کے بھی نئے نئے طریقے وجود میں آچکے ہیں، روزانہ کوئی نہ کوئی کمپنی اسلامی لبادہ اوڑھ کر بطور مضاربة یا مشارکہ کام کرکے حلال نفع دینے کا دعویٰ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور اپنی تجارت کی جانب مائل کرنے اور ”حلال انوسٹمنٹ“کے نام پر لوگوں کا پیسہ لوٹنے کے لئے ایسے ایسے اشتہارات جاری کرتی ہیں، جنھیں دیکھ کر ایک غریب و لاچار مسلمان اس طرح کی کمپنیوں کو اپنے لئے نعمت ِغیر مترقبہ سمجھنے لگتا ہے۔
مثلا ًہم کب تک دوسروں کی ماتحتی میں رہیں گے آئیے خود مختار بنیں، گھر بیٹھے ہر مہینے بیس ہزار سے پچیس ہزار کمائیے وغیرہ کے ذریعہ عوام وخواص کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نفع کا لالچ اور کثیر مقدار میں نفع کے خواب دکھا کر لوگوں کا پیسہ بٹورتی ہیں اورمجبور عوام بھی ان کی باتوں میں آکر زیادہ نفع اور آمدنی کی لالچ میں حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر ان کمپنیوں کی تجوریوں کو بھرتی رہتی ہے، چنانچہ ان ہی کمپنیوں میں سے ایک کمپنی ”ثمیر گولڈ بزنس“ بھی ہے جوآج کل بڑے زور و شور سے خدمت خلق کا دعویٰ کر رہی ہے جیسے کچھ سالوں قبل ”آیٴ،ایم،اے“ بنگلور وغیرہ کمپنیوں نے دعویٰ کیا تھا،یاد رکھیں کہ خدمت خلق بہت بڑی چیز ہے اور محمود ومطلوب بھی ہے، اور شریعت نے خدمت ِخلق کے جذبہ کو مستحسن بھی قرار دیا ہے، لیکن تجارت ایک الگ چیز ہے اور خدمت خلق ایک الگ معاملہ ہے، تجارت کواس کے مکمل شرعی و قانونی اصول و ضوابط کے ساتھ کرنے کے بعد اگر کوئی کمپنی خدمت خلق کا دعویٰ کرتی ہے تو بہت اچھی بات ہے، مگر تجارت کے نام پر کمزور عوام سے پیسے بٹور کر ان ہی پیسوں میں سے کچھ پیسہ خدمت ِخلق کے نام پر غریب و نادار مسلمانوں کو دینا تاکہ اِس ڈھونگ بازی کے ذریعہ اپنی بوگس کمپنی کی تعریف و تشہیرکرواکر عوام میں اس بوگس کمپنی کا اعتماد پیداکرکے کمزور عوام کی زندگی بھر کی کمائی کو لوٹنا یہ تجارت نہیں بلکہ تجارت کے نام پر ایک دھوکہ پر مبنی ”پونزی اسکیم“کے علاوہ کچھ نہیں۔
حالانکہ لوگوں سے حلال انوسٹمنٹ کے نام پررقوم لے کر انھیں نفع کا جھانسہ دینے اور رقوم لے کر فرار ہونے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے،ابھی ماضی قریب میں ہندوستان کے دو مشہور شہر بنگلوراور حیدرآبادمیں دسیوں کمپنیاں اسلام اور حلال کا لبادہ اوڑھ کرہزاروں کروڑ روپیوں کا گھپلہ کر چکی ہیں، مگر افسوس کے اس قدر دھوکہ کھانے کے بعد بھی لوگوں کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں، جس کی وجہ سے دھوکہ باز،چالبازاور مکار قسم کے لوگ روزانہ مختلف اسلامی ناموں اورحلال لیبل کے ساتھ عوام الناس کو دھوکہ دینے میں رات دن مصروف ہیں۔
بہر حال ان ہی کمپنیوں میں سے ایک ” ثمیرگولڈ بزنس“ نام کی کمپنی بھی ہے، جس نے ابھی کچھ مہینوں سے ”ثمیر گولڈ بزنس “کے نام سے ایک مفروضہ سونے کا کاروبار شروع کیا ہے ،جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک مشہور اسلامی عقد” مضاربت“ کا معاملہ کرکے اس سے حاصل ہونے والے نفع کو سرمایہ کاروں کے درمیان حلال طریقہ پر تقسیم کرتی ہے! بہت سارے احباب جو اس کمپنی میں انوسٹ کرنا چاہتے ہیں ان کی جانب سے دسیوں سوالات آئے کہ آیا اس کمپنی کے اصول شریعت کے مطابق ہیں بھی یا نہیں؟ ان ہی سوالات کے پس منظر میں اس کمپنی کا جائزہ لیتے ہیں۔
تو آیئے سب سے پہلے ہم مضاربت کا شرعی طریقہ جانتے ہیں ،اس کے بعد ہم” ثمیر گولڈ بزنس“ کوجانچیں گے کہ آیا وہ شرعی طریقہ پر مضاربت کرتا بھی ہے یا نہیں ؟
:مضاربت کے شرعی طریقہٴ کار کا مختصر خاکہ
# شرعی اصطلاح میں مضاربت یہ ہے کہ سرمایہ دار جس کو ”رب المال“کہتے ہیں وہ کسی اورشخص یعنی”مضارب“ کو اپنا مال، تجارت کی غرض سے دے؛ تاکہ نفع میں مقرر تناسب کے مطابق دونوں شریک ہوں،اس طرح مضاربت میں ایک فریق کی طرف سے مال اور دوسرے فریق کی طرف سے عمل اور محنت پائی جاتی ہے ۔
مضاربت ایجاب وقبول سے منعقد ہوتی ہے یعنی ایک طرف سے معاملہ کی پیشکش ہو اور دوسرا اسے قبول کرے۔
مضاربت چونکہ ایک حقیقی تجارت کا ایک طریقہ ہے، جس میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے ،نفع ہونے کی صورت میں علی حسب المعاہد ہ تقسیم ہوگا،اور بلا تعدی نقصان ہونے کی صورت میں مضارب پر نقصان نہ ہوگا ،اورسارا نقصان رب المال کے ذمہ ہوگا ۔
مضاربت میں سرمائے کے تناسب سے رقم متعین کرنا جائز نہیں ،مثلا ًکسی نے ایک لاکھ روپے مضارب کو دیے اور کہا کہ ہر مہینے مجھے مثلا ًپانچ ہزار روپے نفع چاہیے تو یہ جائز نہیں ،بلکہ یہ سود ہے جو کہ حرام ہے ۔
مدت ِمضاربت کے ختم ہو نے کے بعد مضارب پر لازم ہے کہ وہ تمام مال کا حساب کتاب کرکے رب المال کو اس کا سرمایہ نفع و نقصان کے ساتھ لوٹادے،رب المال نے جتنا سرمایہ لگایا اتنا ہی واپس کر نا لازم نہیں۔
اگر مضارب یہ شرط لگادے کہ رب المال نے جتنا سرمایہ دیا ہے ،مضاربت کے ختم ہونے کے بعد اتناہی واپس کروں گا تو یہ مضاربت جائز نہیں ہے،بلکہ یہ قرض ہوگا اور اگر اس پر نفع دیتا ہے تو وہ سود ہوگا ۔
مضارب کو اگر سفر وغیرہ کی وجہ سے اخراجات پیش آتے ہیں تو وہ تجار کے مابین معروف اخراجات سے زائد نہ ہو ں ۔
عقد ِمضاربت کی اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہم آگے” ثمیر گولڈ بزنس “کے دعووٴں کا شرعی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
:”ثمیرگولڈ بزنس“ کا تحقیقی و شرعی جائزہ
ثمیر گولڈ بزنس کی جانب سے جاری کردہ تعارف نامہ میں بہت ساری تفصیلات ذکر کی گئی ہیں، ان میں سے ہر ایک جزئیہ کی الگ الگ تحقیق کرتے ہیں
۳-انویسٹمنٹ میں ہمارا اصول یہ ہے کہ جب پروفٹ ڈپوزٹ کے برابر ہوجاتا ہے تو اصل پونجی ہم رٹرن کرتے ہیں، پروفٹ ڈپوزٹ کے برابر ہو اس کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ چھ مہینے لگتے ہیں، اس لیے انویسٹمنٹ چھ مہینے کے لئے ہوتا ہے، اس بیچ میں اگر انویسٹر کو اپنی رقم واپس چاہیے تو ہر انویسٹر(خواہ پرانے ہوں، یا نئے) کو سروس چارج کے طور پر انویسٹمنٹ کا دس فیصد رٹرن کرنا ہوگا، یعنی بیس ہزار میں دو ہزار، تیس ہزار میں تین ہزار
ہدایت نامہ میں بیان کردہ شرط نمبر ۳: انویسٹمینٹ میں ہمارا اصول یہ ہے کہ جب پرافٹ ڈپوزٹ کے برابر ہوجاتا ہے تو اصل پونچی ہم رٹرن کرتے ہیں۔
تحقیق: اس میں شرعا ًیہ خرابی پائی جاتی ہے کہ عقد مضاربة میں مضارب رأس المال کا ضامن نہیں ہوتا جبکہ ان کے اس بیان کردہ شرط میں رأس المال کی ضمانت لی جارہی ہے اور اس پر نفع دیا جا رہا ہے اور مال مضمون پر نفع لینا سود میں شامل ہے کیونکہ مضاربت میں رأس المال (اصل پونجی) مضارب کے پاس امانت ہوتی ہے، اوریہ صورت تو راس المال کو مضمون کرنے والی ہے اور” ثمیر گولڈ“ اس کو مضمون بنا کر عقد مضاربت کے خلاف کررہا ہے جو کہ جائز نہیں ہے ۔
کیونکہ کمپنی کا چھ مہینے میں پورا سرمایہ لوٹانے کی بات کہنا گویا رأس المال کی ضمانت دینا ہے حالانکہ کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے، لہذا عقد مضاربة میں رأس المال کو مضمون بنا کر اس پر نفع حاصل کرنا سود ہے۔اور آگے وہ بیان کرتا ہے کہ ”پروفٹ ڈپوزٹ کے برابر ہو اس کے لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ چھ مہینے لگتے ہیں۔“
”ثمیر گولڈ“ کے اس مذکورہ اصول سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ وہ نفع کی گارنٹی دے رہاہے حالانکہ تجارت میں نفع ونقصان دونوں ہوسکتا ہے ۔ گویا کہ اِس اصول میں اُس نے ایک طرح سے وقت کی تحدید کے ساتھ نفع کی مقدار متعین کردی ہے حالانکہ تجارت میں نفع ونقصان متعین نہیں ہوسکتے ،اور اس طرح عاقدین میں سے کسی ایک کے لئے متعینہ نفع کی شرط لگانا بھی جائز نہیں ہے ۔
اسی مذکورہ شق نمبر تین میں ”ثمیر گولڈ“کا یہ بھی اصول ہے کہ ”انویسٹمنٹ چھ مہینے کے لئے ہوتا ہے اس بیچ میں اگر انویسٹر کو اپنی رقم واپس چاہیے تو ہر انویسٹرکو سروس چارج کے طور پر انویسٹمنٹ کا دس فیصد رٹرن کرنا ہوگا ۔“
حالانکہ سروس چارچ کے نام پر فسخ مضاربہ کے وقت دس فیصد سرمایہ واپس کرنے کی شرط لگانا بھی شرعا ً درست نہیں، اس لئے کہ کوئی بھی مضارب خواہ وہ کوئی انفرادی شخص ہو یا کمپنی وہ سروس چارچ کے نام پر صرف اتنا ہی خرچ لے سکتا ہے جتنا خرچ مضاربت کی وجہ سے مضارب کے ذمہ آیا ہے، سرمایہ کے فیصد کے اعتبار سے خرچ متعین کرنا درست نہیں ہے، لہذا سرمایہ کی واپسی کے وقت کمپنی پر ضروری ہے کہ رب المال کا سرمایہ نفع ونقصان کے ساتھ بازاری قیمت کے اعتبار سے لوٹائے، اور خرچ صرف اتنا ہی لے جتنا کہ اس طرح کے معاملوں میں تجار کے مابین معروف ہو ،لہذا سروس چارج کو دس فیصد وغیرہ متعین کرنا درست نہیں ہے ۔
۴:ہر ادارے کا اپنا اصول ہوتا ہے جس کو ماننا ادارے سے جڑے ہر ہر فرد کے لئے ضروری ہوتا ہے، چاہے وہ اصول سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ نیز وہ اصول فی الحال تحریری شکل میں موجود ہو، یا بعد میں ادارے کے ذمہ داران کسی بھی وقت بیان کریں، ہروقت ہر قسم کے اصول و ضوابط کو ماننے کے لیے تیار رہنا ضروری ہے۔
ہدایت نامہ میں بیان کردہ شرط نمبر۴: ہر ادارے کا اپنا اصول ہوتا ہے جس کو ماننا ادارے سے جڑے ہر ہر فرد پر ضروری ہوتا ہے، چاہے وہ اصول سمجھ میں آئے یا نہ آئے، نیز وہ اصول فی الحال تحریری شکل میں موجود ہو یا بعد میں ادارے کے ذمہ داران کسی بھی وقت بیان کریں، ہر وقت ہر قسم کے اصول وضوابط کو ماننے کے لیے تیار رہنا ضروری ہے۔
تحقیق: اس میں شرعا ًیہ خرابی پائی جاتی ہے کہ عقد مضاربة یہ معاملات سے متعلق ہے، اس میں شرائط پہلے سے معلوم ہونا چاہیے بلکہ ادارے کی شرعا ًاور قانونا ًذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو انویسمنٹ کی دعوت دینے سے پہلے تما م شرائط کو طے کریں اور لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ یہ بات اخلاقا ًبھی درست نہیں ہے کہ عقد کے وقت شرائط طے نہ کئے جائیں اور ایسے مغلق شرائط کی پاسداری کو لازم قرار دیا جائے چاہے وہ اصول سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، لہذا شرائط کو بیان نہ کرنا اور بعد میں ان پر جبری طور پر عمل کروانا شرعا ًدرست نہیں ہے اور اس میں غرر بھی ہے ۔
اگر بالفرض ادارے کی جانب سے بعد میں جاری کی جانے والی شرائط سے سرمایہ کار کو ضرر پہنچتا ہو یا اس سے انوسٹر کی رضامندی فوت ہوتی ہو یا وہ شرائط شرعی اصولوں کے خلاف ہوں تو کیا اس صورت میں بھی ان شرائط کا ماننا ضروری ہوگا؟
حالانکہ عقد مضاربة کے متعلق” مجمع الفقہ الاسلامی “نے اپنے چوتھے اجلاس منعقدہ جدہ مورخہ ۱۸تا ۲۳ جمادی الثانی سن ۱۴۰۸ ھ جوتجاویز منظور کی ہیں اس میں چند درج ذیل ہیں:
عنصر نمبر (۲): ”اس میں ضروری ہو گا کہ اعلامیہ اجراء میں عقد مضاربة کی شرعاً تمام مطلوبہ تفصیلات بیان کر دی گئی ہوں ، جیسے رأس المال کی مقدار، نفع کی تقسیم اور دیگر شرائط جو اس اجراء کے لیے خاص ہوں،بشرطیکہ یہ تمام شرائط شرعی احکام کے مطابق ہوں۔
اعلامیہ اجراء یا مضاربة سرٹیفکٹس میں کوئی ایسی شرط بیان کرنا جائز نہیں ہو گا، جس کی رو سے مضارب رأس المال کی یا کسی مقررہ مقدار نفع کی یا رأس المال کے کسی مقررہ فیصد نفع کی ضمانت لے، اگر ایسی کوئی شرط صراحةًیا ضمنا ًلگائی گئی ہو تو ضمانت کی شرط باطل ہو جائے گی اور مضارب مضاربت کے مثلی نفع کا مستحق ہو گا“۔
۵: یہ کوئی بزنس نہیں ہے؛ بلکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (غریبوں، یتیموں، بیواؤں، مفلسوں اور کمزور طبقہ کی ہیلپ) کو زندہ کرنے کی ایک تحریک ہے۔
ہدایت نامہ میں بیان کردہ شرط نمبر۵: یہ کوئی بزنس نہیں ہے، بل کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے کی ایک تحریک ہے۔
تحقیق: ”ثمیر گولڈ بز نس“ کا یہ دعویٰ بھی محض دھوکہ پر مبنی ہے حالانکہ خود اس نے بیان کیا ہے کہ ہم مضاربت کا معاملہ کرتے ہیں ،لہذا اس کی بات میں واضح تضاد ہے ۔
کیونکہ”ثمیر گولڈ بز نس“ ابتداء ہی سے یہ بات کہتا آرہا ہے کہ ہمارا یہ کام مضاربت کامعاملہ ہے ،مزید یہ کہ ہر دس ہزار پرپندرہ سو سے دو ہزار تک کا نفع دینے کا وعدہ کرنا یہ اشارہ کر رہا ہے کہ یہ ایک بزنس ہے نہ کہ خالص خدمت ِخلق، لہذا اس میں تجارت کے شرعی اصول و ضوابط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اگر کمپنی کا طریقہ کار تجارت کے شرعی اصول سے مغایر ہو تو محض خدمت خلق کا جذبہ ہونے سے کوئی ناجائز تجارت جائز نہیں ہوجاتی اوراس طرح کے حرام بزنس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال نہیں ہو گا۔
نوٹ۳: روزانہ الگ الگ اکاؤنٹ نمبر دیے جاتے ہیں رقم ڈپوزٹ کے لئے، لہذا اگر کسی نے پہلے اکاؤنٹ نمبر لیا ہو تو بعد میں دوسرے دن از خود پرانے اکاؤنٹ پر رقم سینڈ نہ کریں، بل کہ نیا اکاؤنٹ نمبر لینا ضروری ہے۔
ہدایت نامہ میں بیان کردہ نوٹ نمبر ۳:”ثمیر گولڈ بز نس کی ہدایت میں سے یہ بھی ہے کہ روزانہ الگ الگ اکاوٴنٹ نمبر دئے جا تے ہیں رقم ڈپازٹ کے لئے لہذا اگر کسی نے پہلے اکاوٴنٹ نمبرلیا ہو تو بعد میں دوسرے دن از خود پرانے اکاوٴنٹ پر رقم سینڈ نہ کریں بلکہ نیا اکاوٴنٹ نمبر لینا ضروری ہے۔“
تحقیق: ثمیر گولڈ بز نس کی اس ہدایت سے صاف معلو م ہوتا ہے کہ اس کی کمپنی یا تو رجسٹرڈ نہیں ہے یا پھر حکومت کی نظر میں آنا نہیں چاہتی ،اگر اس صورت میں کمپنی کو کچھ ہو جاتا ہے تو حکومت کی نظر میں نہ ہو نے کی وجہ سے بآسانی راہ فرار اختیار کر سکتی ہے اُس کی اِس بات سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ کوئی بزنس نہیں بلکہ صریح دھوکہ ہے ۔
یعنی انویسٹرز کو روزانہ الگ الگ اکاوٴنٹ نمبر دینا ایک مرتبہ پیسے بھیجنے کے بعد دوسرے دن پیسے بھیجنے کے لیے نیا اکاوٴنٹ نمبر لینے کو ضروری قرار دینا اس کمپنی کے تعلق سے شکوک وشبہات پیدا کر رہا ہے، اور اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ بزنس غیر مستحکم ہے یا غیر قانونی ہونے کی وجہ سے حکومت کی نظروں سے بچنے کے لیے ایسا کیا جارہا ہے، لہذا اس طرح کے ادارے سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا قانوناً بھی ضروری ہے، کیونکہ اگر کسی ادارہ کو قانونی طور پر لوگوں سے انوسٹمنٹ لینے کا حق نہ ہواور اس بات کو جانتے ہوئے بھی اگر کوئی انوسٹر اس طرح کی کمپنی میں پیسے لگا کر نفع کماتا ہے تو ادارہ کے ساتھ ساتھ انوسٹر بھی قانوناً جوابدہی کا ذمہ دار ہوگا ۔
سوال 1: اتنا پروفٹ آپ کیسے دیتے ہیں؟ جواب: میں نے بارہا بتایا ہے کہ میں یہ کام صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہوں۔ میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا چاہتا ہوں، خصوصا دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور ان ضرورت مندوں کو جو واقعتا ضرورت مند ہیں، تاکہ وہ بھی سکون راحت کی زندگی گزار سکیں۔
چناں چہ 100 میں 70 انویسٹر کو دیتا ہوں، باقی 30 میں رکھتا ہوں، پھر ان 30 میں 10 اللہ کے راستے میں 10 اپنے کارکنان کو اور 10 اپنے پاس رکھتا ہوں۔
سوال: آپ اتنا نفع (پروفٹ) کیسے دیتے ہیں؟
جواب: میں نے بارہا بتایا ہے کہ میں یہ کام صرف اور صرف اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چناں چہ ۱۰۰/ روپے میں ۷۰/ انویسٹر کو دیتا ہوں اور باقی تیس میں خود رکھتا ہوں۔
تحقیق: یہ بات بعید از قیاس ہے کہ کمپنی کو ہر ماہ حاصل ہونے والا ۷۰فیصد نفع میں سے پرافٹ 1500/2000 ہو، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی کاروباری ادارہ عموماً دس ہزار روپئے انوسٹمنٹ لے کر دوہزار یا ۱۵۰۰ ماہانہ منافع ہرگز نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا، ہاں اگر کوئی پونزی اسکیمہو جیسے ”آی،ایم اے“وغیرہ جو ابھی ماضی قریب میں گذرچکی ہے ،پھر تو ممکن ہے مگر کوئی حقیقی تجارت کرکے اس قدر نفع دینے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ بلاشبہ دھوکہ پر مبنی کمپنی ہی ہوسکتی ہے، جس سے بچنا از حد ضروری ہے۔
20 Best Investment Options in India in 2024
Investment Options
RBI Saving Bonds
Bank Fixed Deposits
Initial Public Offerings (IPO)
Stock Market Trading
Period of Investment
6 years
7 days to 10 years
As per the investment Profile
As per the investment profile
Returns Offered
8.00% p.a.
4-9% p.a.
8-15%
7-20%
https://www.policybazaar.com
اس 2024 کی فائنانشیل رپورٹ کو دیکھئے کہ ”آر،بی،آئی“ جو کہ مرکزی حکومتی ادارہ ہے اس کی جانب سے جاری کردہ بونڈس پر چھ سال کی ایوریج آمدنی سالانہ صرف آٹھ پرسنٹ ہے اور اسٹاک مارکیٹ جو کہ سب سے زیادہ نفع دینے والا ادارہ سمجھا جاتا ہے اس کی ایوریج سالانہ آمدنی صرف ٪20 -7 ہی ہے تو بھلا بتلائیے کہ یہ ”ثمیر گولڈ“ نامی کمپنی کہاں سے اتنا نفع دیتی ہے۔
اگر یہ کمپنی حقیقت میں اس قدر حلال نفع دینے کا دعویٰ کرتی ہے تو ہماری اس کے ذمہ داروں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی ماضی کی پانچ سالہ فائنانشیل رپورٹ منظر عام پر لائیں؛ تاکہ ہمیں آپ کی بات پر اطمینان ہو، اگر یہ کمپنی اپنی فائنانشیل اسٹیٹمنٹس پیش نہ کرنے کا یہ بہانہ پیش کرتی ہے کہ اس سے اس کے کاروباری راز کھل جائیں گے اس لئے وہ اس کو منظر عام پر نہیں لاسکتی تو پھر اس کے پونزی اسکیم ہونے میں کوئی شک نہیں اور آج نہیں تو کل عنقریب یہ کمپنی بھی ”آئی،ایم،اے“ اور”ہیرا گولڈ“ کی طرح لوگوں کا پیسہ لے کر راہ فرار اختیار کرلے گی، اللہ ہی حافظ و ناصر ہے ۔
سوال 3: گارنٹی کیا ہے؟
جواب: میں شروع ہی سے تمام ممبران سے کہتا ہوا آرہا ہوں کہ کسی کے کہنے پر آپ پیسے انویسٹ نہ کریں۔
آپ کو گارنٹی چاہیے، تو صرف اور صرف اللہ سے مانگیے۔
جس سے آپ کو گارنٹی چاہیے، کیا وہ اتنا بڑا دعوی دے سکتا ہے؟ سوائے اللہ کے کوئی نہیں دے سکتا۔
آپ اللہ سے مشورہ کر کے اس کام کی طرف قدم بڑھائیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے۔
سوال نمبر۳ کا جواب: ”ثمیر گولڈ بز نس کی ہدایت میں سے یہ بھی ہے کہ میں شروع سے ہی تمام ممبران سے کہتا ہواآرہا ہوں کہ کسی کے کہنے پر آپ پیسہ انویسٹ نہ کریں ،آپ کو گارنٹی چاہیے، تو صرف اور صرف اللہ سے مانگیے۔
تحقیق: اس سوال کے جواب میں ”ثمیر گولڈ“ نے دو باتیں کی ہیں، ایک تو استخارہ کی اور دوسرا اللہ تعالیٰ پر توکل کی، ہم ہر ایک کا الگ الگ جائزہ لیں گے
”ثمیر گولڈ بز نس کی ہدایت میں یہ ہے کہ ہمارے کام سے منسلک ہونے کے لئے استخارہ کرلیں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ماخاب من استخارولاندم من استشار“اگردل مطمئن ہوتو جوائن کریں یا پھر نہیں ۔
ہم سب سے پہلے استخارہ کی حقیقت کو سمجھیں گے کہ استخارہ کیا ہے ؟استخارہ کا مطلب ہے کہ کسی جائز و حلال معاملہ میں خیر اور بھلائی کو طلب کرنا ،یعنی کسی اہم معاملہ میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا ،اور اللہ سے اس کام میں خیر،بھلائی اور رہنمائی طلب کر نا ۔
استخارہ کے متعلق یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ صرف ان کاموں میں جائز ہے جو مباحات کی قبیل سے ہو ں یعنی کسی جائز کام میں استخارہ کرنا ،لیکن جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ان میں استخارہ ہی جائز نہیں ۔
اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،ماشاء اللہ” ثمیر گولڈ بز نس“ نے استخارہ کی عمدہ تعلیم تو دی ہے لیکن وہ یہ چیز بھول گئے کہ جس چیز کا استخارہ کیا جاتا ہے وہ مکمل واضح اور معلوم بھی ہو!ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آپ نے گولڈ بزنس کے متعلق ذرا سی بھی تفصیل نہیں بتائی کہ آپ کا طریقہ تجارت کیا ہے، اور نفع تقسیم کرنے کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق ہونے کی کون تصدیق کرتا ہے وغیرہ ،کیا اس طرح آپ لوگوں کو استخارہ کے نام پر ایک ایسے امر میں داخل کرنا چاہتے ہیں ،جس کے انجام سے عوام واقف نہیں !اگر نقصان ہو جائے تو تلافی کون کرے گا؟آپ کی یہ بات عقل سے پرے ہے ، آپ کا مقصد اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ لوگ ”مضاربت“ کے نام سے معصوم لوگوں کو خوبصورت باتوں اور عمدہ خواب دکھاکر اپنے مکروفریب میں پھنساکر لوگو ں کی پونجی کا غیر محسوس طریقہ سے استحصال کرنا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
شرعی نقطہٴ نظر سے پیچھے یہ بات واضح ہوگئی کہ” ثمیر گولڈ بز نس “کا طریقہٴ کارشرعی عقد مضاربہ کے تحت جائز نہیں ہے اوراس کے مالکین شرعی احکامات کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں ، لہذااب عوام سے سوال یہ ہے کہ آپ خود بتائیں کہ کیا اس طرح کے کاروبار میں استخارہ کرکے داخل ہونا جائز ہے ؟؟ ہر گز نہیں ۔
اب رہی بات گارنٹی کی تو”ثمیر گولڈ بزنس“ کا کہنا یہ ہے کہ آپ کو گارنٹی چاہیے، تو صرف اور صرف اللہ سے مانگیے
تحقیق: ”ثمیر گولڈ“کی یہ بات بھی ایک احمقانہ گفتگو سے کم نہیں ہے، اس بات سے انکار نہیں ہے کہ توکل اللہ پر ہی کرنا چاہیے ، لیکن اگر کوئی محض توکل علی اللہ کی بنیاد پرکسی دسرے شخص سے عقد یا کوئی معاملہ کرے تو یہ بھی سو فیصد درست نہیں ہے ، خصوصا ً اس کمپنی کے ساتھ جس نے اپنے کاروباری طریقہ کار کی کوئی تفصیل ہی نہیں دی ،بلکہ توکل کا تقاضہ یہ ہے کہ سارے اسباب اختیار کرنے کے بعد توکل کیاجائے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ توکل کے نام پر لوگوں کو لوٹ لیا جائے ،اگر کمپنی کو نقصان ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟کیا اللہ اس کا ذمہ دار ہوگا ؟؟اس طرح کی بات کرکے” ثمیر گولڈ“اپنے اوپر سے ذمہ داری ہٹانا چاہتا ہے ۔
اسلام نے کبھی بھی آنکھ بند کر کے کسی کی ظاہری دینداری کی بنیاد پر مال اس کے حوالے کر نے کا قطعا ً حکم نہیں دیا بلکہ ہر وقت ہوشیاری کا درس دیا ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یاأیہا الذین آمنوا اذا تداینتم بدین إلی أجل مسمی فاکتبواہ﴾(البقرة: ۲۸۲)
اللہ تعالی نے آیت مذکورہ میں دین اور قرض کے معاملہ میں بھی کتابت کا حکم دیا اور اس پر گواہ بنانے کا حکم فرمایا۔ کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اس طرح کے مالی معاملات استخارہ کرکے کیے جائیں۔اورجب ان سے گارنٹی کا سوال کیا جارہا ہے تو یہ جواب دے رہے ہیں کہ اللہ سے گارنٹی لیں، در اصل یہ سب باتیں بھولے بھالے مسلمانوں کو جھانسہ دے کر ان سے مال ایٹھنے کی ایک چال ہے ،لہذا ان سے ہوشیاررہیں جب تک مکمل تحقیق نہ کر لیں اس وقت تک محض استخارہ کا نام سن کر ر قم ان کے حوالے نہ کریں۔
لہٰذاکمپنی کا وجود،اس کی کارکردگی ، قانونی طور پر اس کے مستند ہونے کی مکمل تحقیق کئے بغیرصرف اللہ کے بھروسے پیسہ انویسٹ کرنا حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے، ادارہ کی جانب سے لائسنس اور دیگر سرکاری دستاویزات کے ذریعہ سرمایہ کاروں کو اطمینان دلانا یہ خود ادارے کی اخلاقی و قانونی ذمہ داری ہے تاکہ عوام کا پیسہ غلط ہاتھوں میں لگ کر تباہ و برباد نہ ہو جیسا کہ ماضی میں ”آی،ایم،اے“وغیرہ کمپنیوں میں لگ کر ہوچکا ہے اور عوام اس صدمہ سے ابھی مکمل باہر بھی نہیں آئی کہ ایک اور مصیبت نے حلال کے نام پر دستک دینا شروع کردیا ہے۔
جوائن ہونے کے لیے درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھیں
۱: اس کام سے مطلقہ، بیوہ، معذور، غریب و مفلس، نیز مسجد کے امام و مؤذن مدارس کے اساتذہ و طلبہ ہی منسلک ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی سروس مین یا بزنس مین چاہے وہ عالم دین ہی کیوں نہ ہو اس بزنس میں شامل نہ ہو۔
” ثمیر گولڈ بز نس کی ہدایت میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا م سے مطلقہ ،بیوہ ،معذور ،غریب ومفلس ،نیز مسجد کے امام وموٴذن اور مدارس کے اساتذہ وطلبہ ہی منسلک ہو سکتے ہیں ،کوئی بھی سروس مین یا بزنس مین (خواہ وہ عالم دین ہی کیوں نہ ہو)اس بزنس میں شامل نہیں ہو سکتا ۔“
تحقیق: ثمیر گولڈسے سوال ہے کہ انھوں نے اپنے بزنس سے منسلک ہونے کے لئے مطلقہ ، بیوہ ،معذور ،غریب وغیرہ حضرات ہی کو کیوں خاص کیا؟کسی سروس مین یا بزنس مین کو آپ اپنے بزنس میں شامل کیوں نہیں کرنا چاہتے ہیں ؟
اگر اس کا مقصدبقول آپ کے محض غریب ونادار لوگو ں کی مدد کرنا ہے تو فی سبیل اللہ کیجئے حقیقت تو یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کرنے کے نام پر آپ ان کی پونجی سے اپنا نفع بھی تو سمیٹ رہے ہیں ۔
کاروبار میں سروس مین یا بزنس مین کو شامل نہ کرنے کا واضح مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ کی کمپنی یا بزنس صرف برائے نام ہے، جس کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں اورچونکہ آپ کو یہ معلوم ہے کہ اگر کوئی جان کار شخص آپ کے کاروبار میں شامل ہوگا تو وہ آپ کے سارے سیاہ وسفید کو ظاہر کر دے گا اور جو شخص تھوڑا سا بھی عقل سلیم اوربزنس مائنڈ رکھتا ہوگا وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ یہ بزنس کے نام پر فراڈ اور دھوکہ ہے ،اسی لئے آپ نے اپنے بزنس میں سروس مین یا بزنس مین کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
اگر آپ کو اس بات کا ڈر نہیں ہے توپھر اپنی کمپنی کا فائنانشیل اسٹیٹمنٹس تو پیش کریں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آپ حقیقت میں اس کاروبار کے ذریعہ حلال نفع کما رہے ہیں یا پھر حلال اور خدمت خلق کے نام پر بھولی بھالی عوام کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔
Notice: *Business plan starting from 7th April to 10th October 2024*
b 10,000 Investment profit total 1500 to 2000 MONTHLY Milega
v 20,000 nvestment proft total 3000 to 4000,MONTHLY Weekly milega
v 30,000 nvestment profit total 5000 to 6000 MONTHLY Weekly Milega
اس کمپنی نے اپنی ماہانہ پرافٹ کی تفصیلات یہ ذکر کی ہیں یعنی اگر کوئی دس ہزار روپئے لگائے تو اس کو کم از کم دیڑھ ہزار روپئے اور زیادہ سے زیادہ دو ہزار روپئے ماہانہ پرافٹ ملے گا، اسی طرح اگر کوئی بیس ہزار روپئے انوسٹ کرتا ہے تو اس کو ماہانہ کم از کم تین ہزار اور زیادہ سے زیادہ چار ہزار روپئے پرافٹ ملے گا وغیرہ۔
تحقیق: مضاربت کا اصول یہ ہے کہ مضارب اور رب المال کا حصہ سرمایہ کے اعتبار سے متعین نہ ہو بلکہ نفع کے فیصد سے متعین ہو لیکن ”ثمیر گولڈ“ کے اعتبار سے انویسٹرکے نفع کی تعیین سرمایہ کے اعتبار سے کی گئی ہے نہ کہ حاصل ہونے والے نفع کے اعتبار سے، اور ایک مقدار متعین کردی گئی ہے کہ دس ہزار لگانے پر پندرہ سو سے دوہزار نفع ملے گا، لہذا یہ صورت بھی جائز نہیں ہے۔ اگر چہ آپ کے کہنے کے مطابق یہ تعیین نہیں ہے کمی بیشی ہوسکتی ہے لیکن بہر صورت اس کو سرمایہ کے اعتبار سے اداء کرنے کی بات کی جارہی ہے اور کم ازکم مقدار تو متعین ہی ہے جیسا کہ دس ہزار روپئے انوسٹ کرنے پر پندرہ سو اور بیس ہزار روپئے انوسٹ کرنے پر تین ہزار وغیرہ، جب کہ نفع کی تعیین کل حاصل ہونے والے نفع کے فیصد کے اعتبار سے ہو نا چاہیے نہ کہ سرمایہ کے اعتبار سے۔
لہٰذا دس ہزار میں پندرہ سو یا بیس ہزار میں تین ہزار روپئے ماہانہ نفع دینے کا دعویٰ کرنا گویا سرمایہ سے نفع کا متعین کرنا ہے جوکہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
اب ہم اخیر میں کسی بھی کمپنی میں انوسٹ کرنے سے قبل چند ضروری اصول وضوابط کو ذکر کریں گے؛ تاکہ کسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ان کی تحقیق کرکے ہی سرمایہ کاری کی جائے ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہوجائے گا۔
- وہ کمپنی قانونی ہے یا نہیں۔
- کمپنی کے پاس رجسٹریشن سرٹیفکٹ موجود ہے یا نہیں۔
- کمپنی کو لوگوں سے انوسٹمنٹ لینے اور نفع دینے کا اختیار ہے یا نہیں۔
- کمپنی پیسے ایسے طریقے سے لے رہی ہو جو قانونا ًدرست ہو۔
- کمپنی کا رجسٹرڈ دفتر کہاں ہے؟
- کمپنی کے عملہ کی علمی اور تجرباتی صلاحیتیں کیا ہیں۔
- کمپنی کا محل وقوع ۔
- کمپنی کی موجودہ سرگرمی اور آئندہ کے منصوبے کیا ہیں۔
- کمپنی کے نمایا ں پہلو کو جاننا۔
- کمپنی کے سرمایہ کی ساخت اور پروجیکٹ کی تفصیلات کیا ہیں۔
- کمپنی میں خطرات کی نوعیت اور اس کے امکانات کیا ہیں۔
- کمپنی کی نگرانی مستند علماء کرام کر رہے ہیں یا نہیں جو اس میدان میں مہارت اور تجربہ رکھتے ہوں۔
- ان علماء نے کمپنی کے افعال کی نگرانی اور آمدنی کی نگرانی کا واضح تحریری سرٹیفکٹ دیا ہے یا نہیں۔
- کمپنی کب سے قائم ہے اوراس کی گذشتہ کار کردگی کی تفصیلات کیا ہیں، وغیرہ۔
لہٰذاکسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کم از کم مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؛ تا کہ اپنے خون پسینے کی کمائی مکر وفریب، دھوکہ دھڑی کا شکار ہونے اور حرام خوری کا ذریعہ بننے سے محفوظ ہو سکے۔
ما فی ”شرح المجلة“ إذا تلف مقدار من مال المضاربة یحسب فی اول الأمر من الربح ولا یسری ألی راس المال وإذا تجاوز مقدار وسری إلی رأس المال فلا یضمنہ المضارب ۔۔۔۔۔علی کل حال یکون الضرر والخسار علی رب المال۔(شرح المجلة: ۴/۳۳۱)
ویبطل الشرط کاشتراط الوضعیة علی المضارب۔ (نتائج الأفکار: ۸/ ۴۷۲)
والوضعیة اسم جزء ہالک من المال ولا یجوز أن یلزم غیر رب المال۔
(نتائج الأفکار: ۸/۴۷۳)
ما فی ”الشامیة“ کل ما یحتاجہ عادة ای في عادة التجار بالمعروف فی مالہما۔
(شامی: ۸/ ۵۱۴)
مافی ” رد المحتار“ وما ہلک من مال المضاربة یصرف الی الربح فان زاد الہالک علی الربح لم یضمن لأنہ أمین ۔ (۸/ ۵۱۴)
مافی ”احکام القرآن للجصاص“ ہو ربا أہل الجاہلیة وہو القرض المشروط فیہ الأجل وزیادة مال علی المستقرض۔(۱/ ۶۹: باب البیع)
ما فی ”شرح المجلة“ إذا تلف مقدار من مال المضاربة یحسب فی اول من الربح ولا یسری الی رأس المال(۴/ ۴۳۱)
ما فی ”الدر المختار مع الشامیة“ کل شرط یوجب جہالة فی الربح أو یقطع الشرکة فیہ یفسدہا۔(۸/ ۴۳۳: کتاب المضاربة)
ما فی ”الشامیة“ وکون الربح بینہما جزئا شائعا فلو عین قدرا فسدت۔ (۸/ ۴۳۳)