از قلم: حضرت مولانا محمد سراج الحق سراجؔ مچھلی شہری ثم الہ آبادیؒ
تاریخِ ولادت: مکہ مکرمہ۷ ۳؍ محمدی
تاریخِ قبول اسلام: ذی الحجہ بعد صلح حدیبیہ (اصابہ)
عمر وقیت وفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: ۲۵؍ سال
تاریخ حصولِ امارت:۵ ۲؍ ربیع الاول۴۱ھ- جنوری۶۶۰ء
تاریخِ وفات: ۲۲؍ رجب ۶۰ھ- ۳؍ مئی ۶۸۰ء
(تہذیب التہذیب)
مدفن: دمشق مدت امارت:۰ ۲؍ سال
ازواج: (۱) میسون (۲) فاختہ (۳)نائلہ (۴) کنوہ (۳ کو بعد میں طلاق دی)
اولاد: زوجہ (۱) سے یزید۔ زوجہ (۲) سے عبدالرحمن، عبداللہ۔
خطابات: کسری العرب، داہیۃ العرب، جد العرب۔
فتوحات: قیساریہ، طرابلس، قبرص، شمشاد، ملطیہ۔
{…منقبت…}
جس کا نصیب عشقِ صحابہؓ سے لڑ گیا
عشقِ نبیؐ و عشقِ حق اس دل میں گڑ گیا
ہاں مَنْ(۱) أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّہُمُ
یہ قول گوشِ دل میں ازل ہی سے پڑ گیا
حضرت معاویہ ؓکی وہ حضرت علیؓ سے جنگ
پائے خطا(۲) تھا اور رہ جنت پہ پڑ گیا
سن کر تمہارا نام مسلماں تو کھل گئے
لیکن عدوے دین کا چہرہ بگڑ گیا
کاتب تھے تم نبی کے برادر تھے نسبتی
ہادی(۳) و مہدی نام تمہارا بھی پڑ گیا
عامل(۴) تمہیں بنایا عمر جیسے شخص نے
جھنڈا تمہارا دینی سیاست میں گڑ گیا
وہ خطہ جس کی شان ہے بَارَکْنَا حَوْلَہُ (۵)
بعد از رسل تمہارے ہی حصہ میں پڑ گیا
دیکھا(۶)نبی نے نور مرا شام میں گیا
تم تھے وہ نور تخت رسل میں جو جڑ گیا
شورش سے تھی یہود کی پر سر زمین شام
کی تم نے تربیت تو نگینہ سا جڑ گیا
ثانی(۷) عمرؒ سے بھی ہے سوا وہ غبارِ راہ
اسپِ معاویہؓ کے جو نتھنوں میں پڑ گیا
حُبِّ معاویہ تو ہے مقیاس(۸) دیں سراجؔ
رکھا جو ان سے بغض تو ایماں بگڑ گیا
(۱) حدیث میں ہے کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرے گا تو مجھ سے محبت رکھنے کی وجہ سے ہی وہ ان سے بھی محبت رکھے گا۔
(۲) ہر صحابی مجتہد تھا۔ امیر معاویہ جو حضرت علیؓ سے لڑے تھے تو یہ ان کا اجتہاد تھا، اور غلط تھا، مجتہد سے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس پر بھی اسے ثواب ہی ملتا ہے، مجتہد کی خطا پر مواخذہ مطلق نہیں ہے۔
(۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعادی:
’’ اے اللہ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔‘‘
(۴) حضرت عمر نے ان کو ان کے بھائی یزید کے انتقال کے بعد شام کا گورنر بنایا تھا۔
(۵) قرآن میں شام کی مسجد اقصی کے لیے ہے کہ ہم نے اس کے ارد گرد کی زمین کو با برکت بنایا۔ شام میں بکثرت انبیا آئے، ان کے بعد وہاں امیر معاویہؓ حاکم بنے۔
(۶) یہ ازالۃ الخفاء دوم و مشکوۃ کی حدیث کا ترجمہ ہے۔
(۷) عمر ابن عبدالعزیز کو’’ عمر ثانی‘‘ کہتے ہیں، خود انھیں نے اپنا اور امیر معاویہ کا موازنہ کیا تو یوں کہا کہ بھلا میرا (اور میری حکومت کا) حضرت معاویہ (اور ان کی حکومت) سے کیا مقابلہ؟ امیر معاویہؓ نے جو جہاد کیے اس میں جو غبار اڑ کر ان کے گھوڑے کے نتھنوں میں پڑا ہے میں تو اس غبار کے برابر بھی نہیں ہوں۔ (۸) مطلب یہ کہ صرف ابوبکر علی رضی اللہ عنہما سے محبت رکھنا کوئی کمال نہیں، معاویہ مغیرہ، ابوسفیان سے بھی محبت رکھنا صحیح تعمیل حدیث ہے!۔[ مجلس تر جمان اہل حق (ہند)]