دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضرورت سمجھنا مولانا وستانوی ؒ کا خاصہ
جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد میں عظیم الشان پیمانے پر جلسہ تذکرۂ محاسن و اعتراف خدمات مولانا غلام محمد وستانویؒ کا انعقاد۔اکابر علمائے کرام ودانشوران کا خطاب
ہم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدر آباد کے نہایت ممنون ومشکور ہیں کہ دارالعلوم نے یکم جون بہ روز اتوارکو دارالعلوم کی عظیم الشان مسجد میں’’ جلسہ اعترافِ خدمات و تذکر ۂ محاسن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی ؒ‘‘ کا نہایت ہی کامیاب انعقاد کیا، جس میں مولاناحذیفہ صاحب وستانوی ( فرزند ارجمند حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ورئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)کوبطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیاتھا، حضرت مولانا کے خصوصی خطاب اور اس جلسے کی خبر کو’’ عصرحاضر نیوز پورٹل‘‘ نے یکم جون۲۰۲۵ء کو شائع کیا تھا، عصر حاضر نیوز پورٹل کے شکریہ کے ساتھ خطاب کا لب لباب اور جلسہ کی روداد پیش خدمت ہے۔ (از: مدیر مسؤول ماہنامہ شاہراہ علم)
حضرت مولا نا غلام محمد وستانوی علیہ الرحمہ کو اللہ رب العزت نے غیر معمولی اخلاص وللہیت سے نوازاتھا۔ ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے اساتذہ سے نوازا جو خلوص وللہیت کے پیکر تھے۔ مولانا وستانویؒ نے امت کو ہمیشہ یہ پیغام دیا ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہ دی جائے۔ اخلاص کے ساتھ اگر کام کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی راہیں کھولتے چلے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا حذیفہ وستانوی نے اپنے پر اثر خطاب میں مولانا غلام محمد وستانوی علیہ الرحمہ کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت ’’جا معہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کو ا‘‘کو قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، اس وقت مولانا وستانوی علیہ الرحمہ نے اس وقت کے 200 سے زائد اکابرین کو خطوط لکھ کر مشوروں سے نوازنے اور دعا کرنے کی درخواست کی۔ اس کا یہ ثمرہ ہے کہ آج’’ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا ‘‘ پوری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور اس سے لاکھوں طلبہ فیض یاب ہو رہے ہیں۔
مولانا حذیفہ نے کہا کہ والد ِمحترم کی من جملہ خصوصیات میں بہ طور خاص یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ ہمیشہ مخلصانہ جد و جہد کو ترجیح دیا کرتے تھے، ملی مفاد میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے۔ ایسے معاملات جن میں دوسروں کے نقصان کا خدشہ ہو وہاں خود کو اس سے دور رکھتے اور ضرر سے بچانے کی مکمل کوشش کرتے تھے۔ مولانا محترم کے خلوص اورتعلق مع اللہ کی بنیاد پر بغیر وسائل کے شروع ہونے والا میڈیکل کالج آج امت کو ہزاروں ڈاکٹرس فراہم کر رہا ہے۔ زائد از ڈیڑھ سو کروڑ کے بجٹ میں تعمیر ہونے والے میڈیکل کالج کی بنیاد ایک ایسے وقت رکھی گئی جب کہ ادارہ کا پورا بجٹ خالی تھا۔ یہ ان کے اخلاص اور توکل کا غیر معمولی مظاہر ہ ر ہا کہ کالج اپنی شان کے ساتھ مکمل ہوا، آج اس سے ہزاروں طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔
مولانا وستانوی ہمیشہ اللہ سے مانگنے کا درس دیا کرتے تھے اور غیر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کیا کرتے تھے۔ مولانا وستانوی علیہ الرحمہ عاشقِ قرآن تھے، تلاوت کے بغیر ان کا دن نہیں گزرتا تھا۔ سورۂ یٰس کی تلاوت سے اپنے دن کی شروعات کرنے کا زندگی بھر معمول رہا۔ پورے تدبر و تفکر کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
مولانا حذیفہ نے کہا کہ مولانا وستانویؒ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھا کرتے تھے۔ ہر مصیبت زدہ کے کام آنا اپنی ذمہ داری سمجھا کرتے تھے۔ تعلیم و تعلّم کی بے مثال خدمات کے علاوہ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جس میں انہوں نے افرادِ امت کی کسی نہ کسی طرح مدد کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر اپنا اخلاص چیک کرنا ہوتو دیکھو ’’اگر کوئی وہ کام کر رہا ہے جو کام آپ خود بھی کر رہے ہو تو اگر آپ اس سے خوش ہو رہے ہیں اور دل مطمئن ہے تو سمجھیے کہ آپ مخلص ہیں اور اگر آپ اس کی مخالفت میں سازش اور حسد کرنے میں لگ جائیں تو پھر آپ کے اندر اخلاص نہیں ہے۔‘‘
مولانا وستانویؒ کا یہ خاصہ تھا کہ وہ دین کے ہر کام میں معاون بننے کی تلقین کیا کرتے تھے اور تعارض سے گریز کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ مولانا حذیفہ نے کہا کہ والد محترم نے ہمیں سب سے پہلے جو سکھا یا وہ دنیا کی بے رغبتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جوانی میں ہی دنیا سے بے رغبت کر دیا تھا اور ان کی زندگی انقلابی شخصیت کی مالک تھی۔
مولانا حذیفہ نے کہا :کہ والد محترم اپنی آخری زندگی میں شدید علالت کے باوجود نمازوں اور روزوں کا غیر معمولی اہتمام کیا کرتے تھے۔ آخری رمضان میں جب انہیں سحری کے وقت بے ہوشی طاری ہوا کرتی تو ان کے روزے نہیں ہو سکے۔ عید کے دن مجھ سے نصیحت کرنے لگے کہ میرے روزوں کا فدیہ ادا کر دو؛ تا کہ میرے اوپر کوئی سوال قائم نہ ہو۔
مولانا حذیفہ نے کہا کہ جب والد محترم کی وفات ہو گئی تو میں نے والدہ سے پوچھا کہ ترکہ میں کچھ موجود ہے کہ جس سے ان کی وصیت پوری کردی جائے، والدہ نے جواب میں کہا کہ ترکہ میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ہے۔ مولانا حذیفہ کے پر اثر خطاب نے سامعین کو اشکبار کر دیا۔
مولانا حذیفہ کے کلیدی خطاب سے قبل ریاست کے اکابر علمائے کرام و دانشواران نے اپنے اپنے خطاب میں مولانا وستانویؒ کی بے مثال خدمات کو خوب سراہا اور ان کے طرزِ عمل کو اپنی زندگی میں اختیار کرنے کی تلقین کی۔ خاص طور پر ایک ہی چھت کے نیچے دینی و عصری علوم سے امت مسلمہ کے نونہالوں کو آراستہ کرنے کا جو متوازن نظام مولانا نے قائم کیا، اس کو تمام نے خوب سراہا۔
یہ پروگرام ’’دارالعلوم حیدر آباد ‘‘کی وسیع و عریض’’ مسجد ِعاقل حسامی علیہ الرحمہ‘‘ میں مولانا حسام الدین بن ثانی عامل جعفر پاشاہ مہتمم جامعہ کی صدارت اور مفتی عظیم الدین جنید انصاری ناظم جامعہ کی زیر نگرانی میںمنعقد ہوا۔
تاثرات پیش کرنے والے علما ئے عظام وعمائدین اسلام:
اجلاس میں تاثرات پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر چیئر مین شاہین ادارہ جات، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مولانا غلام یزدانی اشاعتی بیدر، مولانا شریف مظہری گلبر گہ، مولانا خواجہ کلیم الدین اسعدی ناظم مدرسہ فیض العلم کریم نگر، مولانا محمد مصدق القاسمی صدرسٹی جمعیۃ علما گریٹر حیدر آباد، مولانا محمد بن عبد الرحیم با نعیم مظاہری نائب ناظم مجلس علمیہ تلنگانہ و آند ھرا، محمد غیاث الدین رحمانی قاسمی صدرجمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا، شیخ حنیف ماہر معاشیات، مولانا حسام الدین ثانی عامل جعفر پاشاہ مہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدر آبا، موٹیویشنل اسپیکر منور زماں صاحبان نے مولانا وستانویؒ کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں اور واقعات پر روشنی ڈالی۔ مولانا سید احمد و میض ندوی نقشبندی نے بڑے دلچسپ انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
اجلاس میں شہر و ریاست کے مختلف اضلاع سے علمائے کرام اور محبینِ مولانا وستانویؒ نے شرکت کی۔ کرناٹک اور مہاراشٹرا سے بھی علمائے کرام کے وفود نے اجلاس کو رونق بخشی۔ مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ (بشکریہ عصرحاضر نیوز پورٹل)