کی
یادیں اور باتیں
حضرت مولانامفتی مجد القدوس خبیب رومیؔصاحب زیدمجدہ
(صدر مفتی مدرسہ عربیہ مظاہر علوم سہارنپورو مفتی شہر آگرہ)
محقق العصرابن ترجمان الحق حضرت مولانا مفتی مجد القدوس خبیب رومی صاحب زیدمجدہ کا شوال ۱۳۹۹ہجری کے اوائل سے ۱۴۴۶ ہجری کے اوائل ِشوال تک، تقریبا ۴۷،۴۸ سال حضرت مولانا محمد عاقل صاحب علیہ الرحمہ سے خاصہ تعلق رہا، اس عرصے میں مولانا مرحوم کی مختلف باتیں، واقعات وارشادات، جو حضرت مفتی صاحب کی یادوں میں بسی ہیں ،مضمون نگاری کے بغیر محض واقعہ نگاری کے طور پر، جو حضرت نے بذریعہ صوتی پیغام ارسال فرمائے ہیں، بغرضِ استفادہ قارئین کے پیش خدمت ہے ۔(از: مدیر مسؤول ماہنامہ شاہراہ علم)
زمانۂ طالب علمی کانہایت قیمتی شعر:
پگھلنا علم کی خاطر مثالِ شمع زیبا ہے
بغیر اس کے نہیں پہچان سکتے ہم خدا کیا ہے
حضرت الاستاذ مولانا محمد عاقل مدرس سہارن پوری علیہ الرحمہ جس زمانے میں ’’ حمد ِباری‘‘ پڑھتے تھے ۔ (یہ درسِ نظامی کی بالکل ابتدائی کتاب ہے) ۔ اس کے مصنف حضرت مولانا عبد السمیع بیدلؔ رامپوری ؒہیں، (جو مرزا غالب کے شاگرد اور حضرت حاجی محمد امداد اللہ تھانوی مہاجر مکی ؒکے خلفاء میں سے تھے) مولانا نے یہ شعر اس کتاب پر موٹے قلم سے لکھ کر اپنا نام لکھا تھا ،مولانا کی یہ تحریر بالکل بچپن کی معلوم ہوتی تھی،یہ حضرت مولانا مرحوم کے پڑھنے لکھنے کا ابتدائی زمانہتھا ۔تو ہم نے مولانا کو دکھایا کہ حضرت جب آپ پڑھتے تھے، تو اس زمانے میں آپ نے کتاب کی پیشانی پر یہ شعر لکھا تھا ،اس کودیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ اچھا یہ کتاب آپ نے کہاں سے نکال لی، میں نے کہا مدرسے میں کتاب دیکھ رہا تھا، اس پر نظر پڑی تو آپ کا نام دیکھ کر لے آیا کہ آپ کو دکھلاؤں گا۔مولانا کتاب پر اپنا لکھا ہوا شعر دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
اس سے مولانا کا ذوقِ طالب علمی ظاہر ہوتا ہے۔
سبق کے شروع میں حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مدرس سہان پوریؒ کا معمول:
حضرت مولاناؒاپنے سبق کا آغاز اس خطبہ سے کرتے تھے۔بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ وأصحابہ أجمعین۔اس کے بعدیہ دعاپڑھ کر سبق شروع کراتے تھے’’ ألّٰلھم إنی أحمدک وأستعینک‘‘۔اور حضرت مولاناؒ نے اس کو الدرالمنضود کے مقدمے میں اس ارشاد کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ بندے کی عادت ہے کہ روزانہ سبق شروع کرنے سے پہلے یہ دعا کرتا ہے ۔
حضرت الاستاذمولانا محمد عاقل صاحبؒ سے پڑھی ہوئی کتابیں:
احقر نے حضرت مولاناسہارن پوریؒ سے ’’اصول الشاشی‘‘بعدہ ٗ’’تلخیص المفتاح‘‘ پھر دوسرے سال ’’میبذی‘‘،’’شرح عقائد‘‘، عقیدۂ طحاوی اور پھر تیسرے سال ’’مقدمۂ مشکوٰۃ‘‘ اور’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کا ابتدائی حصہ اور پھر سنن ِابی داؤد وغیرہ اہم ترین کتابیں پڑھی تھیں۔
’’کلمۂ تمجید‘‘ سلسلۂ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ رحیمیہ کا خاص ذکر:
ایک مرتبہ میں نے ’’مسجد ِنبوی‘‘ میں استاذِ محترم حضرت مولانا محمد عاقل صاحب(علیہ الرحمہ) سے دریافت کیا تھا کہ، آپ حضرت شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے تھے؟ فرمایا کہ: جی ہاں! حضرت شیخ کے حکم پر بیعت ہوا تھا، میں نے دریافت کیا کہ، انہوں نے کسی خاص ذکر کی تلقین فرمائی تھی؟ فرمایا: کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا تھاکہ، آپ پڑھنے پڑھانے والے آدمی ہیں، لہٰذا کلمۂ تمجید پڑھ لیا کریں، وہ جامع الاذکار ہے۔ کلمۂ تمجید یہ ہے:
’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالحْمَدُ للّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلاَحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ِ.‘‘
ملحوظہ: واضح رہے کہ کلمۂ تمجید کا سہارنپور کے سلسلۂ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ کی ایک خاص شاخ سلسلۂ رحیمیہ میں خاص معمول رہا ہے، اس سلسلہ میں اولاً حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب سہارن پوریؒ سے حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب رائپوریؒ بیعت ہوئے، ان سے حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ بیعت ہوئے، ان سے حضرت مولانا یوسف صاحب کاندھلویؒ، حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلویؒ، حضرت مولانا محمد عاقل صاحب سہارنپوریؒ ، مولانا محمدطلحہ صاحب کاندھلویؒ اور مولانا محمد ہارون صاحب کاندھلویؒ وغیرہم بیعت ہوئے تھے۔
اصطلاحی زبان میںاطمینان بخش جواب:
حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحب رامپوری علیہ الرحمہ(تلمیذ و مجاز حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی علیہ الرحمہ)بڑے ذکی الحس بزرگ تھے، بعض اوقات حضرت کو شبہ ہوجاتا کہ مسوڑھوں سے خون تو نہیں نکل رہاہے، جس کے لیے کسی کو اپنا منہ دکھاتے تھے، ایک مرتبہ ایک صاحب کو حضرت نے اپنا منہ دکھلایا، انہوں نے کہا کہ خروجِ دم نہیں ہوا ہے، حضرت کو اطمینان نہیں ہوا، پھر حضرت مولانا محمد عاقل صاحب ؒکو دیکھنے کے لیے کہا، تو حضرت نے دیکھ کر کہا کہ حضرت! ابھی بُدو ہی نہیں ہوا ہے خروج تو آگے کا مرحلہ ہے، اس جواب سے حضرت کو اطمینان ہوگیا۔
قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید:
حضرت مولانا محمد عاقل صاحب علیہ الرحمہ نے مجھ کو بارہا یہ واقعہ سنایا کہ، میں ایک دفعہ علامہ صدیق صاحب کشمیریؒ سے شرحِ جامی پڑھ کر آرہا تھا، حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحب رامپوری علیہ الرحمہ اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے تھے، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ کیا پڑھ کر آرہے ہو؟ میں نے کہا کہ شرحْ جامی(بغیر اضافت کے) اس پر حضرت نے اصلاحاً فرمایا کہ نہیں؛ ’’شرحِ جامی‘‘ کہا کرو!(اضافت کے ساتھ) پھر فرمایا کہ میں تمہاری پیشانی پر مدرس مدرسہ مظاہر علوم لکھا پاتاہوں، لہٰذا تم روزآنہ ’’شرحِ جامی‘‘ کا سبق مجھ سے درایۃً پڑھ لیا کرو، کیوں کہ ہمارے ساتھی علامہ صدیق صاحب اسے روایۃًپڑھاتے ہیں۔
اخلاص و تواضع اورکشادہ دلی:
متعدد بار ایسا ہوا کہ حضرت سے پڑھنے کے دوران درس کے بعدحضرت کے سامنے کچھ طالب علمانہ اشکال رکھنے کا اتفاق ہوا، تو نہ صرف یہ کہ حضرت اسے قدر کے ساتھ بصمیم قلب قبول فرماتے؛ بل کہ اسے دوسرے دن درس میں بیان فرماتے اور اپنی رائے سے برملا رجوع بھی فرمالیتے تھے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ’’شرح عقائد‘‘ کے درس میں امکان ِکذب امتناعِ نظیرکے مسئلے پر حضرت نے گفتگو فرمائی، مجھے اندازہ ہوا کہ شایدیہ بریلوی مکتبۂ فکر کے مطابق تقریر ہے؛ لہٰذا بعد میں ’’الجنۃ لاھل السنۃ‘‘ (مؤلفہ حضرت مولانامفتی عبد الغنی خان صاحب پٹیالوی علیہ الرحمہ) کے حوالے سے میں نے اکابر علمائے دیوبند کا صحیح موقف حضرت کے سامنے پیش کیا، حضرت کی بیان کردہ توجیہ درحقیقت مولانا فضل ِحق خیرآبادی کی رائے اور موقف تھا، جسے بعد میں بریلوی حضرات نے اختیار کیا، اسے بھی واضح کیا، جسے سن کر آپ نے نہ صرف خوشی کا اظہار فرمایا؛ بل کہ دوسرے دن درس میںہمارے ساتھیوں کے رو برو اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے احقر سے فرمایا:اور ’’الجنۃ‘‘ کی وہ پوری بحث اپنے ساتھیوں کو آپ ہی سنا دیجیے۔ سبحان اللہ! جب اس واقعہ کو احقرنے حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی علیہ الرحمہ کو سنایا تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ، یہ مولانا کے اخلاص و تواضع کی دلیل ہے؛ ورنہ دوسری جگہ توکوئی طالب علم اشکال کردے تو اسے محجوج کردیا جاتا ہے؛ تاکہ دوبارہ وہ اشکال ہی نہ کرسکے۔
مَا انْتَفَعْتُ بِکَ اکثرُ مِمَّا انْتَفَعْتَ بِیْ:
مذکورہ واقعات کی وجہ سے ’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ کی تکمیل کے موقع پر حضرت نے درسگاہ میں احقرکو مخاطب کرکے فرمایا: کہ آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ، ما انتفعتُ بک اکثرُمما انتفعتَ بی، پھر فرمایا کہ اچھا اگر تم میں سے کسی نے یہ بتلایا کہ یہ جملہ سب سے پہلے کس نے کس کے لیے کہا تھا، تو میں اسے نقد انعام دوں گا؟ احقر نے عرض کیا کہ حضرت! یہ جملہ سب سے پہلے امام بخاری علیہ الرحمہ نے حضرت امام ترمذی علیہ الرحمہ سے فرمایاتھا، حضرت مسکرائے اور مجھے نقد انعام سے نوازا۔ وللّٰہ الحمد و المنۃ.
تحدیث ِنعمت:
موقوف علیہ (دورۂ حدیث )کے سال اپنی پوری سند جو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب سے آپ کو حاصل تھی بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ:’’ میرے بعد مظاہر علوم کی سند میں کس کا نام لکھو گے ؟‘‘ظاہر بات ہے طلبہ کیا بتلاتے !حضرت نے خودہی فرمایا کہ ’’میرے بعد نام لکھا جائے گا مولوی مجد القدوس خبیب رومی کا‘‘۔ فللہ الحمد والشکر لہ
آپ یہ بات بڑی بشاشت اورانشراح سے فرمایا کرتے تھے، پہلے تو انہوں نے مقدمۂ مشکوٰۃ اور مشکوٰۃ شریف میں اپنی سند بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا ،پھر ابو داؤد شریف میں بھی بیان فرمایا ، تین موقعوں پر یہ بات فرمائی تھی۔وکفی بی فخراً
مدرسہ عربی مظاہر علوم سہارنپور میں میری ملازمت کے اصل محرک،مجوز ، مؤید:
یہ 1403ھ کی بات ہے۔ اس کو میں اپنے لیے سند اور باعث ِافتخار وسعادت سمجھتا ہوں۔مدرسہ عربی مظاہر علوم میں میری ملازمت کے اصل محرک تو حضرت استاذی مولاناسید قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ تھے،اور مجوزین میں حضرت مولاناسید محمد عاقل صاحب سہارنپوری ؒ،حضرت مولاناسید محمد سلمان صاحب سہارنپوریؒاور حضرت مولانا مفتی سیدمحمد یحییٰ صاحب سہارنپوریؒ تھے، کہ’’ ان کو درجۂ تجوید ، تدریس اور افتاء میں مقرر کیا جائے‘‘۔
نیز مؤیدین میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ، حضرت مولانامحمد یامین صاحب سہارن پوریؒ،حضرت مولانا انعام الرحمان صاحب تھانویؒ ،حضرت مولانا ظفر صاحب نیرانوی ؒ،حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب اجراڑویؒ، حضرت مولانا اطہر حسین صاحب اجراڑوی ؒ اورحضرت مولاناقاری رضوان نسیم صاحب دیوبندی ثم سہارنپوریؒ تھے۔ نوراللہ مراقدہم وبرد اللہ مضاجعہم(آمین۔ثم آمین)۔
حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مدرس سہارن پوری ؒ کے علمی تحائف :
حضرت مولانا نے غالباً اپنی ہر تالیف و تصنیف نام لکھ کر احقر کو ہدیۃً مرحمت فرمائی۔آپ کی تالیفات وتصنیفات یہ ہیں:(۱) تعریف وجیز عن جامعۃ مظاہر علوم سہارن فور۔(۲)ا لحل المفہم لصحیح المسلم۔(۳) مقدمۃ الکوکب الدرری۔(۴) الفیض السمائی علی سنن النسائی (عربی)۔
(۵) الدر المنضود علی سنن ابی داؤد (اردو)۔(۶)ملفوظات حضرت شیخ ؒ ۔(۷)مختصر فضائل درود شریف۔ (۸) بیان الدعا۔مجھے حضرت مولانا نے اپنی غالبا سب کتابیں ہدیتا مرحمت فرمائیں اور اپنی کتابوں کے علاوہ بھی دوسری کتابیں ہدیہ فرمائیں۔ ویسے تو ہمارے اساتذہ میں احقر کوسب سے زیادہ کتابیں حضرت مولانامفتی محمود حسن صاحب گنگوہی ؒ نے مرحمت فرمائیںاور اس کے بعد حضرت مولانا سید محمدعاقل صاحب سہارنپوری ؒنے ۔
’’کفایۃ المہتدی ‘‘آپؒ کی آخری تصنیف:
’’کفایۃ المہتدی لحل کتاب عیسیٍٰ ٰالترمذی ‘‘ آپؒ کے مرض الوفات میں یہ کتاب چھپ کر آئی ،آپ میرٹھ ہسپتال میں زیر علاج تھے،آپ ؒ کو اس کتاب کے چھپ کر آنے کا نہایت شدت سے انتظار تھا ، جب اس کتاب کی خوشخبری دی گئی آپؒ بہت مسرور و محظوظ ہوئے۔ اور اس مرض الوفات میں باقاعدہ اس کا مقدمہ سنا اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مولاناؒ آخری وقت تک حدیث شریف کی درس و تدریس اور اس کی تحقیق وتنقیح ہی میں مشغول رہے۔ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء!
ایک خاص احتیاط واہتمام کا واقعہ :
ایک واقعہ حضرت مولانا محمد عاقل صاحب علیہ الرحمہ کی احتیاط پر یاد آیا کہ ایک بار آپ نے ’’بذل المجہود شرح ابو داوؤد‘‘ کی تصحیح فرمائی اورحضرت مولانا خلیل احمد صاحب انبہٹوی ثم المدنی، حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب پرقاضوی، حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کامل پوری، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری اور حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ثم المدنی علیہم الرحمہ کے تقریبا پانچ نسخوں کو سامنے رکھ کر تحقیق کا کام انجام دیا اور جو اغلاط محسوس ہوئیں، ان کی اصلاح فرمائی، جب کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوگئی، تو اس کا ایک نسخہ حضرت مولانا زین العابدین محدث معروفی علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش فرمایا، اس پر حضرت محدث معروفی نے کتاب کو دیکھ کر فرمایاکہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ اس کی تصحیح کا کام کررہے ہیں، تو میں آپ سے اس کی ایک غلطی کی نشاندہی کردیتا، مولانا نے فرمایامیں نے فلاں فلاں نسخوں کو سامنے رکھ کر اس کی تصحیح کی ہے، حضرت معروفی مسکرائے اور فرمایا: کہ اصل میں حضرت مصنف علیہ الرحمہ سے ہی ایک مقام پر چوک ہوگئی ہے، وہ اس طرح کہ، فلاں جگہ پر جس ماخذ سے عبارت نقل کی گئی ہے وہاںسے دو صفحہ کی عبارت درمیان میں چھوٹ گئی ہے، شاید دو ورق ایک ساتھ الٹ گئے ہوں گے، جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا۔
حضرت نے یہ بات سنی تو فوراً طبع شدہ نسخوں کی جلد کھلواکران دو صفحات کا اضافہ کرایا اور اس مقام کی اصلاح فرمائی؛ تاکہ اس نقص کی تکمیل ہوسکے۔
آخری ملاقات:
غالباً۵ شوال ۱۴۴۶ھ کو صبح نو بجے سے ساڑھے دس بجے تک آخری زیارت وملاقات رہی،اس دوران احقر نے اپنی چند چیزوں کاذکر کیا (۱)کتاب الواقعات والحوادث ۔(۲)کتاب النصائح والوصایا۔ (۳)تعلیمات برائے معمولات۔ان کی تفصیل سن کر بہت محظوظ ومسرور ہوئے اور فرمایا :ضرور بالضرور یہ چیزیں لکھیے ان شاء اللہ تعالی بڑی کار آمد ،مفید اور نافع ہوںگی۔اللہ تعالی قبول فرمائیں (آمین) رخصت کرتے وقت پانچ سو روپئے اور ایک نہایت قیمتی عطر عنایت فرماکر دعائوں سے نوازا۔فجزاھ اللہ عنی خیر الجزاء
انتھت روایۃ محقق العصر ابن فقیہ الہند مولانا المفتی مجد القدوس خبیب الرومی حفظہ اللّٰہ تعالی و رعاہ (فجزاھما اللّٰہ عنا وعن جمیع اھل العلم خیر الجزاء)
علم حدیث کے حوالے سے حضرت کی خدمات عالیہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور آپ کی مساعی جمیلہ ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔
استدعاء: اللہ تعالیٰ حضرت والاعلیہ الرحمہ کی بال بال مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور آپ کی خدمات جلیلہ کے عوض آپ کو بہترین جزاء عطاء فرمائے۔ ویرحم اللّٰہ عبدا قال آمینا۔