از: مفتی محمد سلمان مظاہری، وانمباڑی
ناظم: مرکز الاقتصاد الاسلامی، انڈیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ وأصحابہ أجمعین۔
وقف! یہ محض ایک لفظ نہیں،بل کہ یہ ہمارے اسلاف کی روح کا وہ صدقہ ہے، جو آج بھی ہماری رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے۔ یہ ہماری اُن ماؤں کی قربانیوں کا ثمر ہ ہے، جنہوں نے اپنے قیمتی زیورات بیچ کر مسجدوں کے چراغ روشن کیے۔ یہ ہمارے بزرگوں کے خون پسینے کی کمائی ہے، جنہوں نے اپنی بہترین زمینیں اس لیے اللہ کے نام کر دیں کہ اُن کی آنے والی نسلیں دین پر قائم رہیں، یتیموں کے سر پر چھت ہو، اور کوئی مسافر بھوکا اور بے چھت نہ سوئے۔
یہ وقف کا نظام ہی وہ مضبوط قلعہ تھا، جس کی دیواروں کے سائے میں ہماری تہذیب نے پناہ لی، ہمارے مدارس نے علم کی شمعیں جلائیں، اور ہمارے مساجد کی اذانوں نے ہمارے ایمان کو زندہ رکھا۔ یہ صرف زمین اور جائیداد کا نام نہیں، بل کہ یہ ہماری اجتماعی غیرت، خود انحصاری اور دینی تشخص کی ایک عظیم نشانی ہے، جو دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔
مگر افسوس! آج ان قلعوں کی بنیادوں میں نقب زنی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک خاموش سازش کے تحت، قوانین کی تلوار سے اس نظام کو ذبح کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ایک ایسا بل لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، جس کا مقصد صرف وقف بورڈ پر قبضہ کرنا نہیں، بل کہ ملت کو اس کے بہترین ماضی سے کاٹ کر، اس کے اداروں کو مفلوج بنا کر، اور اس کی روح کو قبض کر کے اسے ہمیشہ کے لیے محتاج و بے سہارا بنا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ ہم سب کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ تاریخ آج ہم سے یہ سوال کر رہی ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی اس عظیم امانت اور ورثے کے تحفظ کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں کہیں ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جنہیں ایک قیمتی ورثہ تو ملا، لیکن وہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے میں کوتاہی کر گئے۔
یہ آواز کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لیے نہیں، بل کہ یہ ملت کے اجتماعی ضمیر کی وہ گہری فکرمندی ہے جو ہر صاحبِ بصیرت کے دل میں موجود ہے۔ یہ مضمون محض ایک تجزیہ نہیں، بل کہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کو اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کا عکس دیکھنا چاہیے۔یہ ایک دعوتِ فکر و عمل ہے، تاکہ ہم صورتحال کی نزاکت کو بروقت سمجھیں اور ایک متحد قوم کی حیثیت سے اپنے دینی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کا فریضہ ادا کرنے میں تاخیر نہ کریں۔
وقف کی شرعی اور تاریخی اہمیت: ایک روح پرور ورثہ:
کبھی سوچیے، جب سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے اور انسان اپنے اعمال کا بوجھ لیے قبر کی تنہائی میں اترتا ہے، تو کون سی نیکی اس کی ساتھی بنتی ہے؟ جب دنیا کی ساری دولت، رشتے اور طاقت پیچھے رہ جاتے ہیں، تو وہ کون سا عمل ہے، جو اس اندھیری کوٹھری میں روشنی کا چراغ اور مونس بنتا ہے؟
اس سوال کا جواب ہمیں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ملتا ہے، جو ہر مومن کے لیے امید کی کرن ہے:
’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقۂ جاریہ، وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ حدیث صرف ایک فرمان نہیں، بل کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دل کی دھڑکن تھی۔ ان کی فکر یہ نہیں تھی کہ دنیا میں کتنے محل بنائے جائیں، بل کہ یہ تھی کہ آخرت میں کامیابی کا سودا کیسے کیا جائے۔
اس کی سب سے عظیم مثال سیدنا عمر فاروقؓ کی زندگی میں ملتی ہے۔ جب انہیں خیبر میں اپنی زندگی کی سب سے قیمتی اور محبوب ترین زمین ملی، تو وہ دنیا کی دولت سمیٹنے کے بجائے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ ان کا سوال یہ نہیں تھا کہ اس سے آمدنی کیسے بڑھائی جائے، بل کہ ان کی فکر یہ تھی کہ اس فانی زمین کو لافانی کیسے بنایا جائے۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے پر انہوں نے وہ زمین اللہ کی راہ میں اس طرح وقف کر دی کہ اس کا ثواب قیامت تک ان کے نامۂ اعمال میں جاری رہے۔
یہی ہے وقف کی وہ روح جو آخرت کے یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ سودا ہے جو بندہ اپنے رب سے کرتا ہے… اپنی فانی دنیا دے کر لافانی آخرت خریدتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اپنی جائیدادیں اسی تڑپ اور فکر کے ساتھ وقف کی تھیں، تاکہ وہ قبر میں بھی سکون سے رہیں اور ان کے لگائے ہوئے پودے امت کو چھاؤں اور پھل دیتے رہیں۔
وقف کا فقہی تصور: اللہ سے کیا گیا ایک ابدی معاہدہ:
فقہ کی اصطلاح میں اسے ’’حَبْسُ الْأَصْلِ وَتَسْبِیلُ الْمَنْفَعَۃِ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ جب کوئی اللہ کا بندہ اپنی جائیداد وقف کرتا ہے، تو وہ اسے انسانی ملکیت کی قید سے آزاد کرکے ہمیشہ کے لیے اللہ کے نام کردیتا ہے۔ اس پر ایک ایسی مقدس مہر لگا دی جاتی ہے جسے کوئی حاکم، کوئی عدالت اور کوئی وارث توڑ نہیں سکتا۔
یہ ایک ایسا ابدی معاہدہ ہے، جس کے بعد وہ زمین یا عمارت نہ بیچی جا سکتی ہے، نہ وراثت میں بٹ سکتی ہے، اور نہ ہی اس کی وہ مقدس حیثیت بدلی جا سکتی ہے ،جس پر واقف اور اس کے رب کے درمیان معاملہ طے پایا تھا۔ یہ دنیا سے آخرت کا وہ سیدھا راستہ ہے جسے ہمارے اسلاف نے اپنے خون پسینے سے تعمیر کیا تھا۔
مجوزہ بل: روحِ وقف پر زہریلے تیر:
لیکن آج اس مقدس نظام کی روح پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ مجوزہ بل کی ممکنہ دفعات دراصل وہ زہر میں بجھے تیر ہیں ،جو سیدھے ملت کے دل پر لگنے کے لیے تیار ہیں:
عظیم امانت، سرکاری بابو کے رحم و کرم پر: جن چیزوں کو اللہ کے نام پر وقف کیا گیا تھا، اسے سرکاری محکموں کی ملک بنا دیا جائے گا۔ ہمارے اسلاف کی نیک نیتیں اور ان کے صدقات ایک سرکاری افسر کی مرضی کے محتاج ہو جائیں گے۔ کیا یہ اس امانت کی توہین نہیں؟
1. اللہ کے نام کی گئی جائیدادوں کی نیلامی کا اختیار:
یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ یعنی جس زمین کو اللہ کے لیے وقف کر کے بیچنا حرام قرار دیا گیا تھا، حکومت اسے ’’عوامی مفاد‘‘ کے خوشنما نام سے بیچنے یا کسی اور کے حوالے کرنے کا اختیار حاصل کر لے گی۔ یہ ہمارے اسلاف کی نیتوں کا سودا کرنے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کی امانت کو نیلام کرنے کے مترادف ہے۔
2. مسجدوں اور مدرسوں کی حرمت پر حملہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری ہاتھ ہماری مسجدوں کے محرابوں، مدرسوں کی چٹائیوں اور خانقاہوں کے سکون تک پہنچ جائیں گے۔ جن اداروں کو ملت نے اپنی گود میں پالا، اب ان کی تقدیر کے فیصلے سرکاری دفتروں میں ہوں گے۔
3. واقف کی روح سے غداری:
ذرا اس واقف کی روح کاتصور کیجیے جو اپنی قبر میں یہ دیکھ رہی ہو کہ اس کے صدقۂ جاریہ کو کسی ایسے مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ صرف امانت میں خیانت نہیں، بل کہ یہ ان نیک روحوں سے ایک ایسی غداری ہے، جس پر آسمان بھی لرز اٹھتا ہے۔
وقف بِل کی مخالفت دینی فریضہ کیوں ہے؟ ایک پکار… اپنے ایمان سے!
ان ناپاک منصوبوں کے خلاف اٹھنے والی آواز صرف ایک سماجی یا سیاسی ردِ عمل نہیں، بل کہ یہ ہر اس مسلمان کے ایمان کی پکار ہے جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت باقی ہے۔ اس سوال کا جواب ہر مسلمان کو اپنے دل سے پوچھنا ہوگا کہ وہ اس سازش پر خاموش کیوں نہیں رہ سکتا؟
1. یہ شریعتِ الٰہی کی حرمت کا معاملہ ہے:
یہ مخالفت زمین اور قانون کی نہیں، یہ اللہ کی شریعت کی حفاظت کے لیے مخالفت ہے۔ وقف کا نظام کسی انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں کہ کوئی انسان اسے بدل دے۔ یہ وہ ابدی اصول ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیے ہیں۔ جب اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو انسانوں کے ہاتھوں بدلا جا رہا ہو، جب وقف کی دائمی حیثیت کو ختم کیا جا رہا ہو، تو کیا اس سے بڑا بھی کوئی ’’منکر‘‘ (برائی) ہو سکتا ہے؟ اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی وہ زندہ تفسیر ہے، جس پر آج ہمارا ایمان ہم سے عمل کا مطالبہ کررہا ہے۔
2. یہ اسلاف کی امانت اور ہماری غیرت کا سوال ہے:
ان وقف کی جائیدادوں پر ہمارے بزرگوں کے آنسو، ان کی دعائیں اور ان کی آخرت کی امیدیں لکھی ہوئی ہیں۔ یہ ہماری گردنوں پر ایک قرض ہے، ایک امانت ہے جس کا حساب روزِ قیامت ہم سے لیا جائے گا۔ جب ہمارے اسلاف ہم سے پوچھیں گے کہ ہم نے ان کے صدقۂ جاریہ کے ساتھ کیا سلوک کیا، تو کیا ہم یہ جواب دیں گے کہ ہم نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے لٹتے ہوئے دیکھا اور خاموش رہے؟ اس امانت میں خیانت کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہماری دینی غیرت کا اولین فریضہ ہے۔
3. یہ شعائرِ اسلام کی بقا کی جنگ ہے:
یہ صرف اینٹ اور گارے کی عمارتیں نہیں جنہیں خطرہ ہے۔ ان میناروں سے گونجتی اذانیں ہمارے ایمان کی دھڑکن ہیں۔ ان مدرسوں میں پڑھا جانے والا قرآن ہماری ملت کی روح ہے۔ یہ قبرستان ہماری تاریخ کے وہ خاموش محافظ ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہم اس زمین پر اجنبی نہیں۔ وقف کو کمزور کرنا اذان کو خاموش کرنے، مدرسوں کے چراغ بجھانے، اور ہماری تاریخ کے نقوش کو مٹانے کے مترادف ہے۔ ان شعائرِ اسلام کی حفاظت کرنا اتنا ہی بڑا فریضہ ہے جتنا کسی مقدس عبادت گاہ کی حفاظت کرنا۔
یہ ہماری سماجی بقا اور آئینی غیرت کا معاملہ ہے:
ہمارا دین ہمیں دنیا سے کٹ جانے کا نہیں، بل کہ ایک منصفانہ اور ہمدردانہ معاشرہ تعمیر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی لیے وقف کے نظام کا دفاع صرف ایک دینی فریضہ نہیں، بل کہ یہ ہماری سماجی زندگی اور آئینی بقا کی جنگ بھی ہے۔
1. یہ ہمارے اداروں کا نہیں، ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے:
ذرا ان اوقاف کی جائیدادوں سے نظر ہٹا کر ان چہروں کو دیکھیے جن کی امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔ ان اوقاف کی آمدنی سے کتنے یتیموں کے سر پر دستِ شفقت رکھا جاتا ہے، کتنی بیواؤں کے چولہے جلتے ہیں، اور کتنے غریب بچوں کے ہاتھوں میں قلم تھمایا جاتا ہے۔ اگر یہ نظام کمزور ہوتا ہے، تو اس سے صرف یہ ادارے بند نہیں ہوں گے، بل کہ امید کے وہ چراغ بجھ جائیں گے جو ملت نے اپنے خونِ جگر سے روشن کیے ہیں۔ یہ ایک خود انحصار قوم کو محتاجی اور بے بسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی سازش ہے۔ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسی بے یار و مددگار زندگی دینے کے لیے تیار ہیں؟
2. یہ آئینی حقوق نہیں، یہ ہماری بقا کی ضمانت ہے:
ہندوستان کا آئین صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں، یہ ایک عہد نامہ ہے جو اس ملک کے ہر شہری، ہر مذہب اور ہر تہذیب کو تحفظ کی ڈھال فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 26 اور 30 صرف قانونی دفعات نہیں، بل کہ یہ اس بات کی ضمانت ہیں کہ ہم اس ملک میں برابر کے شہری ہیں اور ہمیں اپنے دینی اداروں کو چلانے اور اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔
مجوزہ بل ان ضمانتوں پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ اس ڈھال کو توڑنے کی کوشش ہے جو آئین نے ہمیں عطا کی ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا صرف ایک قانونی حق کا استعمال نہیں، بل کہ یہ اس ملک کے آئین پر اپنے اعتماد کا اعلان ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہماری قومی اور شہری غیرت کا بھی امتحان ہے۔
ہمارا لائحہ عمل: حکمت، استقامت اور اتحاد کی راہ:
یہ ایک طوفان ہے، اور طوفانوں کا مقابلہ صرف وقتی جوش اور نعروں سے نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے حکمت، صبر، استقامت اور ایک ایسا منظم لائحہ عمل درکار ہے، جس کی بنیاد ٹھوس اور پائیدار ہو۔ اس سنگین صورتحال میں ہماری ذمہ داریاں درج ذیل محاذوں پر پھیلی ہوئی ہیں:
1. علم و فکر کا محاذ: ہر گھر کو قلعہ بنانا: ہمارا پہلا قدم جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے دور کرنا ہے۔ ہمیں اس مجوزہ بل کے ایک ایک لفظ کے پیچھے چھپے خطرات اور اس کے شرعی و آئینی مضمرات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ علما، وکلا، دانشوروں اور صحافیوں پر مشتمل ایک فکری محاذ قائم کیا جائے ،جو دلائل کی بنیاد پر اس سازش کا مقابلہ کرے۔ ہر مسلمان کو اس مسئلے کی حقیقت سے اتنا آگاہ کر دیا جائے کہ اس کا گھر خود ایک نظریاتی قلعہ بن جائے۔
2. آئینی و جمہوری جدوجہد: نظام کے اندر رہ کر جدوجہد کرنا: ہمیں یہ جنگ سڑکوں پر انتشار پھیلا کر نہیں، بل کہ اس ملک کے آئین اور جمہوری اصولوں کو اپنی طاقت بنا کر لڑنا ہے۔ پرامن احتجاج، اپنے منتخب نمائندوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنا، اور میڈیا کے ذریعے ملک کے ہر منصف مزاج شہری تک اپنی آواز پہنچانا، یہ وہ طریقے ہیں جو ہماری آواز کو وزن دیں گے اور ہمیں مظلوم ثابت کریں گے، متشدد نہیں۔
3. قانون کی ڈھال: عدالتوں میں حق کی آواز: یہ ایک قانونی جنگ بھی ہے اور اسے قانونی میدان میں ہی پوری قوت سے لڑنا ہوگا۔ ہمیں ملک کے بہترین اور ماہر وکلا کی خدمات حاصل کر کے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا۔ ہمیں اپنے دلائل کو قانون اور آئین کی وہ مضبوط ڈھال فراہم کرنی ہے جسے توڑنا آسان نہ ہو۔
4. اتحادِ ملت: سیسہ پلائی ہوئی دیوار: دشمن کی سب سے بڑی طاقت ہمارا اندرونی انتشار ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب مسلکی، تنظیمی اور ذاتی اختلافات کی تمام دیواروں کو گرا کر ایک ہونا پڑے گا۔ اگر ہم اس مشترکہ دینی اور ملی مسئلے پر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ بن سکے تو ہماری تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ ہماری فتح کا انحصار ہماری صفوں کے اتحاد پر ہے۔
5. سب سے بڑا ہتھیار: اللہ کی بارگاہ میں جھک جانا: اور سب سے آخر میں، وہ بات جو درحقیقت سب سے اول ہے۔ ہماری تمام تدبیریں، حکمت عملیاں اور جدوجہد اللہ کی مدد کے بغیر بے معنی ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ فیصلے زمین پر نہیں، آسمانوں پر ہوتے ہیں۔
اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی راتوں کو دعاؤں سے زندہ کرنا ہوگا، اپنے گناہوں پر توبہ و استغفار کرنا ہوگا، اور اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اس کی مدد مانگنی ہوگی۔ ہماری حقیقی طاقت نہ ہماری تعداد ہے، نہ ہمارا مال، بل کہ ہمارا وہ تعلق ہے جو ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہے جو ہر دور میں امت کی کامیابی کی ضمانت بنا ہے۔
خلاصۂ کلام: یہ ہماری بقا کی جدوجہد ہے:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وقف کا نظام مسلمانوں کے لیے محض جائیدادوں کا شمار نہیں، بل کہ یہ ہماری تہذیبی بقا کی شہ رگ ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں ہمارے اسلاف کا صدقۂ جاریہ، ہماری عبادت گاہوں کا تقدس، ہمارے یتیموں کا سہارا، اور ہمارے آئینی حقوق کی علامت ہے۔ یہ وہ ورثہ ہے جو ہماری دینی شناخت کو جِلا بخشتا ہے اور ہماری سماجی فلاح کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
لہٰذا، اس کے وجود پر کسی بھی قسم کا حملہ، چاہے وہ قانون کے خوشنما غلاف میں ہی کیوں نہ لپٹا ہو، ملتِ اسلامیہ ہندیہ کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
یہ جدوجہد کسی حکومت کے خلاف محاذ آرائی نہیں، بل کہ یہ اس سوچ کے خلاف دفاع ہے جو ہماری دینی خودمختاری اور سماجی خود انحصاری کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ اپنی تاریخ کو بچانے اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک دینی، سماجی، آئینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
ہماری موجودہ نسل کی یہ ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی اِس امانت کو آنے والی نسلوں تک پوری دیانتداری کے ساتھ منتقل کرے۔ اس راہ میں کامیابی کا انحصار ہمارے اتحاد، حکمت اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نصرت پر ہے۔
واللہ الموفق الاعظم!