ضرورت، حفاظت، دفاع اور تجاویز
محاضرہ بہ موقع: یک روزہ تربیتی اجتماع، تحفظِ عقائد ِ اسلامیہ، بہ تاریخ: 30، جنوری، 2025
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
حضرت مولانا مفتی محمد جعفر صاحب ملیؔ رحمانیؔ
صدر مفتی و قاضی دار الافتاء والقضاء جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
الحمدُ للّٰہِ واجبِ الوجودِ، ذی الکرمِ والفضلِ والجودِ، الأوّلُ القدیمُ بلا ابتدائٍ، والآخر الکریمُ بلا انتہائٍ، لم یزل ولا یزالُ صاحبَ نُعوتِ الکمالِ، من صفاتِ الجلالِ والجمالِ،المنزہُ عن سماتِ النقصانِ والحدوثِ والزوالِ، والصلاۃُ والسلامُ علی أکملِ مظاہرِ الحق فی مَرأَی الخلقِ، نبیِ الرحمۃِ وشفیع الأمۃِ، وعلی آلہٖ وأصحابہ الطیبیین الطاہرین، وعلی أتباعہ وأشیاعہ، إلی یوم الدین۔ أما بعدُ!
محترم سامعین و ناظرین!
دینِ اسلام وحی خداوندی پر مبنی دین ہے، جس کی پوری تفصیل اللہ رب العزت نے قرآن ِ پاک میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں بیان فرمائی ہے، اس دین کے بنیادی چند عقائد ہیں، توحید، رسالت، اور آخرت۔
عقیدہ کی تعریف:
عقیدہ، عقد سے ماخوذ ہے، جس کا معنی گرہ اور گانٹھ کے ہیں، یعنی عقیدہ نہ بدلتا ہے نہ ہی کھلتا ہے، بہ حیثیتِ مسلمان ’’ہمارا پورا دین‘‘ ہمارا عقیدہ ہے۔
عقیدہ اور نظریہ میں فرق:
دین ِ اسلام ہمارا عقیدہ ہے،نظریہ نہیں، کیوں کہ عقیدہ وہ ہے جو وحیِ الٰہی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے امت کو ملا ہے، اور اس میں تا قیام ِ قیامت کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی، جبکہ نظریہ اس فکر ونظر کو کہا جاتا ہے، جو انسانی علم: مشاہدہ، مفروضہ، تجزیہ، اور تجربہ کے مراحل سے گذر کر حاصل ہوتا ہے، اور اس میں، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی رونما ہوتی رہتی ہے۔
علاوہ ازیں عقل و دلائل کے ذریعہ کسی نظریہ سے اختلاف اور اس کا رد تو ممکن ہے، مگر ’’عقیدہ اور دین‘‘ تجربات کا نتیجہ نہیں ہے، کہ عقل و دلائل کے ذریعہ اس کی نفی کی جاسکے، اگر کسی کی عقل، سائنس،فلسفہ ’’عقیدہ اور دین‘‘ کو قبو ل نہ کرے تو اسے یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ ین وعقیدہ کو رد کردے، کیوں کہ عقیدے اور دین کی بنیاد وحیِ الٰہی ہے، جہاں جا کر عقل ِانسانی کی پرواز ختم ہوجاتی ہے، اور عقل و قیاس کو اس میں دخل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بہ قول علامہ اقبال مرحوم:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں:
عقیدۂ توحید، عقیدہ ٔ رسالت، عقیدۂ آخرت۔
عقیدۂ توحید:
عقیدۂ توحید کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تبارک وتعالی اپنی ذات و صفات اور جملہ اوصاف و کمالات میں، یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ وحدہ لا شریک لہ ہے، ہر شیء کا مالک اور رب ہے، کوئی اس کا ہم پلہ اور ہم رتبہ نہیں ہے، صرف وہی بااختیار ہے، تمام عبادتوں کے لائق وہی پاکیزہ ذات ہے، اس کے علاوہ تمام معبود باطل ہیں، وہ ہر صفت ِ کمال سے متصف ہے، اور ہرقسم کے عیب و نقص سے پاک ہے، اس کی نہ کوئی اولاد ہے، اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے۔ قرآن ِ کریم کی درجِ ذیل آیات سے، یہ عقیدہ ثابت ہے:
(1) {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌ}
(سورۃ الاخلاص)
(2) {قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُن لَّہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُن لَّہُ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا} (اسراء: 111)
(3) {وَإِلَٰہُکُمْ إِلَٰہٌ وَاحِدٌ ، لَّا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِیمُ} (سورۃ البقرۃ: 163)
(4) {إِنَّمَا اللَّہُ إِلَٰہٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَہُ أَن یَکُونَ لَہُ وَلَدٌ لَّہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَکَفَیٰ بِاللَّہِ وَکِیلًا} (سورۃ النساء: 171)
(5) {وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا إِلَٰہًا وَاحِدًا ، لَّا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ ، سُبْحَانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ}
(التوبۃ:31)
عقیدۂ توحید کی اہمیت:
عقیدۂ توحید اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، اور تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے، اور یہی کلمۂ توحید ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ مومن و مشرک کے مابین حدِ فاصل ہے، قرآنِ کریم نے خالص توحیدِ الٰہی کا عقیدہ جس انداز سے بیان کیا اور فطری دلائل سے اس کو ثابت کیا، دیگر الہامی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اللہ پاک نے جتنے انبیاء اور رسول اس دنیا میں مبعوث فرمائے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نے عقیدۂ توحید کی دعوت دی۔
اسی عقیدہ توحید کی عظمت و فضیلت کو بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا:
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
عقیدۂ رسالت:
عقیدۂ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی طرف سے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمدٌ رّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی نبی و رسول آئے ان سب کے سچے اور بر حق ہونے کا عقیدہ رکھا جائے، کیوں کہ خدائی احکام، اور اس کی مرضی اور نا مرضی کا علم، ان ہی نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ حاصل ہوا ہے، اگر ان کی رسالت و صداقت پر ایمان نہ ہو تو احکام الٰہی کی صداقت بھی مشکوک و مشتبہ ہوجاتی ہے، اور انسانوں کے سامنے نیکی و معصومیت، اور کردار و عمل کا ایسا کوئی آئیڈیل و نمونہ نہیں رہتا جو ان کے لیے عمل کا محرک بن سکے۔
اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں عقیدہ ٔرسالت کو بڑے صاف اور واضح طور پر ذکر فرمایا ہے، اس کا فرمان ہے:
{آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مِن رَّبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ ، کُلٌّ آمَنَ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِہِ }
(سورۃ البقرہ: 285)
اسی طرح اس کا یہ فرمان:
{قُلْ یَا أَ یُّہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ یُحْیِی وَیُمِیتُ فَآمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ}۔ (الأعراف: 158)
عقیدۂ ختم نبوت و رسالت:
سلسلۂ رسالت کے سب سے آخری نبی حضرت محمد ٌرّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، کیوں کہ آپ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا گیا۔ فرمانِ ربّانی ہے:
{ مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَٰکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّ ، وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا}}۔ (الاحزاب: 40)
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لا تقومُ الساعۃُ حتی تلحقَ قبائلٌ من أمّتی بالمشرکینَ، وحتی یَعْبُدُوا الأوثانَ، وإنہ سیکونُ فی أمّتی ثلاثونَ کذابونَ کلّہم یزعُم: أنہ نبی، وأنا خاتَمُ النبیینَ، لا نبِیّ بعدی۔‘‘
(جامع الترمذی: 2/441)
آپ پرنازل کی گئی کتاب ’’قرآن ِ مقدس‘‘ آپ کے ارشادات ’’احادیثِ مبارکہ‘‘ اور آپ کے اعمالِ مبارکہ’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہمیشہ ہمیش کے لیے پوری انسانیت کے لیے مینارہ ٔ نور ہیں، جن سے وہ اپنی زندگی میں رشد و ہدایت حاصل کرسکتی ہے۔
عقیدۂ ایمان بر ملائکہ و کتب ِ سماویہ:
عقیدۂ رسالت کے ساتھ، ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا بھی عقیدۂ توحید کا جزئِ لاینفک ہے۔
فرشتوں پر ایمان اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان قاصد وسفیر ہیں، اور آسمانی کتابوں پر ایمان اس لیے کہ ہمیں جو ربانی ہدایات و احکام موصول ہوئے وہ ان ہی کتابوں کے ذریعہ موصول ہوئے ہیں،معلوم ہوا کہ فرشتوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان کے بغیر، ربّانی ہدایات و احکام کے موصول ہونے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اور ان پر ایمان لانا عقیدۂ توحید و رسالت کا لازمی جزو ہے، اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں اس عقیدہ کو بڑے صاف اور واضح طور پر ذکر فرمایا ہے، اس کا فرمان ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَیٰ رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنزَلَ مِن قَبْلُ ، وَمَن یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا}
(سورۃ النساء: 136)
اس لیے عقیدۂ رسالت ہمارے ایمان کا جز اور اس کی شہادت اور اطاعتِ رسول ہماری نجات کا دار و مدار ہے، جب تک ہم تمام انبیاء کو نبی، اور حضرت محمد ٌ رّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء نہیں مانتے ہم مومن نہیں ہوسکتے۔ عرشی کیا ہی خوب کہہ گئے:
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر
ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
عقیدۂ آخرت:
دنیا فانی ہے، اور یہاں ہر آنے والے انسان کو فنا و موت کا مزا چکھنا ہے، اس عارضی زندگی کے بعد، ایک دائمی و ابدی زندگی ہے، جس کے لیے مرنے والے تمام انسان ایک دن دوبارہ اٹھائے جائیں گے، اور ہر انسان سے اس کی دنیوی زندگی کے تمام اعمال کے بارے میں سوال ہوگا، اچھے اور نیک اعمال پر اجر و ثواب اور برے اعمال پر اسے سزا دی جائے گی، اسی کو عقیدۂ آخرت کہا جاتاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
{فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ} (سورۃ الزلزال7/8)
عقیدۂ آخرت کی ضرورت و اہمیت:
یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو اس کی خلوت و جلوت میں اس کی ذمہ داریاں محسوس کراتا ہے، اسے خیر پر آمادہ کرتا ہے، اورشر سے محفوظ رکھتا ہے،یہ عقیدہ انسانوں کو جانوروں سے ممتاز بناتا ہے کہ انسان اللہ کے سامنے جواب دہ ہے، اور جانور جواب دہ نہیں ہے، عقیدہ ٔ آخرت سے خالی انسان، انسان نہیں، در حقیقت جانور ہے، بل کہ اس سے بھی بد تر۔
عقیدۂ آخرت ہی انسان کو شترِ بے مہار بننے نہیں دیتا۔فرمانِ باری تعالی ہے:
{ وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ، لَہُمْ قُلُوبٌ لَّا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَّا یَسْمَعُونَ بِہَا ، أُولَٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ، أُولَٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ}
(الأعراف: 179)
اسلا م میں عقیدۂ آخرت اس قدر اہم ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن ِ کریم میں بیشتر مقامات پر اس کا ذکر ایمان باللہ کے ساتھ کیا ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا بَعِیدًا} (سورۃ النساء:136)
اسلام کے اخلاقی اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت’’عقیدۂ آخرت‘‘ کے سنگِ بنیاد پر ہی کھڑی ہے،احتساب اور جزا و سزا کے عقیدہ کے بغیر دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں، جو دیانتداری کے ساتھ کیا جاسکے، تمام اخلاق کا انحصار چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، جزاء وسزا کے تصور پر مبنی ہے، جزا وسزا کے اسی تصور کو بیان کرنے کے لیے یہ شعر زباں زد ہے:
جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ
جنت بھی ہے دوزخ بھی ہے نہ مانے تو مرکے دیکھ
لہٰذا کوئی شخص اس وقت تک مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اسے آخرت پر ایمان کامل نہ ہو، اور اس کا اس زندگی کے بعد اخروی زندگی پر ایسا ہی یقین ہو جیساکہ موجودہ زندگی پر ہے، ان تین بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ، ہمیں تقدیر کے خیر و شر ہونے پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جو ایمان ِ مفصل میں مذکور ہے۔
قَالَ: فَأَخْبِرْنِی عَنِ الْإِیمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، قَالَ: صَدَقْتَ،۔ (صحیح مسلم: 8)
عقائد کی ضرورت و اہمیت:
الغرض اسلامی عقائد ہی انسان کو حقیقی معنی میں انسان بنائے رکھتے ہیں، اور اس کی موجودہ زندگی، میں چین، سکون، اور اطمینان کا باعث اور اخروی زندگی میں نجات و کامیابی کے ضامن ہیں۔
اسلامی عقائد کی تعلیم و تفہیم اور اس کی طرف دعوت دینا ہر دور کا اہم فریضہ رہا ہے، کیوں کہ اعمال کی قبولیت عقیدہ کی صحت پر موقوف ہے، اور دنیا و آخرت کی بھلائی و خوش نصیبی اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے میں منحصر ہے۔
عقائدِ اسلامیہ کی حفاظت و دفاع اور چند تدابیر و تجاو یز:
عقائد کی جتنی ضرورت و اہمیت ہے اتنے ہی ہم عقائد کے معاملہ میں غافل اور اس کے لیے کی جانے والی محنتوں سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج جگہ جگہ فتنوں کی کثرت ہو رہی ہے اور نئے نئے ارتدادی فتنے وجود میں آرہے ہیں، مثلاً:
فتنۂ قادنیت، فتنہ شکیلیت، فتنہ گوہر شاہی، فتنۂ انکارِ حدیث، اور انجینئر علی مرزا وغیرہ کے باطل عقائد و نظریات۔
ان تمام فتنوں سے ملتِ اسلامیہ کو محفوظ رکھنے کے لیے دفاعی کوشش کرنا ہم میں سے ہر صاحبِ علم پر فرض ہے، ارشادِ ربانی ہے:
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا} (التحریم: 6)
ارشادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
’’کلُّکم راعٍ وکلُّکم مسؤولٌ عن رعیتِہِ‘‘ (البخاری: 2554)
اس لیے درج ذیل تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی سخت ضرورت ہے:
1. اہل ِ سنت و الجماعت کے عقائد کو عام کیا جائے اور ہر مسلمان کو ان سے واقف کرایا جائے، جس کے لیے ائمہ مساجد مسجدوں کے منبروں کو، خطباء اور واعظین اپنے خطبوں اور وعظوں کے اسٹیجوں کو، اساتذہ، مدرسین اور مکاتب کے معلمین اپنی مسندوں اور درسگاہوں کو خوب سے خوب استعمال کریں، اور عقائدِ اسلام کو عام کریں۔
2. جو لوگ تعلیمی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ معتبر کتبِ عقائد مثلاً: حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’اسلام کی بنیادی تعلیمات‘‘۔ ’’بہشتی زیور‘‘۔ ’’حیات المسلمین‘‘ مولانا عاشق الٰہیؒ کی کتاب ’’تحفۃ المسلمین‘‘ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’دینی تعلیم کا رسالہ‘‘ مولانا عبد الحق صاحبؒ کی کتاب ’’اسلامی عقائد‘‘ وغیرہ کے مطالعہ کا اہتمام کریں، اور اپنے گھروں میں ان کی تعلیم اور مذاکروں کی مجلس کی پابندی کریں۔
3. اپنے بچوں کی دینی تربیت کی جائے، جدید افکار و نظریات ِ باطلہ سے انہیں دور رکھا جائے، گھر میں ادعیہ ماثورہ و مسنونہ کا اہتمام کیا جائے۔
4. عوام اپنے آپ کو علما، صلحا اور بزرگانِ دین سے وابستہ رکھیں۔
5. اسکولوں اور کالجوں میں جہاں مسلم انتظامیہ ہے، اور ان کے لیے مسلم بچوں کو دین کے بنیادی عقائد و فرائض کی تعلیم دینا ممکن ہے، وہ اسے اپنے اوپر لازم کرلیں۔ اور اگر ممکن نہیں ہے تو ممکن بنانے کی کوشش کریں۔
6. گاؤں اور دیہاتوں میں موجود مسلمانوں کے عقائد کی خصوصی فکر کی جائے، اور اس کے لیے منظم نظام بنایا جائے۔ بالخصوص مسلم معاشرہ میں موجود، دینی، ملی تنظیموں کہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کام کو اپنے ترجیحی منصوبوں میں شامل کریں۔
7. سوشل میڈیا پر فعال حضرات، شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے، اس کے ذریعہ عقائد ِ اہل سنت کی ترویج و اشاعت کا اہتمام کریں۔
8. اہلِ مدارس و مساجد جس طرح دیگر عناوین پر محافل و مجالس کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح عقائدِ اسلام کے عنوان پر بھی محفلوں اور مجلسوں کا اہتمام کریں۔
9. اصحابِ ِقلم حضرات عقائد ِاہل سنت و الجماعت پر محقق و مدلل اور عقلی ومنطقی انداز و اسلوب میں تحریریں لکھیں، اور ان تحریروں کو بھر پور انداز میں عام و شائع کیا جائے۔
10. نئے فضلائے مدارس کو دور ِحاضر کے غلط و فاسد افکار و نظریات سے واقف کرایا جائے اور انہیں ان کا طریقہ دفاع بھی سکھا یاجائے۔فقط
ہذا ما ظہر لی واللّٰہ الموفق للصواب وما علینا إلا البلاغ