معارف تھانوی ؒ

 وساوس کا بہترین علاج:

            ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ:

            ’’ بہترین علاج وساوس کا یہی ہے کہ ان کی زیادہ پرواہ نہ کرے، اور نہ ان کی طرف التفات کرے، اس سے خود بخود وساوس دَفع ہوجاتے ہیں۔ ‘‘

غیر مشہور شخص کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا مشورہ:

            ایک صاحب عمائد ِقصبہ میں سے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت! فلاں ہندو عورت مسلمان ہونا چاہتی ہے، فرمایا کہ اس میںمشورہ کی کونسی ضرورت ہے؟ عرض کیا کہ وہ چاہتی ہے کہ یہاں پر حاضر ہوکر مسلمان ہوں، فرمایاکہ تجربہ سے یہ معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر غیر مشہور شخص مسلمان کرے، مشہور شخص نہ کرے، اس میں یہ مصلحت ہے کہ کوئی پوچھے گا بھی نہیں، میری تو ہر حالت میں یہی رائے ہے۔

ایمان کے لیے کلمہ کا تلفظ:

            ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! بغیر کلمہ پڑھے ہی نماز فرض ہوجائے گی؟ فرمایا کہ کلمہ پڑھے یا نہ پڑھے، جب عزم کرلیا اور اطلاع کردی کہ مسلمان ہے تو نماز فرض ہوگئی، عرض کیا کہ عزم کرلینے سے مسلمان ہوجاتا ہے؟ فرمایا جی ہاں، عزم کرلینے سے مسلمان ہوجاتا ہے۔

ہاتھ میں ہاتھ دینے سے پہلے اچھی طرح دیکھ لیں:

             ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا :کہ آج کل اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ جس سے دین کا تعلق پیدا کیا جائے یا ہاتھ میں ہاتھ دیا جائے، پہلے اس کی حالت کو اچھی طرح دیکھ لیا جائے، اس لیے کہ اس راہ میں راہزن بہت پیدا ہو گئے ہیں، اور بہت اچھا معیار پہچاننے کا یہ ہے کہ اس زمانہ کے صلحا اس سے جو معاملہ کرتے ہوں اس کو دیکھے، علما واہلِ طریق واہلِ وجدان کے قلوب کی شہادت اس کا معیار ہے، علما بھی اپنے اجتہاد سے پہچان لیتے ہیں، اور یہاں پر علمائے خشک مراد نہیں، اور صاحب یہ سب کچھ ہے، مگر پھر بھی اس میں کاوش ضروری ہے، مگر کافی نہیں، بس جس کو حق تعالیٰ ہدایت فرمائیں وہی راہ پر آ سکتا ہے، فرماتے ہیں:

 {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ }(قصص:56) مگر عادۃُ اللہ ہے کہ طالب کے ارادہ پر حق تعالیٰ ہدایت نصیب فرماہی دیتے ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:{مَنْ اَرَادَ الْآخِرَۃَ وَ سَعَی لَہَا سَعْیَہَا} (بنی اسرائیل:19) بہت سی آیتیں قرآن پاک میں ہیں ،جن میں ارادہ پرہدایت کا وعدہ ہے، اور ارادہ نہ کرنے پر یا اعراض کی صورت اختیار کرنے پر فرماتے ہیں: {اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَ اَنْتُمْ لَہَا کٰرِہُونَ} (ہود:28) اور ایک بڑا مانع حصول الی اللہ اور قرب مع اللہ میں مخلوق کو ستانا ہے، اور اس پر ظلم کرنا اور تکلیف پہنچانا ہے۔

بے موقع تبلیغ مناسب نہیں:

            ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ دین میں تبلیغ اصل ہے اور درس وتدریس اس کے مقدمات، مگر یہ شرط ہے کہ بلا ضرورت کسی مفسِدہ میں ابتلا نہ ہوجاوے، ورنہ سکوت ہی بہتر ہے، چناں چہ میں ایک مرتبہ ریل میں سفر کررہا تھا، موقع پر خیال رہتا تھا کہ لوگوں کو تبلیغ کرنا چاہیے، ایک شخص ریل میں تھا اس کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچا تھا، میں نے اس سے کہا کہ بھائی! یہ شریعت کے خلاف ہے، اس کو درست کرلینا، اس نے چھوٹتے ہی شریعت کو ماں کی گالی دی، اس روز سے میں نے بلا ضرورت لوگوں کو کہنا چھوڑ دیا کہ ابھی تک تو گناہ ہی تھا اور اس صورت میں کفر تک نوبت آگئی۔

حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتماد:

             ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے متعلقین کی بے حد دلجوئی فرمایا کرتے تھے، بہت ہی شفیق تھے، میں جب مکہ معظمہ سے واپس ہوا تو حضرت حاجی صاحبؒ نے فرمایا کہ مولانا رشید احمد صاحب سے کہہ دینا کہ یہاں پر لوگ آپ کی بہت شکایت کرتے ہیں، مگر میں نے آپ کی نسبت ضیاء القلوب میں جو لکھا ہے وہ الہام سے لکھا ہے، وہ الہام بدلا نہیں، اس لیے لوگوں کی شکایت کا مجھ پر کوئی اثر نہیں، آپ اطمینان سے بیٹھے رہو، اور یہ بھی فرمایا کہ میری دوستی آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے واسطے ہے، جیسے اللہ کو بقا ہے ایسے ہی حُبّ فی اللہ کو بھی بقا ہے۔

            میں جب گنگوہ پہنچا اور جا کر عرض کیا کہ حضرت کا کچھ پیام لایا ہوں، حضرت پر یہ سن کر ایک ایسی کیفیت پیدا ہو گئی جیسے خوف ورجاء کے درمیان کی حالت ہوتی ہے، یہ خیال ہوا کہ نہ معلوم کیا فرمایا ہو گا؟ حجرہ میں تشریف لے گئے، میں بھی ہمراہ گیا، میں نے سب عرض کیا کہ حضرت نے یہ فرمایا ہے، بس شروع ہی سے شگفتگی حضرت پر آگئی اور بہت خوش ہوئے، اور فرمایا بھائی! ہم تو تو کّل کئے بیٹھے ہیں، لوگ جو چاہیں کریں۔

(منتخب ملفوظاتِ حکیم الامت:1/171،172،175،176)