بلا ضرورت اُستادوں کا بدلنا اچھی بات نہیں، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا واقعہ:
فرمایا: بار بار اُستادوں کا بدلنا کوئی اچھی بات نہیں۔ آج کل طلبہ کو جو فیض نہیں ہوتا اُس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ: استاد بدلتے پھرتے ہیں کبھی کسی اُستاد کے پاس اور کبھی کسی اُستاد کے پاس، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک اُستاد سے حفظ کیا کرتے تھے۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب کا خیال ہوا کہ: استاد بدل دینا چاہیے، بجائے اُن کے کسی اور سے حفظ کرایا جائے۔ حضرتؒ کو جب اس کا علم ہوا تو بہت رنجیدہ ہوئے، گھر پہنچے اس رنج و غم کی وجہ سے کھانا بھی نہیں کھایا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے اُن کی چچی جو حضرت ؒ کو بہت چاہتی تھیں اُنہوں نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے والد صاحب جب گھر تشریف لائے ،جب اُن کو یہ حال معلوم ہوا تو فوراً اپنا ارادہ بدل دیا اور اُن ہی اُستاد کو باقی رکھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو اس سے بے حد خوشی ہوئی۔ جب اپنے اُستاد سے اس درجہ تعلق تھا، دل میں عظمت اور قدر تھی تب بنے ہیں’’ حضرت تھانویؒ‘‘۔ اُستاد کی قدر و عظمت کی وجہ سے اللہ نے کتنا نوازا اور کتنا دین کا کام لیا ہے؟ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ یوں ہی ’’تھانوی‘‘ نہیں بن گئے پہلے کچھ کیا ہے پھر دیکھو کیسے عالَم کو چمکایا ہے؟!! میں تو کہتا ہوں کہ: کوئی صحیح معنی میں طالب علم بن کر تو رہے پھر دیکھو! اللہ تعالیٰ اس کو کیسے نوازتے ہیں؟!! (۲۳؍ ذی الحجہ ۱۴۰۵ھ)
ادب و احترام کی کمی محرومی کا باعث ہے:
فرمایا: اس کی کیا وجہ ہے کہ: جو نصاب اور جو کتابیں پہلے پڑھائی جاتی تھیں، اب بھی داخلِ درس ہیں، لیکن اب کتابوں کو پڑھ کر ایسے افراد تیار نہیں ہوتے، جس طرح ان ہی کتابوں کو پڑھ کر پہلے تیار ہوا کرتے تھے؟ نہ تو اُن میں علمی پختگی اور استعداد ہوتی ہے اور نہ ان کی عملی زندگی درست ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بالکل نکمّے کسی کام کے نہیں رہتے۔
جہاں اس کے بہت سے اسباب ہیں ایک بڑا سبب اس کا یہ بھی ہے کہ: لوگ اساتذہ کا ادب و احترام نہیں کرتے، اس کی وجہ سے محروم کے محروم رہتے ہیں۔ لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں حال آں کہ ان ہی جیسے اعمال سے لوگ نہ معلوم کہاں سے کہاں پہنچ گئے؟!! سب کچھ ’’ہدایہ‘‘ اور’’ جلالین‘‘ ہی سے نہیں ہوتا، کتابوں کی طرح ایک اہم سبق اسا تذہ کا ادب اور ان کی خدمت بھی تو ہے۔ علم کی طرح دیگر فضائل و کمالات مثلاً’’ حسنِ اخلاق‘‘ وغیرہ حاصل ہونا بھی تو ضروری ہے جو بزرگوں کی خدمت میں رہ کر حاصل ہوتے ہیں۔ جب یہ باتیں بھی ضروری ہیں تو پھر آخر کیوں ان سب چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی؟ کیوں اُس طرف سے غفلت اور بے تو جہی برتی جاتی ہے؟
استاد کی خدمت نہ کرنا بھی محرومی کا ایک سبب ہے:
فرمایا: دوسروں سے خدمت لینے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے، اب وہ مزاج ہی نہیں رہا کہ طلبہ خوشی سے خدمت کریں۔ اِلَّا مَا شَائَ اللّٰہ! اب خدمت لینے کا جذبہ تو ہوتا ہے، لیکن خدمت کرنے کا جذ بہ نہیں ہوتا، اس لیے محرومی عام ہوتی جارہی ہے۔ محرومی کے بہت سے اسباب ہیں اُن میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ: استاد کی خدمت نہیں کرتے۔ دینے والی ذات تو اللہ تعالی کی ہے، لیکن وہ ذریعہ اور واسطہ سے دیتا ہے اور کس کے دل میں اُستاد کی کتنی عظمت و محبت ہے ،اللہ خوب دلوں کا حال جانتا ہے۔
زمانۂ طالب علمی میں حضرتؒ کی خدمت کا حال:
زمانۂ طالب علمی میں میرا معمول تھا کہ: جمعہ کے روز تمام اساتذہ کے پاس جاتا تھا اور عرض کرتا کہ: حضرت! کچھ کام ہو تو فرمائیے، دھونے کے لیے کپڑے دے دیجیے، پوری زمانۂ طالب علمی میں میرا یہ معمول رہا اور حضرت ناظم صاحبؒ کا سارا کام میں کرتا تھا، وضو بھی میں کراتا، کمرہ کی صفائی بھی کرتا تھا، بستر میں بچھاتا تھا اور بازار سے سود الا تا تھا اور ہاتھ پیر بھی دباتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ محنت سے پڑھتا بھی تھا۔ کتنی مرتبہ ایسا ہوا کہ: میں بازار سودا لینے گیا اور بھرے بازار میں کھڑے کھڑے میں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ حضرت ناظم صاحب ؒ کے پیر دبانے کی طلبہ کی باری لگی تھی۔ جب دوسروں کی باری ہوتی میں کہہ دیتا کہ تم لوگ آرام کرو میں دبالوں گا، تم دباؤ گے تو مطالعہ کا نقصان ہو گا اور میں ساتھ ساتھ مطالعہ بھی کرتا رہوں گا۔ اونچے تکیہ پر کتاب رکھ دیتا اور پیر دبانے کے ساتھ کتاب بھی دیکھتا رہتا۔ زمانۂ طالب علمی میں جب میں چھوٹا تھا اپنے اُستادوں کے گھروں میں جاتا تھا اور اُن کے گھر کا پانی بھرتا تھا، گھر سے کھانا لانا، بازار سے سامان لانا سب میرے ذمہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ: جب میں کانپور پڑھنے گیا تھا تو بہت چھوٹا تھا اور گھر کا پانی نیچے سے اوپر زینہ پر چڑھ کر لے جانا پڑتا تھا، پانی لے کر او پر چڑھنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا تھا۔ اُس زینہ میں ۲۲؍ سیڑھیاں تھیں، ایک سیڑھی چڑھتا تھا اور بیٹھ کر سستا تا تھا، پھر چڑھتا تھا۔ اس طرح میں نے اپنے اساتذہ کی خدمت کی ہے، لیکن ان سب کے باوجود میرا مزاج خدمت لینے کا نہیں ہے اور آج کل کوئی دل سے خدمت کرتا بھی نہیں ہے۔ اگر کسی سے کوئی کام کہ دیا جائے تو منہ بنانے لگتا ہے۔
اُستاد اور اُس کے متعلقین کا ادب حضرت شیخ الہندؒ کی حکایت :
فرمایا: استاد کا ادب بہت بڑی چیز ہے، اُس کے ادب سے علم میں ترقی ہوتی ہے۔ صرف استادہی کا نہیں ،بل کہ استاد کے متعلقین کا بھی ادب کرنا چاہیے، نیز استاد کے نام کا بھی ادب کرنا چاہیے۔
ایک بزرگ کا حال لکھا ہے کہ: وہ لیٹے ہوئے تھے اُن کے سامنے اُن کے استاد کا نام لیا گیا فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ: میرے استاد کا نام لیا جائے اور میں اسی طرح لیٹار ہوں۔
اور اُستاد کے متعلقین کا ادب کرنے کی بابت حضرت شیخ الہندؒ کا واقعہ بیان فرمایا کہ: حضرت شیخ الہندؒ نے جب سفر ِحج کا ارادہ فرمایا تو روانگی سے قبل حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی اہلیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے (اُس وقت وہ بہت ضعیفہ ہو چکی تھیں) دہلیز کے پاس جا کر حضرت شیخ الہندؒ نے عرض کیا کہ: اماں جان! اپنی جوتیاں مجھے عنایت کیجیے، جوتیاں لے کر سر پر رکھیں، دیر تک روتے رہے اور فرمایا کہ: اپنے اُستاد کا تو کما حقہ حق ادا نہیں کر سکا شاید میرا یہ عمل اس کو تاہی کی کچھ تلافی کر سکے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ کی اہلیہ حضرت شیخ الہندؒ کی اُستاد نہ تھیں، لیکن اُستاد کے متعلقین میں سے تھیں یعنی اُستاد کی بیوی تھیں، اس لیے ان کا اس قدر ادب و لحاظ کیا۔ پھر دیکھو! حضرت شیخ الہندؒ کو اللہ نے کیسا نوازا اور کتنا دین کا کام لیا ہے؟!! (۱۹، ذی الحجہ ۱۴۰۵ھ بعد عشاء)
استاد کی خدمت کا نتیجہ میں بادشاہت ملی:
فرمایا: صاحب’’ تعلیم المتعلم‘‘ لکھتے ہیں کہ: امام فخر الدین رازیؒ کو میں نے ’’مرو‘‘ میں بادشاہ کے پاس دیکھا کہ: بادشاہ اُن کی بہت تعظیم کرتا تھا اور یہ بات بار بار کہا کرتا تھا کہ:
’’میں نے عزت وسلطنت محض اُستاد کی خدمت کے صلہ میں پائی ہے، کیوں کہ میں اپنے استاد قاضی ابوزید د بویؒ (جن کا نام ’’اصول الشاشی‘‘ میں آتا ہے تم لوگوں نے پڑھا بھی ہو گا یہ وہی ابوزید د بوسیؒ ہیں۔) کی بہت خدمت کیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے تیس سال تک متواتر اُن کا کھانا پکایا اور کبھی بھی اُس میں سے نہیں کھایا، جب اُن کے تقویٰ کا یہ حال تھا تو اُن کے انصاف کا کیا عالم رہا ہوگا؟!! دراصل ایسے ہی لوگ بادشاہت کے مستحق ہوتے ہیں۔
اُستاد کی خدمت کے صلہ میں بادشاہت ملی اور آخرت میں جو اجر ملے گا وہ الگ ہوگا۔ یہ اوصاف حاصل کرنے کے ہیں، ایسے اوصاف تم لوگ اپنے اندر پیدا کرو کسی کی طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو۔ اگر لاکھوں کی تھیلی بھی کوئی تمہارے سپرد کر دے اُس کو کھول کر بھی نہ دیکھو کہ: اس میں کیا ہے؟ اپنے کو بنانے کی کوشش کرو، کوشش کے بعد ہی آدمی کچھ بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین) (۱۳؍ محرم الحرام ۱۴۰۵ھ)
اساتذہ کی خدمت سے متعلق چند واقعات:
حماد بن سلمہ ؒ کی ہمشیرہ عاتکہ فرماتی ہیں کہ: امام ابو حنیفہؒ ہمارے گھر کی روئی دھنتے تھے اور دودھ ترکاری خرید کر لاتے تھے اور اس طرح کے بہت سے کام کیا کرتے تھے۔
حمادؒ امام ابو حنیفہؒ کے اُستاد ہیں۔ اُس وقت کیا کوئی سمجھ سکتا تھا کہ حمادؒ کے گھر کا یہ خادم تمام عالَم کا مخدوم ہوگا؟!!
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒکے حالات میں لکھا ہے کہ: اُن کے اُستاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒکے یہاں مہمان زیادہ آگئے۔ بیت الخلا ایک ہی تھا مہمانوں کا قیام کئی دن رہا۔ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒروزانہ رات کو آکر بیت الخلا صاف کر جاتے اور صبح کو بیت الخلا صاف ملتا۔
ایک مرتبہ مولانا انظر شاہ کشمیریؒپسر علامہ انور شاہ کشمیری یہاں مدرسہ میں تشریف لائے تھے اور طلبہ کے سامنے تقریر فرمائی، جس میں واقعہ بیان کیا کہ: ایک بنگالی طالب علم ڈابھیل میں حضرت والد صاحبؒ کی خدمت کیا کرتا تھا، ذہن کے اعتبار سے بہت کمزور تھا، محنت بھی زیادہ نہ کی تھی، سب طلبہ سے کمزور رہتا تھا لیکن اللہ پاک نے اُس سے دین کی بڑی خدمت لی۔ اس وقت اپنے علاقہ کے ’’شیخ الاسلام‘‘ ہیں۔ سفر حج میں اُن سے ملاقات ہوئی تو فرمایا: یہ سب حضرت شاہ صاحب ؒ کی خدمت کا ثمرہ ہے۔
میرے ایک ساتھی قاری رحیم بخش صاحب، حضرت قاری فتح محمد پانی پتیؒ کی بہت خدمت کیا کرتے تھے، ذہین تھے مگر پڑھنے میں زیادہ محنت نہیں کرتے تھے، دورۂ حدیث تک میں دوسرے طلبہ کی طرح انہوں نے محنت نہیں کی تھی، لیکن اُستاد کی خدمت کا نتیجہ ہے کہ: اس وقت ملتان کے مدرسہ میں ممتاز مدرس کی حیثیت سے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
میرے ’’پانی پت‘‘ کے زمانۂ طالب علمی میں عزیزی حافظ سید نعمت اللہ صاحب اپنے اساتذہ کی بڑی خدمت کرتے تھے، اُن کے اعزا و اقارب کے کام کرنے میں بھی کبھی دریغ نہ کرتے تھے؛ چوں کہ کم عمر تھے اور دیانت دار تھے اس لیے محلہ کی مستورات کو جب بازار سے کوئی سامان منگانے کی ضرورت ہوتی تو انہیں کے ذریعہ منگاتی تھیں۔ اسی خدمت کا صلہ ہے کہ: آج اللہ پاک ان سے جو دین کا کام لے رہا ہے، بڑی بڑی ڈگری والے وہ نہیں کر رہے۔
امام ابو یوسف ؒہمیشہ اساتذہ کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: میں نے جب بھی کوئی نفل یا فرض نماز پڑھی تو اساتذہ کے لیے ضرور دعا کی۔
(ماخوذ آداب المتعلمین باب چہارم، ص :۲۳۸؍ طبع گلشن نشریات اسلام، کراچی)
کیسے طلبہ سے خدمت لینی چاہیے؟
فرمایا: ہمارے بہت سے اساتذہ طلباء سے خدمت نہیں لیتے تھے اور اپنے ایک اُستاد کا نام لے کر فرمایا کہ: وہ بھی لڑکوں سے کام نہ لیتے تھے لیکن مجھ سے کام لے لیتے تھے اور اصل بات یہ ہے کہ: کام تو اُس سے لیا جاتا ہے جو دل سے کام کرے اور اگر کوئی بد دلی سے کام کرے تو ایسے شخص سے کون کام لے گا؟ اور قرائن سے اس کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے کہ: کون خوش دلی سے کام کر رہا ہے اور کون بد دلی سے؟ اسی لیے میرے استاد ہر طالب علم سے کام نہیں لیتے ہیں؛ بل کہ جس کے متعلق اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خوش دلی سے کام کرتا ہے اُسی سے کام لیتے تھے اور فرمایا کہ: زیادہ خدمت بھی نہیں لینی چاہیے، اس سے طبیعت اکتا جاتی ہے اور اب طلبہ کے ایسے مزاج نہیں رہے۔ اولاً تو آج کل خدمت کرنے کا مزاج ہی نہیں۔ دوسرا جو لوگ اپنے اُستاد کی یا شیخ کی خدمت کرتے بھی ہیں بہت جلدی وصول کرنا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ: فوراً ترقی ہو جائے اور اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور خیانت بھی خوب کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً کھانے کی کوئی چیز ہو اس میں بھی اُن کی نیت خراب ہو جاتی ہے۔
(افادات صدیق: 173-178)