عزیز طلبہ! نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے—نہ صرف طلبہ کے لیے، بل کہ اساتذہ کے لیے بھی۔ ہمارا اصل کام کچھ اور نہیں، صرف تین امور ہیں: پڑھائی، نمازوں کی پابندی، وقت پر کھانا اور وقت پر کھیلنا۔ ان تمام امور میں سب سے زیادہ اہم بات یہی ہے، جو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ارشاد ہوئی ہے:
’’إنَّ مِنْ أھَمِّ أمُوْرِکُمْ الصَّلاۃُ‘‘ یعنی: تمہارے امور میں سب سے اہم چیز نماز ہے۔
اگر ہم طالب علمی کے زمانے میں نماز کی پابندی نہیں کریں گے، تو یاد رکھیں! بعد میں مدرس یا محدث بننے کے باوجود بھی پابندی ممکن نہ ہوگی۔
درِ خدمت پر دستک اور حضرت ناظم اعلیٰ کی تربیت:
آج سے پچاس برس پہلے کی بات ہے، جب میں خود ایک طالب علم تھا۔ اُس وقت مجھے حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت اسعد اللہ صاحب، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجلّ خلفاء میں سے تھے اور مظاہر علوم کے ناظمِ اعلیٰ اور استاذِ حدیث تھے۔
جب میں مظاہر علوم پہنچا، تو وہاں جانے سے قبل سورت کی ’’ترابہ مسجد‘‘ میں دو رکعت نماز ادا کی۔ میں نے خوب آہ و زاری کی، روتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دو دعائیں کیں:
اے اللہ! مجھے اس ادارے میں علم حاصل کرنے والا بنا۔
اور ان بزرگوں کی صحبت عطا فرما جو وہاں موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا کرم ایسا ہوا کہ اس وقت حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی شہرت تھی۔ کوشش کی گئی کہ ان کی خدمت میں حاضری دی جائے، مگر اجازت نہ مل سکی، کیوں کہ وہاں کا اصول تھا کہ طلبہ کو خدمت کا موقع نہیں دیا جاتا۔
اگلے ہی دن میں نے حضرت ناظم، مولانا اسعد اللہ صاحب کا دامن تھام لیا۔ ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر مسجد لے جاتے اور نماز کے بعد واپس کمرے تک لاتے۔ حضرت خود ہماری نماز کی حاضری لیتے۔ ہر نماز کے بعد وہ مجھ سے پوچھتے:
’’غلام! جماعت سے نماز پڑھی؟‘‘
اور میں جواب دیتا: ’’جی حضرت، پڑھی۔‘‘
تعلیم کے بعد، میں اور بھائی حبیب، حضرت کی خدمت میں پہنچ جاتے، ان کی خدمت انجام دے کر، پلنگ کے نیچے سوجاتے۔ حضرت اذان سے پہلے بیدار ہوتے اور ہم ان کے لیے وضو کا پانی تیار کرتے۔ روزانہ میں ان کے پاس بیٹھ کر ذکرِ جہری کیا کرتا تھا۔
درِ نسبت پر پہلا قدم، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کی کہانی:
ایک دن حضرت نے مجھ سے فرمایا:
’’غلام!‘‘
میں نے عرض کیا: ’’جی حضرت؟‘‘
فرمایا: ’’کس سے بیعت ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں حضرت شیخ سے بیعت ہوں۔‘‘
ارشاد ہوا: ’’تو پھر تمہیں ان کی خدمت کرنی چاہیے۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’حضرت! وہاں خدمت کا کوئی موقع نہیں ملتا۔‘‘
فرمایا: ’’ہم تمہیں بھیجیں گے۔‘‘
’’قاری گورا‘‘، حضرت کے پرانے خادم تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ حضرت نماز کے لیے خود نہ چل سکتے، تو قاری صاحب اُنہیں اُٹھا کر لے جاتے۔ حضرت کی یہ کرامت تھی کہ اگرچہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے تھے، لیکن جب نماز میں کھڑا کر دیا جاتا تو خود بخود رکوع اور سجدے بھی ادا فرما لیتے۔
اسی وقت حضرت نے قاری گورا کو آواز دی، وہ جلدی سے حاضر ہوئے۔ حضرت نے فرمایا:
’’آج غلام کو حضرت شیخ کے پاس لے جانا ہے۔‘‘
حضرت وستانویؒ کا ایک انقلابی دن:
وہ دن میری زندگی کا ایک انقلابی دن ثابت ہوا۔ مغرب کے بعد قاری گورا آگے آگے تھے اور میں پیچھے پیچھے۔
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ قاری گورا سے مزاج پرسی فرماتے:
’’گورا! ناظم صاحب کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
جواب آتا: ’’اچھی ہے۔‘‘
’’دوائی کھلائی؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’کھانا کھلایا؟‘‘
’’جی حضرت۔‘‘
جب گفتگو مکمل ہو گئی، تو قاری گورا نے عرض کیا:
’’حضرت ناظم صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ لڑکا، غلام محمد، آپ کے سر میں تیل لگائے گا۔‘‘
حضرت شیخ نے فرمایا:
’’بھائی! میں طالب علموں سے خدمت نہیں لیتا، لیکن حضرت ناظم صاحب کا حکم میرے سر آنکھوں پر ہے۔‘‘
یوں اللہ کے فضل سے ہماری حاضری منظور ہو گئی۔ میں روزانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ جمعہ کے دن حضرت کے ہاں خادموں کی دعوت بھی ہوتی تھی، جس میں میں بھی شریک ہونے لگا۔
اہل اللہ کی صحبت کا اثر:
تو میرے بچو! یاد رکھو، اہل اللہ کی صحبت انسان کی زندگی سنوار دیتی ہے۔ ان کی نظر سے تقدیریں پلٹ جاتی ہیں، دلوں کو قرار نصیب ہوتا ہے اور راستے سیدھے ہو جاتے ہیں۔ ان سے محبت رکھو، ان کے قریب رہو، ان کی دعائیں لو، ان کی محفلوں میں بیٹھو۔
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے وہ مرتبہ عطا فرمایا تھا کہ لوگ آپ کو’’ قطب الأقطاب‘‘ کہتے تھے۔ آپ کی کئی تصانیف حدیثِ مبارکہ کے سلسلے میں مشہور ہیں۔ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک بلند پایہ عالم تھے؛ بل کہ فصیح شاعر بھی تھے۔ غالباً ان کے اشعار کا مجموعہ بھی کتابی شکل میں شائع ہوا ہے۔
شرک نہیں،شرف ہے یہ نام!
ایک مرتبہ میں نے حضرت سے پوچھا:
’’حضرت! غلام محمد نام میں تو شرک کی بو آتی ہے؟‘‘
مجھے ایک صاحب نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا، میں نے کہا: ’’غلام محمد‘‘۔
کہنے لگے: ’’یہ صحیح نام نہیں، اس میں شرک ہے۔‘‘
یہ بات میں نے حضرت سے عرض کی۔ میں نے کہا: ’’حضرت! ایک شخص نے یہ بات کہی ہے۔‘‘
تو حضرت نے فوراً برجستہ جواب دیا:
غلامِ محمد ز شاہِ جہاں بہ
غلامِ محمد، غلامِ خدا است!
یعنی: ’’محمد کا غلام، دنیا کے بادشاہ سے بہتر ہے؛ اور جو محمد کا غلام ہے، وہ درحقیقت اللہ کا غلام ہے۔‘‘
یہی حضرت کی فکر، محبت، اور نسبتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترجمانی تھی۔ ان کا مجموعۂ کلام ’’کلامِ اسعد‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
نماز طلبہ کی زندگی کا محور :
بچو! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ نماز سے غیر حاضری اور طالبِ علم کی رکعت جانا—یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ جیسے ہی چھٹی ہو، تمہارا قدم سب سے پہلے مسجد کی طرف بڑھنا چاہیے۔ جسے رکعتیں چھوڑنے کی عادت پڑجائے، وہ آگے چل کر کبھی جماعت کا اہتمام نہیں کرے گا۔
میں نے جن بزرگوں کی صحبت پائی، ان میں نماز کا بے حد اہتمام تھا۔ حضرت ناظم صاحب، جو چل بھی نہیں سکتے تھے، مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے تھے۔ مسجد میں نماز کا جو ثواب ہے، وہ کسی اور جگہ کی نماز کو حاصل نہیں۔ طالبِ علم کچھ اور بنے نہ بنے، کم از کم ’’نمازی‘‘ ضرور بن کر نکلے۔
جو نماز سے دور وہ علم سے دور:
جو بچے جتنا زیادہ نماز کا اہتمام کریں گے، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنا ہی بڑا انعام ملے گا۔ سستی ہر کام میں چل سکتی ہے، لیکن نماز میں سستی کی گنجائش نہیں۔ تمہاری زندگی میں اگر کوئی سب سے اہم چیز ہے تو وہ نماز ہے۔جو طالبِ علم نماز سے غافل ہے، وہ حقیقت میں طالبِ علم ہی نہیں ہے۔
میں نے اپنے اساتذہ کو نماز کا ایسا اہتمام کرتے دیکھا کہ وہ اذان سے پہلے جاگ جاتے، وضو کرتے، اور اذان ہوتے ہی سیدھے امام کے پاس بیٹھ کر قرآن کی تلاوت شروع کر دیتے۔ حضرت مولانا عبداللہ کاپودروی صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جن کی خدمت کا مجھے شرف حاصل رہا، عصر کی نماز میں بھی اذان سے پہلے مسجد پہنچ جاتے۔ میرے تمام اساتذہ—مولانا ذوالفقار صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگ—سب کے سب علم کے پہاڑ تھے، مگر نماز میں سستی کا تصور تک نہ تھا۔
لیکن افسوس! آج نماز کے معاملے میں ہم اساتذہ میں بھی کمی آگئی ہے اور طلبہ میں بھی۔
بچو! آج ہی سے عہد کرو کہ نماز کو اپنی زندگی کا مرکز بناؤ گے۔ علم کے ساتھ عبادت ہو، تب ہی برکت ہوتی ہے۔ جو نماز سے جڑ گیا، وہ اللہ سے جڑ گیا۔
قرآن سے وابستگی — کامیابی کی ضمانت:
قرآنِ کریم کے ساتھ ہمارا والہانہ اور عاشقانہ تعلق ہونا چاہیے۔ جو طلبہ حافظِ قرآن ہیں اور قرآنِ کریم کی فکر نہیں کرتے، یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ اور جو فکر کرتا ہے، وہ کامیاب ہے۔
قرآنِ کریم کی فکر کا مطلب ہے: پابندی سے تلاوت کرنا، نماز میں قرآن پڑھنا، سنتوں میں قرآن پڑھنا؛ تو یوں کبھی آپ بھولیں گے نہیں۔
جامعہ ہر طالبِ علم کو اس بات کا مکلف کرتا ہے کہ وہ بہتر سے بہتر طریقے سے قرآنِ کریم پڑھے۔اب کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب فارغ ہو کر کسی جگہ پہنچتے ہیں اور وہاں کوئی نماز پڑھانے والا نہیں ہوتا، تو اگر ان سے کہا جائے کہ نماز پڑھا دیں، تو جواب دیتے ہیں: ’’اصل میں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
مسئلہ طبیعت کا نہیں، بل کہ یہ ہے کہ آپ نے زمانۂ طالبِ علمی میں محنت نہیں کی۔ اصل بات یہی ہے۔
یاد رکھو! جو شخص قرآنِ کریم کو چھوڑ دے گا، قرآنِ کریم قیامت کے دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ تعالیٰ سے شکایت کرے گا:
{وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا} (الفرقان: 30)
لہٰذا، میرے عزیز طلبہ! قرآنِ کریم سے وابستہ رہو اور تلاوت کا معمول بنائے رکھو۔