عمل اور نیکی میں نیت کا دخل

انوار نبوی ا                                                                      پانچویں قسط:

درسِ بخاری: حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانویؔ

مرتب: محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

            الحمدللہ! مدیر شاہرا ہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے دروسِ بخاری، مسلم اورترمذی، کا سینکڑوں صفحات پر مشتمل درسی مسودہ تیار ہے۔جس میں بڑی عمدہ بحثیں اور مفید باتیںشامل ہیں۔ ان دروس میں آپ کا شوقِ مطالعہ اور محققانہ مزاج صاف جھلکتا ہے؛لہذا ذہن میںیہ بات آئی کہ درسِ حدیث کے ان مباحث کو جو مفید ِعوام و خواص ہیں ، مضمون کی شکل دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے۔درس کا اکثر حصہ ؛جو خالص علمی اور تحقیقی تھا،تذکیری پہلو اور عوام کی رعایت میں اسے شامل نہیں کیا گیا ہے۔ دعا کریں کہ درس ِحدیث کتابی شکل میں آجائے تو ساری بحثیں اس میں شامل ہو جائیںگی، جس کی علمی حلقے پذیرائی یقینا ہوگی۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

            وَبِہٖ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُمَیْدِيُّ قالَ حدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ حدَّثنَا یَحْیَ بنُ سَعیدِ الَانصاريِّ،قَالَ أَخْبَرَنِيْ مُحَمَّدُ بنُُ ابرَاہیمَ التَّیْمِيِّ أَنَّہ سمِعَ عَلقمۃَ بنَ الوقَّاصِ الَّیْثِيِّ یقولُ:سمعتُ عُمرَ بنَ الخَطَّابِ رَضیَ اللہُ عنہُ علَی المِنبرِ قالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ علیہِ وَسلَّمَ یَقُوْلُ:اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوٰی، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ الٰی دُنْیَا یُصِیبُہا، أَوْ الٰی امْرَأۃٍ یَنْکِحُھَا، فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ۔(بخاری)

ترجمہ:امام بخاریؒ نے کہا: کہ ہم سے بیان کیا امام حمیدی نے اور حمیدی کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا سفیان نے،وہ فرماتے ہیں ہم سے بیان کیا یحییٰ ابن سعید الانصاری نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا محمد بن ابراہیم نے اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے علقمہ بن وقاص سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ،اس حال میں کہ حضرت عمر منبر پرتشریف فرما تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’تمام اعمال کا مدارنیتوں پر ہے اور یقینا ہر شخص کے لیے وہی ہے، جس کی اس نے نیت کی،لہٰذا جس کسی نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہوگی، جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے‘‘ ۔

نیتِ خالصہ کا وجود عمل کے شروع سے اخیر تک ہونا ضروری ہے یا نہیں؟

            علمائے کرام نے اس حدیث میں یہ بھی بحث کی ہے کہ اگر کوئی آدمی نیت کرتا ہے، تو کیا نیت ِخالصہ کا شروع سے آخر تک پایا جانا ضروری ہے؟اس سلسلے میں یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان کسی بھی عمل کو انجام دیتا ہے، تو باعتبار نیت کے اس کی متعدد شکلیں ہو سکتی ہیں:

۱- پہلی شکل: شروع سے ہی استحضار ہوکہ میںیہ عمل اللہ کی رضا مندی کے لیے کر رہا ہوں۔

 ۲- دوسری شکل: عمل کے شروع میں تو نیت خالص نہ ہو،بل کہ ریا اور دکھاوا ہوکہ لوگ مجھے حاجی نمازی سمجھیں، تو ظاہر ہے کہ یہ عمل خالصۃً لوجہ اللہ نہیں ہے،  اس نے دکھاوا کرکے اللہ کے ساتھ شرک کیا۔علما نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ انسان کسی عمل کو صرف دکھاوے اور بطور ریا کہ کرے، کہ اس عمل کا اللہ کی رضا سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو، تو ایسا عمل ’’نفاق‘‘ ہے۔

تھوڑی سی توجہ سے ریاء کاری والی عبادت رضائے الٰہی کا سبب بن سکتی ہے:

             اگر کوئی شخص لوگوں کے خاطر عمل کر رہا ہے، تو یہ عمل’’ نفاق‘‘ کہلائے گا، مزید یہ کہ وہ اس عمل پر اجر کا مستحق تو دور؛ بل کہ مستحق عقاب وعتاب ٹھہرے گا۔چناں چہ چاہیے کہ ہم جب بھی کوئی عبادت، طاعت یا مباح امور کو انجام دیں، تو اپنے نفس کو سمجھالیں اور نفس نہیں مانتا تو زبردستی توجہ اور استحضارِ نیت کے ساتھ اس عمل کو انجام دیں، ایسی صورت میں اس کا عمل عبادت بن جائے گا۔

بے دِلی کے باوجود عمل پر ثواب:

            نیند سے بیدار ہوناآدمی کے اوپر بہت ہی شاق گزرتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنی نیند کو قربان کرتا ہے، اور نہ چاہتے ہوئے بھی اچھے طریقے سے وضو کرتا ہے اور نماز کے لیے مسجد آتا ہے، تو ایسی صورت میں بندے کو دوہرااجر ملتا ہے، اس لیے کہ وہ شخص اِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ عَلَی الْمُکَارِہِ کرتا ہے، علمائے کرام نے مکارہ کی دو صورتیں بیان کی ہیں:

 (۱) سرد موسم میں دل کے نا چاہتے ہوئے بھی اچھے طریقے سے وضو کرنا۔

 (۲)… اِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ عَلَی الْمُکَارِہِ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی کا دل تو نہیں چاہتا ہے کہ وضو کرے اور نماز پڑھے، مگر پھر بھی وہ اپنے دل کو مارتا ہے، اور اللہ کے لیے عبادت کرتا ہے، تو ایسی صورت میں بھی بندہ دوہرے ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ ایک تو عبادت کرنے کا، دوسرا اپنے نفس کی مخالفت کر کے زبردستی اللہ کی خاطر عمل کرنے کا۔ نیند سے بیدار ہو کر نماز پڑھنامشقت کا باعث ہوتا ہے اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ جتنی زیادہ مشقت ہوگی اتنا ہی زیادہ اجر بھی ملے گا، الاَجْرُ بِقَدْرِ المُشَقَّۃِ.(قواعد الفقہیۃ للزرکشی:۲/۴۱۳)

 ۳-تیسری شکل :یہ ہے کہ عمل کے شروع میں تو اس کی نیت صحیح ہو، لیکن درمیانِ عمل نیت میں فطور آجاتا ہے، یعنی درمیانِ عمل خلوص ڈگمگا جاتا ہے اور ریا شامل ہوجاتا ہے۔

            اس صورت کے متعلق علمائے کرام فرماتے ہیں: اگر کوئی عبادت اخلاص کے ساتھ شروع کیا گیا ہو، لیکن درمیان میں ریا کاری بھی شامل ہو گئی، تو ایسی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اس شخص نے ریا کاری کو اپنے دل میں جگہ دی یا نہیں، اگر ریا کاری اس کے دل پر حاوی نہیں ہوئی، بلکہ اس نے فورًا ہی اپنی نیت کی تصحیح کر لی تو ریا کاری اسکی عبادت پر اثر انداز نہ ہوگی، لیکن اگر ریا کاری اس کے دل پر حاوی ہو گئی اور اسی حال میں اس نے عبادت کی تکمیل بھی کر لی، تو اس صورت میں وہ شخص اس عبادت پر اجر و ثواب کا مستحق نہیں ہو گا؛ بلکہ صرف وہ عبادت اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔

            بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ عمل کے شروع میں استحضارِ نیت کافی ہے، درمیانِ عمل نیت میں تبدیلی آجائے تو وہ اجر و ثواب پر اثر انداز نہیں ہوتی۔دراصل وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک قبیلے کے صحابہ نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم جہاد میں آپ کے ساتھ شریک ہوتے ہیں،ہماری نیت تو اعلائے کلمۃ اللہ ہی ہوتی ہے، لیکن کبھی جہاد کے ختم ہونے تک ہماری نیت مال غنیمت کی ہو جاتی ہے، اوراسی حالت میں اگر ہم میں سے کوئی شہید ہو جائے ’’فَہَل ہُوَ شَہِیدٌ ام لا؟‘‘ توکیا وہ شہید ہوگا یا نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّہٗ شَہِیْدٌ اس لیے کہ کبھی غیر اختیاری طور پر انسان کے دل میں ایسے وساوس آجاتے ہیں؛ چناں چہ اس طرح وساوس آنے سے اس کے ثواب پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔(کتاب التوضیح لشرح الجامع صحیح لا بن الملقن:۷۱ /۳۹۴)

صحابہ کی ایک خاص صفت:

            اس حدیث سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ صحابہ نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا معالج ِحقیقی بنایا تھا۔ وہ سب کچھ بیان کر دیتے تھے، ان سے غلطی بھی ہو جاتی تووہ اپنی اصلاح کے خاطر اس غلطی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہہ دیتے تھے، اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو چھپاتے رہتے ہیں، آدمی کو چاہیے کہ اگر کسی

 سے بیعت ہو ، کسی سے منسلک ہو ،تو اپنے مرشد سے اپنی کمیوں اور غلطیوں کا تذکرہ کرے۔اچھائیوں کا تذکرہ نہ کرے، اس لیے کہ انسان اچھائی تو اللہ کے لیے کرتا ہے،اگر وہ مرشد کے سامنے اپنی غلطیوں کا تذکرہ کرے گا، تو مرشد علاج تجویز فرمائیں گے، جس سے اس کی بیماری دور ہوجائے گی۔

نیتِ صحیحہ کے بقدر ہی ثواب کا استحقاق:

            بعض علمائے کرام نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص آدھی عبادت نیت ِصحیحہ کے ساتھ کرتا ہے، تو اس کو آدھی عبادت کا ثواب ملتا ہے، اور آدھی عبادت جس میں ریاکاری شامل ہو جاتی ہے اس کا ثواب اکارت اور بے کار ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی شخص کی نیت شروع میں اچھی تھی، پھر درمیان عمل اس کی نیت بگڑ گئی، اس کے بعد اس شخص نے اپنی نیت درست کر لی، تو ایسے شخص کی عبادت صحیح ہو جائے گی۔

            بہر حال نیت کے کسی بھی پہلو کو ہمارے فقہاء نے نظر انداز نہیں کیا ہے۔ کیوں کہ حدیث میں آیا ہے:’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات‘‘ِ، اور اللہ تعالی نے اس دنیا کو اعمالِ صالحہ کی خاطر ہی بنایا ہے۔ اور اعمالِ صالحہ کا پورا مدار نیت پر ہے، تو ظاہر سی بات ہے نیت کے تمام پہلوؤں سے واقف ہونا مسلمان مرد و عورت کے لیے نہایت ضروری ہو۔

لفظِ ’’نیت ‘‘ ہی کا انتخاب کیوں؟

            ایک بڑی اچھی بات ذہن میں آئی کہ’’ارادہ‘‘ کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے کئی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،جیسے: قصد، عزم وغیرہ۔ پھر لفظ ’’نیت ‘‘کو  ہی استعمال کرنے کی وجہ کیا ہے اور اس کو کیوں استعمال کیا گیا؟

             اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت جو معانی بتلانا چاہتی تھی، وہ معانی ’’نیت ‘‘سے ہی مفہوم ہو سکتے تھے، کسی دوسرے کلمہ سے مفہوم نہیں ہو سکتے تھے، اور وہ مراد واضح نہیں ہو سکتی تھی، جومطلوب تھی کہ آدمی جب بھی کسی عمل کو انجام دے، تو نیت کا استحضار اس طور پر کرے کہ شروع سے لے کر اخیر تک اس کے عمل کی نیت صحت کے ساتھ محیط ہو، اور یہ معنی سوائے نیت کے دوسرا کوئی لفظ نہیں دے سکتا تھا۔ اس بنا پر احادیث مبارکہ میں اس کلمہ (نیت)کو استعمال کیا گیا ہے۔

نبی کو امت کی فکر:

            اس سے یہ معلوم ہوا کہ نیت جیسے اہم امر کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ناحیے اور زاویے سے سمجھانے کی کوشش کی، تا کہ لوگ اپنی نیت درست کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو جائیں۔ کیوں کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی آخرت کے لیے بہت ہی حریص تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر لمحہ اور ہر موقع اپنی امت کو ہلاکت سے بچانے کی فکر کی ہے؛ جیسا کہ آپ نے(طلبہ مخاطب ہیں) معلم الانشا میں پڑھا، وہاں زمانۂ جاہلیت کی صورتِ حال کو بیان کیاکہ لوگ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔

            اسی کو ایک روایت میں اس طرح بیان کیا کہ: لوگ جہنم کے کنارے پر کھڑے تھے۔ اور جہنم میں گرنے جا رہے تھے، اس وقت اللہ نے مجھے مبعوث کیا۔ اورمیں نے اسلامی تعلیمات بیان کر کے لوگوں کو جہنم کے دہانے سے ہٹا کر جنت کے کنارے کی طرف دھکیل دیا؛تا کہ اللہ کے عذاب اور اللہ کی ناراضگی سے امت کو بچایا جاسکے۔ (مسلم: رقم الحدیث: ۲۲۸۵)

مقصدِ وحی، انسانیت کی فلاح و بہبودی:

            وحی کا مقصد یہ ہے کہ آدمی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق اللہ کی ناراضگی اور اس کی رضا مندی کی شکلوں کو جان لے، اور پھر اپنی مرضی سے اس پر عمل کرے، اگر وہ اللہ کی مرضیات کو اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا۔ (الاحزاب: ۷۱)کا اعلان ہے اور اگر وہ اللہ کی مرضیات کے خلاف زندگی گزارتا ہے تو فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِینًا۔ (النساء: ۱۱۹) کا اعلان ہے، یعنی وہ خسارے میں ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اجمال (اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ،اعمال کا دارومدار نیت پر ہے) بیان کیاہے، اور ساتھ ہی تفصیل (وَاِنَّمَا لِکلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی، ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے) بھی واضح کی ہے، یعنی دونوں پہلوؤں کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔

            اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلشِّرکُ الخَفِیُّ فِیکُم مِن دَبِیبِ النَّملِ.(مسند ابی یعلی رقم الحدیث: ۶۱)

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا :کہ شرک تمہارے اندر ایسے چل رہا ہے جیسے چیونٹی چلتی ہے، یعنی انسان بن کر زندگی گزارنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی لیے آپ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ شرک تمہارے درمیان اتنا چھپا ہوا ہے کہ اسے محسوس کرنا مشکل ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرکِ خفی یا شرکِ اصغر کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ ریا یعنی دکھاوے کی نیت سے کیا گیا عمل ہے۔

(مسند احمد :۲۳۶۳۰،حدیث محمود بن لبید ،مؤسسۃ الرسالہ)(ص:۴)

             تم نے کوئی بھی عمل کیا اور ذرا بھی تمہارے دل میں یہ بات آئی، کہ یہ کام میں اس لیے کر رہا ہوں تاکہ لوگ دیکھیں، میں اس لیے کر رہاہوں، تا کہ لوگ میری واہ واہی کریں، آدمی اس طرح کی کوئی بھی ریا کاری والی نیت کرے، تو یہ شرک خفی ہے، کیوں کہ اس نے وہ عبادت خالصۃً لوجہ اللہ نہیں کی، بل کہ اس عبادت میں دوسرے کو بھی شریک ٹھہرا دیا، (ہٰذَا الشِّرْکُ الْخَفِیُّ) اور یہی شرک خفی ہے۔

            اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب اللہ کے یہاں حساب و کتاب ہوگا، تو بہت سارے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے بہت بڑے بڑے عمل کیے ہوں گے، مگر اس میں ریا کاری اور دکھلاوا ہو گا، جس کی وجہ سے ان کے بڑے بڑے عمل کی حیثیت رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ اور بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے چھوٹے چھوٹے عمل کیے ہوں گے، لیکن نیت میں خلوص ہوگا، ریا نہیں ہوگا، سمعہ اور عجب نہیں ہوگا۔ تو وہ چھوٹے چھوٹے عمل پہاڑ سے بھی بڑھ جائیں گے۔

            اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: إِنَّ اللہَ لَا یَنظُرُ إِلی صُورِکُم وَلا إِلَی اَجْسامِکُم ولٰکِنْ یَنظُرُ إِلَی قُلُوبِکُم. (صحیح مسلم:رقم الحدیث: ۲۵۶۴،کتاب البر والصلۃ،باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ ،مطبعۃ عیسی البابی الحلبی ،قاہرہ )

 اللہ تمہارے قلوب کو دیکھتا ہے، کہ عملِ صالح کو انجام دیتے وقت تمہارے دل کی کیفیت کیا ہے؟ اگر دل کی کیفیت اچھی ہے تو وہ ’’عمل‘‘ عمل صالح اور مقبول ہے۔

حضرت تھانوی ؒکا بیش قیمتی ملفوظ:

            حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ ہے کہ’’ عالم کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ اپنے علم سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔اور حضرت نے اسے مثالوں سے سمجھایا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں: کہ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیے ایسے بہت سارے لوگ آپ کو ملیں گے، جن کے پاس علم کم تھا، مگر اپنے نفس کو مجلٰی اور مصفیٰ کیا، اس کا تزکیہ کیا اور اس پر محنت کی، تواپنے قلیل علم کے باوجود بھی ولایت کے اونچے مقام تک پہنچے۔ اور بہت سارے ایسے بھی ہوئے، جن کے پاس علم بہت زیادہ تھا، مگر انہوں نے اپنے قلب، اپنے دل اور اپنے نفس پر محنت نہیں کی، تو ان کا کثیر علم بھی انہیں نیکی کی طرف نہ لا سکا، اور وہ ضلالت و گمراہی کا شکار ہو گئے۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ:پھر حضرت نے فرمایا کہ:’’ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی صرف عربی سوم (کافیہ تک) پڑھے، مگر اتنا پڑھنے کے بعد اپنے دل پر اتنی محنت کی کہ آپ کے زمانے کے قطب وابدال اور مجددین بھی آپ کے پاس آکر اپنے نفس کا تزکیہ کراتے تھے‘‘۔ علم قلیل تھا، مگر نفس پر محنت کی، اور اس کا تزکیہ کیا توکہاں سے کہاںپہونچ گئے۔

جاراللہ زمخشریؒ:   زمخشری کو’’جار اللہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے’’اللہ کا پڑوسی‘‘ یہ لقب انہیں اس لیے دیا گیا کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کی تھی اور اکثر کعبۃ اللہ کے قرب میں رہتے تھے۔ کعبہ کے جوار میں مستقل قیام کی نسبت سے ہی لوگ انہیں ’’جار اللہ‘‘ یعنی اللہ کا ہمسایہ کہنے لگے، لیکن وہ معتزلی تھے۔تفسیر کشاف میں آپ نے اپنے اعتزال کو پورے زور وشور کے ساتھ بیان کیا، اس لیے ان کو داعی الی الاعتزال کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ صرف معتزلی نہیںتھے، بل کہ اعتزال کے داعی بھی تھے۔

            ایسے بہت سارے لوگ ملیں گے: جو خوارج کے امام ہوئے ہیں، انہی میں سے ایک مشہور نام اشعث ہے، یہ تابعی تھے، ہمیشہ تہبند نصف ساق تک پہنتے تھے، ان کی پیشانی پر نماز کی نشانی تھی، مگر حضرات صحابہ کی تکفیر کے قائل تھے۔ فقہ خوارج حقیقت میں فقہ اشعث ہے۔ اسی لیے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ’’ آدمی کو سب سے زیادہ اپنے نفس کے تزکیہ کی ضرورت ہے‘‘۔

            قربان جائیے! ہمارے امام بخاری ؒپر کہ انہوں نے بھی ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ‘‘ لاکر اسی کی طرف ہم سب کو متوجہ کیا ہے کہ پوری کتاب پڑھنا آپ کو مبارک ہو! لیکن سب سے پہلے اپنے قلب اور اپنی نیت کو درست کریں ، تو آگے پڑھنا بھی فائدہ مند ہوگا۔

محد ثین اور شارحین کے اہم کارنامے:

            ہمارے محد ثین اور شارحین کو اللہ اجر عظیم سے نوازے، یہ ساری باتیں سینکڑوں صفحات کا خلاصہ  ہیں۔ ورنہ صرف ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ کی دو چار مہینے تشریح کی جا سکتی ہے۔ ہمارے محدثین نے اتنا لکھا ہے، اور اتنے حیرت انگیز مباحث ہیں کہ آدمی پڑھ پڑھ کر کہتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ان پر کس طرح علوم کا انکشاف کیا کہ ایک ایک لفظ پر طویل طویل بحث کرتے ہیں اور اس کا حق ادا کردیتے ہیں، یعنی علم کلام کی حیثیت سے، حدیث کی حیثیت سے ،عربیت کی حیثیت سے ، فقہ کی حیثیت سے ، تصوف کی حیثیت سے بحث کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لفظ کا کوئی ناحیہ نہیں چھوڑتے ہیں، مکمل طور پر اس کو بیان کردیتے ہیں۔