مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
طہارت سے متعلق مسائل
پیشاب کے قطرے ٹپکنے کی بیماری اور اس کا علاج وتدابیر
سوال: میں آپ سے ایک مسئلے کے بارے میں چھان بین چاہتا ہوں کہ مجھے جب سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عقلِ سلیم دیا، تب سے میں دیکھتا ہوں کہ جب میں پیشاب کرکے کھڑا ہوجاتاہوں ، تو تھوڑی دیر کے بعد خود بخود پیشاب کا قطرہ ٹپکنا شروع ہوجاتا ہے ،تو دن میں کئی بار غسل نہیں کرسکتا ہوں، اس لیے اسی حالت میں نماز اور قرآن پڑھ لیتا ہوں، اسی واسطے آپ حضرتِ والا سے پوچھنا چاہتا ہوںکہ اس بیماری کو دور کرنے کے ــلیے کیا کریں؟
الجواب وباللہ التوفیق : اگر آپ کو پیشاب کے بعد دیر تک قطر ہ ٹپکتا رہتا ہو، اور آپ کی حالت معذورِ شرعی (۱)کی حالت نہ ہو،تو آپ کو چاہیے کہ دفعِ تقاطُر کی جو تدبیر تجربے میں نافع ہوئی ہو، اسے اختیار کرلے؛ جیسے چلنا، پھرنا،یا لیٹنا وغیرہ، ان تدابیر کو اختیار کرنے سے اِن شاء اللہ قطرہ ٹپکنا بند ہوجائے گا۔ (۲)
اگر ان تدابیر کو اپنا نے کے بعد بھی قطرہ ٹپکنا بند نہ ہو ،تو پیشا ب سے فراغت کے بعد، پیشاب کے سوراخ کے اندر کوئی چیز، مثلاً: روئی وغیرہ رکھ دے، تاکہ اس کا اندورنی حصہ پیشاب کے قطرے کو جذب کرلے، اورتری باہر نہ آنے پائے، اس لیے کہ جب تری باہر نہیں آئے گی، تو آپ کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔(۳)
پیشاب کے قطروں کے نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے، غسل واجب نہیں ہوتا، کہ باربار غسل کرنا پڑے۔(۴) بہرحال آپ نے جتنی نمازیں بلا وضو پڑھی ہے، ان سب کا اعادہ ضروری ہے۔(۵) اور بلا وضو مصحف کو چھوکر تلاوت کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار بھی لازم ہے۔(۶)
نیز آپ اس بیماری کو دور کرنے کے لیے کسی حاذِق طبیب سے علاج کرائیں!
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وصاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ ۔۔۔۔۔۔ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًا عن الحدث ولو حکمًا ۔ (۱/۴۳۸ ، کتاب الطہارۃ)
یعنی معذورِ شرعی اس شخص کو کہا جاتا ہے ، جس میں نقضِ وضو کا سبب اِس تسَلسُل سے پایا جائے کہ اسے کسی ایک نماز کے پورے وقت میں طہارت کے ساتھ فرض نماز ادا کر نے کا موقع بھی نہ مل سکے۔
(۲) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : یجب الاستبراء بمشي أو تنحنح أو نوم علی شقہ الأیسر ، ویختلف بطباع الناس ۔ (در مختار) ۔ وفي الشامیۃ : أما نفس الاستبراء حتی یطمئن قلبہ بزوال الرشح فہو فرض ، وہو المراد بالوجوب ۔ ولذا قال الشرنبلالي : یلزم الرجل الاستبراء حتی یزول أثر البول ویطمئن قلبہ ، وقال : عبرت باللزوم لکونہ أقوی من الواجب ؛ لأنہ ہذا یفوت الجواز لفوتہ فلا یصح لہ الشروع في الوضوء حتی یطمئن بزوال الرشح ۔ (۱/۴۸۴ ، کتاب الطہارۃ ، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنجاء)
(۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قلت : من کان بطيء الاستبراء فلیفتل نحو ورقۃ مثل الشعیرۃ ویحتشي بہا في الإحلیل ، فإنہا تتشرب ما بقي من أثر الرطوبۃ التي یخاف خروجہا ، وینبغي أن یغبیہا في المحل ؛ لئلا تظہر الرطوبۃ إلی طرفہا الخارج ۔ (۱/۴۸۴ ، کتاب الطہارۃ)
(۴) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وینقضہ خروج کل خارج نجس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ أي من المتوضي الحي معتادًا أو لا ، من السبیلین أو لا إلی ما یطہر ۔۔۔۔۔۔ ثم المراد بالخروج من السبیلین مجرد الظہور ۔
(۱/۲۳۶ ، کتاب الطہارۃ)
(۵) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما الطہارۃ عن الحدث والجنابۃ فلقولہ تعالی : {یا أیہا الذین اٰمنوا إذا قمتم إلی الصلوۃ فاغسلوا وجوہکم} إلی قولہ تعالی {لیطہرکم} ۔ وقول النبي ﷺ : ’’ لا صلوۃ إلا بطہور ‘‘ ۔ وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ لا صلوٰۃ إلا بطہارۃ ‘‘ ۔ وقولہ : ’’ مفتاح الصلاۃ الطہور ‘‘ ۔
(۱/۳۰۱ ، کتاب الصلاۃ ، فصل في بیان شرائط الأرکان)
(۶) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : قال اللّٰہ تعالی : {یا أیہا الذین اٰمنوا توبوٓا الی اللّٰہ توبۃ نّصوحًا} ۔
(سورۃ التحریم :۸)
ما في ’’ شرح النووي علی صحیح مسلم ‘‘ : واتفقوا علی أن التوبۃ من جمیع المعاصي واجبۃ وأنہا واجبۃ علی الفور لا یجوز تأخیرہا ، سواء کانت المعصیۃ صغیرۃ أو کبیرۃ ۔ (۲/۳۵۴)
(أحسن الفتاویٰ: ۲/۷۳، امداد الاحکام : ۱/۳۷۳) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔۲۵/۴/۱۴۳۵ ھ
(فتویٰ نمبر :۷۵۷- رج /۸)