ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اجمعین کے سیرو مناقب

تیسری قسط:

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

اما م احمد بن حنبل اپنے اسا تذہ ومشا ئخ اور معا صر ین کی نظر میں :

                امام صاحب بچپن ہی سے زہد و تقویٰ ، علم وفضل اور اخلاق و آ د ا ب میں نیک تھے ، اور مکتب کی زند گی ہی سے ان میں آثا ر پا ئے جا تے تھے ، اسی طر ح حد یث کی طا لب علمی کے دو ر میں صبر و استقا مت ، فقر و فا قہ ، استغنا اور نیک نفسی کی وجہ سے اپنے اسا تذہ و شیو خ کی نظر میں محتر م بن کر رہے اور مسندِ تد ریس پر بیٹھے تو ان کے علم و فضل ، روایت و در ایت اور حدیث و فقہ میں دقتِ نظر ، غا یت درجہ احتیاط کا شہر ہ عا م ہو گیا ، اور ہر طر ف ا ن کے کمالا ت کی دھو م مچ گئی ، اور فتنۂ خلق قر آ ن میں ا ن کی عز یمت نے پور ے عا لمِ اسلا م میں محبو بیت کی شان پیدا کر دی ۔ دنیا نے ان کو اس دو ر کے عا لمِ اسلا م کا سب سے عظیم انسا ن تسلیم کیا اور ا ن کی شا ن میں گستا خی کرنے والا اسلا م سے منحر ف ما نا گیا ۔

                اما م صا حب کے فضا ئل و منا قب کے لیے دفتر چا ہیے ؛ یہا ں ا ن کے با ر ے میں چند اقو ا ل پیشِ خدمت ہیں :

                محمد بن علی بن شعیب اپنے والد کا قو ل نقل کر تے ہیں : کہ احمد بن حنبل ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قو ل کے مطا بق تھے ۔ ’’ کان فی امتی ما کا ن فی بنی اسرا ئیل ، حتی أن المنشار لیوضع علی فوق رأسہ ما یصرفہ ذالک عن دینہ ‘‘  بنی اسر ائیل میں جو کچھ ہوچکا ہے میر ی امت میں بھی ہو گا، حتیٰ کہ سر پر آ را چلا یا جا ئے گا ، مگر یہ بھی اس کو اپنے دین سے بر گشتہ نہیں کر ے گا ۔اگر احمد بن حنبل خلقِ قر آ ن کے فتنہ میں ثا بت قد م نہ رہے ہو تے ، تو قیا مت تک ہم پر عا ر با قی رہتا ، ایک جما عت اس فتنہ کی بھٹی میں تپا ئی گئی، مگر احمد بن حنبل ؒ کے علا وہ کوئی اس میں سے نہیں نکلا ۔قتیبہ بن سعید نے کہا ہے کہ اگر سفیا ن ثو ر ی نہ ہو تے تو و ر ع و تقوی ٰ کی مو ت ہو جا تی ، اور اگر احمد بن حنبل نہ ہو تے، تو لو گ دین میں بد عا ت و احدا ث پیدا کر دیتے ، اس پر عبد اللہ بن احمد بن شبو یہ نے کہا کہ آپ نے احمد بن حنبل کو ایک تا بعی کے ہم پلہ بنا د یا ہے ؛ قتیبہ نے کہا کہ میں ا ن کو کبا رِ تا بعین کے برا بر سمجھتا ہو ں ، امام احمد بن حنبل ہمار ے اما م ہیں ۔   

                یحیٰ بن سعید قطا ن کی مجلسِ در س میں ایک شخص نے احمد بن حنبل کا تذکر ہ کیا ، تو یحیٰ بن سعید نے کہا کہ تم نے امت کے احبا ر میں سے ایک خیرکا تذکر ہ کیا ہے ۔

فقہ و فتویٰ میں امام صاحب کے اصو ل :     

                ابن قیم نے اعلا م المو قعین میں بیا ن کیا ہے کہ فقہ و فتا ویٰ میں ا ما م احمد بن حنبل کے پا نچ اصو ل ہیں ، (۱)نصو صِ قطعیہ میں نص کے ہو تے ہوئے کسی کے قو ل کو نہیں لیتے ۔ (۲)جب ا ن کو صحا بہ کا قو ل مل جا تا ہے، جس کے مخالف دوسرے صحا بی کا قو ل نہیں ہے تو اس پر عمل کر تے ہیں ، اور کسی دوسر ے کے عمل ، ر ایے اور قیا س کو نہیں دیکھتے ہیں(۳) جب صحا بہ کے اقو ا ل مختلف ہو تے ہیں تو جو قو ل کتا ب و سنت سے قر یب تر ہو تا ہے ، اس کو قبو ل کر تے ہیں ، اور اگر صحا بہ کے مختلف اقو ا ل میں اس کا پتہ نہیں چلتا تو اختلا ف بیا ن کر دیتے ہیں اور کسی ایک قول کو تر جیح نہیں دیتے ہیں ۔ (۴) ان تینو ں مذ کو ر ہ اصو ل میں جب کوئی صر یح با ت نہیں ملتی ہے، تو مرسل حدیث اور ضعیف کو لیتے ہیں ، اور اس کو قیا س پر تر جیح دیتے ہیں ، ضعیف کا مطلب ا ن کے نز دیک با طل اور منکر حد یث نہیں ہے ، اور نہ وہ حد یث ہے جس کے را ویو ں میں کوئی متہم ہو ، بل کہ ا ن کے نز دیک صحیح کے مقا بلہ میں ضعیف ہے ، جو حدیث حسن کی ایک قسم ہے ۔ (۵) جب کسی مسئلہ میں نص ، قو لِ صحا بی اور مر سل و ضعیف حد یث نہ ہو تو قیاس سے کا م لیتے ہیں ۔

                 اما م صاحب کے شا گر درشید خلا ّل نے قیا س کے با رے میں سو ا ل کیا تو کہا کہ ضرو ر ت کے موقع پر قیا س سے کا م لیا جا تا ہے ، ابن ہا نی کا بیا ن ہے کہ میں نے ایک مر تبہ امام صاحب سے اس حد یث کے بار ے میں سو ا ل کیا ’’ اجرأ کم علی الفتیا اجرأ کم علی النا ر ‘‘ تم میں سے جو شخص فتویٰ دینے پر زیا دہ جر ی ہے ، وہ جہنم کی آ گ پر زیا د ہ جری ہے ۔ توکہا کہ اس سے مر ا د وہ شخص ہے، جو ایسی با ت کا فتو یٰ دے جس کو سنا نہیں ہے ؛نیز میں نے سو ا ل کیاکہ جو ایسے مسئلہ میں فتویٰ دے، جس میں مشکلا ت ہیں اور وہ ان کے حل سے عاجز ہے تو کہا ،اس کا گناہ فتویٰ دینے وا لے پر ہو گا ۔

                صاحبزا دے عبد اللہ کا بیا ن ہے کہ میں نے بہت سے مسائل میں والد کو ’’ لا ادری ‘‘ کہتے ہوئے سنا تھا اور مختلف فیہ مسا ئل میں تو قف کر تے تھے اور کہتے تھے کہ دوسر ے سے معلو م کر لو ؛ کسی خا ص عالم کا نام نہیں لیتے تھے ۔