قرآن کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے ؟

۱۵؍ویں قسط :

     تالیف : الدکتور احمد حسین عبد الکریم                                                  ترجمانی : مفتی مجاہد اشاعتیؔ پھلمبری ؔ

                دکتورقرضاوی فرماتے ہیں:کسی متکبرومغرورشخص کے لیے کسی بھی صورت میںیہ جائزنہیںکہ وہ یہ خیال کرے کہ قرآن ِکریم کے بعض احکام زمانۂ نزول یاعصرِ صحابہ کے ساتھ خاص تھے۔یااُن پرعمل کاحکم صرف خیر القرون کے ساتھ وابستہ تھا۔اوراب موجودہ زمانہ اورنئے دورمیںیہ احکام لازم نہیں؛جیساکہ قادیانیوںنے یہ زعمِ باطل کیاکہ جہادزمانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھااورآج وہ منسوخ ہوچکاہے؛حالاںکہ وہ دفاع عن الاسلام کے لیے ہرزمانے میںفرض تھااوررہے گا۔

                اسی طرح بعضوںنے یہ خیال کیاکہ باری تعالیٰ کافرمان:  {یوصیکم اللہ فی أولادکم للذکر مثل حظ الانثیین}یہ حکم اُس وقت تھاجب کہ عورت کی مستقل اقتصادی حالت نہ تھی اوروہ مردکے تابع تھی اور مردکوعورت پرقوامیت حاصل تھی اوراب توعورت پڑھ لکھ کراورمحنت مزدوری کرکے مردکے ساتھ کندھے سے کندھاملا کر مقابلہ کررہی ہے ؛لہٰذامذکورہ حکم اب جاری نہیںہوگا۔یعنی بقول ان کے یہ حکم منسوخ ہوچکاہے اوراسی کے ساتھ انھوںنے دوسرے حکم ِقرآنی کابھی انکارکردیااوروہ ہے قوامیتِ رجـل،جس میںمردپراپنے اہل خانہ کے نان و نفقہ کی ذمہ داری عائدہوتی ہے ؛جیساکہ باری تعالیٰ کافرمان ہے:{ألرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضہم علیٰ بعض وبماأنفقوا من أموالہم}(النساء:۳۴)

قرآن وتعلیماتِ قرآن کاختم ہونا:

                مسلمانوںکی زندگی سے قرآن ِکریم اوراس کی تعلیمات کادورہوجانااُس کے ختم ہونے اور اٹھ جانے کی ابتداہے ۔

                ’’عن حذیفۃ بن الیمان قال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم یدرس الاسلام کما یدرس وشی الثوب۔حتیٰ لایدری ماصیام ولاصلاۃ ولانسک ولاصدقۃ۔ولیسری علیٰ کتاب اللہ عزوجل فی لیلۃ فلایبقی فی الأرض منہ آیۃ ۔وتبقی طوائف من الناس الشیخ الکبیر والعجوز یقولون:أدرکناآباء ناعلیٰ ہٰذہ الکلمۃ لاإلٰہ الااللہ فنحن نقولہا۔(سنن ابن ماجہ فی الفتن)

                حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسلام کواس طرح مٹایاجائے گاجیسے کپڑے کے نقش ونگارمٹ جاتے ہیں؛حتیٰ کہ یہ جاننے والے بھی نہ رہیںگے کہ نماز،روزہ،قربانی اورصدقہ کیا چیزہے؟اورقرآنِ کریم کوایک رات میںاٹھالیاجائے گا،حتیٰ کہ روئے زمین پراُس کی ایک آیت بھی باقی نہ ہوگی۔ اورلوگوںکے چندگروہ ان میںسے بوڑھے مرداوربوڑھی عورتیں باقی رہ جائیںگے ۔وہ کہیںگے کہ ہم نے ہمارے آباء واجدادکویہ کلمہ  لاإلٰہ الااللہکہتے ہوئے سناتوہم بھی کہہ رہے ہیں۔

                وقال عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ :إن أول ماتفقدون من دینکم الأمانۃ وآخر ما یبقی الصلاۃ۔وان ہذا القرآن الذی بین اظہر کم یوشک ان یرفع ۔ قالوا وکیف وقد اثبتہ اللہ تعالیٰ فی قلوبنا وأثبتناہ فی مصاحفنا قال یسری علیہ لیلۃ فیذہب مافی قلوبکم وما فی مصاحفکم ثم قرء : {ولئن شئنا لذہبن بالذی أو حینا إلیک ثم لا تجد لک بہ علینا وکیلا }

                حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ تعلیمات دین میں سے سب سے پہلے جو چیز ختم ہوگی و ہ امانت ہے۔ اور آخرت تک جو چیز باقی رہے گی وہ نماز ہے۔ اور یہ قرآن جو تمہارے سامنے ہے قریب ہے کہ اٹھ جائے ۔ مخاطبین نے کہا کیسے اٹھ جائے گا؟ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کو ہمارے دلوں میں محفوظ کررکھا ہے  اور ہم نے اس کو مصاحف میں ثبت کردیا ہے۔ فرمایا ایک رات میں ہوا چلے گی تو جو کچھ تمہارے سینوں اور مصاحف میں ہیں سب ختم ہوجائے گا پھر آپ نے یہ آیتِ کریمہ پڑھی ۔ ولئن شئنا الی آخرہ ۔

                وعن عثمان بن ساج بلاغ اول ما یرفع الرکن والقرآن ورؤیا الانبیاء۔

                عثمان بن ساج بلا غ فرماتے ہیں کہ دنیا سے جو سب سے پہلے چیز اٹھائی جائے گی وہ رکن یمانی ، قرآن اور انبیا علیہم السلام کے خواب ہوںگے ۔

                وعن عبد اللہ بن عمر مرفوعاً قال لاتقوم الساعۃ حتی یعج القرآن الی اللہ یقول: انی اُتلیٰ ولا یُعمل بی فعند ذالک یرفع ۔

                حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ قیامت قائم نہیںہوگی یہاں تک کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہوئے کہے گا: میں پڑھا تو جاتا ہوں پر مجھ پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ اس وقت قرآن کریم اٹھا لیا جائے گا ۔