دورِ جدید اور اُس کا پس منظر النشأۃ الثانیۃ(Renaissance)

یعنی  انسان پرستی (Humanism) ٭ فلسفۂ قدیم (فلسفہ ابیقوریہ اور فلسفہ لا ادریہ) کا اِحیاء

           ڈاکٹر فخر الاسلام الہ آبادی

                ۱۴۹۲ء؍ میں کر سٹوفر کولمبس نے امریکہ اور ۱۴۹۸ء؍ میں واسکو ڈی گا ما نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کیا۔ بحری راستوں کی دریافت نے یورپی اقوام کو امریکہ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسے دور دراز علاقوں سے واقف کروایا، جس کے ساتھ ہی ایک ’’نئے انسان‘‘ (Modern man) کی دریافت ہوئی۔  نئی دنیا کی دریافت اور نئے انسان کی یافت نے جو حالات پیدا کیے،وہی نشأۃثانیہ کے معنی کا تعین کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن عسکری (۱۹۱۹-۱۹۷۸ء)کے قول کے مطابق نشأۃِ ثانیہ کا اصلی مطلب ہے وحی پر مبنی اور نقلی علوم کو بے اِعتبار سمجھنا اور عقلیت اور انسان پرستی اختیار کر نا۔ اسی لیے اِس تحریک کا دوسرا نام انسان پرستی (Humanism) بھی ہے۔اور’’جدید انسان کی دریافت کا مطلب تھا: جدید نظریات ورجحانات کا فروغ اور مذہبی پا بندیوں سے آزادی‘‘۔

                النشأۃُ الثانیہ نے مذہبی پا بندیوں کی زنجیروں کو توڑ کر خیالات کی آزادی کا موقع فراہم کیا۔اِٹلی میں نشأۃِ ثانیہ کی تحریک نے ’’انسانی حقوق ‘‘ کی حمایت کو فروغ دیا۔ اور آرٹ کو مذہبی پابندیوں سے آزاد کرا یا۔ فن مصوری کو فروغ حاصل ہوا۔ آزادی اور خوبصورتی سے محبت، ’’فطرت‘‘ سے دلچسپی، ’’انسانی ہمدردی‘‘ جیسے جذبات، فن مصوری کے ذریعہ عام ہو نے لگے۔

                تیرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی کے درمیان یورپ کے مفکرین نے رومن کیتھولک چرچ کے خلاف احتجاج کیا۔ جان وائے کلف (John Wycliff ۱۳۲۰ء- تا -۱۳۸۴ء) پہلا مفکر تھا جو ’’مذہبی اِصلاح کی صبح کا ستارہ‘‘ کے نام سے جا نا جاتا ہے۔ وہ بائبل کا مترجم تھا، اور آکسفورڈ یو نیورسٹی کا پروفیسر۔ اِس کے علاوہ جان ہَس(John Huss -۱۳۶۹ء- تا -۱۴۱۵ء) جرمنی کی ایک یونیورسٹی کا پروفیسر تھا۔ اِس کے ذریعہ بھی مذہبی اِصلاحی تحریک کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ ایراسمس (Erasmus ۱۴۶۹ء- تا -۱۵۳۶ء) کے ذریعہ نظریۂ’’انسانیت‘‘ کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ زونگلی (۱۴۸۴ء- تا -۱۵۳۱ء ) ایک مذہبی مبلغ تھا، جس نے صرف انجیل کو تسلیم کیا، اس کے علاوہ باقی علماء کی ہر قسم کی تشریح و تفسیر اور آسمانی متن کی وضاحت کے اصول سے اِنکار کر دیا۔ جان کیلون (۱۵۰۹ء- تا -۱۵۶۴ء) کی کتاب ’’کرسچن رلیجن‘‘ نے پروٹسٹنٹ طبقے کوفلسفیانہ بنیادیں فراہم کیں۔ اِس کے خیالات نے جرمنی، ہنگری، پولیڈ اور اِسکاٹ لینڈ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

                تیرہویں صدی سے شروع ہونے والی اِن مذہبی اِصلاحات نے ہمہ گیر اور ہمہ جہت تحریک کی شکل مارٹن لوتھر (Martin Luther۱۴۸۳-۱۵۴۶ء) کے زمانہ میں حاصل کی۔ مارٹن لوتھر وٹن برگ یو نیورسٹی جرمنی میں مذہبی علوم اور فلسفہ کا پروفیسر تھا۔ اِ س کا کہنا تھا کہ خدا اور بندے کا رشتہ بالکل اِنفرادی ہے۔ ایک عام اِنسان کو بھی خدا کی کتاب کو پڑھ کر خود سمجھنا اور مذہبی امور میں اِجتہاد کرنا چاہیے۔ مارٹن لوتھر نے سارے یورپ کا دورہ کیا اور اپنے نظریات لوگوں تک پہنچائے۔نشا ۃ ثانیہ کے دور میں لیونارڈو ڈاونچی (Leonardo-da-Vinchi ۱۴۵۲ء- تا- ۱۵۱۹ء)نے انسانی جسم کا سائنٹفک مطا لعہ کر کے انسانی جذبات کو اپنی تصویروں میں پیش کیا، جس سے اس کو عظیم مصور تسلیم کیا گیا۔ رافیل (Raphael ۱۴۸۳ء – تا- ۱۵۲۰ء)کی شاہکار تصویریں اپنی خوبصورتی ، کشش اور رنگوں کے اِمتزاج کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہوئیں۔ مائیکل انجیلو (Michael Angelo ۱۴۷۵ء- تا -۱۵۶۴ء) کی تصویریں اور پینٹنگ، جو انسانی جسم کے سائنٹفک مطالعہ کے تحت حقیقت کا رنگ بھرنے کے نقطۂ نظر سے کی گئیں؛ بہت مشہور ہوئیں۔ حضرات انبیاء کرام کے مجسمے اِسی نے بنائے جو فن کا شاہکار سمجھے گئے۔

 نشأۃِ ثانیہ اور موسیقی و ادب :

                نشأۃِ ثانیہ میں موسیقی کا فن بھی اِٹلی میں خوب پروان چڑھا۔ موسیقی کے جدید آلات وائلن (Violin) اور پیانو (Piano) کی ایجاد ہوئی اوریہ تمام دنیا میں پھیل گئے۔ جدید ادب کے اصول مقرر ہوئے، جس نے نظریۂ انسانیت کو اور غیر مذہبیت کو فروغ دیا۔ فرانسسکوپیٹرارک نے ’’انسانی حقوق‘‘ کی حمایت پر مبنی کلاسکی ادب کے ذریعہ سارے یورپ میں ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے جذبات کو پروان چڑھایا۔ اِسے جدید ادب کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ جوناتھن سوفٹ افسانوی ادب کے حوالے سے سند قرار پایا۔ ولیم شیکسپئر نے دنیا کو ڈرامے کا ایک نیا انداز دیا۔ تھامس نے اپنی تحریروں میں ایک ایسے مثالی سماج کا خاکہ پیش کیا، جو ’’فطرت‘‘ کے اصولوں سے عین مطابقت رکھتا ہو ۔

                 مغرب میں نشأۃ ثانیہ کے دور میں، سب سے پہلے وہ تمام لوگ جو طبعاً کسی قید اور ضابطہ کا پابند ہونا پسند نہ کرتے تھے، ایسے اِباحیت پسندوں نے انفرادیت اور انفرادی آزادی کے عنوان سے تحریک شروع کی، اِن کی مذہبی بندشوں سے آزادی کی خواہش نے معاشرہ میں روحانی دینی عقائد کی جگہ ایک نئی اور جداگانہ لہر دوڑائی، جس میں اُن انسانی مفادات کے تحفظ کی فکر کی گئی جس میں خدائی احکام کی دخل اندازی نہ ہو، اس مقصد کے حصول کے لیے دہری قسم کے ادب، سوفسطائی (یونانی اباحت پسند)فلسفہ، آرٹ، اور خیالات کو تمام یورپ میں پھیلا یا گیا۔یہی تحریک تھی جو ’’انسانیت‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔

(الف)اِنسانیت(Humanism)

                ہیومنزم یا ’’انسانیت‘‘سوفسطائی فلسفہ پر مبنی ’’ فلسفیانہ اور ادبی تحریک ہے جو چودہویں صدی عیسوی کے نصف ثانی میں اٹلی میں پیدا ہوئی اور وہاں سے یورپ کے دوسرے ملکوں میں پھیل گئی، اور بالآخر جدید ثقافت کی تشکیل کے اسباب میں سے ایک سبب بنی‘‘۔

                 اِس انسانیت کی روسے دنیوی مسرت و خوش حالی کی فراہمی عقل کا فریضہ ٹھہرا۔عقل کی مدد سے قدرت کے منصوبوں کو دریافت کرنا اور انسان کا ایک پیدائشی حق، کہ وہ دنیا میں خوش رہنے کے لیے آیا ہے نہ کہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونے، اوررنجیدہ رہنے کے لیے۔اِس پیدائشی خوشی کا حق صاحب حق تک پہنچانے کی غرض سے خوشی و خوش حالی فراہم کرنا، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے بڑی سے بڑی مسرت کی تلاش، مقصودزندگی قرار پایا۔ اِسی ’’انسانیت ‘‘کی فکر اور تصور کو لے کر، جب علوم و فنون میں کاوش کی گئی تو اُن’’کے ما بعد الطبیعاتی پہلوؤںکو نظر انداز کیا گیا اوراُن کو صرف دنیاوی مفاد اور بہبود کا ذریعہ بنایا گیا۔‘‘

                انسان کے اپنے مفادات کے لیے، اُسے یہ حق دیا گیا کہ وہ خدائی قوانین کی مداخلت کے بغیرمعاشرت اور سیاست کا نظام چلانے کے لیے اپنے قوانین تجویز کرے ۔’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے عوام کے لیے ‘‘کے فارمولے کے تحت عوام کا فہم و موقف فیصلہ کن قرا پایا۔اورجن چیزوں کو عوام الناس نے سراہا، اُس کو حقیقت سمجھا جانے لگا۔ روایتی طریقے، مذہبی عقیدے، دینی احکام اوردینی شخصیات بے اعتبار ؛بلکہ لائق تنقید و تضحیک ٹھہریں۔قدیم نظریے اور تصورات تنزل پذیر ہوتے چلے گئے۔مذہب، مذہبی احکام اور عبادات وغیرہ کوفرد کا ذاتی معاملہ باور کرایاگیا اور اُنھیں تبھی تک قابلِ گوارا سمجھا گیا جب تک کہ یہ انسان کے بنا ئے ہوئے ’’انسانیت‘‘ کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کریں، قوم اور ملک کی دنیوی ترقی میں رکاوٹ بننے کا خطرہ پیدا نہ کریں۔

(ب) فلسفۂ قدیم ؛ابیقوریہ ، سوفسطائیہ ۔،لا ادریہ فلسفے کا اِحیاء

                ہیومنزم کے زیر اثر ایک طرف تو یہ فکریں یورپ میں برگ و بار لا نے لگیں، دوسری طرف اِس’’انسانیت‘‘کے تصور کے سائے میںایسے رجالِ کار پیدا ہوئے جن کے افکار اور اصولوں نے تمام یورپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔کوئی علم و فن، کوئی تہذیب اِن اہلِ تفکیرکے دائرۂ اثر سے باہر نہ رہا۔ڈیکارٹ، اسپنوزا، لائبنز، والٹیر اور پھر بعد کی صدیوں میں کانٹ، فشتے، شوپنہار، ہیگل، مارکس اینگل، میکس ویبر وغیرہ نے دنیا بھر کے بڑے اہم علوم وفنون کی بنیاد یںرکھیں اور اُن کی ماہیت میں، اُن کے طریقۂ کار میں، اُن کے مسائل میں، اُن کی تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج اور دریافت ہونے والے قوانین میں، اُنھیں استعمال میں لا ئے جا نے وا لے مقاصد اور متعین کیے جانے وا لے اہداف میں ہیومنزم کے عقیدے سمو دیے۔لیکن اِس تصور اور عقیدے کے ساتھ استدلالی منہج پر جو طریقہ  ٔکار پروان چڑھا،اُس کا نام تھا عقلیت ۔یہ وہ عقلیت تھی جوفلسفے کے نام پر عہدِیونان میں اباحیت پسندی کے سائے میں برگ و بار لائی تھی۔یہ اباحیت پسند’’لا ادریہ‘‘کے نام سے متعارف تھے۔اِس فکر کا رئیس ابیقورس تھا۔

                تاریخ کا جائزہ یہ بتا تا ہے کہ اِن اباحیت پسندوں نے اُس وقت کے انسان کو یہ بات سمجھا دی اور اُس کی گھٹی میں یہ بات پلا دی کہ’’وہ اپنی عقل کے استعمال کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے میں بالکل آزاد اور حق بجانب ہے، جو بات اُس کی عقل میں نہیں آتی، یا جس کی اُس کے حواس خمسہ تصدیق نہیں کرتے، وہ بے حقیقت شی ہے اُس کا انکار لازم ہے۔

                حواس خمسہ تصدیق کریں اور عقل جس کی تائید کرے ،ما بعد عہد میںاِس طریقۂ کار کانام ریشنلزم اور سائنٹفک میتھڈ قرار پایا۔اِس کے ذریعہ تمام عالم کو ہیومنائز اور ریشنلائزکیا گیا، یعنی ’’انسانیت ‘‘ اور ’’عقلیت‘‘ کا حامی بنایا گیا۔اِن تحریکوں کے چلانے والے اپنے زمانے کے بہترین دماغ تھے جنھوں نے علم و فن کے بڑے بڑے شاہکار اختراع کیے، اور نہایت کارآمد اصول و اکتشافات کے دریافت کنندہ ہوئے۔یہ سب ہیومنسٹ (انسانیت کے علمبردار)کہلاتے ہیں۔یہ دانشور معاشرہ میں حکومت کے اعلی مناصب پر فائز تھے، یورپ کے دماغ پر اِن کا قبضہ تھا۔اِن کے افکار کے اثرات ہر طبقے پر پڑے۔

                دوسری طرف معاشرہ میں خوش حالی پیدا ہوئی اور’’دولت کے پھیلاؤ نے زاہدانہ اصولوں کو کمزور کر دیا۔مرد و عورت اُس اخلاق سے چڑھنے لگے جو غربت اور خوف کے سبب پیدا ہوا تھا، اور جو اَب اُن کے جذبات اور وسائل کے برخلاف جا رہا تھا۔انہوں نے امڈتی ہوئی ہمدردی کے ساتھ ایبیقورس(یونانی اباحت پسند سوفسطائی)کے خیالات سنے کہ: زندگی کا لطف لینا چا ہیے اور یہ کہ ساری خوشیاں اور لذتیں اُس وقت تک معصوم ہیں جب تک وہ جرم ثابت نہ ہو جا ئیں۔ عورت کی لذت شریعت کی پابندیوں پر غالب آگئی۔

                یونانی اباحیت پسند عقلیت اور ابیقورس کے خیالات کے تحت جو ذہن پیدا ہوا، اُس نے ’’جدید انسان‘‘(Modern man) کی تشکیل کی۔یہ جدید انسان خوبصورتی کا دلدادہ، شہرت کا بھوکا، اورانفرادیت پسند تھا، تواضع کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔فنون لطیفہ میں وہ اب محض سادہ فنکار نہیں رہ گیا تھا جو بے نام رہ کر اجتماعی طریقے پر اپنی فنکاری کا مظاہرہ کرتا جیسا کہ عہدِ وسطی میں ہوتا رہا تھا۔اب وہ ایک منفرد اور علیحدہ شخصیت تھا ۔

                (دیکھئے سر سید اور حالی کانظریۂ فطرت ص۱۴۸تا ۱۵۰، ثقافتِ اسلامی جدید پریس، لاہور ۱۹۹۰،اصلاحی تحریک، ص: ۲۸- ۳۱؛  سوشل سائنس، حصہ اول، جماعت نہم، مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ ، پونہ ۲۰۱۲ء،عالم اسلام کا اخلاقی پس منظر از ڈاکٹر اسرار عالم،جدیدیت از پروفیسر محمد حسن عسکری،انٹرنیٹ)