طلبۂ علم اور تہجد کا اہتمام:
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا واقعہ ہے کہ ایک طالب علم آپ کا مہمان ہوا ،رات کو سوتے وقت آپ نے اس کے پاس لوٹے میں پانی بھر کر رکھ دیا ؛جب آپ وہاں تشریف لائے تو دیکھا لوٹے میں اسی طرح پانی رکھا ہے ، تب آپ نے اس مہمان طالب علم سے فرمایا کہ میں نے لوٹے میں پانی بھر کر اس لیے رکھ دیا تھا کہ تم تہجد کے لیے اٹھو گے تو تم کو وضو کے لیے پانی تلاش کرنے کی دقت نہ ہو، مگر میں نے دیکھا کہ پانی اسی طرح رکھا ہے معلوم ہوتا ہے کہ تم تہجد کے پابند نہیں۔ بہت افسوس کی بات ہے طالب علموں کو اس کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، اگر طلبہ اور علما ہی پابند نہ ہوں گے تو اور کون ہوگا ؟
(بزم جمشید: ص ۳۸)
طلبہ سے گزارش:
طلبہ اگرچاشت ، اشراق کے وقت کم از کم دو رکعتیں پڑھ لیا کریں اور رات کو اٹھ کر تہجد کی دور کعتیں پڑھ کر مطالعۂ کتب میں مشغول ہوجایا کریں اور حدیث پڑھنے والے بجائے فضول باتوں کے چلتے پھرتے زبان سے درود شریف پڑھتے رہا کریں، تو بتائیے ان کی تعلیم میں کون سا حرج واقع ہوتا ہے ؟ اگر خیال کیا جائے تو ان شاء اللہ ایسی صورتیں خود بخود ذہن میں آنے لگیں گی؛ جن سے طلبہ میں نورِ عبادت وحلاوتِ ذکر بھی پیدا ہوجائے اور تعلیم میں بھی کوئی کمی کسی قسم کی نہ آنے پائے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ فہمِ سلیم اور نور ذکاوت، عمل اور تقویٰ سے جس قدر پیدا ہوتا ہے، اس کے بدون حاصل نہیں ہوسکتا ،تو اس کا اہتمام تعلیم کے لیے مفید ہوگا یا مضر ؟ میں نہیں خیال کرسکتا کہ اس کو مضر کیوں سمجھا جاتا ہے !
البتہ باقاعدہ سلوک سے اور صوفیا کے خاندانی ذکر سے ضرور منع کیا جائے۔ اس سے حالات وکیفیات کا غلبہ ہونے لگتا ہے تو تعلیم ناقص رہ جاتی ہے، مگر جو اذکار احادیث میں وارد ہیں اختصار کے ساتھ ان کی پابندی کرنا اور بلا ناغہ تلاوت قرآن کرتے رہنا وغیرہ یہ تو کسی طرح خارج نہیںہو سکتے ۔
(آداب المتعلمین بحوالہ حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ :ص ۱۰۹)