سوال: کیا فرما تے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ :
(۱)مسو اک استعمال کر نے کے بعد ایک با لشت سے کم ہوجا ئے، تو اس مسوا ک کا کیا کر نا چا ہیے ؟
(۲)مسو اک جو ہما رے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، اس کا استعما ل کیسے کیا جاتا ہے ؟
(۳) مسوا ک کے فا ئدے کیا کیا ہیں ؟
(۴) مسو ا ک کی تو ہین کرنا کیسا ہے ؟
(۵) مسو ا ک کا حکم قر آ ن میں کہا ں کہاں ہے ؟
الجواب وباللہ التوفیق : ۱- ابتد ا ہی سے مسو ا ک مو ٹا ئی میں خنصر (آخر چھنگلی ) کے برابر اور لمبائی میں ایک بالشت ہو نا مستحب ہے۔ اور اگر استعما ل کر نے کے بعد کم ہو جائے، تو تب بھی کوئی حرج نہیں۔ (اور اگر بالکل ہی استعما ل کے قا بل نہ رہے، تو اسے دفن کردیں، یا کسی جگہ احتیاط سے رکھ دیں کہ کسی ناپاک جگہ نہ گر ے، اس لیے کہ وہ آلۂ سنت ہے اور اس کی تعظیم ضروری ہے)۔
۲- مسو اک کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ مسو اک اس طرح پکڑی جائے کہ ہا تھ کی آخری چھنگلی مسواک کے نیچے اور انگو ٹھا مسواک کے اگلے نچلے والے حصہ میں رہے، اور بقیہ تین انگلیاں مسو اک کے اوپر والے حصہ پر رہیں۔مٹھی میں دبا کر مسوا ک کر نے سے بو اسیر کا مر ض پید ا ہو نے کا اندیشہ ہے۔ دانتو ں پر عرضاً کر ے اور زبا ن پر طو لاً کرے۔ اوراگر تطہیر (وضو وغیرہ ) کے لیے مسو اک کرے، تو دائیں طر ف سے، اور اگر محض گند گی کا ازالہ مقصو د ہو تو با ئیں طر ف سے کر ے۔
۳- علا مہ شامی رحمہ اللہ نے کچھ فو ائد ذکر کیے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں کہ:
منہ صاف ہو تا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا مند ی وخوش نو دی حاصل ہو تی ہے۔
ملا ئکہ خو ش ہو تے ہیں۔
نگا ہ تیز ہو تی ہے۔
منہ کی گند گی اور دانتو ں کی زرد ی ختم ہو تی ہے۔
مسو ڑھے مضبو ط ہو تے ہیں۔
کھا نا ہضم ہو تا ہے۔
بلغم ختم ہو تا ہے۔
نیکیوں میں اضا فہ ہوتا ہے۔
صفراویت کو ختم کرتا ہے۔
سرکی رگیں سکو ن سے چلتی ہیں۔
دانتو ں کی تکلیف ختم ہو تی ہے۔
منہ کی بد بو خو ش بو میں تبد یل ہو تی ہے۔
روح آ سا نی سے نکلتی ہے۔
اوربھی بہت سارے فو ائد ہیں ،جن میں سے سب سے ادنیٰ بد بو کو ختم کرنا، اور سب سے اعلیٰ مو ت کے وقت کلمۂ طیبہ کا یا د آ نا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے’’ فضیلت مسو ا ک اور حقیقت ٹو تھ پیسٹ ‘‘ کا مطالعہ کر لیجئے) سارے فو ائد کا یہا ں احا طہ ممکن نہیں۔
۴- مسوا ک کا ثبو ت احا دیثِ صحیحہ سے ہے، اور وہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اب اگر کوئی شخص مسو اک کے سنت ہو نے کی وجہ سے اس کا انکار و تو ہین کر ے، تو اس کو متو جہ کیا جائے گا کہ آپ جس چیز کا انکا ر و تو ہین کر رہے ہیں، وہ ضروریاتِ دین میں سے ہے ، اگروہ ما ن لیتا ہے اور با ز آجاتا ہے ، تو مسلما ن باقی رہے گا۔اور اگر انکا ر و تو ہین پر مصر رہے،تو اس کا اسلا م با قی نہیں رہے گا۔
۵- مسو اک کا حکم قر آن کریم میں نہیں ہے ، البتہ احادیثِ صحیحہ سے اس کا ثبو ت ہے۔
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وطول شبر ـ الظاہر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ ۔ (۱/۲۱۰ ، مطلب في دلالۃ المفہوم ، ط : دار الکتاب دیوبند)
(۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والسنۃ في کیفیۃ أخذہ أن یجعل الخنصر أسفلہ والإبہام أسفل رأسہ وباقي الأصابع فوقہ ، کما رواہ ابن مسعود ، ولا یقبضہ أي بیدہ علی خلاف الہیئۃ المسنونۃ ؛ فإنہ یورث الباسور ۔ قال الغزنوي : طولاً وعرضًا ، والأکثر علی الأول ۔ بحر ۔ لکن وفق في الحلیۃ بأنہ یستاک عرضًا في الأسنان وطولاً في اللسان جمعًا بین الأحادیث ۔ غایۃ ما یقال : إن السواک إن کان من باب التطہیر استحب بالیمین کالمضمضۃ ، وإن کان من باب إزالۃ الأذی فبالیسریٰ ۔ (۱/۲۱۰ ، مطلب في دلالۃ المفہوم ، ط : دار الکتاب دیوبند ، الفتاوی الہندیۃ : ۱/۷ ، الفصل الثاني في سنن الوضوء ، ط : مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ومنہا ما في شرح المنیۃ وغیرہ أنہ مطہرۃ للفم ، ومرضاۃ للرب ، ومفرحۃ للملائکۃ ، ومجلاۃ للبصر ، ویذہب البخر والحفر ، ویبیض الأسنان ، ویشد اللثۃ ، ویہضم الطعام ، ویقطع البلغم ، ویضاعف الصلوۃ ، ویطہر طریق القرآن ، ویزید في الفصاحۃ ، ویقوي المعدۃ ، ویسخط الشیطان ، ویزید في الحسنات ، ویقطع المرۃ ، ویسکن عروق الرأس ووجع الأسنان ، ویطیب النکہۃ ، ویسہل خروج الروح ۔ قال في النہر : ومنافعہ وصلت إلی نیف وثلاثین منفعۃ ؛ أدناہا إماطۃ الأذی ، وأعلاہا تذکیر الشہادۃ عند الموت ۔ رزقنا اللّٰہ بذلک بمنہ وکرمہ ۔ (۱/۲۱۱ ، مطلب في منافع السواک ، ط : دار الکتاب دیوبند)
(۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبًا کفر عند الکل ، ولا اعتبار باعتقادہ کما صرح بہ في الخانیۃ ، ومن تکلم بہا مخطئًا أو مکرہًا لا یکفر عندالکل ، ومن تکلم بہا عامدًا عالمًا کفر عند الکل ۔ ومن تکلم بہا اختیارًا جاہلا بأنہا کفر ، ففیہ اختلا ف ۔
(۶/۲۷۲ ، کتاب الجہاد ، مطلب ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا ، ط : دار الکتاب دیوبند)
وفیہ أیضًا : ولا اعتبار التعظیم المنافي ۔۔۔۔۔۔ للاستخفاف کفر الحنفیۃ بألفاظ کیثرۃ وأفعال تصدر من المتہتکین لدلالتہا علی الاستخفاف بالدین کالصلوۃ بلا وضوء عمدًا ، بل بالمواظبۃ علی ترک سنۃ استخفافاً بہا بسبب أنہ فعلہا ﷺ ، أواستقباحہا کمن استقبح من آخر جعل بعض العمامۃ تحت حلقہ أو إحفاء شاربہ ۔ اہـ ۔ قلت : ویظہر من ہذا أن کان دلیل الاستخفاف یکفر بہ وإن لم یقصد الاستخفاف ۔ (۶/۶۲۳، باب المرتد ، مطلب فیما إذا مات ، الفتاوی الہندیۃ :۲/۲۶۳ ، البا ب التاسع في أحکام المرتدین ، ط : زکریا دیوبند)
(۵) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : قال رسول اللّٰہ ﷺ : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ لولا أن أشق علی أمتي لأمرتہم بالسواک عند کل صلوۃ ‘‘۔ (ص/۷) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی ۔۵/۱۲/۱۴۳۲ ھ
(فتویٰ نمبر :۵۵۳- رج :۶)