دوسری قسط:
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
امام احمد بن حنبل شیبا نی بغدادی ؒ
نا م و نسب : اما م ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلا ل بن اسد بن ادریس بن عبد اللہ بن حیّا ن بن عبد اللہ بن انس بن عو ف بن قا سط بن ماز ن بن شیبا نی بن زہل بن ثعلبہ بن عکا بہ بن صعب بن علی بن بکر بن واثل شیبانی مرو ز ی بغد ا دی ؒ۔ ۱۴؍ ھ میں حضرت عمر ؓ کے حکم و مشو رہ سے حضرت عتبہ غز و ا ن نے بصر ہ آ با د کیا ، جہا ں عرب کی مختلف قبا ئل آ با د ہوئے ، ان میں بنی شیبا ن بن ذہل کی ایک شاخ بنو ما ز ن بھی تھی ، جس سے اما م احمد بن حنبل کا نسبی و خا ند ا نی تعلق تھا ، تو آ پ کے خا ندا ن والے بھی مر و میں آ با د ہو گئے ، اور وہیں مستقل بو د و با ش اختیا ر کر لی ۔
ولا دت اوربچپن: اما م صاحب کے والد کسی و جہ سے مر و سے تر کِ وطن کر کے ۱۶۴ھ کے حدو د میں بغد ا د چلے آ ئے ، اس وقت اما م احمد بن حنبل ؒ شکمِ ما د ر میں تھے ۔ ربیع الا ول ۱۶۴ھ میں بغد ا د ہی میں پید ا ہوئے ، جب کہ خو د آپ کا بیا ن ہے : بغد ا د آ نے کے بعد جلد ہی ۳۰؍ بر س کی مختصر عمر میں آ پ کے والد کا انتقا ل ہو گیا ، کہتے ہیں کہ میں نے نہ اپنے والد کو دیکھا نہ دا دا کو دیکھا ، والد ہ نے میر ی تر بیت کی ۔ ما ں نے اپنے اس یتیم بچے کو بڑ ے اہتمام اور پیا رو محبت سے تعلیم و تر بیت دی ۔
مکتب کی تعلیم اور نیک نفسی : اما م صاحب بچپن سے مکتب میںتعلیم حا صل کر نے لگے تھے اور اسی زما نہ میں ان کی شر ا فت نیک نفسی اور بز ر گی کا شہر ہ ہو گیا تھا ۔ ابو عفیف را وی کا بیا ن ہے کہ احمد بن حنبل مکتب میں ہما رے سا تھ تھے، وہ اس و قت بہت چھو ٹے تھے ، اور ہم طلبہ ان کی بز ر گی سے وا قف تھے ۔ اس زما نہ میں خلیفہ مقا م رقہ میں تھا اور بغد ا د کے اعیا ن واشر ا ف ا س کے سا تھ و ہا ں مقیم تھے ، وہ لو گ اپنے گھروں کو خط لکھتے تھے ، ان کی عو ر تیں مکتب کے معلم کے یہا ں کہلا نے بھیجتی تھیں ، کہ احمد بن حنبل کو بھیج دو تا کہ وہ ہما رے خطو ط کا جو ا ب لکھ دیں ، وہ سر نیچا کیے گھر و ں میں جا تے تھے اور ا ن کے خطو ط لکھتے تھے ، بعض او قا ت کوئی نا منا سب با ت ہو تی ، تو ا س کو نہیں لکھتے تھے ۔
را ہ طلب میں مشکلا ت اورفقر و فا قہ : احمد بن ابر ا ہیم دور قی کا بیا ن ہے کہ احمد بن حنبل عبد الر ز اق کے یہا ں سے مکہ آ ئے تو میں نے ا ن کو بہت تھکا ما ند ہ پا یا ، میں نے کہا ابو عبد اللہ آپ نے اس سفر میں بڑی مشقت بر دا شت کی ہے ، جسم پر تھکن کے آ ثا ر ظا ہر ہیں ؛ انہو ں نے جو ا ب دیا کہ ہم نے عبد الر ز اق سے جو علمی استفا دہ کیا ہے ، اس کے مقا بلے میں یہ مشقت بہت معمو لی ہے ۔ ا ما م صاحب و اسط میں یز ید بن ہا رو ن کے یہا ں سخت سر دی کے زما نہ میں گئے ، ما لی مشکلا ت در پیش ہوئیں ، تو اپنا جبہ ایک سا تھی کو دیا تا کہ اس کو فر و خت کر دے اس نے یز ید بن ہا رو ن سے ا س کا تذ کر ہ کیا ، انہو ں نے ۲۰۰؍ در ہم بھجو ائے ، مگر ا ما م صا حب نہ یہ کہ کر قبو ل نہیں کیا ، کہ میں ضرور ت مند اور مسا فر ہو ں مگر اپنے کو اس طر ح ہد ا یا و عطا یا کا عا دی بنا نا پسند نہیں کر تا ہو ں ۔
جس زما نہ میں امام صا حب مکہ مکر مہ میں سفیا ن بن عیینہ سے تحصیل ِعلم کر ر ہے تھے ، ان کے کپڑ ے و غیر ہ چو ر ی ہو گئے ، جب اس کا پتہ چلا تو پو چھا کہ میر ی الو ا ح کا کیا ہو ا ، جن میں احا دیث لکھی ہیں ، لو گو ں نے بتایا کہ وہ طا ق میں محفو ظ ہیں ، اس حا د ثہ کی وجہ سے کئی دن مجلسِ در س میں حا ضر نہیں ہو ئے اور پتہ چلا نے پر معلوم ہو ا کہ ا ن کے جسم پر دو پر ا نے کپڑ ے ہیں ، اس کے بعد ایک سا تھی سے ایک دینا ر لیکر کپڑ ا خر یدا ۔ کیا ہی قدرِ علم اور ادبِ علم تھا ۔ سا را سا ما ن لٹ گیا ، اس کی کوئی فکر نہیں ، فکر ہو ئی ، تو بس ذخیر ۂ علم کی اور اد ب اس قد ر کہ گند ے اور پر ا نے لبا س میں مجلس علم میں حا ضر نہ ہوئے اور ہما را یہ حا ل ہے کہ کہیں دنیوی مدلسوں میںجا نا ہو ، تو خو ب اہتمام کرتے ہیں اور مجلس در س میں حاضر ہو نا ہو ، تو بس ایسے ہی چلے آتے ہیں ،کتنے تو وضو بھی نہیں کر تے؛ گرچہ آپ کی ہر کتا ب قر آ ن نہیں کہ وضو ضرور ی ہے ، لیکن یہ قر آ ن و حدیث ہی کے متعلقا ت ہیں اور یہ در سگا ہیں علم و عر فا ن ، فیضا ن الٰہی ، نو ر با ری تعالیٰ اور نز و لِ ملا ئکہ کی آ ما ج گا ہ ہیں ؛ ہم ا ن کا جتنا احتر ا م کر یں گے ، پا ک و صا ف رہیںگے ، خو د علم ہما ر ے سینو ں میں اتنا ہی سر ا یت کر یگا ۔
مع المحبر ۃ الی المقبر ۃ : جس زما نہ میں امام صا حب کی علمی و دینی شہر ت با م عرو ج پر تھی ، اور ا ن کی شخصیت ، علمیت ، دین دار ی ، اور بز ر گی کا عا م چر چا تھا ، ایک شخص نے دیکھا کہ ہا تھ میں دو ا ت (محبر ہ ) لیے کسی محد ث کی در سگا ہ میں جا رہے ہیں ، اس نے کہا کہ ابو عبد اللہ ! آپ علم کے اس بلند مقا م پر پہنچ چکے ہیں اور امام المسلمین ہیں ، پھر بھی پڑ ھنے جا رہے ہیں ؟ اما م صاحب نے جو ا ب دیا : ’’مع المحبر ۃ الی المقبر ہ ‘‘ دو ا ت کے سا تھ قبر ستا ن تک ۔یہ قلم ودوات کا ساتھ تو قبر تک رہے گا۔
ہمیں اما م صاحب کے اس قو ل سے سبق لینا چا ہیے اور اس مقو لہ کو اپنے ذہن و دما غ میں نقش کر لینا چاہیے ۔ آ ج فراغت کے بعد ہمیں کسی چیز کا یقین ہو یا نہ ہو ، اپنے کا مل ہو نے کا یقین ، کا مل طریقے سے ہو جا تا ہے ؛کسی سے علمی استفا د ہ ، رجو ع کو عا ر سمجھتے ہیں اور نقص خیا ل کر تے ہیں ، نقص یہ نہیں کہ آ پ استفا د ہ اور رجو ع نہ کر یں ، بلکہ نقص یہ ہے کہ آپ استفاد ہ اور حصو ل علم کی جستجو چھو ڑ دیں ، اگر ایسا ہو ا تو یا د رکھیں! خو د کو کا مل سمجھ کر عالم کا مل تو نہیں نا قص ضرو ر ہو جا ئیں گے ۔
حدیث پر عمل : امام صاحب زما نۂ طالب علمی ہی سے ہر حد یث پر عمل کر تے تھے ، کہتے ہیں کہ میں نے جو حدیث لکھی ہے ، اس پر عمل کیا ہے ؛ حتی کہ جب یہ حدیث معلو م ہو ئی کہ ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچنا لگو ائی اور ابو طیبہ حجا م کو ایک دینار عنا یت فر ما یا تو میں نے بھی پچھنا لگو ا کر حجا م کو ایک دینا ر دیا ۔( علم کو محفو ظ رکھنے اور عمل کا عا د ی بننے کے لیے سب سے مفید نسخہ ہے کہ جو پڑ ھیں اس پر فو راً عمل شر و ع کر دیں )۔
امام احمد بن حنبل ؒ اسا تذہ کی نظر میں : ایک مر تبہ ابن علیہ کی درسگا ہ میں کسی طا لب علم نے کو ئی بات کہی جس پر تما م طلبہ ہنس پڑ ے ، احمد بن حنبل بھی حلقۂ در س میں مو جو د تھے ، ابن علیہ طلبہ پر سخت بر ہم ہوئے اور کہنے لگے کہ یہا ں احمد بن حنبل مو جو د ہیں اور تم لو گ ہنس رہے ہو !؟
یزید بن ہا رو ن کے یہا ں اما م صاحب طلب علم کے لیے گئے تو وہ ان کی بہت زیاد ہ تعظیم کر تے تھے ، حتیٰ کہ ایک مر تبہ امام صا حب بیما ر پڑ گئے تو یز ید بن ہا رو ن ان کی عیا د ت کے لیے آ ئے اور سو اری بھیجی ۔
اسا تذہ و شیو خ : امام صاحب نے اپنے شہر بغد ا د کے علما و محدثین سے تحصیل و تکمیل کے بعد کو فہ ، بصر ہ ، مکہ ، مدینہ ، یمن شا م ، جزیرہ، عبا دا ن ، واسط وغیرہ کا سفر کر کے ان مقا ما ت کے اسا تذہ وشیو خ سے استفادہ کیا ، ان کے شیو خ کی تعد ا د بہت زیا د ہ ہے ۔
چند ایک مشا ہیر وخا ص اسا تذہ کر ا م :
خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ان چند مشاہیر شیوخ کے نام دیے ہیں،اسماعیل بن علیّہ،ہشیم بن بشیر، حمادبن خالدخیاط، منصور بن سلمہ خزاعی، مظفر بن مدرک، عثمان بن عمر بن فارص، ابو النضر ہاشم بن قاسم، ابو سعید مولی بنی ہاشم،محم بن یزید واسطی، یزید بن ہارون واسطی، محمد بن ابو عدی، محمدبن جعفر غندر،یحيٰ بن سعید قطان، عبدالرحمان بن مہدی، بشر بن مفضل، محمد بن ابو بکربرسانی، ابو دائود طیالسی،روح بن عبادہ، وکیع بن جراح، ابو معاویہ ضریر، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ سفیان بن عیینہ،یحيٰ بن سلیم طائفی، محمد بن ادریس شافعی، ابراہیم بن سعد زہری، عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، ابو قرہ موسیٰ بن طارق، ولید بن مسلم، ابو مسہر دمشقی، ابو الیمان علی بن عیاش، بشر بن شعیب بی ابو حمزہ،اس کے بعد خطیب نے لکھا ہے:ان کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے جن کاذکر کرنا طوالت کا باعث ہے ،اوران کے ناموں کا شمار بھی مشکل ہے۔
امام شافعیؒ سے خصوصی تلمذ وتعلق: امام احمد بن حنبل ؒ ان شیو خ میں اما م شا فعی ؒ سے زیا دہ قر یب تھے ، ابن خلکا ن نے لکھا ہے کہ احمد بن حنبل امام شا فعیؒ کے تلا مذہ اور خو ا ص میں سے تھے ، وہ ا ن کے سا تھ بر ابرر ہے ، یہا ں تک کہ شا فعی چـلے گئے ، اور جا تے جا تے یہ کہہ گئے کہ میں بغد ا د سے اس حال میں نکلا ہو ں کہ احمد بن حنبل سے زیا دہ متقی اور زیا د ہ فقیہ نہیں چھوڑ ا ۔
اسا تذ ہ وشیو خ اور بڑ و ں کا احتر م : ادر یس بن عبد الکریم خلف سے روا یت کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل ابو عو ا نہ کی حدیث سننے کے لیے میر ے یہا ں آئے ، میں نے بہت چا ہا کہ ا ن کا اعزاز و احتر ا م کرو ں ، مگر انہو ں نے کہا کہ میں آپ کے سا منے ہی بیٹھو ں گا ، ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ جس سے علم حاصل کرتے ہیں ، ان کے سا منے تو اضع اختیا ر کریں۔
قتیبہ بن سعید کہتے ہیں کہ میں احمد بن حنبلؒ کی ملا قا ت کے لیے بغد ا د گیا ، وہ یحيٰ بن معین کے ساتھ میرے پا س آ ئے ، اور ہم نے حدیث کا مذ اکر ہ کیا جب تک یہ مجلس جا ری رہی ، احمد بن حنبل میر ے سا منے کھڑے رہے، جب میں کہتا کہ ابو عبد اللہ اپنی جگہ بیٹھ جا ئیے تو کہتے تھے ، آپ میر ا خیا ل نہ کر یں ، میں چا ہتا ہوں کہ علم کو اس کے طر یقے سے حا صل کروں ۔
تحدیث و افتا : اما م صاحب ؒنے ۴۰؍ سا ل تک تحصیل وتکمیل میں بسر کر نے کے بعد با قا عدہ مجلسِ در س قائم کی ، اور فتویٰ دیا ، اس سے پہلے بو قتِ ضرو رت حدیث کی روا یت اور افتا کی خد مت انجا م دیتے تھے ، مگر با قا عدہ تد ریس کا حلقہ چا لیس کی عمر میں قا ئم کیا ۔
اسا تذہ کی زندگی میں ان کی مر و یا ت کی روایت سے پر ہیز :
محمد بن عبد الرحما ن صیر فی کا بیا ن ہے کہ ایک مر تبہ میں احمد بن حنبل کے پا س تھا ، انہو ں نے عبدالرزاق کی ایک حدیث بیا ن کی ، میں نے کہا کہ آپ مجھے اس حدیث کا املا کر وادیں ،انہوں نے کہا کہ ابھی عبد الر زاق زندہ ہیں ، تم مجھ سے اس حدیث کی روا یت کر کے کیا کر و گے ؟
اما م صاحب اپنی مجلسِ در س قا ئم کر نے کے با وجو د اپنے مشا ئخ و اسا تذہ کی زندگی میں ان کی مرویات کی ر وا یت پسند نہیں کر تے تھے اور طلبۂ حدیث کو ہد ایت کر تے تھے ، کہ تم لو گ برا ہِ ر است ان حضرا ت کے پا س جا کر ان کی احا دیث کی روایت کر و ۔
طلبہ کی عز ت و راحت کا خیا ل : امام صاحب اپنے عز یز طلبہ کے آ را م و راحت کا پور ا پور ااہتما م کرکے دوسر و ں کو اس کی تا کید کر تے تھے ، ہارو ن بن عبد اللہ حمال کا بیا ن ہے کہ ایک مر تبہ را ت کو احمد بن حنبل میر ے مکا ن پر آ ئے ، سلا م کے بعد میں نے نا وقت آ نے کی وجہ معلو م کی ، تو فر ما یا : آ ج آپ نے میر ے دل میں خلجا ن پیدا کر رکھا تھا ، میں نے کہا کہ ابو عبد اللہ کیا با ت ہے ؟ تو بتا یا کہ میں آپ کے حلقۂ درس سے گز ر رہا تھا ، دیکھا کہ آ پ سا یہ میں بیٹھ کر حدیث بیا ن کر رہے ہیں ا ور طلبہ دھو پ میں اس حال میں ہیں کہ ان ہا تھ میں قلم اور دفتر ہے ۔ دوسر ی بار ایسا نہ کر یں ،جب در س دینے کے لیے بیٹھیں تو لو گو ں کے ساتھ بیٹھا کر یں ۔
رعب داب اور ہیبت: محمد بن مسلمہ کہتے ہیں کہ ہم لو گ امام صاحب کی جلا لتِ شان اور ا ن کے علمی ودینی رعب داب کی وجہ سے ان کی کسی با ت کا جو ا ب دینے یا کسی معا ملے میں ان سے بحث کر نے سے ڈر تے تھے ۔
اما م شا فعی ؒ فر ما تے ہیں کہ بغد ا د میں ایک جو ا ن عا لم ہے ، جب وہ حد یث بیا ن کر تے وقت حد ثنا کہتا ہے تو حا ضر ین ایک زبا ن ہو کر ’’ صد ق ‘‘ کہتے ہیں ، یہ احمد بن حنبل ہیں ۔
اپنے آ ر ا و قو ا ل لکھنے کی مما نعت : اما م صاحب اپنے تلا مذہ کو اس با ت سے شد ت کے سا تھ رو کتے تھے ، کہ وہ حد یث کے علا وہ ا ن کے آ ر ا و اقو ا ل لکھیں ۔ ابو بکر مرو زی کہتے ہیں کہ ایک خراسا نی شخص نے امام صاحب کو ایک جز دیا، جس میں امام صاحب کے آ را و اقو ا ل تھے ، آ پ نے اس کو لے کر دیکھا اور غصہ ہو کر کتا ب رکھد ی ۔بقول ابن جو زی امام صاحب نے تو اضع کی وجہ سے اپنے آ ر ا و اقو ا ل لکھنے کی مما نعت کی ، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کر م سے وہ سب مد و ن اور شا ئع ہو ئے ۔
حفظ کے بجا ئے کتا ب سے ر وا یت : امام احمد بن حنبلؒ بلا مبا لغہ لا کھو ں احا دیث کے حا فظ تھے ، اور دما غ علم حدیث کا خز ا نہ تھا ، اس کے با و جو د احا دیث کی روا یت میں جز م و احتیا ط اور اتقا ن کا یہ حا ل تھا کہ ہمیشہ کتا ب لیکر در س دیتے تھے ، اپنے حا فظہ پر اعتما د نہیں کر تے تھے ۔