بہ قلم: مفتی عبدالقیوم صاحب مالیگاؤں/استاذجامعہ اکل کوا
دین فطرت:
اسلام دین فطرت ہے ۔اس لیے وہ ہراُس کام کی حوصلہ افزائی کرتاہے،جوانسانی فطرت اوراس کے نیچرسے مکمل طورپرہم آہنگ ہو۔اورہراُس عمل کی ممانعت اورحوصلہ شکنی کرتاہے،جوفطرت سے بغاوت پر مشتمل؛ بل کہ سماج ومعاشرے میںانارکی،گندگی اورحیوانیت کی شکلوںکوفروغ دینے والاہو۔ہراس کام پربریک لگاتاہے ، جوانسانیت کوشرمساراورداغدارکرنے والاہو۔اسلام نے کبھی بھی انسانیت کوایساقدم اٹھانے کی اجازت نہیں دی ،جوانسانیت کاگلاگھونٹ سکے۔
آگے راستہ بندہے:
چناںچہ معاشرے کی صفائی اوراس کوہرطرح کی آلودگی سے بچانے کے لیے اسلام نے نظامِ نکاح کونہ صرف جاری کیا،بل کہ اس کوجلدسے جلدسادگی سے انجام دینے کی تاکیدبھی فرمائی؛تاکہ مردوعورت کے جذبات قابومیںرہیں،جذبات کے طوفان پرکنٹرول بورڈلگارہے اورکبھی آؤٹ آف کنٹرول نہ ہونے پائے۔اورزناکی خرابی کے تمام راستے ہی نہیں،بل کہ چوردروازے بھی بالکل بندہوجائیں۔مرداپنی جنسی خواہشات کوصرف اُس خاتون سے؛جواُس کی بیوی ہوپورا کرے؛ چناں چہ ارشادربانی ہے:{فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ}اوردوسروںکے نکاح کی ذمہ داری سماج پرڈالتے ہوئے فرمایا: {وانکحواالایامیٰ منکم والصٰلحین من عبادکم وامائکم}آگے نکاح کی حوصلہ افزائی اوراس کی رغبت کے لیے بہت ہی پیارا اور نافعیت بھراجملہ ارشادفرمایا: {ان یکونوافقراء یغنہم اللہ من فضلہ}کہ دوسرے بے نکاحوں کا نکاح کراؤ، اللہ اس کی برکت سے اُن کوغناعطاکرے گا۔یہ واضح ارشادات اِس بات کے غمّازہیںکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ مردعورت سے شادی کر کے اپنی تسکین کرے،اس کے علاوہ ہررشتہ تسکینِ جذبات اور تکمیلِ خواہش کا غیر فطری اورحیوانیت کاہے ،جس کی مختلف شکلوںمیںسے ایک بدترین شکل مردکامردکے ساتھ اپنی ضرورت کوپوری کرنا ہے،جس کوہم ’’جنس پرستی‘‘ کہتے ہیں۔
ہم جنس پرستی کی سرپرستی :
مغربی معاشرہ اس خطرناک بیماری میںرہتے ہوئے تباہ وبربادہورہاہے ؛چناںچہ امریکی پارلیمنٹ نے زنا بالجبرکوجرم ماناہے ۔لیکن زنابالرضا ( اپنی رضامندی سے لڑکا اورلڑکی زناکرتے ہیں) توقانوناً کوئی جرم نہیںہے ،اس لیے خوب مزے اڑاؤ۔ اسی طرح اس معاشرے میںاس کے علاوہ ہم جنس پرستی بھی کوئی بری چیز نہیں؛یوںسمجھ لیںکہ موجودہ وقت میںایک طرح سے سرپرستی ہورہی ہے ۔ اُن عقل کے دشمنوںنے اِس نظریہ کو اپنایاکہ انسان کی بھوک اورپیاس کی طرح اُس کی جنسی ضرورت بھی ایک بھوک ہے ۔ اوربھوک پیاس کومٹانے کے لیے زیادہ بندشوںکی ضرورت نہیں۔ اسی طرح جنسی بھوک کے لیے بھی کوئی بندش اور پابندی کسی حال میں نہیں ہونی چاہیے ؛چناںچہ اس آزادیٔ فکراوربے حیازندگی کا یہ اثرہواکہ مغربی معاشرہ کاخاندانی نظام ۶۵؍ فی صد منتشرہو گیا اور بکھر گیا۔نہ ماؤں کاتقدس سلامت رہا،نہ بہنوںکی آبرومحفوظ اورنہ ہی دیگررشتے اپنی عزت بچا سکے۔اوراس آزادانہ طرزِ زندگی اورمیل جول سے نہ اُنھیںسکون مل سکااورنہ ہی خواہش پوری ہوسکی ،گویا کہ ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پہ دم نکلے‘‘
والی بات ہوگئی؛بل کہ زندگی بے سکونی کے آخری سرحدپرپہنچ گئی اوراس معاشرہ کا ہر فرد گویا سکون اوردلی اطمینان کے لیے سرگرداں اورپریشان ہے ۔
دائرۂ حدود محدودہوگئے:
آج ہم اِسے اپنی شامتِ اعمال کہیںیاخدائی سزا؛کہ ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کے اہم ترین ججوں نے دستورہندکی دفعہ ۳۷۷؍ کے دائرۂ حدود کومحدودکرتے ہوئے ہم جنس پرستی کوجوازفراہم کرکے دائرۂ جرم سے ہی خارج کردیا؛ بل کہ ہاتھوںمیںلائسنس تھمادیا۔ الامان والحفیظ!مدت دراز سے مغربی تہذیب کی یہ بلااب تک ہمارے ملک کے دروازے پردستک ہی دے رہی تھی ؛لیکن اب اندر داخل ہونے میںکام یاب ہوچکی ہے اوراب اسے قانونی اجازت بھی حاصل ہوگئی ۔اوروہ عدلیہ ، جس کاکام ہی سماج اورمعاشرے کوتباہی وبربادی کے راستے پر پہنچانے والی ہرغلط حرکت اورمہلک اشیا پربریک لگاناتھا،وہی عدلیہ ایک بہت ہی گھناؤنی حرکت اورعقل ومذہب کے مخالف عمل کوقانونی جوازفراہم کررہی ہے ۔ جس گندگی اورغلیظ فعل کی اجازت نہ کسی مذہب میںہے اورنہ ہی کوئی عقلِ سلیم اِس کوصحیح سمجھتی ہے۔بھلااب معاشرے کوگندگی ،سڑاہٹ،بداخلاقی اورطوفانِ بدتمیزی جیسے کینسرسے کیسے بچایاجاسکتاہے؟گویاکہ مجموعی طور پر پوراسماج بے حیائی اورغلاظت سے بدبودارہوگا۔اچھے لوگوں اور حیاداروں کا اِس میںسانس لینابھی دوبھراور دشوار ہو گا؛جیساکہ حضرت لوط علیہ السلام کے زمانہ میںاُن کی قوم جب اس غلاظت بھرے کنویںمیںگرنے لگی اورلوط علیہ السلام نے اُنھیںسمجھایا؛توچوںکہ اکثریتی ماحول تعفن آمیز اوراس گندگی سے بدبودارہوگیاتھا۔اس لیے کہنے لگے:{اخرجوہم انہم اناس یتطہرون}کہ نکالو اِنھیں،یہ توبڑے پاک بازبنتے ہیں۔معلوم ہواکہ جب معصیت اورگندگی معاشرہ اورسوسائٹی کے اکثرحصہ کوخراب کردے توپھراچھے لوگوںکے لیے وہ سوسائٹی جہنم کدہ ،سوہان روح اورباعثِ اذیت بن جاتی ہے ۔
اب جوچاہے سوکر:
تاریخِ مذاہب کامطالعہ بتلاتاہے کہ ہماری ہندستانی تہذیب وثقافت ،جس کی ایک شان ہے ،جس میں بہت حد تک مذاہب کا اتحاد،یک جہتی وہم آہنگی ہے ، وہ چکنا چور ہو گی۔ ہماری تہذیب کاگلاگھونٹ کراسے بے گوروکفن ؛ کیا جائے گا دفن۔ ہماری ہندستانی تہذیب میںشرم وحیاکوبڑامقام حاصل رہاہے ؛چناںچہ اسلام نے تو حیاکوجزوایمان قرار دیا۔فرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’الحیاء شعبۃ من الایمان‘‘اوراسی طرح حیا کو جوہرِ انسان کا درجہ دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اذافاتک الحیاء فافعل ماشئت‘‘یعنی بہ قول شیخ سعدیؒ’’چوں بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘کہ حیاکاعنصرہی جب تجھ سے رخصت ہوجائے توجوچاہے کر۔یعنی حیاکے نکلنے پر گندے سے گندے کام کوکرناآسان ہوجاتاہے ۔گویاکہ ہر گندی حرکت اوربے حیائی کے ارتکاب سے روکنے والی طاقت مذہب کے بعدوہ اپنے اندرکی حیااورشرم ہوتی ہے ۔یہ تو ہوئی مذہبِ اسلام کی بات؛جودنیامیںسب سے زیادہ حیاکی تعلیم پرمشتمل ، بے حیائی اورخلاف ِفطرت کاموںپر پابندی لگانے والا مذہب ہے ۔
ہم جنس پرستی کی موجد:
یہ شرم وحیاکی تعلیم اسلامی ہی نہیںہے،بل کہ دیگرمذاہب میںبھی اس کااہتمام رہاہے ؛چناںچہ چہرے پرگھونگھٹ ڈالنا اور اجنبیوںسے پردہ کرنا،بل کہ گھرکے بعض افرادسے بھی چہرہ کوچھپاناان کی تہذیب کا اٹوٹ حصہ رہاہے ۔لیکن یہ یورپی اورمغربی تہذیب ہے،جس کے اثرات ہمارے ہندستان میں بھی گہرے اور مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔ اِس کے نتائج انتہائی خراب اوررشتوںکے تقدس اورباہمی احترام کی فضاکومسموم اور مکدّر بنا کررکھ دیںگے،ہم سب کواِس کے خلاف سینہ سپرہوکر’’کبنیان مرصوص‘‘یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کرکھڑے رہناہوگا۔ اورملک کی تمام تہذیبوںکے علم برداروںکواپنی ہندستانی تہذیب ،ملک اور سماج کے حیاکے ماحول کوبے حیابننے ، بگڑنے اوربے حیائی کے دلدل سے بچانے کی فکر کرنالازم اورازحدضروری ہے ؛کیوںکہ اس کے بغیرسکون اور امن کی زندگی جیناایک خواب ہے،جوکبھی شرمندۂ تعبیر نہیںہوسکتا۔یہ ایک طرح کا خیالی پلاؤ ہے،جس سے کبھی بھی پیٹ نہیں بھرتا۔نیزاس فعلِ بداورگندگی کی وجہ سے خدائی آفت اور آسمانی سزائیں بھی اترسکتی ہیں۔جیسے کہ قوم لوط ؛ جواِس عملِ قبیح اورفعلِ بدکی موجد اور کھلاڑی تھی،ان پراللہ نے نہ ماننے اور اس غلیظ حرکت سے باز نہ رہنے پرطرح طرح کے آسمانی عذاب اور سزائیں اتاریں۔پتھروںکی بارش ہوئی۔ جرم اتنا بھیانک، سنگین اورناقابلِ معافی تھاکہ اللہ تعالیٰ نے پوری بستی کوجبریل امین کے واسطے سے اٹھا کر آسمانوں پر لے جا کر زمین پرپٹک دیا؛ جیساکہ ارشاد ربانی ہے : { وجعلنا علیہا سافلہا وامطرنا علیہم حجارۃ من سجیل منضود}
انسانیت کے لیے سبق:
چناںچہ مفسرینؒ کہتے ہیںکہ اُس زمین میںبڑے بڑے گڑھے بن گئے ۔اورایساطویل وعریض سمندر وجودمیںآیاجودنیاکے تمام سمندروںسے بڑااورجس کاپانی سب سے زیادہ نمکین اورکڑواہے ۔جس میںکوئی جان دارجی نہیںسکتا۔جس کوتاریخ کے اوراق میں’’بحرمیت‘‘ کانام دیاگیا،جووقوعِ قیامت تک ہمارے اورساری انسانیت کے لیے نشانِ عبرت اورسبق آموزی کاباعث ہے ۔
امیدکہ ملک کے سمجھ دار،تعلیم یافتہ اورمذہبی روایات واقدارکے قدردان حضرات اس میںدل چسپی لے کراپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے پورے سماج کو،بل کہ پورے ملک کوبے آبرواورجانی ومالی خسارے سے بچانے کی فکراورجدوجہدکریںگے۔اوراپنے شہری ہونے کے ناطے انسانی وسماجی حق کااستعمال کرکے پوری طاقت سے ارباب اقتداراوردیگرذمہ دارانِ ملک کومتوجہ کریںگے۔
اللہ رب العزت ہرفتنۂ ظاہرہ اورپوشیدہ سے ہماری اورہمارے نسلوںکی حفاظت فرمائے۔ اورہمارے ملک اوراس کی شناخت کومحفوظ فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالمرسلین!